پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ناقص الخلقت بچّے

ناقص الخلقت بچّے

بعض بچے پیدائشےى طور پر ناقص الخلقت ہوتے ہیں یا بعد میں کسى حادثے کى وجہ سے ان کے بدن میں کوئی نقص پیدا ہوجاتا ہے _ اندھے لولے لنگڑے گونگے بہرے اور اسى طرح کے دوسرے نقائص میں بہت سے افراد مبتلا ہوتے ہى بعض بچے اگر چہ بدن کے کسى عضو کے اعتبار سے تو نقص نہیں رکھتے لیکن مناسب قامت اور مکمل خوبصورتى سے محروم ہوتے ہیں _ کالے ، پیلے ، کمزور ، بہت چھوٹے ، بہت بڑے ، بہت موٹے، چھوٹى ناک والے ، بڑے منہ والے یا چھوٹے منہ والے ، اندر کو دھنسى ہوئی آنکھوں والے ، اور بڑے دانتوں والے ، ان نقائص کے حامل افراد اگر چہ کسى ع ضو کے نقص میں مبتلا نہیں ہوتے لیکن دوسروں کى نسبت مکمل اور خوبصورت بھى نہیں ہوتے _

اسى میں ان افراد کا کوئی قصور نہیں ہے خدا نے انہیں اس طرح پیدا کیا ہے نظام خلقت میں تمام اشیاء خوبصورت اور مناسب ہیں یہ تو ہمارى کم فہمى اور کم ذوقى کا قصور ہے کہ کسى کو خوبصورت سمجھتے ہیں اور کسى کو بد صورت _

ناقص اور معذور افراد چونکہ اپنے نقص کى طرف متوجہ ہوتے ہیں لہذا ہمیشہ غم و اندوہ میں مبتلا رہتے ہیں _ وہ احساس کمترى میں مبتلا رہتے ہیں _ اگر اس احساس کو ختم نہ کیا جائے بکلہ اس کى تائید کى جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے احساس کمترى اور کم نگہى کا شکار ہوجائیں گے _ جن لوگوں کے دل میں احساس کمترى گھر کرلے تو وہ تو اپنى شخصیت گنوابیٹھتے ہیں _ اپنے تئیں بے لیاقت ، ناچیز اور نااہل سمجھتے ہیں _ وہ ذمہ داریوں کو قبول کرنے اور کاموں کے لیے لپک

کے آگے بڑھنے سے گریزان رہتے میں گویا ذلت و بدبختى کے سامنے ہتھیار پھینک دیتے ہیں _ ممکن ہے کبھى وہ اپنے اظہار وجود کے لیے قتل یا کسى دوسرے جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں _

اپا ہج قال رحم ہوتے ہیں _ لوگوں کى ذمہ دارى ہے کہ وہ ان کے نقص کو بالک نظر انداز کر دیں _ ان کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ جیسا وہ دیگر افراد کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے نقص کے بارے میں نہ سوچیں نہ ان پر طنز کریں نہ تمسخر اڑائیں _ اور نہ ان کے نازک دلوں پر زبان کے چرکے لگائیں _ دین مقدس اسلام نے عیب جوئی ، تمسخر بازى ، سرزنش اور دوسروں کى ذات میں کیڑے نکالنے کو گناہوں کبیرہ میں سے اور حرام قرار دیا ہے _ اور اس بارے میںاس قدر تاکید کى ہے کہ اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ آپ ہرگز کوئی ایسا کام نہ کریں کہ ناقص الخلقت افراد اپنے نقص کى طرف متوجہ ہوجائیں _

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

مصیبت میں گھر سے افراط اور کوڑھیوں کى طرف زیادہ نہ دیکھیں کیوں کہ ممکن ہے آپ کى نظر یں ان کے لیے باعث حزن و ملال ہوں _ (1)

علاوہ ازیں مسلمانوں کى ذمہ دارى ہے کہ ایسے افراد کے ساتھ زیادہ محبت اور ہمدردى کریں اور اس طرح سے ان کے احساس کمترى کا ازالہ کریں _ اور ان میں احساس زندگى کو تقویت بخشیں _ ایسے بچوں کے ماں باپ کى ذمہ دارى بھى سنگین تر ہے _ اس امر پر ان کى توجہ ہونا چاہیے کہ ناقص افراد بھى ترقى اور کمال کى صلاحیت رکھتے ہیں _ اگر ان کى صلاحیتوں کا اندازہ لگایاجائے اور ان دیگر قوتوں کو ابھار کر تقویت پہنچائی جائے تو وہ کسى نہ کسى علمى ، سائنسى یا فنى شعبے میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح سے اپنے نقص کا ازالہ کرسکتے ہیں اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح سے اپنے نقص کا ازالہ کرسکتے ہیں اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں _ کتنے ہى ناقص افراد ہیں کہ جو کوشش اور ہمت سے ایسے بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ جس سے ان کا نقص بہت ہى پیچھے رہ گیا ہے _ ماں باپ کو چاہیے کہ اپنى اولاد کے نقص سے بالکل چشم پوشى کریں اور اس بارے میں بالکل بات نہ کریں یہاں تک کہ مذاق ، اظہار ہمدردى یا غصّے کى صورت میں بھى ذکر نہ کریں _ ایسے بچوں کے ساتھ بھى ان کا سلوک بالکل ایسا ہو جیسا دوسرے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے _ اگر خود بچے اس سلسلے میں پریشانى کا اظہار کریں تو کوشش کریں کہ اس نقص کو غیر اہم قرار دیں _ اور اسے اس کى دوسروى صلاحیتں یا ددلائیں ان ان کى تعریف و ستائشے کریں _

ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ پورى توجہ سے تحقیق کریں کہ بچوں میں کیا کیا استعداد اور صلاحیت موجود ہے اور اس سلسلے میں جاننے والے افرا د سے مشورہ کریں _ اور پھر بچے کو اس طرف متوجہ کریں _ اور اس بارے میں ان کى تائید کریں اور انہیں ترغیب دیں _ اگر ماں باپ اس سلسلے میں کچھ توجہ کریں تو وہ اپنے ناقص بچے کى اور معاشرے کى بہت بڑى خدمت سرانجام دیں گے _

اس صورت میں اس طرح کا شخص گویا اپنى کھوئی ہوئی صورت کو پالے گا اور اپنى خداد اد صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا _ اور معاشرت میں بھى وہ ایک اہم مقام حاصل کرسکے گا _

ایک لڑکى اپنے خط میں لکھتى ہے_

... میر ى ایک سہیلى نے اپنى زندگى کى داستان مجھے اس طرح سنائی میں تیرہ سال کى تھى _ ایک دفعہ میں چھت سے گڑپڑى _ میرى ریڑھ کى ہڈى پر چوٹ لگى _ جس کى وجہ سے میں معذور ہوگئی _ کچھ عرصہ ہسپتال میںمیرا علاج ہوتا رہا _ اگرچہ مجھے تکالیف تھى لیکن مجھے بعد میں سمجھ آئی کہ یہ دن میرے لیے بہت بہتر تھے _ جب مجھے ہسپتال سے چھٹى ملى اور میں گھر پہنچى تو میرے والدین نے مجھے ازلى دشمنوں کى طرح دیکھتا شروع کردیا _ انہوں نے کہا تم ہمارے لیے باعث ننگ و ارہو _ ہم لوگوں کو کیسے بتائیں کہ ہم ایک معذور بیٹى کے والدین ہیں _ تم ہمیشہ ہم پر سوار ہوگى _ وہ مجھے دلاسہ دینے کى بجائے دن رات ایسى ہى باتیں کرتے اور میرى پمردہ روح کو اور چرکے (زخم) لگاتے _ وہ یہ نہیں سوچتے تھے کہ میں بے قصور ہوں _ میں روزانہ کئی مرتبہ خدا سے اپنى موت کى دعا کرتى تا کہ اس سخت زندگى سے میرى جان چھوٹ جائے _ میں اپنے مفلوج پاؤں کے ساتھ سارا دن گھر میں کام کرتى _ لیکن کوئی میرى دلجوئی نہ کرتا مجھے اصلاً اپنى بیٹى ہى نہ سمجھتے میرى جوانى کے بہترین ایام رنج و درد کے عالم میں گزرے _ پندرہ سال کى عمر میں میں ایک پچاس سالہ بوڑھى کى طرح نظر آتى جب میرے ماں باپ مر گئے _ میرے بہن بھائی بھى بچپن ہى سے مجھ سے متنفر تھے وہ بھى میرى احوال پرسى نہ کرتے _ پھر میرى شادى کردى گئی _ میرے شوہر بہت مہربان شخص تھے _ مجھ سے بہت محبت کرتے _ اس وقت تک مجھے محبت کى ٹھنڈى چھاؤں نصیب نہیں تھى اب میرى حالت دن بدن اچھى ہونے لگى اب میں بالکل تندرست ہوگئی ہوں _ خدا نے مجھے اولاد بھى عطا کى ہے _ اور میں خوش و خرم اور صحت و سلامتى کے ساتھ زندگى گزار رہى ہوں _

 

1_ بحار ، ج 75، ص 15