پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اظہار محبت

اظہار محبت

اولاد کى محبت ایک فطرى امر ہے _ شاید بہت کم ماں باپ ایسے ملیں جو اپنى اولاد کو دل سے عزیز رکھتے ہوں_ البتہ نرى یہ دلى محبت بچے کى خواہشات کى تکمیل کے لیے کافى نہیں ہے _ بچہ اس محبت کا ضرورت مند ہے جو ماں باپ کے طرز عمل سے ظاہر ہو _ بچے سے پیار کیا جائے _ اس کا بوسہ لیا جائے ، اسے گود میں اٹھایا جائے ، اس سے مسکراکر پیش آیا جائے ، یہاں تک کہ ماں باپ چب اسے پیار بھرى لوریاں سناتے ہیں تو وہ احساس محبت کرتا ہے _ بچے کا دل چاہتا ہے کہ کبھى ماں باپ سے کھیلے اور اٹھکیلیاں کرے _ اسے وہ محبت کى ایک علامت سمجھتا ہے _ ان کے غصے، جھگڑے اور سختى کو بے مہرى کى دلیل سمجھتا ہے _ جب ماں باپ بچے کى طرف دیکھتے ہیں اور اس سے بات کرتے ہیں تو وہ اندازہ لگالیتا ہے کہ اس سے پیارکرتے ہیں یا نہیں _

بعض ماں باپ ایسے بھى ہیں کہ بچہ چھوٹا ہو تواس سے اظہار محبت کرتے ہیں _ لیکن جب بڑا ہوجائے تواظہار محبت تدریجا کم کردیتے ہیں اور جب وہ نوجوان اور جوان ہوجاتا ہے تو اسے بالکل ترک کردیتے ہیں اور کہتے ہیں اب بڑا ہوگیا ہے او راظہار محبت سے بگڑجائے گا اور ویسے بھى بڑا ہو کر کسى محبت اور نوازش کى ضرورت نہیں ہوتى _ لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ بیٹا تمام عمر محبت کا محتاج رہتا ہے _ ماں باپ کى محبت سے خوش ہوتا ہے اور ان کى بے مہرى پر افسردہ ہوجاتا ہے _خاص طور پر نوجوانى اور جوانى کى عمر کہ جو نفسیاتى اعتبار سے ایک ہیجانى دورہوتا ہے اس میں اسے ہر زمانے سے زیادہ ماں باپ کى ہمدردى مہربانی اور دلجوئی کى احتیاج ہوتى ہے _ یہ بے مہریوں کا نتیجہ ہے کہ بہت سے جوان خودکشى کر لیتے ہیں _ یا اپنے گھر ، شہر اور ملک سے بھاگ جاتے ہیں _ اس مقام پر غیر مناسب نہ ہوگا کہ ایک سولہ سالہ لڑکى کى ڈائرى سے چند یادداشتیں آپ کى توجہ کے لیے پیش کى جائیں _ لڑکى کا نام نازنین ہے لکھتى ہے _

واقعاً جب میں اپنى امى اور ابو کے بارے سوچتى ہوں تو ہنستى ہوں اگر چہ ان کى کیفیت نہ صرف کہ ہنسنے کے لائق نہیں بلکہ بہت ہى غم انگیز ہے _ ماں تو اپنى ہى دنیا میں اور اپنى زبان چلانے میں اور نہ جانے اپنے ہى کاموں میں سرگرم رہتی_ اس کى کل خواہش یہى ہے کہ خالہ و رزى جان اور حمیدہ بیگم کے ساتھ بیٹھى رہے اور گھنٹوں باتیں کرتى رہے جب وہ ان سے باتین کررہى ہو تو اگر میں یا میرے بھائی بہنوں کو اس سے کوئی کام پڑجائے تو گویا اس کى گھڑیاں بہت تلخ ہوجاتى ہیں _ اسے معلوم نہیں کہ جب وہ عورتوں کے ساتھ بیٹھى دوسروں کى غیبت کررہى ہوتى ہے _ کبھى کسى کے جوتے کى بات ہے اور کبھى کسى کى پگڑى کى _ اس وقت میرے دل کى حالت ایک ایسے بے آشیاں پرندے کى سى ہوتى ہے کہ جو سرگرداں او رنالاں ہو اور درودیوار سے ٹکرار ہا ہوتا کہ اسے بھى بات کرنے کے لیے کوئی ساتھى مل جائے _ اس سے اپنا دردبیان کرے اور کچھ تسلى پائے _ کوئی ایسا ساتھى ہو کہ جو غلطیوں اور کوتاہیوں پر کبھى برا بھلا نہ کہے اور بے عزتى نہ کرے _ امى اور ابوتوآپس میں تو تکرار کرتے رہتے ہیں یا اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں _ یا پھر گھر میں نہیں ہوتے _ میں بھى صبح سے شام تک مدد سے میں ہوں اور بہت دن گزر گئے کہ میں نے ابوکو نہیں دیکھا کہ انہیں سلام کروں _ میرى ادبیات کى استاد ایک ماہر نفسیات ہے آج اس نے کلام میں بیٹى کى زندگى پر باپ کے اثر پر بات کى _ اس کے باتیں کیسے میرے دل میں بیٹھ گئیں _ ہم سب کے دل میں بیٹھ گئیں _ اس نے سچ کہا آج جب کہ میں سب لڑکیوں کى نظروں میں بڑى ہوگئی ہوں ہر زمانے سے زیادہ احساس کرتى ہوں کہ مجھے اپنے باپ کى راہنمائی کى ضرورت ہے ایک فہمیدہ اور مہربان شخص کى توانائی کى احتیاج ہے _

میں سچ کہتى ہوں :

مجھے اپنے باپ کى عمدہ نوازشات کى چند سال پہلے کى نسبت زیادہ ضرورت ہے _ میرا دل چاہتا ہے کہ کبھى وہ مجھے اپنے زانو پر بٹھالے اور مجھے کہانى سنائے _ مجھے اجازت دے کہ میں ہر چیز کے بارے میں اس سے سوال کروں _ مجھے اجازت دے کہ میرے دل کى گہرائیوں میں اس کے بارے میں جو احساس ہے اور ارادہ ہے اس کا اظہار کروں لیکن ہائے افسوس کہ وہ کس قدر سرد اور ترش رد انسان ہے _ اصلاً اسے اس کا خیال بھى نہیں آتا کہ میں اس کى سولہ سالہ بیٹى چھ سال کى عمر سے زیادہ اس کى دلگرم اور خوبصورت مہربانیوں کى احتیاج مند ہوں _ میرے دل میں کتنى باتیں ہیں جو میں اس سے کہنا چاہتى ہوں _ میرے ایسے غم ہیں کہ ایک دانا شخص بہتر سمجھ سکتا ہے لیکن وہ مجھ سے اور ہم سب سے یوں دور ہے جیسے ہم اس کى زندگى میں کچھ بھى نہیں گھر میں اگر کوئی مہمان نہ ہو تو پھر وہ کتاب پڑھتا ہے _ اخبار کا مطالعہ کرتا ہے یا سردرد اور دل درد لے کر بیٹھ جاتا ہے اور پیار محبت کى کوئی بات نہیں کرتا _ یہ باپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ جب وہ خاندان کے لیے نان و نفقہ فراہم کردیں تو اس کے بعد ان کى کوئی ذمہ دارى نہیں _ یہ کیوں نہیں سمجھنا چاہتے کہ بیٹى اور بیٹا جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بالکل اسى طرح جیسے انہیں غذا کى زیادہ ضرورت ہوتى ہے انہیں زیادہ معقول اور بیشتر محبت اور توجہ کى بھى نیاز ہوتى ہے _ ماں باپ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنى 16 سالہ بیٹى سے کبھى محبت کا اظہار کیا یا کوئی پیار بھر اکلمہ کہہ دیا اس سے پندو نصیحت کے بغیر کوئی دوستانہ بات کردى تو ماں باپ کى شخصیت اور حیثیت مجروح ہوگى _ میرے دل میں بہت غصہ ہے _ میں بہت کمى کا احساس کرتى ہوں _ اگر چہ میرے خوبصورت گھر میں میرے لیے اچھا کمرہ ہے اچھے اسکول میں جاتى ہوں _ میرى وضع قطع اور لباس اچھا ہے ان سب چیزوں کے لیے میرے ابو پیسہ بھى دیتے ہیں اور آرام ہے خرچ بھى کرنے ہیں _ زحمت بھى اٹھاتے

ہیں _ لیکن وہ کام جس پر کچھ خرج نہیں ہوتا اور بہت ہى کم زحمت اٹھانا پڑتى ہے وہ نہیں کرتے _ وہ ہمارى طرف توجہ نہیں کرتے _(1)

بچے کى تربیت کے لیے بہترین جگہ ، بالخصوص زندگى کے ابتدائی دور میں گھر کا ماحول ہوتا ہے _ اس میں بچہ اپنے ماں باپ کى پورى توجہ ، نوازش اور محبت سے بہرہ مند ہوتا ہے _ ماں باپ کو یہ نصیحت کى جاتى ہے کہ حتى المقدور اپنے بچوں کو مراکز پرورش کے سپرد نہ کریں کیونکہ ہوسکتا ہے پرورش گاہ غذا اور حفظان صحت کا اعتبار سے گھر کى نسبت بہتر ہو لیکن بچے کے لیے ایک سرد اور بے مہر ماحول ہے _ پرورش گاہ اس بچے کے لیے زندان اور صحت افزا مقام پر جلا وطنى کے مانند ہے کہ جو ماں باپ کى توجہ اور محبت کا ضرورت مند ہے _ اچھى آب و ہوا اوراچھى غذا روحانى مسرت اور مہر و محبت کى جگہ نہیں لے سکتى _

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جب تم کسى کو پسند کرتے ہو تو اپنے محبت کا اظہار بھى کرو اظہار محبت سے صلح و صفائی وجود میں آتى ہے وہ تمہیں ایک دوسرے کے نزدیک کردیتى ہے _ (2)

رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح سویرے اپنى اولاد اور نواسوں سے پیار کیا کرتے تھے _(3)

 

1_ روزنامہ اطلاعات ، شمار 14113 ، خرداد ماہ ص 1358
2_ مستدرک ، ج 2 ، ص 67
3_ بحار، ج 104، ص 99