پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

محبّت

محبّت

انسان محبت کا پیا سا ہے محبّت دلوں کو زندگى بخشتى ہے _ جو اپنے آپ کو پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کریں ، محبوبیت کا یہ احساس اس کے دل کو شاد کردیتا ہے _ جسے یہ معلوم ہو کہ اسے کوئی بھى پسند نہیں کرتا وہ اس پر آشوب زندگى میں اپنے آپ کو تنہا اور بے کس سمجھتا ہے _ اس وجہ سے وہ ہمیشہ افسردہ اور پر مدہ رہتا ہے_ بچہ بھى ایک چھوٹا سا انسان ہے اور اسے بڑوں کى نسبت محبت کى بھى ضرورت ہوتى ہے _ بچہ یہ نہیں سمجھتا کہ محل میں زندگى گزار رہا ہے یا جھونپٹرى میں _ البتہ یہ خوب سمجھتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کرتے ہیں یا نہیں _ اس احساس محبت سے وہ آرام و سکون کے ساتھ اپنى نشوو نما کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے اور انسانیت کى بلند صفات حاصل کرسکتا ہے _ اچھے اخلاق کا سرچشمہ محبت ہے _ محبّت کے پر تومیں بچے کے جذبات اور احساسات کو اچھے طریقے سے پروان چڑ ھا یا جا سکتا ہے اور اسے ایک اچھا انسان بنا یا جاسکتا ہے

جس بچے کو بھر پور محبت ملى ہو اس کى روح شاد اور دل پر نشاط ہو تا ہے _ وہ احساس محرومى کا شکار ہو کر بڑاردّ عمل ظاہر نہیں کرتا _ خوش بین ، خوش مزاج اور پر اعتماد ہو تا ہے _ اس فطرى نشوونما کى وجہ سے وہ نفسیاتى مشکلات کا شکار نہیں ہو تا _ خیر خواہ اور انسان دوست بن جاتا ہے _ کیونکہ وہ محبت کے میٹھے چشمے سے سیراب ہو ا ہوتا ہے لہذا چاہتا ہے کہ دوسروں کوبھى اس سے سیراب کرے _ وہ لوگوں سے ایسا سلوک کرتا ہے جیسااس سے کیا جاتا ہے _ جو بچہ پیار محبت کے ماحول میں پرورش پاتا ہے وہ دوران بلوغت پیش آنے والى مشکلات اور جسمانى و نفسیاتى تبدیلیوں کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتا ہے _

جس لڑکى کو ماں باپ سے محبت ملى ہوا ور اس کا گھریلو حول محبت سے معمور ہو وہ جوانى میں بے کسى اور محرومى کا احساس نہیں کرتى _ وہ کسى خود غرض لڑکے کے چند محبت آمیز جملے سن کر اپنے تئیں اس کے سپرد کرکے اپنا مستقبل تباہ نہیں کردیتى _ جس نوجوان نے پیار اور محبت کے ماحول میں پرورش پائی ہو وہ احساس محرومى کا شکار نہیں ہوتا کہ اسے برائیوں ، منشیات اور شراب کے مراکز پناہ کى ضرورت پڑے _

نفسیاتى نکتہ نظر سے بھى یہ بات ثابت ہے کہ وہ بچے جنہیں خوب محبت ملى ہو ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوشمند اور صحیح و سالم ہوتے ہیں جو پرورش گاہوں میں پلے ہوں _ اگر چہ پرورش گاہوں میں پلنے والے بچے غذا اور حفظان صحت کے اعتبار سے اچھے ہوں _

مگر جس نے جذبات سے عارى سرد ماحول میں پرورش پائی ہو اور ماں باپ کى مہر و محبت نہ دیکھى ہو اس شخص کى کیفیت اطمینان بخش اور فطرى نہیں ہوگى _ جس شخص نے محبت کا ذائقہ نہ چکھا ہو وہ اسے دوسروں پر کیسے نثار کرسکتاہے _ ایسے محروم انسان سے انسان دوستى کى توقع نہیں کى جا سکتى _

جو بچہ ماں باپ کى محبت سے محروم رہا ہو یا صحیح طریقے سے اس سے بہرہ مند نہ ہوا ہو وہ اپنے اندر احساس محرومى و کمترى کرتا ہے اور اس میں ہر طرح کے انحراف کى گنجائشے ہوتى ہے ، تندخوئی ، غصّہ، ڈھٹائی ، بدبینى ، جھوٹ ، حساسیت ، ناامیدی، افسردگى ، گوشہ نشینی، نام آہنگى کى زیادہ تر وجہ محبت سے محروى ہوتى ہے _

جو محبت سے محروم رہا ہو ، ہوسکتا ہے ، وہ چورى اور قتل میں ملوث ہوجائے تا کہ وہ اس معاشرے سے انتقام لے جو اسے پسند نہیں کرتا یہاں تک ممکن ہے وہ خودکشى کرلے تا کہ وہ وحشت اور تنہائی سے نجات حاصل کرے _ بہت سے چور اور مجروم ایسى ہى محرومیت کا شکار اور دلگرفتہ ہوتے ہیں _ آپ اخبارات اور رسائل کو دیکھ سکتے ہیں اور ایسے لوگوں کا حال پڑھ سکتے ہیں اور اس سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں _

انجمن ملى حمایت بچگان کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر حسن احدى نے پانچ سو مجرموں پر ایک تحقیق کى ہے _ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے افراد نے پہلا جرم 12 سے 13 سال کى عمر کے دوران کیا ہے اور اس کى وجہ خاندان میں محبت کى کمى سے مربوط ہے ...

انجمن ملى حمایت بچگان کے نفسیاتى دیکھ بھال کے شعبے کے سربراہ اور معروف ماہر نفسیات و عمرانیات کہتے ہیں :

''بہت سارے نفسیاتى مسائل کو بنیاد بچپن میں پڑى ہوتى ہے _ یہاں تک کہ سمجھدار ترین بچے کو جو مسئلہ پریشان کرتا ہے وہ اس کے جذبات کى تسکین کا معاملہ ہے '' _(1)

... اپنے خط میں لکھتا ہے :

ایک چھوتے سے قصبے میں، ایک غریب سے گھرانے میں میں نے آنکھ کھولى _ میرے ماں باپ کے لیے میرى اور میرى دو بہنوں کى پرورش مشکل تھى _ میرى دادى مجھے اپنے گھرلے گئی _ ان کى حالت ہم سے بہتر تھى _ وہ مجھ سے بہت محبت کرتى تھى _ میرے لیے اچھے اچھے کپڑے اور دیگر ضرورى چیزیں مہیا کرتى تھى _ لیکن یہ رنگارنگ دنیا میرى اس تشنگى کو دور نہ کرسکى جو ماں باپ سے دورى کى وجہ سے محسوس ہوتى تھے مجھے یوں لگتا جیسے مجھ سے کچھ کھو گیا ہو _ کبھى کبھى دوسروں کى نظروں سے اوجھل میں پہروں روتا رہتا _ میں تیسرى جماعت میں پڑھتا تھا _ ایک مرتبہ میرا باپ مجھے ملنے آیا _ اس نے مجھے اپنے گھر جانے کے لیے کہا _ میں خوش ہوکر چلنے کو تیار ہوگیا _ مجھے یوں لگا جیسے میرا سالہا سال کا غم پل بھر میں ختم ہوگیا ہے _ میں ہر ماں باپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ حالات کچھ بھى ہوں اپنے بچوں کو اپنے آپ سے جدا نہ کریں _ انہیں اس امر کى طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ ماں باپ سے دورى اور ان کى محبت سے محرومى بچوں کے لیے نہایت سنگین اور تکلیف وہ ہے اس کى جگہ کوئی چیز بھى پر نہیں کرسکتى _

... اپنے ایک خط میں لکھتا ہے _

میں ماں باپ کے پیار سے محروم تھا _ اس لیے میں ایک دل گرفتہ اور حاسد انسان ہوں _ ڈرپوک بھى ہوں اور غصیلا بھى _ بچپن میں میں اسکول سے بھاگ جایا کرتا تھا _ چھٹى جماعت مشکل سے پڑھ پایا ہوں _

دین مقدس اسلام کہ جس کى تربیتى مسائل کى جانب پورى توجہ ہے ، اس نے محبت کے بارے میں بہت تاکید کى ہے _ قرآن او رحدیث میں اس ضمن میں بہت کچھ موجود ہے _ نمونے کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

انسان کو اپنى اولاد سے جو شدید محبت ہوتى ہے اس کے باعث اللہ اپنے اس بندے کو مشمول رحمت قرار دے گا _ (2)

خداوند تعالی نے حضرت موسی علیه السلام ہے فرمایا :

بچوں سے محبت بہترین عمل ہے کیونکہ ان کى خلقت کى بنیاد خداپرستى اور توحید ہے _ اگر وہ بچپن میں ہى مرجائیں تو بہشت میں داخل ہوں گے _(3)

پیغمبر اکر م صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

بچوں سے پیار کرو اور ان پر مہربانى کرو _ (4)

رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اپنے بچوں کو خوب چوموکیونکہ ہر بوسے کے بارے میں اللہ جنّت میں تمہارا ایک درجہ بڑھادے گا _ (5)

ایک شخص نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا :

میں نے آج تک کسى بچے کا بوسہ نہیں لیا _

جب وہ شخص چلا گیا تو رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

میرى نظر میں یہ شخص دوزخى ہے _ (6)

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جو ، بچوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے _ (7)

حضرت على علیہ السلام نے وصیت کرتے وقت فرمایا:

بچوں پر مہربانى کرو اور بڑوں کا احترام کرو _(8)

1_ روزنامہ کیہا ن _ شمارہ 10042
2_ وسائل ، ج 15 ، ص 98
3_ مستدرک ، ج 2، ص 615
4_ بحار، ج 104، ص 92
5_ بحار، ج104، ص 92

6_ بحار، ج 104، ص 99
7_ بحار ، ج 75، ص 137
8_ بحار، ج 175، ص 136