پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بچہ اور دينى تعليم

بچہ اور دینى تعلیم

اللہ اور دین کى طرف توجہ انسان کى فطرت میں داخل ہے اس کا سرچشمہ انسان کى اپنى سرشت ہے _

اللہ تعالى قرآن حکیم میں فرماتا ہے :

فاقکم وجہک للدّین حنیفا _ فطرة اللہ التى فطر النّاس علیہا _

اپنا رخ دین مستقیم کا طرف کرلو_ وہى دین کو جو فطرت الہى کا حامل ہے اور وہى فطرت کى جس کى بنیاد پر اس نے انسان کو خلق فرمایاہے _ (روم _30)

ہر بچہ کى فطرى طور پر خدا پرست ہے لیکن خارجى عوامل اثر انداز ہوجائیں تو صورت بدل جاتى ہے جیسا کہ

رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:

کل ّ مولد یولد على فطرة الاسلام ...

ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر بعدا ز اں اس کے ماں باپ اسے یہودى ، عیسائی یا مجوسى ، بنادیتے ہیں _ (1)

ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ وہ اپنے بچے کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں کہ اس میں فطرى طور پر ودیعت کیے گئے عقائد نشو و نما پا سکیں _ انسان بچپن ہے سے ایک ایسى قدرت کى طرف متوجہ ہوتا ہے کہ جو اس کى ضروریات پورى کر سکے _ لیکن اس کا ادراک اس حد تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنى مرتکز شدہ توجہ کو بیان کرسکے _ لیکن آہستہ آہستہ یہ توجہ ظاہر ہوجاتى ہے _ جو بچہ ایک مذہبى گھرانے میں پرورش پاتا ہے وہ کوئی چار سال کى عمر میں اللہ کى طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور یہى وہ عمر ہے جس میں بچے کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات ابھر نے لگتے ہیں _ کبھى کبھى وہ اللہ کا نام زبان پر لاتا ہے _ اس کے سوالوں اور باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کى فطت بیدا ہوچکى ہے اور وہ اس سلسلے میں زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہے _

بچہ سوچتا ہے کہ :

سورج کس نے بنایا ہے ؟

چاندتارے کس نے پیدا کیے ہیں؟

کیا اللہ تعالى مجھ سے پیار کرتا ہے؟

کیا اللہ تعالى میٹھى چیزیں پسند کرتا ہے؟

بارش کون برساتا ہے؟

ابو کو کس نے پیدا کیا ہے؟

کیا اللہ ہمارى باتیں سنتا ہے؟

کیا ٹیلى فون کے ذریعے اللہ سے باتیں کى جاسکتى ہیں؟

اللہ کہاں رہتا ہے ؟

اس کى شکل کس طرح کى ہے ؟

کیا خدا آسمان پر ہے؟

چارسال کے بعد بچے اس طرح کے ہزاروں سوال کرتے اور سوچتے ہیں _

ان سوالات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس کى فطرت خداپرستى بیدار ہوچکى ہے اور وہ یہ باتیں پوچھ کر اپنى معلومات مکمل کرنا چاہتا ہے _ معلوم نہیں کہ ننّھا منّا بچہ خدا کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہے _ شاید وہ یہ سوچتا ہے کہ خدا اس کے ابّو کى طرح ہے لیکن اس سے بڑا اور زیادہ طاقتور ہے _ بچے کا شعور جس قدر ترقى کرتا جاتا ہے _ خدا کے بارے میں اس کى شناخت برھتى جاتى ہے _ اس سلسلے میں ماں باپ پر بھارى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے _ وہ اپنے بچوں کے عقائد کى تکمیل میں بہت اہم خدمت انجام دے سکتے ہیں _ اس سلسلے میں اگر انہوں نے کوتاہى کى تو روز قیامت ان سے بازپرس کى جائے گى _ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے تمام سوالوں کا جواب دیں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو بچے کى روح تحقیق مرجائے گى _ لیکن بچے کے سوالوں کا جواب دینا کوئی آسان کام نہیں _ جواب صحیح ، مختصر اور بچے کے لیے قابل فہم ہونا چاہیے _ بچے کا شعور جس قدر ترقى کرتا جائے جواب بھى اس قدر عمیق ہونا چاہیے _ یہ کام ہر ماں باپ نہیں کرسکتے _ اس کے لیے ضرورى ہے کہ وہ پہلے سے اس کے لیے تیارى کریں _ زیادہ گہرے اور صبر آزما مطلب بیان نہ کریں کیونکہ یہ نہ فقط بچے کے لیے سودمند نہ ہوں گے بلکہ ناقابل فہم اور پریشان کن بھى ہوں گے _ چھوٹا بچہ مشکل مطالب نہیں سمجھ پاتا لہذا اس کى طبیعت ، فہم اور صلاحیت کے مطابق اسے دینى تعلیم دى جانا چاہیے _

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

بچہ تین سال کا ہوجائے تو اسے ''لا الہ الا اللہ '' سکھائیں _پھر اسے چھوڑدیں _ جب اس کى عمر تین سال ، سات ماہ اور بیس دن ہوجائے تو اسے ''محمد رسول اللہ'' یاد کروائیں پھر چار سال تک اسے چھوڑدیں _ جب چار سال کا ہوجائے تو اسے پیغمبر خدا پر درود بھیجنا سکھائیں _ (2)

بچوں کا چھوٹے چھوٹے اور سادہ دینى اشعار یادکروانا ان کے لیے مفید اور لذت بخش ہوتا ہے _ اسى طرح انہیں آہستہ آہستہ نبوت اور امامت کے بارے _ پہلے رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں بتائیں کہ اللہ نے انہیں نبى بنا کر بھیجا تا کہ ہمارى ہدایت کریں _ پھر ان کى خصوصیات اور کچھ واقعات بتائیں _ پھر عمومى نبوت کا مفہوم بتائیں اور نبوت کى ضرورى ضرورى شرائط سے انہیں آگاہ کریں او ر یوں ہى امامت کے بارے میں بھى سمجھائیں _

چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے کہانى کى صورت میں پیار سے یہ باتیں کریں گے _ تو بہت مؤثر ہوں گے _

ہاں قیامت کے بارے میں بچہ جلدى متوجہ نہیں ہوتا وہ سوچتا ہے کہ وہ اور اس کے ماں باپ ہمیشہ یوں ہى رہیں گے _ مرنے کو وہ ایک لمبے سفر کى طرح خیال کرتا ہے _ جب تک بچہ موت کى طرف متوجہ نہ ہو تو ضرورى نہیں ہے بلکہ شاید مناسب بھى نہیں کہ اس سے اس سلسلے میں بات چیت کى جائے _ البتہ نہ چاہتے ہوئے بھى ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں کہ ماں باپ کو مجبوراً ان کے سامنے موت کى حقیقت کے بارے میں کچھ اظہار کرنا پڑجاتا ہے _ ممکن ہے کسى رشتے دار، دوست یا جان پہچان والے شخص کى موت بچے کو سوچنے پر مجبور کردے _ مثلاً خدا نخواستہ بچے کے دادا وفات پاجائیں اور وہ پوچھے کہ :

امّى دادا بّو کہاں چلے گئے ہیں؟

ایسے موقع پر بچے کو حقیقت بتادنى چاہیے _ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے _ بچے سے یہ کہا جا سکتا ہے تمہارے دادا جان وفات پاگئے ہیں ، وہ دوسرے دنیا میں چلے گئے ہیں _ ہر مرنے والا اس دنیا میں چلا جاتا ہے _ اگر کوئی نیک ہوا تو جنت کے خوبصورت باغوں میں خوشى رہے گا اور اگر کوئی برا ہوا تو جہنم کى آگ میں وہ اپنى سزا بھگتے گا _ بچے کو موت کا یع معنى رفتہ رفتہ سمجھایاجائے کہ یہ ایک دنیا سے دوسرى دنیا کى طرف انتقال ہے _ اسے جنت ، دوزخ ، حساب کتاب اور قیامت کے بارے میں ساداسادا اور مختصر طور پر بتایا جانا چاہیے _

تربیت عقاید کا یہ سلسلہ پرائمرى ، مڈل ، ہائی اور پھر بالائی سطح تک جارى رہنا چاہیے _

 

 

1_ بحار، ج 3 ، ص 281
2_ مکارم الاخلاق ، ج 1 ، ص 254