پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ماں كى نفسيّات كا جنين پراثر

ماں کى نفسیّات کا جنین پراثر

ماہرین کے در میان یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ کیا ماں کى نفسیاتى کیقیات جنیت کى روح پر اثر انداز ہوتى ہیں یا کہ نہیں ؟

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ماں اگر شدید خوف اور اضطراب سے دوچار ہوتو رحم مادر میںموجود بچے پر بھى اس کا اثر ہو گا او ر ممکن ہے کہ وہ بھى ڈرپوک بن جائے او راسى طرح ماں کا حسد اور کینہ بھى جنین کى روح پر اثر ڈالتا ہے اور ممکن ہے یہ دو صفتیں اس کى طرف منتقل ہو جائیں _ اس کے بر عکس خوش خلقى ، انسان دوستى ، ایمان ، شجاعت اور مہر و محبت کہ جو ماں مین موجود ہو بچہ ماں کا ایک حقیقى عضو ہو تا ہے لہذا جیسے ماں کى نفسیاتى کیفیات اور افکار اسکے اپنے جسم پر اثر انداز ہو تے ہیں اسى بات کو رد کردیا ہے اور اس امر کے غلط ہونے کوثابت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ دوران حمل ماں کے انکار اور اس کى نفسیاتى کیفیت ممکن نہیں ہے کہ مستقیما بچے کے اعصاب اور نظریات پر اثرانداز ہو _

ڈاکٹر جلالى لکھتے ہیں :

ماں او جنین کے در میان مستقیم ربط نہیںہے _ ماں اور بچے کے در میان رابط ناف کے ذریعے سے ہے اور اس ناف میں کو ئی اعصاب نہیں ہیں کہ جو سلسلہ اعصاب کو ہدایت کرے بلکہ بند ناف میں خون کى رگیں ہوت ہیں لہذا جیسا کہ گزشتہ لوگوں کو خیال رہا ہے کہ اعصاب اور ہیجانى کیفیت بچے پر اثر انداز ہوتى ہے ایسا نہیں ہوسکتا _(1)

البتہ حق اس دانشور کے ساتھ ہے اور یہ دعوى نہیں کیا جا سکتا کہ حاملہ عورت کے افکار اور نفسیاتى کیفیات بلا واسطہ بچے کى روح اور اعصاب پر اثر انداز ہوتى ہیں _ البتہ یہ بات بھى درست نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ ماں کے افکار اور جذبات بچے پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتے بالواسطہ طور پر بچے کے اخلاق اور نظریات پرانداز نہیں ہوتے _ اس بات کى وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل تین نکات کى طرف توجہ فرمائیں _

1_ انسان کى روح اور جسم ایک دوسرے سے مربوط اور واستہ ہے _ انسانى جسم کى بیمارى اور صحت ، اور اعصاب اور جسمانى قوى کى قوت اور کمزورى یہاں تک کہ بھوک اور سیرى انسان کے طرز تفکر اور اس کے اخلاق پر اثر انداز ہوتى ہے انسان کى اخلاقى شخصیت اس کے خاص مزاج اور اس کے اعصاب اور مغزى کى تعمیر کے انداز سے کسى حد تک وابستہ ہے _ روح سالم بدن سالم میں ہوتے ہے _ ہوسکتا ہے کہ کچھ غذا کى کمى یا فقدان اعصاب اور مغز کو برے اخلاق اور ہیجانى کیفیت کے ظہور پر ابھارے_

2_ جنین اسى غذا سے استفادہ کرتاہے کہ جو ماں کے اندرونى نظام میں تیارہوکر اس تک پہنچتى ہے _ بچہ جب تک رحم مادر میں زندگى گزارتا ہے غذا کے اعتبار سے ماں کے تابع ہوتا ہے _ ماں کى غذا کى کیفیت بچے کى جسمانى اور نفسیاتى پرورش پر بھى اثر انداز ہوتى ہے _

ڈاکٹر جلالى لکھتے ہیں:

جو چیز بھى ماں کى سلامتى کے لیے مؤثر ہے وہى جنین کى سلامتى کے لیے مؤثر ہے اگر ماں کى غذا میں کیلشیم کى کمى ہوگى یہ تو کمى بچے کى ہڈیوں اور دانتوں کى تعمیر پر اثر انداز ہوگى _(2)

 

3_ یہ بات یقینى طور پر ثابت ہوچکى ہے کہ انسان کا شدید اضطراب اور ہیجان اس کے سارے بدن بشمول اس کے نظام ہضم کے اثر انداز ہوتا ہے _ رنج و غم کى زیادتى یا خوف کى شدت کھانے کى طلب کو کم کردتى ہے اور غذا صحیح طور پر ہضم نہیں ہوتى _ نظام ہضم خراب ہوجاتا ہے ، منظم اعصاب بگڑجاتا ہے اور غدودوں کے معین اور طبعى نظام میں خلل واقع ہوجاتا ہے _

ان تین مقدمات کى روشنى میں یہ کہا جا سکتا ہے کہا ماں کے افکار اورروحانى کیفیات اگر مستقیماً بچے کے اعصاب اور مغز کى طرف مننتقل نہیں ہوتیں تا ہم ان امور کا تعلق ماں کے نظام ہضم سے ہے اور بچے کى خوراک کا تعلق ماں ہى کے نظام ہضم اورغذائی کیفیت سے ہے اور یہ کیفیت بچے کى روح اور مستقبل کى شخصیت پر انداز ہوتى ہے اس لحاظ سے یہ قطعى طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ماں کى نفسیاتى کیفیات اور افکار بدون شک بچے کى روح نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کى تعمیر شخصیت میں مؤثر ہیں _

ماں کا شدید غصہ یا اضطراب یا شدید خوف اس کے عمومى مزاج اور نظام ہضم کو دگرگوں کردیتا ہے اس کے اعصاب اس کے باعث خلل کا شکار ہوجاتے ہیں _ یہ غیر معمولى کیفیت جیسے ماں کےجسم وجاں کے لینے باعث ضرر ہے اسى طرح کے رحم میں موجود بچے کى غذائی کیفیت کے لیے خرابى کا سبب ہے _

ممکن ہے اس صورت میں بچے کے اعصاب اور مغز ایک ایسى نفسیاتى بیمارى میں مبتلا ہوجائیں کہ جو بعد میں ظاہر ہو _

ڈاکٹر جلالى لکھتے ہیں :

ماں کو پیش آنے والے شدید ہیجانى کیفیات اور ناراحت کردینے والے امور مسلماً بچے کے مزاج اور رشد کے لیے باعث ضررہیں_ چونکہ اس طرح کى کیفیات نظام کو خراب کردتى ہیں اور غیر طبیعى غدود پیدا ہوجاتے ہیں _ اس کے باعث نظام ہضم اپنا کا م صحیح طور پر انجام نہیں دے سکتا _ شاید یہى ایک وجہ ہو کہ بچہ جو اعصاب رکھتا ہے اور بہت سى نفسیاتى بیماریاں اس میں پیدا ہوسکتى ہیں انہى ہیجانی کیفیات کى وجہ سے ممکن ہے ایام حمل ہى میں بچہ ضائع ہوجائے _(3)

ایک حاملہ خاتون کہ جو جسم اور روح کے اعتبار سے بالکل سکون میں ہو _ خوش و خرم ، با ایمان ہو ، انسان دوست ہو ، مہر و محبت سے بسر کرنے والى ہو ، سالم جسم اور پاک روح کى حامل ہو تو اس کے رحم میں زندگى گزارنے والا بچہ بھى جسم و جان کے اعتبار سے پر سکون ہوگا _ ایسا پر امن اور سالم ماحول بچے کى پرورش ، جسمانى نشو و نما اور روحانى شخصیت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوگا ، اس کے برعکس ایک بے ایمان ، حاسد ، کینہ پرور ، غصیلى ، دڑپوک ، پریشان حال اور نفسیاتى مریض ماں بچے کے نظام غذاکو تباہ کردے گى ، اس کى روحانى آرام کو ختم کردے گى ، اس کے لیے برے اخلاق اور نفسیاتى بیماریوں کے لیے فضا سازگار بتادے گى _

اس ضمن میں

''ماہرین نفسیات نے یہ بات ثابت کردى ہے کہ نفسیاتى امراض میں مبتلا 66 فیصد بچے یہ بیمارى ماں سے وراثت میں پاتے ہیں چنانچہ اگر ایک ماں صحیح و سالم ہو تو اس کا بچہ بھى ایک صحیح و سالم نظام اعصاب کا حامل ہوگا _ اگر کوئی عورت چاہے کہ اس کا بچہ صحیح و سالم، شاداب اور عقلى قوتوں کے اعبار سے بے نقص ہو تو اسے چاہیے کہ بچے کى ولادت سے پہلے اپنى سلامتى کے بارے میں فکر کرے _ (4) ''ماحول کے عوامل بچے کے جسمانى او رنفسیاتى رشد و تکامل پر اثر انداز ہوتے ہیں '' _ (5)

1_ روان شناسى کودک ص 188_
2_ روان شناسى کودک ص 422_
3_ روان شناسى کودک ص 223_
4_ اطلاعات ، شمارہ 10355، کودک ج 1 ص 119_
5_ بیوگرافى پیش از تولد ص 125