پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بدزباني

بدزبانی

بدگوئی ایک برى عادت ہے _ بدزبان اپنى بات کا پابند نہیں ہوتا _ جو کچھ اس کے منہ میں آتا ہے کہے جاتا ہے ، گالى بکتا ہے ، ناسزا کہتا رہتا ہے ، شور مچاتا ہے ، برا بھلا کہتا رہتا ہے _ طعن زنى کرتا ہے ، زبان کے چرکے لگاتا ہے _

بدزبانى حرام ہے اور گناہان کبیرہ میں سے ہے _

رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

بد زبانى کرنے والے پر اللہ نے بہشت کو حرام قرار دیا ہے اور گالى دینے والے ، بے حیا اور بدتمیز پر بھى جنت حرام ہے _ بدگو شخص جو کچھ دوسروں کے بارے میں کہتا ہے نہ اس کا خیال رکھتا ے اور جو کچھ دوسرے اس کے بارے میں کہتے ہیں ن اس پر دھیان دیتا ہے _(1)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

دشنام طرازى ، بدگوئی اور زبان درازى نفاق اور بے ایمانى کى نشانیوں میں سے ہے _(2)

اللہ تعالى قرآن میں فرماتا ہے :

ویلٌ لکلّ ہمزة لمزة_

افسوس ہے ایسے سب افراد پر کہ جو لوگوں کى عیب جوئی اور طعن و تمسخر کرتے ہیں _ (ہمزہ _1)

بدزبانى افراد گھٹیا اور کم ظرف ہوتے ہیں اس برى عادت کى وجہ سے لوگوں کو اپنا دشمن بنالیتے ہیں _ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں _ لوگ ان کى زبان سے ڈرتے ہیں اور ان سے میل ملاقات سے دور بھاگتے ہیں _

نبى کریم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لوگوں میں سے بدترین وہ ہے کہ لوگ جس کى زبان سے ڈریں اور اس کے ساتھ ہم نشینى کو پسند نہ کریں _ (3)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:

لوگ جس کى زبان سے بھى دڑیں وہ جہنم میں جائے گا _ (4)

رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

مومن طعن زنى نہیں کرتا ، برا بھلا نہیں کہتا رہتا ، دشنام طرازى نہیں کرتا اور بدزبانى نہیں کرتا _ (5)

بچہ فطرى طور پر بدزبان نہیںہوتا _ یہ برى صفت وہ اپنے ماں باپ ، بہن بھائی یا ، دوستوں ، ہم جولیوں اور ہم جماعت بچوں سے سیکھتا ہے _ لیکن اس سلسلے میں ماں باپ کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے _ ماں باپ اپنے بچے کے لیے مؤثر ترین نمونہ عمل ہوتے ہیں _ لہذا ماں باپ نہ فقط اپنے قول و عمل کے ذمہ دار ہیں بلکہ بچوں کى تربیت کے بھى ذمہ دار ہیں _ یہ ماں باپ ہى ہیں جو بچے کو خوش کلام یا بدزبان بنادیتے ہیں ب_ بعض ماں باپ مذاق کے طور پر یا غصّے میں اپنے بچوں کو بدزبانى کا عملى درس دیتے ہیں _ بعض گھروں میں اس طرح کے کلمات روز مرّہ کا معمول ہیں:

کتے کا بچہ ، کتے کى ماں ،کیتا کى بیٹی، احمق ، بے وقوف ، بے شعر ، گدھا ، حیوان ، حرام زادہ ، پاگل ، سست ، بے ادب ، بے غیرت ،خدا تمہیں موت دے ، گاڑى کے نیچے آؤوغیرہ _

کبھى ماں باپ ایک دوسرے کى عیب جوئی کرتے ہیں ، ایک دوسرے کامذاق اڑاتے ہیں یا ایک دوسرے کو گالى دیتے ہیں _

ماں باپ جن کا فرض یہ ہے کہ بچوں کى کمزوریوں کو چھپائیں وہ کبھى خود بچوں کى عیب جوئی کرنے لگتے ہیں ، انہیں طعنے دیتے ہیں ، ان پر طنز کرتے ہیں اور انہیں سخت سست کلمات کہتے ہیں _ کیا ایسے ماں باپ کو توقع ہے کہ ایسے خاندان کا بچہ خوش زبان ہوگا _ ایسى توقع عموماً پورى نہیں ہوتى _ ایسے ماں باپ کو توقع رکھنا چاہیے کہ ان کے بچے انہى کى طرح بلکہ ا سے بڑھ کر بدزبان ہوں گے _ انہیں امید رکھنا چاہیے کہ وہ بعینہ یہى الفاظ بچوں کے منہ سے سنیں گے _ وعظ و نصیحت اور مارپیٹ سے بچے کو اس برى عادت سے نہیں روکا جا سکتا _ بہترین طریقہ یہ ہے کہ ماں باپ اپنى اصلاح کریں اور پھر بچے کى اصلاح کى طرف متوجہ ہوں _

کبھى بچے یہ برى عادت اپنے ہمجولیوں سے سیکھتے ہیں لہذا ماں باپ کو اس امر کى طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ ان کے بچوں کے دوست کس طرح کے ہیں _ انہیں اس بات کى اجازت نہ دیں کہ بدزبان بچوں سے میل جول رکھیں _

اگر آپ کبھى اپنے بچے سے کوئی فحش یا برى بات سنیں تو ہنس کر یا مسکر اکر اس کى تائید نہ کریں _ گالى اور غصّے کے ذریعے سے بھى بچے کو ایسى بات سے نہ روکیں کیونکہ اس طریقے کا نتیجہ زیادہ تر الٹ ہى نکلتا ہے بلکہ اسے اچھے انداز سے اور پیارسے سمجھائیں _ اس سے کہیں گالى دینا برى عادت ہے اچھے بچے کبھى گالى نہیں دیتے _

 


1_ اصول کافى ، ج 2 ، ص 323
2_ اصول کافى ، ج 2 ، ص 235
3_ اصول کافى ، ج 2 ، ص 325
4_ اصول کافى ، ج 2، ص 327
5_ مہجة البیضائ، ج 3 ، ص 127