پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

گھريلو لڑائي جھگڑے سے پرہيز

گھریلو لڑائی جھگڑے سے پرہیز

بچے کے لیے گھر آشیانے کے مانند ہے _ وہ خود کو اس سے وابستہ سمجھتا ہے اور اس کا دل اسى سے بندھا ہوا ہے _ اگر اس کے ماں باپ آپس میں اچھے دوست ہوں تو اس کا آشیانہ پائیدار ، گرم آغوش کى طرح اور باصفا ہوگا _ ایسے گھر میں بچہ آرام و اطمینان کا احساس کرے گا _ اس اچھے آشیانے میں پرورش پانے سے بچے کى داخلى صلاحیتیں صحیح طور پر پرواں چڑھتى ہیں اور نتیجہ خیز ثابت ہوتى ہیں _ لیکن اگر ماں باپ میں لڑائی جھگڑا ہوا تو بچے کا چین اور سکون چھن جاتا ہے _ وہ پریشان اور مضطرب رہتا ہے _ ماں باپ آپس میں لڑرہے ہوتے ہیں انہیں آس امر کا اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ بے چارے بچے کى کیا کیفیت ہے _ ایسے عالم میں بچے خوف زدہ ہوتے ہیں اور ان کے دل ٹوٹے ہوتے ہیں وہ یا کسى کونے کھدرے میں حیرت و استعجاب میں ڈوبے ہوتے ہیں یا پھر ایسے آشیانے سے فرار کرکے کسى کوچہ و بازار میں پناہ حاصل کرتے ہیں _ بچے کى زندگى کى تلخ ترین یادیں اس کے ماں باپ کى باہمى لڑائی ہے _ بچے ایسے واقعات اپنى آخرى عمر تک بھلا نہیں پاتے _ یہ واقعات ان کى روح پر برے طریقے سے اثر پذیر ہوتے ہیں _

ایسے بچوں کے دلوں میں گرہیں پرجاتى ہیں ، اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں ، دل شکستہ رہتے ہیں اور وہ بدبینى کے عالم میں زندگى گزارتے ہیں _ ہوسکتا ہے ایسے گھر کى بیٹى اپنے باپ کى بداخلاقى اور کج مزاجى سے یہ سمجھے کہ سارے مرد ایسے ہى ہوتے ہیں ممکن ہے اس خیال کے باعث وہ شادى کے نام ہى سے خوف کھاتى ہو _ ہوسکتا ہے ایسے گھر کا بیٹا اپنى ماں کى بداخلاقى اور لڑا کا پن کے باعث سب عورتوں کو ایسا ہى خیال کرے اور شادى سے بیزار ہوجائے _ اس صورت حال میں اولاد کے دل میں ماں یا باپ میں سے کسى ایک کے لیے کینہ اور نفرت پیدا ہوجاتى ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اولاد انتقامى حربے بھى اختیار کرتى ہے _ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے آوارہ ، نشہ باز اور بدکردار بچے ماں باپ کے روز روز کے جھگڑوں کے باعث اس مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں _

اگر آپ اپنے بچوں کے تلخ واقعات اور ماں باپ کے اختلافات (اگر تھے) کا سوچیں تو آپ محسوس کریں گے کہ سالہا گزرنے کے باوجود ان کى تلخ یادیں آپ کے ذہن پر نقش ہیں _

ایک دانشور لکھتے ہیں :

ماں باپ کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ گھر کے بڑے افراد کے درمیان لڑائی جھگڑا بچوں پر برا اثر ڈالتا ہے اور بڑوں کے باہمى روابط بچے کى شخصیت کى تعمیر پر اثر انداز ہوتے ہیں ... اگر ایک گھر میں اتفاق و اتحاد کى فضا نہ ہو تو ایسى صورت میں ممکن نہیں کہ وہاں بچوں کى صحیح پرورش ہوسکے _ جب بڑے لڑنے جھگڑنے لگیں تو انہیں بھول جاتا ہے کہ بچے بھى ان کے ساتھ ہیں اور ان کى تربیت بھى ان کے ذمہ ہے _ ایسى صورت میں بچہ کوئی صحیح سبق نہیں سیکھ سکتا _ اس کا مزاج بھى غصیلا ہوجاتا ہے وہ تند مزاج اور گوشہ نشین ہوجاتا ہے _ خصوصاً کچھ بڑى عمر کے بچے ایسى صورت میں سخت مشکل سے دوچار ہوجاتے ہیں _ ان کا دل باپ کى حالت پر کڑھتا ہے _ وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کس کا ساتھ دیں اور کس کے ساتھ ہوجائیں _ کبھى وہ حقیقت کو پہچانے بغیر ہر دو کے خلاف ہوجاتے ہیں _ (1)

کسى نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ :
 

'' ... میرے بچپن کے بدترین واقعات میں سے وہ مواقع ہیں کہ جب میرے ماں باپ آپس میں جھگڑتے تھے اور گالى گلوچ کرتے تھے _ میں میرى بہن اور میرا بھائی ایسے موقعے پر ایک طرف کھڑے ہو کر لرزتے رہتے تھے _ جب تک لڑائی رہتى تھى ہم میں کچھ کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا _ مجھے یاد ہے کہ میرى چھوٹى بہن اس صورت حال کو دیکھ کررونے لگتى تھى اور کتنى دیر تک اس کے اوسان بحال نہ ہوتے تھے _ اس وقت وہ ضعف اعصاب کا شکار ہوچکى ہے _ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ماں باپ کے لڑائی جھگڑے میرى بہن کى روح پر برى طرح اثر انداز ہوئے ہیں ...''_

ایک مرد نے اپنے خط میں لکھا ہے _

'' ... بچپن کے ایک تلخ واقعے کى یادمیرے دل سے جاتى ہى نہیں _ میرا باپ بہت بداخلاق ، بدسلوک ، غصیلا ، اور خود غرض تھا ، گھر میں وہ بہانے بہانے سے جھگڑتا رہتا اور سب پر برستا _ ہمارے ماں باپ صبح سے آدھى رات تک آپس میں لڑتے رہتے ، خدا جانے وہ تھکتے کیوں نہ تھے _ جھگڑے بھى بالکل معمولى معمولى باتوں پر ہوتے تھے _ کوئی رات ایسى نہ تھى کہ میں روئے بغیر سوجاتا _ اسى وجہ سے میرے اعصاب کمزور پڑگئے ہیں ڈرتا رہتاہوں اور ڈراؤنے خواب دیکھتا ہوں _ ڈاکٹر کے پاس بھى گیا ہوں وہ کہتا ہے کہ گھریلو اختلافات کا اثر ہے اور اس کا آرام کے علاوہ کوئی علاج نہیں ہے _ میرى خوشى کا زمانہ اس وقت شروع ہوا جب میرى شادى ہوگئی اور میں نے اس گھر سے نجات پالى اور اب اگر چہ میرى زندگى اچھى گزررہى ہے پھر بھى یوں لگتا ہے جیسے میں ایک شکست خوردہ آدمى ہوں اور زندگى میں ترقى نہیں کرسکتا _ میں والدین سے درخواست کرتا ہوں کہ خدارا اگر تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہو بھى تو اپنے بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑا نہ کرو _

وہ اپنے تفصیلى خط میں مزید لکھتا ہے : میرے بچپن کا بدترین واقعہ وہ ہے کہ میں جب آٹھ سال کا تھا اور میرے والدین کے درمیان سخت جھگڑا رونما ہوا _ سارے

بچے ڈرکے مارے مختلف گوشوں میں جا چھپے اس واقعے کا میرى روح پر ایسا اثر ہواکہ میں ایک عرصے تک مضطرب اور پریشان رہا _ میں اپنے گھروالوں سے بیزار ہوگیا _ میرا دل نہ کرتا کہ سکول سے گھر آؤں _ میں خدا سے دعا کرتا کہ بیمارہوجاؤں اور مرجاؤں _ کئی دفعہ میں نے خودکشى کا سوچا کئی مرتبہ خوابوں میں میں نے دیکھا کہ میں اپنى ہونے والى بیوى سے لڑرہا ہوں اور اس سے جنگ وجدال میں مصروف ہوں عالم خواب میں میں یہ پروگرام بناتا کہ اپنے حق کو میں کیسے بچا سکتا ہوں _ شادى کے شروع شروع میں میں نے کئی بہانوں سے کوشش کى کہ اپنى بیوى سے جھگڑوں اور اسے بتاؤں کہ میں بہت غصے والا ہوں اور اونچى آواز سے بولوں تا کہ اس پر ظاہر کر سکوں کہ میرى بھى کوئی شخصیت ہے _ خوش قسمتى سے میرى بیوى ٹھنڈے دل و دماغ والى اور عقل مند تھى _ وہ میرے ساتھ اچھا سلوک کرتى تھى اور اس کے بعد دلیل و برہان سے مجھے مطمئن کرتى _ خوش قسمتى کى بات یہ ہے کہ میرا یہ مزاج زیادہ دیر تک باقى نہ رہا _ جب مجھے اپنے ماں باپ کى غلطى کا احساس ہوا اور میں نے خوداپنى کمزوریوں پر نظر کى تو میں نے اپنے اخلاق کو تبدیل کرلیا اور اب زندگى آرام سے گزرہى ہے _

ایک اور صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں:

... میں نوسال کا تھا کہ میرے ماں باپ نے باہمى اختلافات کى وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ئی کا فیصلہ کرلیا _ انہوں نے مجھے، میرى بہن اور بھائی کو دادا کے گھر بھجوادیا _ ہم وہاں روتے رہتے _ جب میں اپنى ماں سے ملنے جاتا تو راتوں کو ایسے خواب دیکھتا کہ کہ رہا ہوتا کہ میں ابو کے گھر نہیں جاؤںگا _ کچھ عرصے کے بعد امى اور ابو کے بعض رشتہ داروں نے مل ملاکر صلح کرادى اور میرى امى واپس گھر آئی _ لیکن اس تھوڑے سے عرصے نے میرى روح پر ایسا اثر کیا کہ ابھى تک اس کے آثار باقى ہیں _ میں اب کوشش کرتا ہوں کہ اگر میرے اور بیوى کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اسے اپنے بچوں کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں _

ایک اور خط ہا خطہ کیجئے :

..... میرے بچپن کى بہت سى تلخ یادیں ہیں ، خوشى کى یادیں تو بہت ہى کم میں _ جب تھى مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے تو ناراحت ہو جاتى ہوں اور بے اختیار میرے آنسو جارى ہو جاتے ہیں اس غم کى وجہ یہ ہے کہ جب سے مجھے یاد ہے میں نے ہمیشہ اپنے ماں باپ کو بحث و جدل اور لڑائی جھگڑ اکر تے ہى دیکھا _ اس طرح انہوں نے مجھ پر اور میرے بہن بھائیوں پر زندگى اجیرن کردى تھى _ ہم آئھ بہن بہن بھائی تھے اسى وجہ سے مین اپنے شوہر سے تو تکرار نہیں کرتى اور اپنے شوہر اور بچوں کى زندگى تلخ نہیں کرتى _

ایک خط میں کسى نے لکھا :

..... پانچ سال کى عمر بچپن کا بہترین زمانہ ہو تا ہے _ میں اس عمر کا تھا کہ میرے ماں باپ میں شدید اختلاف پیدا ہوئے _ میرے باپ نے دوسرى شادى کرلى _ اس اختلاف کى وجہ سے میر ى ماں نے طلاف لے لى _ ہم چھ بہن بھائی تھے _ ایک دن بہت تلخ تھا _ میں اور میرا بھائی کھیل رہے تھے کہ امى جان خداحافظ کہنے کو آئیں _ خدا جانتا ہے ہ بچے کس قدر ناراحت ہوئے _ ہمارى ماں چلى گئی اور ہم اپنے باپ اور نئی ماں کے ساتھ رہ گئے _ دو سال گویا ہم ماں کے بغیررہے اور باپ کى بے اعتنائی کے صد ے سہتے رہے _ اس کے بعد ایک روز ہمارى آمى آئیں اور مجھے اور میرے بھائی کو اپنے گھر لے گئیں _ انہیں ہمارى نانى سے جائیداد سے کچھ حصہ ملا تھا وہ اسى کے ذریعے ہمارى دیکھ بھال کرتى رہیں _ پھر دگر بہن بھائی بھى آگئے _ ہمارى ماں نے ہمارے ساتھ ماں کا کردار بھى ادا کیا اور باپ کا بھى _ ہم اس کے ایثار اور قربانیوں کو بھلا نہیں سکتے:

ایک خاتون اپنے خط میں لکھتى ہے :

..... میرے ماں باپ ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے تھے اور ہمارے گھر میں ایک جنجال بپا ہو تا تھا _ ہمارى ماں ہمیشہ غصے میں رہتى ہیں آٹے سال کى تھى دوسرے بچوں کو میرے پاس پھوڑتى اور چلى جاتى _ میرے بہن بھائی کوئی دو سال کا تھا ، کوئی چار سال کا تھا ، کوئی چھ سال کا تھا _ یہاں تک کہ ایک چھ ماہ کا بھى تھا_ میں نا چار ان سب کى خدمت کرتى رہتى _ کبھى باپ سے بھى مارکھاتى _ ان سارے حالات کے باوجود میں کوشش کرتى کہ پڑھتى بھى رہوں لیکن دوسرى جماعت میں میں فیل ہو گئی تھى _ میرى استانیوں کو میرے حالات کى خبر تھى _ انہوں نے میرے اور پر رحم کیا اور مجھے کچھ اضافى نمبر دے دیئے _ انہیں حالات میں میں ہائی سکول تک جا پہنچى _ اس وقت تو میں خود ماں بن چکى ہوں _ کوشش کرتى ہوں کہ جنگ و جدل سے نہ اپنے آپ کو بے آرام کروں اور نہ شوہر اور بچوں کو _

جوماں باپ احساس ذمہ دارى رکھتے ہیں اور انہین اپنے بچوں کى تربیت سے دلچسپى ہے تو انہیں چاہیے گھر کے لڑائی جھگڑ ے سے سختى سے اجتناب کریں اور ہر گز بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑانہ کریں اور لمبى کدور توں اور با ہمى غصے سے بچوں کے لیے ناراضى اور پریشانى کے اسباب فراہم نہ کریں _ اس سے بدتر کوئی کام نہیں ہو سکتا کہ ماں باپ گھر میں جھگڑیں اور بے گناہ بچوں کو چھوڑ کر اپنى راہ لیں _ اگر ماں باپ کو پتہ ہو کہ اس مارت مین اگر چہ وہ تھوڑى سى ہى کیوں نہ ہو ، بچوں پر کیا گزرى تو وہ کبھى اس لڑائی جھگڑے کو اختیار نہ کریں _ ایسے واقعات آخر عمر تک نہیں بھولتے اور اولاد کى روح کو اداس اور پریشان کردیتے ہیں _ البتہ شاید بہت کم ہى گھرا یسے ہوں جہاں سلیقے کا اختلاف نہ ہو لیکن از دواجى زندگى میں در گزرکى ضرورت ہوتى ہے _ سمجھدار اور آگاہ ماں باپ اپنے اختلافات کو افہام و تفہیم اور منطق و استدلال کے ذریعے سے حل کرتے ہیں اور اگر نا چار کچھ سخت سست کہنا ہى پڑ جائے تو جائے تو بچوں کے سامنے ایسا نہیں ہو نا چا ہیے اور اگ بچوں کو کچھ پتہ چل بھى جائے تو انہین بتا نا چا ہیے کہ اختلاف کام میں نہیں ہے بلکہ ہمارے در میان صرف طریقے میں اختلاف اور مشکلات ہیں اور ان کے حل کوشش کررہے ہیں اور یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے _ ماں باپ کو نہین چاہیے اگر چہ وہ غصے کے عالم میں ہوں طلاق اور جدائی کا ذکر کریں _ کیونکہ اس سے نہ فقط ازدواجى زندگى متز لزل ہو جاتى ہے بلکہ بچوں کے لیے بھى بے اطمینانى اور اضطراب پیدا ہو تا ہے _ میاں بیوى کى ایک دوسرے سے جدائی اولاد کے ساتھ

 

بھى ایک بہت بڑى خیانت ہے _ کیونکہ ان کاتو گو یا آشیانہ گر جا تا ہے اور ان کى زندگى پریشان و ویران ہو جاتى ہے _ کیونکہ بچے تو ماں باپ دونوں کو چا ہتے ہوتے ہیں نہ کہ ان میں سے کسى ایک کو _ اگر طلاق کے بعد بچے باپ کى تحویل میں رہیں اور وہ دوسرى شادى کرلے تو وہ بے گناہ مجبورا سو تیلى ماں کے زیر دست زندگى گزاریں گے _ سوتیلى ماں اگر چہ کتنى ہى اچھى کیوں نہ ہو حقیقى ماں کى جگہ نہیں لے سکتى _ زیادہ تر تو وہ اپنے شوہر کے بچوں کو اذیت و آزار ہى پہنچا تى ہے سوتیلى ماں کے سولک کے بارے میں آپ اخبار و جرائد مین پڑ ھتے ہى ہوں گے اور اگر بچے ماں کى تحویل میں چلے جائے تو اگر چہ وہ باپ سے بہتر نگھدارى کرتى ہے لیکن باپ کى جگہ خالى رہتى ہے اور باپ سے دورى کا غم انہیں ستا تا رہتا ہے اور اگر وہ دونوں ڈھٹائی سے کام لیں اور اپنے بچوں کو کسى اور کے پس چھوڑدیں تو وا مصیبتا _

بہر حال بچے پیدار ہونے سے پہلے میاں بیوى آزاد ہیں _ لیکن اولاد کى پیدائشے کے بعد وہ ذمہ دار ہیں کہ اختلاف سے پر ہیز کریں اور گھر کے نظام کى المقدور حفاظت کریں اور بے گناہ بچوں کى پریشانى اور اذیت سامان فراہم نہ کریں _ ورنہ وہ بارگاہ عدل الہى میں جواب دہ ہو ں گے اوران کا مو آحذہ کیا جائے گا_

 

1_ روان شناسى تجربى ص 673