پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

راستگوئي

راستگوئی

جھوٹ بولنا ایک انتہائی برى صفت ہے اور گناہان کبیرہ میں ہے _ دنیا کى تمام قومیں اور ملتیں ، جھوٹ بولنے کى مذمت کرتى ہیں _ اور جھوٹ بولنے والے کو پست اورگھٹیا قرار دیتى ہیں _ جھوٹ بولنے والے شخص کا دنیا والوں کى نظر میں کوئی عزت واعتبار نہیں ہوتا _ ایک شریف اور اچھا شخص جھوٹ نہیں بولتا _ اسلام نے بھى اس برى صفت کى مذمت کى ہے _ اور اسے گناہ کبیرہ اور حرام قرار دیا ہے _

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''جھوٹ خرابى ایمان کى بنیاد ہے '' (1)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

کہ حضرت عیسى علیہ السلام نے فرمایا جو زیادہ جھوٹ بولتا ہے اس کى کوئی عزت نہیں ہوتى (2)

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

کوى کام جھوٹ سے بڑھ کے گھٹیا نہیں _(3)

اللہ کے سب نبیوں اور سب دینى رہنماؤں نے لوگوں کو سچائی کى دعوت دى ہے _ سچ ایک فطرى اور طبیعى چیز ہے _ اور انسان کى سرشت کا حصہ ہے سب سچ اور سچّے کو پسند کرتے ہیں _ اور جھوٹے سے نفرت کرتے ہیں _ یہاں تک کہ جھوٹ بولنے والا شخص بھى ایسا ہى ہے _ اگر بچے کو اس کے حال پہ چھوڑدیاجائے تو فطرى طور پر اس کى تربیت ایسى ہوگى کہ وہ سچا ہوگا _ یہ تو خارجى عوامل اور اسباب ہیں کہ جو اسے خداداد فطرت سے منحرف کردیتے ہیں اور اسے دروغ گوئی کى طرف لے جاتے ہیں _ جھوٹ بولنا ایک ننھے بچے سے اصلاً میں نہیں کھاتا _ بعد از آن اس سے منحرف ہوجائے اور جھوٹ بولنے کا عادى بن جائے تو بڑے ہوکر یہ عادت ترک کرنا اس کیلئے دشوار ہوگا اور زیادہ امکان یہى ہے کہ وہ اس سے دستبر دار نہیں ہوگا پھر اس پر نہ کوئی آیت اثر کرے گى نہ روایت اور نہ وعظ ونصیحت _

ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ وہ بچپن ہى سے اس بات کى فکر کریں کہ ان کى اولاد سچى ہو _ جھوٹ کے علل و اسباب کوروکیں _ اور سچائی کو جو ان کى سرشت میں شامل ہے اس کى پرورش کریں _ سچائی کى تربیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور نہ اسے بڑے ہونے پرٹال دینا چاہیے _

جو ماں باپ اپنى اولاد کى تربیت کے خواہش مند ہیں اور احساس ذمہ دارى رکھتے ہیں توانہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل امور کى طرف توجہ فرمائیں _

1_ بچے کى تربیت پر اثر انداز ہونے واى ایک نہایت اہم چیز خاندان کا ماحول ہے _ خاندان کے ماحول میں بچہ پروان چڑھتاہے _ اور وہ ماں باپ سے اور ساتھ رہنے والوں سے اخلاق سیکھتا ہے اور ان کى پیروى کرتا ہے _ اگرگھر کا ماحول سچائی اور درستى پر بنى ہو ، ماں باپ اور دیگر افراد صداقت اور سچائی سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آنے والے ہوں تو ان کے بچے بھى یہى سیکھیں گے _ اس کے برعکس اگر گھر کا ماحول ہى جھوٹ اور دروغ گوئی پر بنى ہو، ماں باپ ایک دوسرے سے اپنى اولاد سے اور دیگر افراد سے جھوٹ بولتے ہوں _ بے گناہ بچے جو ایسے ماحول میں پرورش پائیں گے یہى برى عادت ماں باپ سے سیکھیں گے اور دروغ گو بن جائیںگے _ جن بچوں کے کان جھوٹ سے آشنا ہو گئے ہوں اور جو ہر روز ماں باپ سے دروغ گوئی کے مظاہر دیکھتے ہوں ان سے کیسے توقع کى جا سکتى ہے کہ وہ سچّے اور صادق پروا ن چڑھیں _ ایسے ماحول میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ جھوٹے اور فریبى شخص کے علاوہ کچھ تریت کرے _ ایسا زہر یلا ماحول ہى ہے کہ جو ایک حساس اور اثرات قبول کرنے والے بچے کى فطرت کو سچائی سے منحرف کردیتا ہے اور دروغ گوئی کا عادى بنادیتا ہے _ بعض نادان ماں باپ نہ صرف یہ کہ خود جھوٹ بولتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھى جھوٹ بولنے کى تلقین کرتے ہیں _ باپ گھر پہ ہے لیکن بچے کو کہتا ہے فلان شخص سے کہو ابو گھر پہ نہیں ہیں _ بچہ جو ٹھیک ٹھاک تھا اور اس نے گھر کا کام نہیں کیا باپ اس سے کہتاہے استاد سے کہنا میں بیمار تھا _ ایسے سینکڑوں جھوٹ ہیں جن کا بعض گھروں میں ہر روز تکرار ہوتا ہے _ ایسے نادان ماں باپ اپنے بچوں سے بہت بڑى خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں _ جھوٹ بولنا گناہ ہے لیکن جھوٹ سکھانا اس سے کہیں بڑا گناہ ے _ جھوٹے ماں باپ جھوٹ بولنے کى سزاکى علاوہ بھى بہت بڑى سزاپائیں گے اور وہ ہے جھوٹ بولنے کى تربیت دینا _

ماں باپ کہ جو خاندان کے سرپرست ہوتے ہیں وہ جھوٹ بولیں تو یہ کوئی معمولى گناہ نہیں ہے بلکہ ہمت بڑا گرناہ ہے اس کے ساتھ بہت بڑا گناہ نمسلک ہے اور وہ ہے بچوں کو جھوٹ سکھانا _ ایسے ماں باپ نہ صرف گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور انہیں اس کى سزا ملے گى بلکہ وہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھى ایک بہت بڑى خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں _ جب کہ یہ بچے ان کے پاس اللہ کى امانت ہیں _ اور یہ خیانت ان کى معاشرے کے ساتھ بھى ہے _ ایسے ماں باپ ہى ہیں جو ایک جھوٹے اور فریب کار معاشرے کو وجود دیتے ہیں _

لہذا جو ماں باپ چاہتے ہیں ان کے بچے سچے ہوں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ خود راست گوئی اختیار کریں اور اپنى اولاد کے لیے بہترین ماحول فراہم کریں اور ان کے لیے نمونہ عمل بنیں _

رسل لکھتا ہے _

'' اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے جھوٹ بولنا نہ سیکھیں تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ بڑے پور ى توجہ سے ہمیشہ بچوں کے سامنے سچائی اختیار کریں ''_(4)

اے کاش رسل کہتا کہ

بچوں کے سامنے بھى اور ہر کسى کے سامنے بھى سچائی اختیار کریں _

کیونکہ بچوں کى پاک فطرت ہر جھوٹ سے متاثر ہوتى ہے _ یہاں تک کہ مخفى جھوٹ بھى جلد ان کے سامنے آشکار ہوجاتے ہیں _

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لوگوں کو بغیر زبان کے اچھائی کى طرف دعوت دیں لوگ آپ سے تقوى ، محنت، نماز ، نیکى دیکھیں اور اس طرح اس ان کے لیے ایک نمونہ عمل مہیا ہوجائے '' _(5)

2_ بچہ فطرى طور پر دروغ گو نہیں ہوتا بلکہ اس کى فطرت اولیہ تقاضا کرتى ہے کہ وہ راستگو ہو _ اس کے جھوٹ بولنے کے لیے کسى سبب کى ضرورت ہے _ اگر ماں باپ جھوٹ بولنے کے علل و اسباب پہچان لیں اور ان کى روک تھام کریں تو بچہ طبعاً راست گو ہوگا _ ایک سبب جو بچے کو جھوٹ بولنے پر ابھارتا ہے وہ ماں باپ کى مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کا خطرہ ہے مثلاً بچے نے کھڑکى کا شیشہ توڑدیا _ ماں باپ سے دڑتا ہے کہیں اسے ماریں نہ _ لہذا جب اس سے پوچھئے کہ شیشہ تم نے توڑا ہے تو جواب دیتا ہے نہیں مجھے بالکل نہیں پتہ یا پھر شیشہ توڑنے کا الزام کسى دوسرے پر لگادیتا ہے _ مثلاً کہتا ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ حسن نے شیشے کو پتھر مارا ہے واضح ہے کہ اس بچے کے جھوٹ بولنے کى وجہ اس کا ماں باپ سے خوف ہے _ اگر ماں باپ سمجھدار ، ہوش مند اور منصف مزاج ہوں اور بچوں کى تربیت کے لیے انہوں نے صحیح حکمت عملى اپنائی ہو تو ان میں ایسا خوف پیدا نہیں ہوگا کہ جس کى وجہ سے وہ جھوٹ بولین اور پھر تدریجاً جھوٹ بولنے کى انہیں عادت پڑجائے _ کیونکہ ہوسکتا ہے شیشہ سہواً اور بلا ارادہ ٹوٹ گیا ہو _ اس صورت میں بچہ تنبیہ اور سرزنش کا مستحق نہیں ہے _ یہ تو کئی دفعہ ماں باپ کے ساتھ بھى پیش آیا ہوگا کہ شیشہ ان سے غیر ارادى طور پر ٹوٹ گیا ہو اور اس صورت میں انہوں نے اپنے آپ کو مجرم نہیں سمجھا ہوگا _ پھر بیچارے بچے کو وہ کیوں مجرم سمجھتے ہیں اور اس پہ کیوں غصّہ جھاڑتے ہیں اور اگر شیشہ کم توجہى اور بے احتیاطى کى وجہ سے ٹوٹ گیا ہے توماں باپ کو چاہیے کہ نرمى سے اس کو نصیحت کریں _ اور سمجھائیں اور اسے کہیں کہ وہ اپنے کاموں میں توجہ اور احتیاط سے کام لے تا کہ اس طرح کے واقعات پیش نہ آئیں _

اس صورت میں بھى بچہ مارپیٹ اور ملامت کا مستحق نہیں ہے کہ جس کى وجہ سے وہ خوف زدہ ہوکر جھوٹ کا سہارا لے _ اور اگر اس نے شیشہ عمداً توڑا ہے اور اس کے لیے اسى نے سرکشى اور ڈھٹائی کامظاہرہ کیا ہے پھر بھى مارپیٹ اور سرزنش مسئلے کا حل نہیں ہے _ کیونکہ مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے بچے کى تربیت نہیں ہوسکتى _ اور نہ اس طرح سے اسے خرابیوں اور ضد بازیوں سے روکا جا سکتا ہے _ اس سلسلے میں ماں باپ کو اس امر کى طرف خیال رکھنا چاہیے کہ بچہ فطرى اعتبار سے شر دوست اور بدجنس نہیں ہوتا _ اس کى شرارت اور ضد کا یقیناً کوئی خارجى سبب موجود ہے _ لہذا کوشش اور تحقیق کرنى چاہیے تا کہ شیشے توڑنے کا اصل سبب اور وجہ معلوم کى جائے _ جب سبب دور ہوجائے گا تو پھر اس طرح کے کاموں کى تکرار نہیں ہوگى _ مثلاً ہوسکتا ہے اس کى تحقیر اور توہین کى گئی ہو _ ہوسکتا ہے اس کى طرف کم توجہ دى جاتى ہو _ ہوسکتا ہے ماں باپ کى سردمہرى کا شکار ہو ، ہوسکتا ہے ماں باپ یا کسى اور نے اس پر ظلم کیا ہو _ ہوسکتا ہے اس سے غیر مساویانہ سلوک برتاگیا ہو _ ہوسکتا ہے ایسى ہى کسى وجہ سے بچے کے اندر ضد اور سرکشى پیدا ہوگئی ہو _ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ شیشہ اس نفسیاتى کیفیت یا احساس کمترى کى وجہ سے یا دوسروں کى توجہ اپنى طرف کرنے کے لیے توڑا ہو یا ایسے ہى کسى سبب سے اس نے کوئی اور غلط کام سرانجام دیا ہو _ اگر ماں باپ اس کے غلط کام کى نفسیاتى وجہ برطرف کردیں تو بچہ بھى غلط کام اور سرکشى چھوڑدے گا تو پھر ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ کى ضرورت ہى باقى نہیں رہ جائے گى _ لہذا ایسے موقع پر بھى مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کا خوف نہیں ہوگا کہ بچے کو جس کى وجہ سے جھوٹ بولنا پڑے_

3_ اگر آپ کو معلوم ہو کہ آپ کے بچے نے کوئی غلط کا م کیا ہے اور آپ اس کى راہنمائی کرنا چاہیں تو اس سے اعتراف جرم کر انے کے لیے ایک سخت گیر اور بدتمیز پولیس والے کى طرح بازپرس اور سوال نہ کریں ہوسکتا ہے وہ اپنى عزت بچانے کے لیے حقیقت چھپائے اور جھوٹ بولے _ ایسے موقع پر بہتر ہے کہ بغیر سوال و جواب کے اس سے کہیں مثلاً اسى سے کہیں مجھے معلوم ہے کہ جو کتاب تم اپنے دوست سے امانتاً لے کر آئے تھے ابھى تم نے اسے واپس نہیں کى _ یہ اچھا نہیں ہے لوگوں کى امانت مقر ر موقع پر انہیں واپس کرنا چاہیے _ اپنے دوست کى کتاب فوراً اسے لوٹا دو اور اس سے معذرت کرو _

4_ بچہ کو ایسى دھمکى ہرگز نہ دیں کہ جسے انجام دینے کا آپ کا ارادہ نہ ہو _مثلاً اس سے نہ کہیے کہ تو نے فلان کام کیا تو تجھے مارڈالوں گا یا پیٹوں گا _ یا پولیس کے حوالے کردوںگا _ یا تجھے گھر سے نکال دوں گا _ یا تجھے فلاں کے ہاں دعوت پہ ساتھ نہ لے جاؤں گا _ کیوں کہ ایسى جھوٹى دھمکیوں سے آپ بچے کہ جھوٹ بولنا سکھائیں گے _ آپ کو چاہیے کہ بچے سے وہى بات کریں جسے آپ انجام دینا چاہتے ہیں _ اور جس کا انجام دینا درست بھى ہے _ وہى بات کریں جسے آپ انجام دینا چاہتے ہیں _ اور جس کا انجام دینا درست بھى ہے _

5_ جو ماں باپ اپنى اولاد سے سختى کرتے ہیں اور ان کى طاقت اور صلاحیت سے زیادہ ان سے توقعات رکھتے ہیں ہوسکتاہے وہ اس طرح سے بچوں کو جھوٹ کى طرف دھکیل دیں _ مثلاً اگر وہ جانتے ہوں کہ ان کا بچہ پڑھنے کى استعداد نہیں رکھتا اور یہ اس سے توقع رکھتے ہوں کہ مبشر بہترین نمبر لے کر آئے بلکہ کلاس میں فرسٹ آئے _ ہر روز اس سے پوچھتے رہتے ہوں کہ کتنے نمبر لیے ہیں اور پھر اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں _ بچہ میں چوں کہ یہ استعداد نہیں ہے وہ جتنى بھى کوشش کرتا ہے ماں باپ کى توقع کے مطابق نمبر نہیں لا پاتا_ بچہ چونکہ چاہتا ہے ماں باپ کى خوشنودى حاصل کرے اور ان کى ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرتا ہے تو وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ کبھى کبھى جھوٹ بولے یا کہے کہ امتحان کے موقع پر میرے سر میں درد ہونے لگا تھا _ میں اچھے طریقے سے امتحان نہیں دے سکا _ یا کہتا ہے میرے کلاس فیلونے ایسى باتیں کہیں جس سے میرے حواس کھوگئے ، یا کہتا ہے استاد کو مجھ سے غرضى تھی اس لیے اس نے مجھے اچھے نمبر نہیں دیے _ یا کہتا ہے آج میں نے پورے سو نمبر لیآ ہیں _

اگر اس بچے کے ماں باپ اس کى صلاحیت اور طاقت کو سمجھ لیتے اور اس سے بے جا توقعات نہ رکھتے تو اسے دروغ گوئی پر آمادہ نہ کرتے اور اس طرح اسے رفتہ رفتہ جھوٹ بولنے کى عادت نہ پڑتى _

6_ بعض ماں باپ جب اپنے ننھے بچے سے کوئی برا کام دیکھتے ہیں تو اس کو برى الذمہ قراردیتے ہیں اور یہ برا کام دوسروں کے ذمے لگادیتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات حیوانات اور جمادات پر الزام دھرنے لگتے ہیں مثلاً کہتے ہین کہ حسن تو اچھا بچہ ہے اس نے یہ کام نہیں کیا یہ کسى بلى چوہے نے کیا ہے _ ہمسایے کے بچے نے کیا ہے _ یا کسى درخت نے کیا ہے _ گندى بلى نے کیوں یہ کام کیا ہے ؟

یہ نادان ماں باپ اپنے تئیں اچھا کام کررہے ہوتے ہیں کہتے ہیں بہتر ہے بچے کے سامنے برا کام کرنے کى بات کو کھولانہ جائے _ لیکن اس کے اخلاقى نقصانات اور بد آموزیوں سے غافل ہیں _ اسى کام کے دوبڑے نقصانات ہیں _

ایک طرف تو یہ بچے کو غلط بیانى کى تقلین کرنے کے مترادف ہے اور اسے جھوٹ بولنا سکھاتا ہے _ دوسرى طرف عملاً اور قولاً اسے یہ بتاتا ہے کہ غلط اور برے کام انجام دے کر انہیں دوسروں کى گردن پر ڈالا جا سکتا ہے _ اور یہ کام جھوٹ بولنے سے بھى زیادہ برا ہے اور اس کا نقصان بھى زیادہ ہے _

7_ اگر اتفاقاً آپ کے بچے جھوٹ بولین تو کوشش کریں کہ اس کى وجہ معلوم کریں اور اس کے علاج کے درپے ہوں _ البتہ اس بات پر زور نہ دیں کہ تحقیق و جستجو سے ان کا جھوٹ بولنا ثابت کیا جائے اور انہیں شرمندہ اور رسوا کیا جائے _ کیونکہ جھوٹ بولنا اگر ثابت ہوجائے تو اس کا اس کے سوا کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ بچے کو شرمندہ اور رسوا کیا جائے اور الٹا وہ اس سے اور بھى بے باک ہوجائے گا _ اور اس کى جرات بڑھ جائے گى _

 


1_ اصول کافى ، ج 4، ص 36
2_ اصول کافى ، ج 4، ص 33
3_ مستدرک ، ج 2، ص 100
4_ در تربیت _ ص 148
5_ اصول کافى ، ج2، ص 78