پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

نومولود اور دنى تربيت

نومولود اور دنى تربیت

یہ صحیح ہے کہ نو مولود الفاظ او رجملے نہیں سمجھتا _ مناظر اور شکلوں کى خصوصیات کو پہچان نہیں سکتا _ لیکن آوازوں کو سنتا ہے اور اس کے اعصاب اور ذہن اس سے متاثر ہوتے ہیں اسى طرح سے مناظر اورشکلوں کو دیکھتا ہے اور اس کے اعصاب اس سے بھى متاثر ہوتے ہیں _ لہذا اس بناپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دیکھى جانے والى اور سنى جانے والى چیزیں نو مولود پر اثر نہیں کرتیں اور وہ ان کے بارے میں بالک لاتعلق ہوتا ہے _ نومولود اگر چہ جملوں کے معانى نہیں سمجھتا لیکن یہ جملے اسکى حساس اور ظریف روح پر نقش پیدا کرتے ہیں _ بچہ رفتہ رفتہ ان جملوں سے آشنا ہوجاتا ہے اور یہى آشنائی ممکن ہے اس کے آئندہ کے لیے مؤثر ہو _ جس لفظ سے ہم زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس کے معنى کو بہتر سمجھتے ہیں _ نا آشنا افراد کى نسبت آشنا افراد کو ہم زیادہ پسند کرتے ہیں ایک بچہ ہے کہ جو دینى ماحول میں پرورش پاتا ہے ، سینکڑوں مرتبہ اس نے تلاوت قرآن کى دلربا آواز سنى ہے ،اللہ کا خوبصورت لفط اس کے کالوں سے ٹکرایا ہے اور اس نے اپنى آنکھوں سے بارہا ماں باپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے _ دوسرى طرف ایک نومولود ہے کہ اس نے برے اور بے دین ، ماحول میں پرورش پائی ہے ، اس کے کانوں نے غلیظ اور گندے سنے ہیں اور اس کى آنکھیں فحش مناظر دیکھنے کى عادى ہوگئی ہیں یہ دونوں بچے ایک جیسے نہیں ہیں _

سمجھدار اورذمہ دار ماں با پ اپنے بچوں کو تربیت کے لیے کسى موقع کو ضائع نہیں کرتے یہاں تک کہ اچھى آوازیں اور اچھے مناظر سے انہیں مانوس کرنے سے بھى غفلت نہیں کرتے_

رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھى اس حساس تربیتى نقطے کو نظر انداز نہیں کیا اور اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ

''جو نہى بچہ دنیا میں آئے اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں

اقامت کہیں''_

حضرت على علیہ السلام نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کى ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

جس کے ہاں بھى بچہ ہوا سے چاہیے کہ اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہے تا کہ وہ شر شیطان سے محفوظ رہے _ آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین(ع) کے بارے میں بھى اسى حکم پر عمل کرنے کے لیے کہا _ علاوہ ازیں حکم دیا کہ ان کے کانوں میں سورہ حمد ، آیة الکرسى ، سورہ حشر کى آخرى آیات ، سورہ اخلاق ، سورہ والناس اور سورہ و الفلق پڑھى جائیں_ (1)

بعض احادیث میں آیا ہے :

خود رسول اللہ نے امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) کے کان میں اذان و اقامت کہى _

ہاں

رسول اسلام جانتے تھے کہ نو مولود اذان، اقامت اور قرآنى الفاظ کے معانى نہیں سمجھتا لیکن یہى الفاظ بچے کے ظریف اور لطیف اعصاب پر جو اثر مرتب کرتے ہیں آپ (ص) نے اسے نظر انداز نہیں کیا _ رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم کى اس نکتے کى طرف توجہ تھى کہ یہ جملے بچے کى روح اور نفسیات پر نقش مرتب کرتے ہیں اور اسے ان سے مانوس کرتے ہیں _ اور الفاظ سے یہ مانوسیت بے اثر نہیں رہے گى _ علاوہ ازیں ممکن ہے کہ اس تاکیدى حکم کے لیے رسول (ع) کے پیش نظر کوئی اور بات ہو _ شاید وہ چاہتے ہوں کہ ماں باپ کو متوجہ کریں کہ بچے کى تعلیم و تربیت کے بارے میں سہل انگارى درست نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ذریعے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے جب ایک با شعور مربى نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہتا ہے تو گویا اس کے مستقبل کے لئے واضح طور پر اعلان کرتا ہے اور اپنے پیارے بچے کو خداپرستوں کے گروہ سے ملحق کردیتا ہے _

بچے پرہونے والے اثر کا تعلق صرف سماعت سے متعلق نہیں ہے بلکہ مجموعى طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جو چیز بھى بچے کے حواس، ذہن اور اعصاب پر اثر اندازہوتى ہے اس کى آئندہ کى زندگى سے لاتعلق نہیں ہوتى مثلاً جو نو مولود کوئی بے حیائی کا کام دیکھتا ہے اگر چہ اسے سمجھ نہیں پاتا _ لیکن اس کى روح اور نفسیات پر اس برے کام کا اثر ہوتا ہے اور یہى ایک چھوٹا کام ممکن ہے اس کے انحراف کى بنیاد بن جائے _ اسى لیے پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے:

''گہوراہ میں موجود بچہ اگر دیکھ رہا ہو تو مرد کو نہیں چاہیے کہ اپنى بیوى سے مباشرت کرے '' _ (2)

 

1_ مستدرک ج 2 ص 619
2_ مستدرک ج 2 ص 546