پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تلاش حقيقت

تلاش حقیقت

جب نومولود دنیا میں آتا ہے تو جہان خارج کى اسے کوئی خبر نہیں ہوتى _ ہر چیز اس کے لیے برابر ہے _ وہ شکلوں میں ، رنگوں میں اور لوگوں میں فرق نہیں کرسکتا _ وہ شکلوں اور آوازوں سے متا ثر ہو تا ہے لیکن انہیں پہچان نہیں پاتا _ لیکن اسى وقت سے اس میں تحقیق ، جستجو اور چیزوں کے پہچاننے کى شدید خواہش اور تمنا ہوتى ہے _ وہ مسلسل اس طرف طرف اور طرف دیکھتا ہے اور لوگوں کى صورتیں دیکھ دیکھ کے حیران ہوا ہے بچہ اپنے حواس کے ذریعے اوراپنى تحقیق و جستجو لگن سے اپنى معلومات میں اضافہ کرتا ہے اور کسب علم کرتا ہے اللہ تعالى قرآن میں فرماتا :

وَاللَّهُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَتِکُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَیْئاً وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَرَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ‏(1)

اللہ نے تمہیں تمہارى ماؤں کے پیٹوں سے اس عالم میں نکالا کہ تم اللہ کى نعمتوں کو پہچا نو اور شکر گزار بن جاؤ _

کچھ مدت کے بعد بچہ جہان خارج کى طرف تو جہ کرنے لگتا ہے _ چیزوں کو ہاتھوں سے پکڑ لیتا ہے _ انہیں حرکت دیتا ہے _ پھر زمین پر پھنیک دیتا ہے _ منہ میں لے جاتا ہے آوازوں کى طرف دھیان دیتا ہے _ آنکھول سے لوگوں کى حرکتوں کودیکھتا رہتا ہے _ اس طرح سے تلاش حقیقت کى خواہش اور حس کو وہ پورا کرتا ہے اور دنیا کو پہچاننے کى کوشش کرتا ہے اللہ تعالى نے تحقیق و جستجو کى سرشت نوع انساں کو و دیعت کى ہے تا کہ ہے تا کہ اپنى کوشش اور جستجو سے اسرار جہان کے پر دے ہٹا ئے اور تخلیق عالم کار از پالے_ بچہ میں فطرى طور پر تحقیق اور جستجوکاماوہ ہوتا ہے اور وہ اس سلسلے میں حتى المقدور کوشش کرتا ہے _ ماں باپ اس ضمن میں بچے کوتشویق و تحریک بھى کرسکتے ہیں اور اس داخلى احساس کو دبا بھى سکتے ہیں _ اگر ماں باپ تحقیق سے متعلقہ چیزیں اسے دیں اور اسے یہ آزادى بھى دیں کہ وہ اپنى خواہش کے مطابق تجربہ کرے اور اس کى عمر کے تقاضے کے مطابق اسے فکرى و علمى اعتبار سے جاذب کھلونے خرید دیں تو س کى تحقیق و جستجو کى روح پر و ان چڑ ھے گى بچے کى یہى ہے _ ایک کمر ے میں موجود مختلف چیزیں اس کے اختیار میں نہ دیں اور اسے تحقیق و تجربے سے منع کریں تو تلاش حقیقت کى روح اس کے اندر دب جائے گى _ اور وہ سائنسى اور تحقیقى امور میں شکست خوردہ اور مایوس ہو گا_ اس مرحلے سے اہم تر وہ مرحلہ ہے جب بچہ مختلف قسم کے علمى تحقیقى اور معلوماتى سوالات کرنے لگتا ہے دو سال سے اور وہ باتبں کرنا سیکھ لیتا ہے _ اور ماں باپ سے بہت سے سوالات کرنے لگتا ہے مثلا میں بعد میں ماں بنوں گا یا باپ ؟ ابو ہر روز گھر سے با ہر کیوں جاتے ہیں ؟ پتھر سخت اور پانى نرم کیوں ہے ؟ مجھے دادى اماں اچھى نہیں لگتى میں ان کے گھر کیوں جاؤں ؟ بارش میں کیوں نہ کھیلوں ؟ مچھلیاں پانى میں مر کیوں نہیں جاتیں ؟ آپ ہر روز نماز کیوں پڑ ھتے ہیں ؟ نماز کیا ہے ؟ سورج رات کو کہاں چلا جاتا ہے ؟ بارش اور بر فبارى کہاں سے ہوتى ہے ؟ یہ ستار ے کیا ہیں ؟ کس نے ان کو بنا یا ہے ؟ مکھى اور مچھر کا کیا فائدہ ہے ؟ جب داداجان مرے تھے تو انہین مٹى میں کیوں ڈال دیا تھا؟ وہ کہاں گئے ہیں ؟ واپس کسب آئیں گے ؟یہ موت کیا ہوتى ہے ؟ کم و بیش بچوں کے اس طرح کے سوالات ہوتے ہیں بچوں کے سوالات ایک جیسے نہیں ہوتے عمر اور افراد کے فرق کے ساتھ سوالات بھى مختلف ہوتے ہیں _ سمجھدار بچے زیادہ گہر ے اور زیادہ سوال کرتے ہیں _ جوں جوں ان کى معلومات بڑھتى جاتى ہیں ان کے سوالات دقیق تر ہوتے جاتے ہیں _ بچہ سوالات اور تحقیق سے خارجى دنیا کى شناخت کے لیے دوسروں کى معلومات اور تجربات سے استفادہ کرناچاہتا ہے _ تلاش حقیقت اور جستجو کى سر شت انسان کى بہت ہى قیمتى سر شتوں میں سے ہے _ اس سرشت کے وجود کى برکت سے انسان نے کمال حاصل کیا ہے _ جہان خلقت کے بہت سے اسرار اور از کشف کیے ہیں _ اور سائنس اور صنعت میں حیران کن ترقى کى ہے _ جن ماں باپ کو اپنى اولاد اور انسانى معاشر ے کى ترقى اور کمال عزیز ہے وہ اس خداو ادصلاحیت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں _ بعض ماں باپ بچگانہ سوالات کو ایسے ہى بے کار اور فضول سمجھتے ہیں اور جواب دینے کى طرف ہر گز تو جہ نہیں دیتے کہتے ہیں بچہ کیا سنجھتا ہے ؟ بڑا ہو گا تو خود ہى سمجھ لے گا آخر ہم بچوں کے سوالوں کا جواب کیسے دے سکتے ہیں _ بچوں کے سوالات سن کرکہتے ہیں بیٹا جى اتنى باتیں نہ کرو _ ایسے ہى نہ بو لتے رہو _ مجھے کیا پتہ جب بڑے ہو گے تو خود ہى سنجھ لوگے _ ایسے سوالاں کا وقت نہیں ہے ان کو چھوڑو یہ میرے بس میں نہیں ہے _ ایسے ماں باپ اپنے بچے کى قیمتى ترین انسانى صلاحیت کو خاموش کردیتے ہیں _ اس کى عقلى رشد و نمو کو روک دیتے ہیں _ پھر شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے میں سائنس انکشافات سے دلچسپى کیوں نہیں ہے _ وہ علمى اور سائنسى سوالات حل کرنے میں عاجز کیوں ہے _ جب کہ خود ہى وہ اس کام کا سبب بنے ہیں _ اگر اس صلاحیت کى صحیح تسکین نہ کى جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقى راستے سے بھئک جائے اور بعد ازاں لوگوں کے راز معلوم نے اور لوگوں کے اسرار کے بارے میں تجسس کى صورت میں ظاہر ہو _

بعض ماں باپ اپنے بچوںکو خوش کنے کے لیے ان کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں

لیکن انہین ہرگز سے دلچسپى نہیں ہوتى کہ جواب صحیح ہو وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ چپ کرجائے جواب صحیح ہو یا غلط _ وہ سمجھتے ہیں کہ صحیح جواب بچوں کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہے _ لہذا انہیں مطمئن کرنے کے لیے ایسا جواب دیتے ہیں کہ بس وہ چپ کرجائے _ ممکن ہے بچہ اس طرح سے وقتى طور پر خاموش ہو جائے _ لیکن تلاش حقیقت کے بارے میں اس کى خواہش سیر نہیں ہوئی اور کمال کے راستے پر آگے نہیں بڑھى بلکہ گمراہى او رخلاف حقیقت راستے کى طرف بھٹک گئی ہے جب وہ بڑا ہو گا _ اور حقیقت اسے معلوم ہو جائے گى تووہ ان ماں باپ کے بارے میں بد بین ہو جائے گاجنہوں نے اسے گمراہ کیا تھا بلکہ یہاں تک ممکن ہے وہ ایک شکى قسم کا شخص بن جائے کہ جوہر کسى کے بارے میں ہر مقام پر بد گمانى کرے _

لیکن سمجھدار اور فرض شناس ماں باپ اس قیمتى خدا داد صلاحیت کو ضائع نہیں کرتے اور راس سے اور قابل فہم جوابدیں _ پہلے وہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتے ہیں مطالعہ کرتے ہیں _ سو چتے ہیں _ بچوں سے ان کى زبان میں بات کرتے ہیں اور ان کے یوالوں کى طرف خوب تو جہ کرتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ہر گز خلاف حقیقت بات نہیں کرتے اگر کسى موقع پروہ جواب دینے سے عاجز ہوں تو با قاعدہ اپنى لا علمى کا اظہار کرتے ہیں اور اس طرح بچے کى تلاش حقیقت کى اس صلاحیت کو بھى ابھار تے ہیں او رساتے ہى ساتھ انہیں یہ بھى سکھا تے ہیں کہ جب کسى چیز کا علم نہ ہو تو لا علمى کا اظہار کرنے میں شرم ومحسوس نہیں کرنے چاہیے _ بعض ماں باپ بچوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے حد سے بڑھ جاتے ہیں یعنى ایک چھوٹے سے سوال کا جواب دینے کے لیے تفصیلات میں چلے جاتے ہیں اور جو کچھ بھى انہیں معلوم ہوتا ہے سب کچھ کہہ ڈا لتے ہیں یہ کام بھى درست نہیں کیونکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بچہ زیادہ باتیں سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا _ اسے صرف اپنے سوال کے جواب سے غرض ہوتى ہے اور زیادہ باتوں سے وہ تھک جاتا ہے تحقیق و جستجو میں بچوں اور نو چوانوںکى تشویق کریں _ انہیں بحث و استدلال سے آشنا کریں اور جہاں امکان ہو اور ضرورى ہو و ہاں انہیں تجربے کے لیے بھى ابھلاریں _ بچہ ایک سو چنے والا انسان ہے _ اس کى سوچ کو تقوبت دیں تا کہ اس کے اندر چھپى ہوئی صلاحیتّیںکام آئیں اور وہ اپنے فکر و شعور سے استقادہ کرے اور اپنے لأآنئدہ کى زندگى کے لیے، تیار ہوجا ئے _ حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں :

جو بھى بچین میں سوال کرسکے بڑا ہو کر جواب دے سکے گا(2)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

بچے کادل نرم زمین کے مانند ہے آپ جو بھى اس میں ڈالیں گے قبول کرے گا(3)

ایک خاتون اپنے خط میں لکھتى ہے ...

ایک رات ابو گھر آئے اور مجھ سے ایک پہیلى کہى _ اور کہا کہ میر ے ساتھى اس پہیلى کو نہیں بو جھ سکے سب سو گئے لیکن میں نے ارادہ کیا کہ اس کو بو جھ کے رہوں گى _ اور دیر تک سو چتى رہى اور آخر کار میں نے اسے بو جھ لیا _ خوشى خوشى میں نے ابو کو جگا یا اور انہیں اس پہیلى کا جواب دیا ابو خوش ہو گئے _ مجھے شا باش کہى الو ہمیشہ فکر ى قسم کے کام مجھ سے کہتے اور اس سلسلے میں مجھے تشویق کرتے اسى لیے میں فکرى مسائل حل کرنے میں طاق ہو گئی ہوں _ اور زندگى کى مشکلات کو سوچ بچار سے حل کر لیتى ہو ں

1_ نحل ، 78
2_ غرر الحکام ص 645
3_ غررالحکام ص 302