پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

دوست اور دوستي

دوست اور دوستی

اچھا دوست اور مہربان رفیق اللہ کى عظم نعمتوں میں سے ہے _ مصیبت میں دوست ہى انسان کى پناہ ہوتا ہے اور قلب ور وح کے آرام کا ذریعہ ، مشکلات سے بھر ى اس دنیا میں ایک حقیقى دوست کى موجودگى ہر انسان کى ضرورت ہے _ جو شخص ایک مہربان دوست کى نعمت ہے محروم ہو وہ وطن سے دور تنہائی کى سى کیفیت میں ہوتا ہے اور کوئی اس کا غمخوار نہیں ہوتا کہ زندگى کى مشکلات میں وہ جس کا سہارا لے سکے _

حضرت امام موسى بن جعفر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ دنیا میں آرام کا بہترین وسیلہ کیا ہے _ فرمایا: کھلا گھر اور زیادہ دوست '' _(1)

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

اعجز الناس من عجز عن اکتساب الاخوان _

کمزورترین شخص وہ ہے جو کسى کو دوست اور بھائی نہ بنا سکے _ (2)

حضرت على علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

دوستوں کا نہ ہونا ایک طرح کى غریب الوطنى او رتنہائی ہے _(3)

جیسے بڑوں کو دوستوں کى ضرورت ہوتى ہے ویسے ہى بچوں کو بھى یاردوست کى ضرورت ہوتى ہے جس بچے کا کوئی دوست نہ ہو وہ ہر جگہ تنہا تنہا سا ، مرجھایا مرجھا یا سا اور افسردہ افسردہ سا رہتا ہے _ بچے کو فطرى طور پر دوست کى خواہش ہوتى ہے اور اس فطرى خواہش سے اسے محروم نہیں رکھا جا سکتا _ دوست اور ہم جولى میں فرق ہے _ ہوسکتا ہے اس کا ہم جولى تو ہو مگر دوست نہ ہو _ کبھى بچہ ہم جولیوں اور کلاس فیلوزیں میں سے کسى دوست کا انتخاب کرتا ہے _ شاید دوستى کا اصلى محرک اور عامل زیادہ واضح نہ ہو _ ہوسکتا ہے دو افراد کى باہمى روحانى ہم آہنگى انہیں ایک دوسرے کے نزدیک کردے _

امیر المومنى على علیہ السلام فرماتے ہیں:

لوگوں کے دل بھکتے ہوئے جنگلیوں کے مانند ہیں جو بھى ان سے محبت کرے اسى میں کھوجاتے ہیں _(4)

دوست کسى پر ٹھونسا نہیں جا سکتا کہ ماں باپ اپنى اولاد سے کہیں کہ فلاں بچے کو دوست بناؤ اور فلاں کو نہ بناؤ _ دوست کے انتخاب میں بچے کو آزادى ملنا چاہیے البتہ ہر طرح کى آزادى نہیں دى جا سکتى کیونکہ دوستوں کا اخلاق و کردار ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایک دوست دوسرے کے اخلاق اور طرز عمل کو اپناتا ہے _ اگر بچے نے ایک خوش اخلاق اور اچھا دوست بنالیا تو وہ اس سے اچھائیاں اپنائے گا اور برا دوست مل گیا تو اس کى برائیاں اس پر ا ثر انداز ہوں گى _ بہت سے معصوم بچے اور نوجوان ہیں کہ جو اپنے برے دوستوں کے باعث گناہ کى وادى میں جا پہنچے ہیں اور ان کى دنیا و آخرت تباہ ہوچکى ہے _

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

انسان اپنے دوست کے مذہب ، طریقے اور روش کا خوگر بن جاتا ہے _(5)

حضرت على علیہ السلام فرمایا ہیں :

لوگوں میں سب سے زیادہ خوش نصیب وہ ہے کہ جس کامیل جول اچھے لوگوں کے ساتھ ہو(6)

اسى وجہ سے اسلام اپنے ماننے والوں کو اس امر کا حکم دیتا ہے کہ وہ برے دوست سے اجتناب کریں

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں :

فاسقوں اور گنہ گاروں کے ساتھ دوستى سے بچو کیونکہ برائی کہ تاثیر برائی ہى ہے (7)

امام سجاد علیہ السلام نے اپنے فرزند و لبند امام باقر علیہ السلام سے فرمایا :

اے میرے بیٹے : پانچ طرح کے لوگوں سے رفاقت نہ رکھو :

1_ جھوٹے کے ساتھ رفاقت نہ کرو کہ وہ سرا ب کے مانند ہے _ وہ تجھے فریب دے گا _ دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور بتا ئے گا _

2_ فاسق اور بد کار کو دوست نہ بناؤ کہ وہ تجھے بہت کم قیمت پریہاں تک کہ ایک نوالے کے مول بیچ دے گا_

3_ کنجوس کو دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ ضرورت پڑنے پر مدد نہیں کرے گا_

3_ کسى احمق کو دوست نہ بناؤ کیوں کہ وہ اپنى بے وقوفى کے باعث تمہیں نقصان پہنچائے گا _ بلکہ یہ تک ممکن ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہے مگر نقصان پہنچائے گا _ بلکہ یہ تک ممکن ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہے مگر نقصان پہنچادے _

5_ قطع رحمى کرنے والے کو دوست نہ بناؤ کیونکہ قطع رحمى کرنے والا خدا کى رحمت سے دو ر اور ملعون ہے (8)

لہذا سمجھدا ر اور فرض شناس ماں باپ کى دمہ دارى ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں سے لا تعلق نہ دہیں کیونکہ ایسا کرنا نہ بچوں کے فائدہ ے میں ہے اور نہ مال باپ کے البتہ ماں باپ کى اس معاملے میں بلا واسطہ دخالت بھى درست نہیں ہے _

اگر ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایک اچھا اور نیک دوست مہیا کر سکیں توانہوں نے بچے کى بھلائی کا انتظام کیا ہے اور اسے تباہى کے راستے سے بچایا ہے _ لیکن یہ بھى کوئی آسان کا م نہیں _ اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب اچھے برے کى کچھ تمیز کرنے لگے تو اسے پیار محبت سے ایک اچھے اور برے د وست کى صفات بتائیں برے بچوں کے ساتھ دوستى کے نتائج بھى اس پر واضح کریں _

پھر بچوں کے دوستوں اور ان کے طرز عمل پر کچھ فاصلے سے نگاہ رکھیں اگر ماں باپ دیکھیں کہ ان کے دوست اچھے ہیں تو ان کى تائید و تشویق کریں اور انہیں ملنے جلنے کے مواقع فراہم کریں لیکن اگر دیکھیں کہ ان کے بچے دھو کا کھا گئے ہیں اور برے بچوں کو دوست بنار ہے ہیں تو پیار محبت سے ان کى خامیوں کى طرف متوجہ کرکے اپنے بچوں کو ان سے میں ملاقات سے روکیں _ پیار محبت سے یہ کام نہ ہو سکے تو کچھ سختى سے منع کیا جاسکتا ہے _

ایک اور طریقے سے بھى ماں باپ بچے کے لیے اچھے دوست کے انتخاب میں مدد کرسکتے ہیں _ اس کے ہمجولیوں ، محلے والوں ، ہمسایوں ، و غیرہ میں سے کسى اچھے دوست کو تلاش کریں اور ان کے در میان بہتر رابطے کا وسیلہ فراہم کریں _ اس طرح اگر وہ آپس میں دوست ہو جائیں تو ان کى تشویق کریں _ اس طرح ماں باپ بہت اچھى خدمت سرانجام دے سکتے ہیں اور بچوں کى بہت سى خامیاں اچھے دوست کے انتخاب سے دور کرسکتے ہیں _ مثلا وہ ماں باپ جن کا بیٹا بزول ہے وہ اس کے لیے کوئے شجاع بچہ انتخاب کریں کہ جس سے دوستى کے ذریعے اس کى بزولى جاتى رہے _

بہر حال ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں بالخصوص نو جوانى کے دور میں ان کے دوستوں سے غافل رہیں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑدیں کیونکہ بچہ اور نو جوان کے لیے بدلنے کے زیادہ امکانات ہیں _ حب کہ عمومى اخلاق اور معاشر ہے کى حالت بھى ٹھیک نہ ہو تو ممکن ہے تھوڑى سى غفلت سے آپ کا فرزند دلبند برائی اور بد بختى کے گڑھے میں جاگرے _ لہذا یاد رکھیں کہ پر ہنر علاج سے کہیں بہتر ہے _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں :

ہر چیز کے لیے ایک آفت ہے اور نیکى کے لیے آفت برا دوست ہے(9)

ایک صاحب لکھتے ہیں :

میرے ماں باپ مجھے دوستوں سے ملنے کى اجزات نہ دیتے تھے _ اگر دوست مجھے گھر پر ملنے آتے تو میںمجبور ہوتا کہ ایک دو باتیں کرکے انہیں رخصت کردوں _ ایک دوست ہمارے گھر کے قریب ہى رہتا ہے _ امّى ابو اسے جانتے تھے لیکن وہ ہمیں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کى اجازت نہ دیتے _ مجھے بہت خواہش ہوتى کہ دوستوں سے لموں ، ان کے ساتھ بیٹھوں اور ان سے بات چیت کروں لیکن کیا کرتا امّى ابو حائل تھے _ مجھے اس کا بہت غم تھا _ ایک روز میں نے ارادہ کرلیا کہ جیسے بھ ہو دوستوں سے ملنے ضرور جاؤں گا _ میں نے امّى سے کہا : میرا امتحان ہے اس کے لیے مجھے جانا ہے اجازت تو امتحان کے لیے لى لیکن اپنے دوست کے ہاں جا پہنچا _ اس دوست کا گھر کچھ دور تھا _ ایک دیگن پر بیٹھا اور اس کے ہاں چلا گیا _ وہاں اور دوست بھى تھے _ دن ان کے ساتھ خوب خوش گپیوں میں گزرا _ شام واپس آیا تو امّى نے کہا بہت دیر سے آئے ہو پھر _ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے مجھے اور کئی جھوٹ بولنا پڑے _

آج سو چتا ہوں کہ کیا امّى جان کو معلوم نہ تھا کہ دوست اور رفیق کى کسى بچے کو کتنى ضرورت ہوتى ہے _ انہوں نے مجھے اى قدر پابند کیوں کر رکھّا تھا _

ایک لڑکى لکھتى ہے :

ایک مرتبہ میں نے اپنى کچھ سہیلیوں کو گھر بلا یا _ اور میرے پاس جو پیسے گلّے میں جمع تھے _ وہ نکالے بھا گم بھاگ گئی اور ان کے لیے آئس کریم لائی _ امّ کہیں گئی ہوئی تھیں _ سہیلیاں آئس کریم کھا رہى تھیں او پر سے امى گھر میں داخل ہوئیں مجھے بہت خوف ہو ا خدا جائے امى کیا کہیں کیوں کہ وہ تو ہمیشہ مجھے سہیلیوں سے ملنے سے منع کرتى رہتى تھیں : انہیوں نے با لکل میرى عزت کا خیال نہ کیا اور میرى سہیلیوں سے کہنے لگیں تم نے صائمہ سے فضول خرچى کروائی ہے _ میرى استانى سے حاکر شکایت کے لہجے میں میرى سہیلیوں کے بارے میں کہا یہ ہمارے گھر آتى ہیں اور میرى بیٹى کو فضول خرچى پر مجبور کرتى ہیں _ کل میرى بیٹى سے آئس کریم کھا رہى تھیں _ سہیلیاں جو میرى ہم کلاس بھى تھں وہ کہنے لگیں _ آنٹى کل والى آئس کریم کے پیسے ہم دے دیتى ہیں _ مجھے اتنى شرم آئی دل چاہتا تھا زمین پھٹ جائے اور میں غرق ہو جاوں _ وہ دن اور آج کادن پھر میں سکول نہیں جاسکى _ سہیلیاں اگلى کلاسوں میں جاپہنچیں _ اور میں پشیمان پشیمان سى سہمى سہمى سى _ او اس اواس سى آج ان سے کہیں پیچھے رہ گئی ہوں _

 


1_ بحار ، ج 74، ص 177
2_ نہج البلاغہ ، ج 3، ص 153
3_ بحار، ج 74، ص 178
4_ بحار، ج 74، ص 178
5_ اصول کافى ، ج 2 ، ص 375
6_ غرر الحکم، ص 199:« أسعدُ الناسِ مَنْ خالط کِرامَ الناس»
7_ بحارالأنوار، ج 71، ص 199، باب مَنْ لا ینبغى مجالسته ...، ح 36:« إیّاک ومصاحبة الفُسّاقَ؛ فإنَّ الشرَّ بالشرِّ ملحقٌ»
8_ الکافى، ج 2، ص 376، بابُ مجالسة أهل المعاصی، ح 7
9_ غرر الحکم، ص 542:« لکلّ شی‏ء آفةٌ وآفةُ الخیرِ قرینُ السوء»