پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

خوف

خوف

خوف سب میں پائی جانے والى ایک صفت ہے _ تھوڑا یا زیادہ سب لوگوں میں ہوتا ہے _ اجمالى طور پر خوف انسان کى حفاظت کے لیے ضرورى ہے اور اس طرح سے ہونا کوئی بڑى چیز بھى نہیں ہے _ جس میں بالکل ہى خوف نہ ہو وہ انسان معمول کے مطابق نہیں ہے بلکہ بیمار اور ناقص ہے _ یہ خوف ہے جس کى وجہ سے انسان خطرناک حوادث سے بھاگتا ہے اور اپنے آپ کو موت سے بچاتا ہے _ لہذا خوف اللہ کى عظیم نعمتوں میں سے ہے کہ جو خالق کائنات نے انسان کے وجود میں ودیعت کى ہیں اور اس میں مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں _ لیکن یہ عظیم نعمت دیگر تما م نعمتوں کى طرح اس صورت میں مفید ہوگى کہ جب انسان اس سے صحیح طور پر استفادہ کرے _ اگر وہ اپنے صحیح مقام کے برخلاف استعمال ہوئی تونہ صرف یہ کہ مفید نہیں ہے بلکہ ممکن ہے برے نتائج کى حامل بھى ہو _ خوف کے مواقع کو مجموعى طور پر 2 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے _

پہلا _ خیالى ، بے موقع اور غیر عقلى خوف

دوسرا _ معقول ، درست اور بجا خوف
غیر عاقلانہ خوف

پہلى قسم کا غیر عاقلانہ خوف عموماً زیادہ ہوتا ہے _ جیسے جن اور بھوٹ سے ڈرنا تاریکى سے خوف کھانا ، بے ضرر حیوانات سے ڈرنا، بلى ، چوہے ، لال بیگ، مینڈک، اونٹ گھوڑے اور دیگر ایسے جانوروں سے ڈرنا _ چورسے ڈرنا ، مردے ، قبرستان ، قر اور کفن سے ڈرنا ، ڈاکٹر ، ٹیکے اور دوا سے خوف کھانا، دانتوںکے ڈاکٹر سے ڈرنا ، ریل گارى کى آوازیا بادل کے گر جنے اور بجلى کے کڑکنے سے خوف کھانا، اکیلے سونے سے ڈرنا ، امتحان دینے اور سبق سنانے سے ڈرنا، بیمارى سے خوف کھانا، موت سے ڈرنا اور ایسے ہى دیگر دسیوں قسم کے خوف کہ جو بالکل بے موقع ہیں اور ان کى بالکل کوئی عقلى بنیاد نہیں ہے _ ایسے خوف کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ایسے ہى خوف ہوتے ہیں کہ جو بچے کو دائمى رنج و عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں _ یہاں تک کہ وہ سکھ کى نیند سے بھى محروم ہوجاتا ہے اور نیند میں وحشت ناک قسم کے خواب دیکھتا ہے ور چیختا چلاتا ہے _ بے جاف خوف و اضطراب ایک نفسیاتى بیمارى ہے جو بچے کى آئندہ زندگى پر بھى برے اثرات مرتب کرے گى _ ڈرپوک آدمى میں جرات نہیں ہوتى کہ وہ کوئی بڑا قدم اٹھائے ہمیشہ اضطراب کے عالم میں رہے گا اور اس کے دل میں ہمیشہ گرہ سى رہے گى ، ملنے جلنے سے کترائے گا، پریشان اور افسردہ رہے گا _ اجتماع سے بھاگے گا اور اپنى ذات میں گم ہوجائے گا _ اکثر نفسیاتى بیماریاں ایسے ہى بے جا خوف سے وجود میں آتى ہیں _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

خوف بھى ایک مصیبت ہے _ (1)

لہذا ایک اچھا مربى اس امر سے لا تعلق نہیں رہ سکتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے بچے کے بے جا خوف کو دور کرے _ اس موقع پر مربّى حضرات کى خدمت میں ہم چند گزارشات پیش کرتے ہیں _

1_ خوف کو دور کرنے سے کہیں آسان ہے کہ اسے پہلے سے روکا جائے _ کوشش کریں کہ خوف کے علل اور عوامل حتى المقدور پیدا ہى نہ ہوں تا کہ آپ کا بچہ ڈرپوک نہ بنے ماہرین نفسیات کا نظریہ ہے کہ ریل گاڑى کى آواز، بادل اور بجلى کى صدا، خطرے کے آلارم کى آواز اور بچے کے سربانے شور مچانا بچوں کے لیے خوف کے ابتدائی عومل میں سے ہیں _ جہاں تک ہوسکے کوشش کریں کہ بچے اس طرح کى چیزوں سے بچیں اگر چہ نو مولود کیوں نہ ہوں ان کے سرہانے شور نہ مچائیں _ ان کى طرف غصے سے نہ دیکھیں _

2_ دڑمتعدى بیماریوں میں ہے _ بچہ ذاتى طور پر ڈرپوک نہیں ہوتا ماں باپ اور اردگرد والے لوگ اگر دڑپوک ہوں تو بچہ دڑپوک بن جاتا ہے _ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے ڈرپوک نہ ہوں تو پہلے اپنے دڑ کا علاج کریں اور غیر عقلى عوامل پر اظہار خوف اور جزع و فزع نہ کریں تا کہ بچے بھى ڈرپوک نہ ہوں _

3_ پولیس اور جرائم سے متعلقہ فلموں کو دیکھنا ، ٹیلویں کے بعض پروگراموں کو دیکھنا ، ریڈیوکى ہیجان آور داستانوں کا سننا ، ہیجان انگیز قصوں او رداستانوں کا پڑھنا اور سننا، یہاں تک کہ مجلوں اور روزناموں میں چھپنے والے بعض اوقات کا پڑھنا بچے کے لیے ضرر رساں ہے بچے کے نازک اور ظریف اعصاب پر ان کا اثر ہوتا ہے اور ان سے بچے کے دل میں ایک خوف ، پریشانى اور گرہ سى پیدا ہوجاتى ہے _ جہاں تک ممکن ہو سکے بچے کو ان چیزوں سے دوررکھیں _ جن اور پرى کے بارے میں بات تک نہ کریں _ اگر انہوں نے کسى اور سے سن لیا ہو تو انہیں سمجھائیں کہ جن اگر موجود بھى ہو اجیسا کہ قرآن کریم نے ان کے وجود کے بارے میں تصریح بھى کى ہے تو وہ بھى انسانوں کى طرح سے ہیں اور زندگى گزارتے ہیں اور انسان کے لیے ان کا کوئی نقصان نہیں اور ان سے خوف کى کوئی وجہ نہیں ہے _

4_ بچے کى تربیت کے لیے اس ڈرانے اور سختى سے پرہیز کریں _ بچوں کو بھوت ، دیو، لولو، و غیرہ سے نہ ڈرائیں _ ایسے خوف ہوسکتا ہے کہ وقتى طور پر بچے پر اثر ڈالیں لیکن یقیناً ان سے بچے میں برے اثرات باقى رہ جائیں گے کہ جن کا نقصان فائدے سے زیادہ ہے _ اس طرح سے آپ کو ڈرپوک اور کمزور بنادیں گے بچوں کو تنبیہہ کے لیے تاریک اور دہشت آور جگہوں پر بند نہ کریں _ بچوں کو کتّے بلّى سے نہ ڈرائیں _ بعض بیوقوف ماؤں کى غلط عادت ہے کہ بچے کو چپ کروانے کے لیے در واز ے اور دیوار کے پیچھے سے میاؤ ں میاؤں کرتى ہیںکرتى ہیں اور دروازے اور دیوار پرہاتھ مارتى ہیں اور اس طرح سے اسے طرح سے اسے ڈراتى ہیں تا کہ وہ چپ کرجائے _ ان نادان ماؤں کو خبر نہیں کہ وہ اس غلط عادت سے کتنے بڑے جرم کى مرتکب ہوتى ہیں اور بچے کى حساس روح کو پریشان کردیتى ہیں اور اس کى آئندہ نفسیاتى زندگى و تباہ کردیتى ہیں ... اپنى یاد داشتوں میں لکھتا ہے :

ہمارى دادى امّاں ہمیں شرارتوں سے روکنے کے لیے دوسرے کمر ے میں چلى اورایک خاص آواز نکال کرکہتى ، میں دیو ہوں ، میں آگیا ہوں کہ تمہیں کھا جاؤں _ ہم ڈر جاتے اور چپ کرجاتے اورسمجھتے کہ یہ حقیقت ہے _ اسى وجہ سے میں ایک ڈر پوک شخص ہوں اور اکیلا گھر ے سے باہر نہیں رہ سکتا _ اب حب کہ بڑا ہ گیا ہوں وہى خوف ایک اضطراب اور دل گرفتگى کى صورت اختیار کر چکا ہے ..._اپنے ایک خط میں لکھتى ہے _

میں پانچ سال کى تھى اپنى خالہ زاد کے ساتھ کھیل رہى تھى اچانک ہم نے ایک وحشت ناک ہیولا بڑا ساسر درشت آنکھیں ، بڑے بڑے دانت ، کھلا سیاہ لباس اور بڑ ے بڑے کا لے جوتے _ وہ صحن کے در میان میں تھا _ عجیب آواز نکا لتے ہوئے وہ چاہتا تھا کہ نہیں کھا جائے _ ہم نے چینح مارى اور تار یک دالان کى طرف بھاگ گئیں _ میں خوف سے یوں دیوار سے جاچمٹى کہ میرى انگلیاں زخمى ہو گئیں _ خوف کے مارے میں بے ہوش ہو گئی اور کچھ مجھے سمجھ نہ آیا _ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور مجھے مرنے سے بچایا _ اس غیر انسانى فعل نے مجھ پر ایسا اثر کیا کہ ایک عرصے تک میں کونوں کھدروں میں چھپتى اور ذر اسى آواز بھى مجھے خوف و وحشت میں مبتلا کردیتى اور میرى چینح نکال جاتى اب حب کہ میں بڑى ہوگئی ہوں تو میں ضعف اعصاب او رسوزش قلب میں مبتلا ہو گئی ہوں _ ہمیشہ غم زدہ رہتى ہوں اور عجیب و غریب خیالات آتے ہیں _ کام اور زندگى میں میرا دل نہیں لگتا نہ کسى سے میل ملاقات ہے اور نہ کہیں آتى جاتى ہوں _

بے چین اور مضطرب سى رہتى ہوں _ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ہمارى پھوپھى زادنے اپنے سرپر ایک بڑا سادیگچہ رکھ کے وہ ڈراؤنى بھوت کى شکل بنائی تھى تا کہ ہمیں ڈرائے اور وہ ہے میرى بیمارى اور اعصاب کى کمزورى کى ذمہ دار_

5_ اگر آپ کا بچہ آپ کى سہل انگارى اور عدم توجہ یا دوسرے اسباب کے باعث ڈرپوک بن گیا ہو تو اس کے ڈر کو غیر اہم چیز نہ سمجھیں _ کوشش کریں کہ جتنى جلدى ہوسکے اس کى روح کو آرام پہنچائیں اور اس کا خوف دور کریں _ اگربچے کو اپنے بعض کاموں کے حقیقى اسباب کاعلم ہوگیا تو اس کا کچھ خود بخود جاتا رہے گا لیکن خوف کا علاج بچے کہ جھاڑ پھٹکار پلانا اس کا مذاق اڑانا اور دوسروں کے سامنے شرمندہ کرنا نہیں ہے_ ایسا کام نہ فقط یہ کہ بچے کا خوف دور نہیں کرے گا بلکہ اس کى حسّاس روح کو آزردہ ترکردے گا _ خوف میں اس کا کوئی گناہ نہیں ہے _ وہ دڑنا نہیں چاہتا _ آپ خود اور دوسرے عوامل اس کے خوف کا سبب بنے ہیں _ اسے کیوں قصور وار ٹھہراتے ہیں _ صبر ، بردبارى سمجھدارى اور تحقیق و جستجو کے ساتھ اس کے خوف کے علل و اسباب معلوم کریں پھر ان کے لیے چارہ کارسوچیں _ اگر وہ جنّ اور بھوت سے دڑتا ہے تو اسے پیار محبت سے سمجھائیں کہ بھوت ، لولواور دیو و غیرہ کا وجود جھوٹ ہے اور ایسى چیزوں کا اصلاً وجو د ہى نہیں ہے _ اسے مطمئن کریں کہ جن کا انسان سے کوئی کام نہیں _ کوشش کریں کہ ان چیزوں کا اس کے سامنے اصلاً ذکر ہى نہ کیا جائے تا کہ رفتہ رفتہ ان کا خیال بچے کے ذہن سے محو ہوجائے _ اگر وہ بے ضرر حیوانات سے دڑے توان کا بے ضرر ہونا اس کے سامنے عملى طور پر ثابت کریں _ ان حیوانات کے قریب جائیں اور انہیں چھوئیں اور ہاتھ پکڑیں تا کہ بچہ تدریجاً ان سے مانوس ہوجائے اور اس کا خوف دور ہو جائے _ اگر وہ اندھیرے سے دڑتا ہے تو اسے کم روشنى کا عادى کریں تا کہ رفتہ رفتہ اس کا خوف جاتارہے اور وہ تاریکى کا بھى عادى ہوجائے _ جب آپ خود بچے کے پاس موجود ہوں تو کچھ دیر کے لیے چراغ گل کردیں _ پھر تدریجاًاس مدت کو بڑھائیں _ جب آپ کسى کمرے میں بچے سے کچھ فاصلے پر ہوں تو یہى عمل دھرائیں _ صبر اور حوصلے سے اس عمل کا تکرار کریں یہاں تک بچے کا خوف دور ہوجائے اور وہ تاریکى میں رہنے کا عادى ہوجائے _ اس امر کى طرف بہرحال متوجہ رہیں کہ دڑانے ڈھمکانے ، مارپیٹ اور سختى سے کام نہ لیں کیونکہ اس طرز عمل سے آپ بچے کا خوف دورنہیں کر سکتے _ بلکہ ممکن ہے یہ برے اعمال کا پیش خیمہ بنے _ بچے کو اس امر پر مجبور کرنا کہ وہ جن چیزوں سے دڑتا ہے ان کے سامنے جائے ، اس کے اضطراب اور پریشانى میں اضافے کا سبب بنتا ہے _ اس طریقے سے اس کے اعصاب پر بہت دباؤ پڑتا ہے _ اگر بچہ ڈاکٹر اور ٹیکے سے دڑتا ہے تو اسے پیار اور محبت کى زبان میں سمجھائیں کہ وہ بیمار ہے اور اگر وہ تندرست ہونا چاہتا ہے تو ضرورى ہے کہ دو اکھائے اور ٹیکہ لگوائے _ اسے دکھائیں کہ دوسرے لوگ بھى ٹیکہ لگواتے ہیں اور روتے دھوتے نہیں تا کہ وہ آہستہ آہستہ ڈاکٹر اور ٹیکے سے مانوس ہوجائے اور اس کا خوف زائل ہوجائے _ اگر کوئی مجبورى نہ ہو تو اسے زبردستى ٹیکہ نہ لگایا جائے کیونکہ ممکن ہے اس کے بر ے اثرات مرتب ہوں _ کبھى ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے کہ بچہ ہسپتال میں داخل ہوجائے لیکن اکثر بچے ہسپتال میں داخل ہونے اور ماں باپ کى جدائی سے دڑتے ہیں _ اس بناء پر کبھى وہ ماں باپ کے لیے بڑى مشکل پیدا کردیتا ہے _ اگر اسے سختى سے ہسپتال میں داخلے پرمجبور کیا جائے تومسلماً اس سے روحانى اور نفسیاتى طور پر اس پر برے اثرات مرتب ہوں گے _ اگر ماں باپ یہ سمجھیں کہ ہسپتال میں داخل نہ کروانا اس کى صحت و سلامتى کے لیے نقصان وہ ہے ، یہاں تک کہ اس کى جان کو خطرہ ہوسکتا ہے تو والدین کے لیے ضرورى ہے کہ بچے کو پہلے ہى سے ہسپتال کے ماحول سے مانوس کریں _ جب کبھى وہ کسى مریض کى عیادت کے لیے جائیں تو اپنے بچے کو بھى ساتھ لے جائیں اور وہاں کچھ دیر ٹھہریں اور اسے یہ بات اچھى طرح سمجھائیں کہ ہسپتال ایک اچھى اور آرام وہ جگہ ہے جہاں پر ڈاکٹر اور مہربان نرسیں موجود ہیں اور یہ لوگ مریض کا علاج کرتے ہیں اسے بتائیں کہ خطرناک بیماریوں کا علاج ہسپتال ہى میں ممکن ہے _ بچے کوتدریجاً ہسپتال کے ماحول سے مانوس کیا جا سکتا ہے _ ایسى صورت میں اگر بچے کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑجائے تو وہ اس کے لیے آمادہ ہوگا _ بہتر ہے کہ پہلے اس بات کى یاد دہانى کرو ادى جائے کہ تم بیمار ہو ، تندرست ہوجاؤ گے لیکن اس کے لیے تمہیں کچھ عرصہ ہسپتال میں رہنا ہوگا _ وہاں پر نرسیں اور مہربان ڈاکٹر موجود ہیں جو تمہارى تندرستى کے لیے کوشش کریں گے _ ہم بھى تمہیں لئے

 

آتے رہیں گے _ لیکن آپاس امر کى طرف متوجہ رہیں کہ بچے سے جھوٹ نہ بولیں _ جب آپ کو جانا ہے تو اس سے یہ نہ کہیں کہ یہاں سوجاؤ، ہم تمہارے پاس ہى ہیں _ اس سے یہ نہ کہیں کہ ڈرومت تمہیں دوا نہیں دى جائے گى اورٹیکہ نہیں لگایا جائے گا _ اس سے یہ نہ کہیں کہ ہسپتال میں تمہارا وقت خوب گزرے گا _ کیونکہ یہ تمام باتیں خلاف حقیقت ہیں _ ان سے بچے کا اعتماد جاتا رہتا ہے بلکہ اس سے یہ کہیں کہ تم بیمار ہو اورتمہارے علاج کے لیے ہسپتال میں داخلے کے سواچارہ نہیں ہے _ ہسپتال میں داخلے کے بعدجہاں تک ممکن ہو سکے اس کى عیادت کے لیے جائیں _ اس کے پاس ٹھہریں اور اس کے لیے خوشى اور آرام وراحت کا باعث بنیں _


معقول خوف

معقول خوف کے معاملے میں مربّى کو چاہیے کہ ایک معتدل اور عاقلانہ نہ روش اختیار کرے _ بچے کے سامنے خطرناک موضوعات چھیڑے اور اسے ان سے بچنے کى تدابیر بتائے ، نیز اسے بے احتیاطى کے برے نتائج سے ڈرائے _ اسے گیس، ماچس اور برقى اشیاء کے استعمال کا درست طریقہ سمجھائے _ اسے ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ کرے _ اسے سڑک پار کرنے کا صحیح طریقہ بتائے _ گاڑیوں کى آمدو رفت کے ممکنہ خطرات اس سے بیان کرے اور بچے کو اس بات پر ابھارے کہ وہ اجتماعى قوانین ، خصوصاً ٹریفک قوانین کى پابندى کرے اور اسے قانون کى خلاف ورزى کے ممکنہ برے نتائج سے ڈرائے _ مجموعى طور پر احتمالى خطرات کى اس کے سامنے وضاحت کرے اور ان سے اسے ڈرائے _ مجموعى طور پر احتمالى خطرات کى اس کے سامنے وضاحت کرے اور ان سے اسے ڈرائے اور ان سے بچنے کا طریقہ اسے سمجھائے لیکن اس امرمیں مبالغہ سے کام نہ لے _ مبالغہ آرائی سے ایسا نہ کرے کہ بچہ وحشت و اضطراب میں گھر جائے _ ڈرپوک اوروسواسى بن جائے _ اوریوں سمجھنے مگے کہ اس کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں _ کوشش یہ کرنا چاہیے کہ اس میں توکل على اللہ اور امید بر خدا کا جذبہ بیدار ہو _

خوف کا ایک صحیح مقام موت کاڈرہے البتہ موت سے خوف اگر حدّ سے تجاوز کرجائے تو یہ بھى ایک نفسیاتى بیماربى بن جاتا ہے _ یہ بیمارى انسان سے روحانى آرام و سکون چھین لیتى ہے اور اس کى عملى صلاحیتوں کو ناکارہ کردیتى ہے لہذا اس کے لیے بھى حفاظتى تدابیر ضرورى ہیں_ کچھ عرصے تک بچہ اصلاً موت کا مفہوم ہى نہیں سمجھتا _ بہتر یہ ہے کہ مربى حضرات اس بارے میں بات نہ کریں لیکن کبھى ایسا ہوتا ہے کہ بچہ اپنے کسى واقف کاریارشتے دار کے مرنے سے موت کى طرف متوجہ ہوتاہے ممکن ہے ایسے موقع پر وہ ماں باپ سے موت کے بارے میں سوالات پوچھے _ اگر اس وقت بچہ رشد و تمیز کے سن کو پہنچ چکا ہو تو ماں باپ اسے اس قضیے کى حقیقت بتادیں _ اس سے کہیں کہ موت کوئی خاص چیز نہیں ہے _ انسان مرنے کى وجہ سے اس جہاں سے دوسرے جہاں میں منتقل ہوجاتاہے ، اسے جہاں آخرت کہتے ہیں _ اس جہاں میں انسان کو اچھے کاموں کا ثواب ملے گا اور برے کاموں پر اسے عذاب ملے گا ، سب نے مرجاتا ہے ، اللہ تعالى قرآن کریم میں فرماتا ہے _

''تمام لوگ مرجائیں گے ''

موت اہم چیز نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ انسان برے کام نہ کرے اور اچھے کام کرے تا کہ مرنے کے بعد وہ آرام سے رہے _

موت کى یا دحدّ سے تجاوز نہیں کرنى چاہیے اور اسے وسواس کے مقام تک نہیں پہنچنا چاہیے _ ایسا ہونا نقصان وہ ہے جب کہ اسى یادسے بچے کى تعلیم و تربیت کے لیے بھى استفادہ کیا جاسکتا ہے _

خوف کا ایک مثبت مقام خوف خدا یا خوف قیامت ہے _ یہ خوف بھى اگر ایک نفسیاتى بیمارى کى صورت میں نہ ہو تو نہ فقط یہ کہ برا نہیں ہے بلکہ انسان کى دنیاوى اور اخروى سعادت کے لیے بہت مفید ہے _ خوف الہى اور عذاب آخرت کاخوف انسان کونیک کاموں پر ابھارتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے _ اسى لیے اللہ تعالى قرآن مجید میں لوگوں سے فرماتا ہے :

فلا تخافوہم و خافون ان کنتم مومنین

اگر تم اہل ایمان ہو تو دوسروں سے نہ ڈرو صرف سمجھ سے دڑو_(آل عمران _175)

نیز قرآن قیامت کى مشکلات اور عذاب کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے _ لہذا ایک عقل مند ، سمجھ دار اور متدین مربّى کوشش کرتا ہے کہ خوف الہى گناہ سے خوف اور خوف قیامت کا بیج بچے کى حسّاس روح میںاس کے بچپن ہى میں بودتے تا کہ رفتہ رفتہ وہ نشو و نما پائے اور بڑا ہوکر اس کا نیک ثمرہ ظاہر ہو_

البتہ اس نکتے کى یاددھانى بھى ضرورى ہے کہ ایک بہترین مربى کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ ہمیشہ دوزخ اور عذاب دوزخ کا ذکر کرتا رہے اور اللہ کو سخت ، جابر شخض کى حیثیت سے متعارف کروائے بلکہ اس کى رحمت ، مہربانى ، شفقت اور لطف کى صفت کا زیادہ تذکرہ کرے _ اس کے ذریعے سے اللہ کو محبوب کے طور پر منوائے اورلوگوں کو گناہ کے عذاب اور اللہ کى عظمت سے اس طریقے سے ڈرائے کہ وہ ہمیشہ خوف و رجاء کى حالت میں رہیں _

 

1_ غرر الحکم ص 8