پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ماں كا دودھ بہترين غذا ہے

ماں کا دودھ بہترین غذا ہے

ماں کا دودھ بچے کے لیے بہترین ، کامل ترین اور سالم ترین غذا ہے اور کئی پہلوؤں سے ہر غذا پر ترجیح رکھتا ہے _ مثلاً

1_ غذائی مواد کى کمیت اور کیفیّت کے لحاظ سے ماں کا دودھ بچے کى مشینرى سے بالکل ہم آہنگ ہوتا ہے کیونکہ بچہ نو ماہ رحم مادر میں رہا ہوتا ہے اور ماں کى داخلى مشینرى سے تیارہ شدہ غذا سے استفادہ کرنا اس کى عادت ہوچکى ہوتى ہے _ اب وہى مواد دودھ کى صورت میں بچے کى غذا بن کے آتا ہے _

2_ مال کا دودھ چونکہ طبعى طور پر اور خام حالت میں استعمال ہوتا ہے اس لیے اپنى غذائیت برقرار رکھتا ہے_ جب کہ اس کے برخلاف گائے و غیرہ کے دودھ کوابالاجاتاہے اور پھر استعمال کیا جاتا ہے _ جس سے اس کے اندرموجود بعض غذائی مواد ضائع ہوچکا ہوتاہے_

3 _بچے کى صحت کے اعتبار سے ماں کا دودھ زیادہ قابل اعتبار ہے اور خارجى جراثیم سے آلودہ نہیں ہوتا کیونکہ ماں کے پستان سے سیدھا بچے کے منہ میں چلا جاتاہے اس کے برخلاف دوسرے دودھ ممکن ہے مختلف برتنوں اور ہاتھوں کے جراثیم سے آلودہ ہوجائیں _

4_ ماں کا دودھ ہمیشہ تازہ بہ تازہ استعمال ہوتا ہے _ جب کہ کوئی دوسرا دودھ ممکن ہے

5_ ماں کے دودھ میں ملاوٹ کى گنجائشے نہیں ہوتى _ جب کہ دوسرے دودھ میں اس کا امکان موجود ہے _

6_ ماں کا دودھ بیماریوں کے حامل جراثیم سے آلودہ نہیں ہوتا اور بچے کى صحت و سلامتى کے لیے زیادہ محفوظ ہوتا ہے _ جب کہ کوئی دوسرا دودھ ممکن ہے بعض جراثیم سے آلودہ ہو جو بچے کوبھى مبتلا اور آلودہ کردیں _

اسہال شیر ، تپ مالت اورسل گاو جیسى بیماریوں دوسرے دودھ ہى سے پیدا ہوتى ہیں _ ان اور دیگر وجوہات کى بناپر ماں کا دودھ بچے کے لیے یقینى طور پر بہترین اور سالم ترین غذا ہے جو بچے ماں کا دودھ پى کر پلتے ہیں وہ دوسرے بچوں کى نسبت زیادہ تندرست ہوتے ہیں اور بیماریوں کے مقابلے کى زیادہ طاقت رکھتے ہیں او رایسے بچوں میں شرح اموات بھى کمتر ہے _

ماں اگر بچے کو دودھ دے تو ایک فائدہ بھى ہے کہ عمل حیض میں زیادہ تر تاخیر ہوجاتى ہے اور نتیجے کے طور پر دیر سے حاملہ ہوتى ہے _

دین اسلام نے بھى ماں کے دودھ کو بچے کے لیے بہترین غذا قرار دیا ہے اور اسے بچے کا ایک فطرى حق گردانا ہے _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں :

ما من لبن رضع بہ الصبى اعظم برکتہ علیہ من لبن امّہ

بچے کے لیے کوئی دودھ ماں کے دودھ سے بڑھ کر بہتر نہیں ہے _ (1)

ماں کا دودھ اسلام کى نظر میں اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ ماں کى تشویق کے لئے اس کا بہت زیادہ ثواب مقرر کیا گیا ہے _

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

فاذا ارضعت کان لہا بکل محّتہ کعدل عتق محرّر من ولد اسماعیل فاذا فرغت من رضاعہ ضرب ملک کریم على جنبہا و قال : استفانى العلم فقد غفر لک

یعنى ہر عورت جو اپنے بچے کو دودھ پلائے گى بچہ جتنى مرتبہ بھى اس کے پستان سے دودھ پیے گا اللہ تعالى ہر مرتبہ اسے اولاد اسماعیل میں سے غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرے گا جس وقت دودھ پلانے کى مدت ختم ہوگى تو ایک مقرر فرشتہ اس کے پہلو پر ہاتھ رکھ کے کہے گا : زندگى کو نئے سرے سے شروع کر کیوں کہ اللہ نہ تیرے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں _(2)

میڈیکل کا ایک بین الاقوامى سمپوزیم کہ جو شیراز کى یونیورسٹى میں منعقد ہوا اس میں تمام تر ماہرین کى مستتر ارائے یہ تھى کہ کوئی غذا بھى اور وٹامن کا حمل کوئی اور مواد بھى شیر مادر کى جگہ نہیں لے سکتا _ ڈاکٹر سیمین واقفى کہتى ہیں:

باعث افسوس ہے کہ بہت سى جوان مائیں مغربى ماؤن کى تقلید میں کوشش کرتى ہیں کہ اپنے نو نہالوں کو خشک دودھ او ردیگر خاص طرح کى مصنوعى غذائیں دیں اور یہ بچپن میں بچے کى صحیح غذائی ضروریات کے بالکل مخالف ہے جوان مائیں یہ جان لیں کہ کوئی مصنوعى دودھ بھى ماں کے دودھ کے برابر نہیں ہوسکتا _ وہ اپنے بچے کو اس بہترین غذا سے محروم نہ رکھیں کو جو طبیعى طور پر اس کے لئے تیار کى گئی ہے _ (3)

ایک اور ماہر لکھتے ہیں :

شیر مادر ایک ایسى بے مثال غذا ہے کہ جو فطرت نے بچے کے لئے بنائی ہے اور کوئی غذا بھى اس کا بدل نہیں ہوسکتى _ لہذا حتى الامکان کوشش کى جانى چاہیے کہ بچے کو ماں کا دودھ پلایا جائے اور اگر ماں کا دودھ نہ آتا ہو تو اسے کوشش کرنا چایہئے کہ اس بہت بڑے نقص کو مختلف اوردودھ لانے والى غذائیں کھا کر دور کرے _ (4)

ذمہ دار اور آگاہ خواتین کہ جو اپنے بچوں کى صحت و سلامتى سے دلچسپى رکھتى ہیں اپنے عزیز بچوں کى اپنے دودھ کے ذریعے سے پرورش کریں اور انہیں اس عظیم نعمت الہى سے محروم نہ رکھیں کہ جس کا نظام اللہ تعالى نے ن کے لیے پہلے سے بنارکھا ہے _ سمجھدار خواتین ماں کى عظیم ذمہ دارى سے آشنا ہوتى ہیں اور بچے کے جسم و جان پر دودھ کے اثر کو سمجھتى ہیں _ اسى وجہ سے وہ خوشى سے اپنے آپ کو بچے کى صحت و سلامتى کے لیے نثار کرتى ہیں اور انہیں شیر جان سے سیراب کرتى ہیں _ ایسى ہى خواتین کو ماں کا نام دیا جا سکتا ہے نہ ان بیوقوف اور خود غرض ماؤں کو کہ جن کا دودھ اترتاہو لیکن وہ طرح طرح کے بے جا بہانوں سے اپنے پستان کو خشک کرلیتى ہیں اور بے گناہ بچے کو خشک دودھ سے پالتے ہیں _ یہ خود غرض عورتیں اتنا بھى جذبہ ایثار نہیں رکھتیں کہ عزیز بچوں کى صحت و سلامتى کى خاطر اپنے آپ کو دودھ پلانے کى زحمت دیں _

علاوہ ازیں جو خواتین بغیر کسى عذر کے بچے کو دودھ نہیں پلاتیں ممکن ہے کہ وہ بعض جسمانى اور نفسیاتى بیماریوں میں مبتلا ہوجائیں _ سرطان پستان ان خواتین میں زیادہ دیکھا گیا ہے کہ جو اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاتیں _

اس مقام پر ضرورى ہے کہ جو مائیں بچوں کو دودھ پلاتى ہیں انہیں متوجہ کیا جائے کہ ماں کى غذا کى کیفیّت دودھ کى کیفیت پر اثر انداز ہوتى ہے _ دودھ ماں کى غذا سے تیار ہوتا ہے _ لہذا دودھ پلانے والى ماں کى غذا کو متنوع اور مختلف ہونا چاہیے اور اسے ہر طرح کى غذا سے استفادہ کرنا چاہیے _ مختلف پھلوں ، سبزیوں اور دانوں کا گاہے بگاہے استعمال کرناچاہیے تا کہ وہ خود بھى تندرست رہیں او ان کا دودھ بھى بھر پور اور کامل رہے _

مائع او رآبدار غذائیں مفید ہیں _ ماں کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ صحیح اور اچھى غذا قیمتى ترین اور خوش مزہ ترین غذائیں ہیں بلکہ کامل غذا کے لیے ایک ایسا پروگرام بنایاجاسکتا ہے کہ جس میں غذا متنوع ہو ، کم خرچ بھى ، بھر پوربھى اور حفظان صحت کے مطابق بھى ہو _ اس سلسلے میں غذا شناسى کى کتابوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے _ جن میں سے ایک کتاب میں لکھا ہے :

ماہرین غذا دودھ پلانے والى عورتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہر طرح کى غذا سے کچھ نہ کچھ استفادہ کرے خصوصا لوبیا ، چنے ، دودھ تازہ مکھن ، ناریل ، ذیتون ، اخروٹ ، بادام ، میٹھے اور رسیلے پھل مثلا خربوزہ ، گرما ، سردا اور نا شپاتى و غیر ہ (5)

اسلام نے بھى اس امر کى طرف تو جہ دى ہے کہ ماں کى غذا اس کے دودھ پر اثر انداز ہوتى ہے اسى وجہ سے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

اگر تم نے اپنے بچے کو دود ھ پلانے کے لیے کسى یہودى یا عیسائی عورت کا انتخاب کیا ہے تو انہیں شراب پینے اور سور کا گوشت کھا نے سے رو کو ( 6)

اگر ماں بیمار ہو جائے اور اسے دواکى ضرورت پیش آجائے تو اسے چاہیے کہ اس امر کى طر ف تو جہ رکھے کہ اس کى دوائیں اس کے دورھ پر بھى اثر کریں گى اور ممکن ہے بچے کى صحت وسلامتى کواس سے نقصان پہنچے ماں کو نہیں چاہیے کہ اپنے آپ یا غیر آگاہ افراد کے کہنے سے کوئی دوا استعمال کرے بلکہ اس کے لیے ضرورى ہے کہ ڈاکٹر کى طرف رجوع کرغ اور اسے یہ بھى بتا ئے کہ میں بچے کو دودھ پلارہى ہوں _

 

1_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 175_
2_وسائل الشیعہ _جلد 15 ص 175
3_ بہداشت جسمى روانى کودک ص 63
4_ اعجاز خوراکیہا ص 258
5_ اعجاز خوراکیہا ص 251 تا ص 256
6_ مستدرک جلد 2 ص 224