پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حوصلہ افزائي اور انعام

حوصلہ افزائی اور انعام

تربیت کا ایک ذریعہ بچے کے اچھے کاموں پر اس کى تعریف اور حوصلہ افزائی ہے _ بچے کى حوصلہ افزائی اس کى تربیت کا بہترین اور مؤثرترین ذریعہ ہے _ یہ بچے کى روح پر اثر انداز ہوتى ہے _ اور اسے اچھا بننے کى ترغیب دلاتى ہے _ ہر انسان اپنى ذات سے محبت کرتا ہے اور اپنى شخصیت کى تکمیل چاہتا ہے اس کى یہ خواہش ہوتى ہے کہ دوسرے لوگ بھى اس کى شخصیت سے آگاہ ہوں ، اس کى قدر و قیمت پہنچانیں _ اور اس کا شکریہ ادا کریں _ اگر اس کى حوصلہ افزائی کى ئی تو پھر اس کارجحان اچھائی کى طرف اور بڑھے گا اور وہ تکامل کے راستے پر گامزن ہوگا _ لیکن اگر اس کے برعکس اس کى حوصلہ شکنى کى گئی تو وہ نیکى اور اچھائی سے دور بھاگے گا _ اس کى حوصلہ افزائی کرنے سے اچھے نتائج کے حصول کے لیے چند باتوں کى یاددھانى ضرورى ہے _

1_ اس کى حوصلہ افزائی کبھى کبھى اور بڑے کاموں پر کى جانى چاہیے _ نہ یہ کہ ہمیشہ اور ہر کام پر _ کیوں کہ اگر ایسا کیا گیا تو بچّے کى نظر میں حوصلہ افزائی اپنى اہمیت کھوبیٹھے گى _

2_ اس کى حوصلہ افزائی کسى خاص مقام پر ہونى چاہیے تا کہ وہ یہ سمجھ سکے کہ اس کو واو کس لیے دى جارہى ہے _ لہذا وہ دوسرے مقام پر بھى اسى طرح کے شائستہ طرز عمل کا مظاہرہ کرے گا _ ویسے ہى عمومى طور پر اس کى حوصلہ افزائی فائدہ مند نہیں ہوسکتى مثلاً اگر بچے کو اس لیے شاباش دى جائے کہ وہ ایک اچھا اور پابند بچہ ہے تو یہ حوصلہ افزائی کسى کامل نتیجے کى حامل نہیں ہوگى _ اچھے بچے کو یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ اس کو کیوں شاباش دى جارہى ہے _

3_ یہ بھى ضرورى ہے کہ بچے کے اچھے کام یا اخلاق کى تعریف کرنا چاہیے نہ کہ خود بچے کى تا کہ وہ یہ بات اچھى طرح سمجھ سکے کہ اہمیّت اچھے کام کى ہے نہ کہ کسى شخص کى _ اور ہر آدمى کى اہمیّت اس کے اچھے کام کى وجہ سے ہے _

4_ بچے کى حوصلہ افزائی کرتے وقت اس کا دوسرے بچوں کے ساتھ مقایسہ نہ کریں مثلاً باپ کا اپنے بچے سے یہ کہنا اچھا نہیں ہے کہ تجھ پر آفرین کہ تم ایک سچے بچے ہو اور حسن کى طرح جھوٹے نہیں ہو _ حسن برا بچہ ہے کیوں کہ جھوٹ بولتا ہے _ کیونکہ ایسا کرنے سے بچہ دوسرے بچے کو حقیر سمجھے گا _ اور یہ بھى بذات خود ایک برى تربیت ہے _

5_ شاباش اور حوصلہ افزائی حد سے تجاوز نہیں کرنى چاہیے کیونکہ ممکن ہے اس سے بچہ معزور اور خودبین ہوجائے _

امیر المؤمنین حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

بہت سے لوگ اس تعریف کى وجہ سے معزور ہوجاتے ہیں جو ان کى شان میں کى جاتى ہے _ (1)

حضرت على علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

کسى کى تعریف و ستائشے میں زیادہ روى اور مبالغہ نہ کرو _(2)

تعلیم و تربیت کا ایک اور وسیلہ انعام دینا ہے _ انعام دینا برى بات نہیں ہے بشرطیکہ غیر متوقع ہو کسى پہلے وعدہ کى ایفائیں نہ دیا جائے _ اور اچھا کام کرنے پردیا جائے _ پہلے سے اگر انعام کا وعدہ کردیا جائے تو یہ بچے میں برے اثرات مترتب کرے گا کیونکہ ممکن ہے ایسا کرنے سے بچہ اس بات کا عادى ہوجائے کہ وہ ہر نیک کام کے مقابلے میں انعام کا منتظر رہے اور یہ ایک طرح کى رشوت ہوجائے _ وہ اس انعام اور رشوت کے بغیر اس کام کى انجام وہى پر راضى نہ ہو _

انسان کو نیک کاموں کا عادى ہونا چاہیے _ اور وہ ان کو خدا کى رضا اور بندگان خدا کى خدمت کے لیے انجام دے _ نہ یہ کر ہر کام پر اس کى آنکھیں لوگوں سے انعام کى منتظر رہیں _ اس طرح کا بچہ جب بڑآ ہوتا ہے تو وہ کوتاہ فکر ہوجاتا ہے ، اور لوگوں کے کاموں کى انجام وہى اپنى ذمہ دارى نہیں سمجھتا _ حتى المقدور دوسروں کے کام آنے سے فرار کرتا ہے _ مگر یہ کہ اسے کسى انعام یا رشوت کا لالچ دیا جائے _ یہ ایک بہت بڑى اجتماعى بڑائی ہے _ لہذا اس لیے کہ انعام اس برائی کا باعث نہ بنے ضرورى ہے کہ انعام اتنى مقدار کا ہونا چاہیے کہ وہ انعام یافتہ شخص کى عادت ثانوى نہ بن جائے _ جب بچہ کاموں کا عادى ہوجائے تو آہستہ آہستہ انعام و اکرام کا سلسلہ ختم کردیں _ اور اسے کاموں کى انجام دہى کر ترغیب دلائی جائے _ ضرورى ہے کہ بچہ آہستہ آہستہ اپنى ذمہ دارى پر عمل پیرا ہونے کا عادى ہوجائے تا کہ وہ اس کى انجام دہى سے لذت و خوشى محسوس کرے _ بہت سے ماں باپ اپنے بچوں کو امتحان میں سو فیصد نمبر لینے پر انعام دیتے ہیں اور اس ذریعے سے وہ انہیں سبق پڑھنے کى ترغیب دلاتے ہیں _ ممکن ہے یہ کسى حد تک مؤثر بھى ہو _ لیکن اس میں ایک بہت بڑا نقصان بھى ہے وہ یہ کہ یہ پروگرام بچے کے احساس ذمہ دارى پر کارى ضرب لگاتا ہے _ یہ بچے اس لیے پڑھتے ہیں تا کہ اچھے نمبر حاصل کرکے انعام لے سکیں _ حالانکہ یہ ضرورى ہے کہ بچے اپنى ذمہ دارى اور مشغولیت کو سمجھ کر پروان چڑھیں نا یہ کہ ہر کام کے مقابلے میں کسى مادى انعام کے خواہش مند

ایک صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں:

چھوتھى کلاس سے مجھے ایک دینى مدرسہ میں داخل کروادیا گیا _ میں قرآن کا سبق یاد کرنے میں بہت پچھیے تھا یہاں تک کہ مجھے قران کا ایک کلمہ بھى یادنہیں تھا لیکن میرے ہم جماعت بہت اچھى طرح قرآن پڑھتے تھے_ قرآن کے پہلے پیڑیڈمیں ہى ہمارے قارے صاحب نے خندہ پیشانى کے ساتھ مجھ سے پوچھا کیا تم قرآن پڑھ لیتے ہو میں نے پریشان ہوکر کہا نہیں _ تو انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں _ میں تجھے سبق دوں گا اور مجھے معلوم ہے کہ تم کلاس کے لائق ترین بچے بن جاؤگے _ جو کچھ بھى تمہارا دل چاہے مجھے سے پوچھ لیا کرو اور اپنے استاد کى باتوں سے مجھ میں پڑھنے کا اتنا شوق پیدا ہوا کہ میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ میں سبق میں کمزور رہنے کى تلافى کروں گیا میں نے خوف محنت کى _ اورسال کے آخر میں قرآن کے سبق میں بہترین ہوگیا _ یہاں تک کہ کبھى کبھى قارى صاحب کہ جگہ میں کلاس کو پڑھاتا _ اور صبح کى اسمبلى میں قرآن کى تلاوت کرتا _

ایک لڑکى اپنى یادداشتوں میں تحریر کرتى ہے _

میرے والد ایک روشن خیال شخص تھے _ ایک دن میرى ماں کى غیر موجودگى میں انہوں نے میرے چند اساتذہ کى دعوت کردى _ کھانے پینے کا سامان لاکر میرے سپردکردیا میں نے بھى خوشى خوشى کھانا پکانا شروع کردیا _ دو پہر کو میرے ابو مہمانوں کو اپنے ساتھ لے آئے _ جب میں نے کھانا برتنوں میں ڈالا تو معلوم ہوا کہ یہ تو اچھى طرح پکاہى نہیں ہے _ مرغ بھى کچھا تھا اور چاول بھى خراب ہوچکے تھے چونکہ مجھے کھانا پکانے کا طریقہ نہیں آتا تھا _ لہذ میں بہت غمگین تھى _ اور کسى متوقع ڈانٹ ڈپٹ کى منتظر _ لیکن میرى توقع کے برخلاف میرے والد نے مہمانوں کے سامنے تعریف کى اور کہا یہ کھانا میرى بیٹى نے پکایا ہے او رکتنا لذیذ پکایا ہے _ مہمانوں نے بھى ان کى تائید کى _ او رمیرى سلیقہ شعارى کى تعریف کى _ بعد میں باپ نے بھى مجھے شاباش دى _ اپنے باپ کى حوصلہ افزائی سے میں کھانے پکانے کے امور کى طرف متوجہ ہوئی اور اب میں مزیدار قسم کے کھانے پکانے اور دستر خوان کے باقى لوازمات میں پورى طرح ماہر ہو چکى ہوں _

 


1_ بحار، ج 73، ص 295
2_ غرر الحکم ، ص 309