پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

آزادي

آزادی

بہت سے ماں باپ بچے کى تربیت اس میں سمجھتے ہیں کہ اس کى آزادى محدود کردى جائے یا چھین لى جائے _ کہتے ہیں بچہ اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کرسکتا _ اس کى اتنى عقل نہیں ہوتى _ اگر اسے آزاد چھوڑدیں تو وہ خرابى کرے گا _ چاہیے کہ اسے محدود اور پابند رکھا جائے _ ایسے اں باپ اپنے آپ کو بچے کى عقل کے مطابق فرض کرلیتے ہیں _ اس کے مقام پر سوچتے ہیں _ اس کى جگہ ارادہ کرتے ہیں _ اس کى بجائے خود انتخاب کرتےہیں یہاں تک کہ اس کے کھانے ، پینے اور کھیلنے پر بھى کنٹرول رکھتے ہیں _ اور اس کے ہر مسئلے پر نظر رکھتے ہیں _ اور اپنے سلیقے کے مطابق اس کى زندگى کا نظام چلاتے ہیں _ ان کے نزدیک بچہ آزادى اور خود ارادى کا حق نہیں رکھتا _ اور ماں باپ کى اجازت کے بغیر کام نہیں کر سکتا _ جو کچھ وہ اس کے لیے پسند کریں اسے ناچار بے چون و چرا کرتا ہوگا _ اور جسے وہ برا سمجھیں مجبوراً بغیر کچھ کہے اسے ترک کرنا ہو گا _ ماں باپ کے تربیتى پروگرام اور ان کے حکم اور ممانعت پر بچوں کو اطاعت کے ھلاوہ چارہ نہیں _ پہلے خاندان اسى طریقے سے اپنى اولاد کى تربیت کرتے تھے اور وہ زبردستى اور بزور اپنے احکام پر عمل کراتے تھے _ دور حاضر میں بھى بہت سارے خاندان اسى طریقے پرچل رہے ہیں _

مذکورہ طریقہ کاراگر چہ معمول رہا ہے اور آج بھى ہے لیکن یہ تربیت کى صحیح روش نہیں ہے _ اس میں بہت سے عیوب و نقائص موجود ہیں _ اس پروگرام کے مطابق ممکن ہے کہ بچوں کى ایسى تربیت ہوجائے کہ وہ بہت حد تک آرام سے رہیں ، خاموش رہیں اور فرمانبردار ہیں اور ماں باپ کى مرضى کے مطابق عمل کریں _ ایسے بچے زیادہ تر بے دبے اور قوت ارادى سے عارى رہ جاتے ہیں _ ان کى تخلیقى صلاحیتیں خاموش ہوجاتى ہیں _ اہم کاموں میں ہاتھ ڈالنے کى جرات ان میں نہیں ہوتى _ اور وہ عزم و ارادہ سے محروم رہ جاتے ہیں _ دشوار ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں _ یہ قیادت نہیں کرسکتے اور کمانڈر نہیں بن سکتے لیکن فرمانبردارى ان کے لیے مشکل نہیں ہوتى ایسے بچے ستم اٹھانے اور ظلم کو قبول کرنے کے عادى ہوجاتے اور بڑے ہوکر اس برى عادت سے دستبردار نہیں ہوتے چونکہ یہ لوگ آزادى سے محروم رہے ہیں اور اپنى اندرونى خواہشات کى تکمیل نہیں کرسکے ہیں _ ان کے دل میں گویا ایک گرہ سى پڑگئی ہے _ ممکن ہے یہ گرہ بہت سى نفسیاتى اور اعصابى بیماریوں کا باعث بن جائے _ یہ بھى ممکن ہے کہ ایسے عقدہ افراد ردّ عمل کے طور پر ظلم کرنے لگیں تا کہ اس ذریعے سے اپنے ماں باپ اور پورے معاشرے سے انتقام لے سکیں اور اپنى کمى کو پورا کرسکیں _ انہى برائیوں کى بناء پر حال ہى میں بعض دانشوروں اور ماہرین نفسیات نے اس ظالمانہ طرز تربیت کے خلاف علم جہاد بلند کیا ہے اور اس کى سخت مذمّت کى ہے اور بچے کى کامل آزادى کى حمایت میں آوازى اٹھائی ہے _ ان دانشورون نے ماں باپ کو نصیحت کى ہے کہ اپنے بچے کو بالکل آزاد چھوڑدیں تا کہ وہ اپنے ذوق و سلیقے کے مطابق چلے _ وہ کہتے ہیں کہ بچے کو آزادى دیں کہ وہ جو کام چاہیے کرے اگر چہ وہ کام آپ کى نظروں میں درست نہ ہو یا بچہ اس کام کى صلاحیت نہ رکھتا ہو _ اس چیز سے بچہ آزادى مزاج ہوکر پروان چڑھے گا اور اس کا دل کسى گرہ سے دوچار نہیں ہوگا _

معروف دانشور فرائڈ اسى نظرے کا حامى ہے اور اس نے مشرق و مغرب میں اپنے اس نظریہ کے بہت سے پیروکار پیدا کرلیے ہیں _ بہت سے ماں باپ نے بھى اس نظریے کو قبول کرکے اس پر عمل کیا ہے اور اپنے بچوں کوکامل آزادى دے وہى ہے ایسے ماں باپ اپنے بچوں کو کوئی حکم نہیں دیتے اور ان سے بے تعلق رہتے ہیں _ یہ طرز عمل بھى درست نہیں _ اس میں بھى بہت سے نقائص موجود ہیں _ وہ بچے جو اس طرز عمل کے مطابق پروان چڑھتے ہیں وہ کاموں کى انجام وہى میں کسى بھى محدودیت کے

قائل نہیں ہوتے _ ایسے بچے زیادہ تر خود غرض ، شہوت پرست اور دھونس دھاندلى جمانے والے ہوتے ہیں اور دوسروں کے لیے کسى حق کے قائل نہیں ہوتے دوسروں کے حقوق پر ڈالتے ہیں _ ماں باپ سے چین لیتے ہیں _ بہن بھائیوں اور دوسرے بچوں کو تکلیف پہنچا تے ہیں _ ہمسایوں اور رشتے داروں کو اذیت دیتے ہیں _ ان کى خواہشات چونکہ مطلق آزادى کى حامل ہوتى ہیں لہذا ایسے بچے عموما افراط اور زیادتى کى طرف مائل ہوتے ہیں _ یہ افراط ان کے لیے خرابى اور تباہى کا باعص بنتى ہے _ افراط اور نا معقول آزادى بچے کو اضطراب اور پریشانى میں مبتلا کردیتى ہے ممکن ہے ان کى تو قعات اس ہمد تک جا پہنچیں کہ ان کى انجام دہى ایک شکل کام بن جائے _ اس طرح کے بچے حب بڑے ہوجا تے ہیں تو دوسروں سے ان کى یہ توقع ہوتى ہے کہ ان کے ماں باپ کى طرح ان کى اطاعت کریں _ وہ چاہتے ہیں کہ ہر جگہ ان کى فرمااں روائی ہو _ وہ کسى کى اطاعت قبول نہیں کرتے معاشر ے کے افراد پر ان کى نہیں چلتى اور جب وہ شکست کا سامنا کرتے ہیں تو پھران کے دل میں ایک گرہ پڑ جاتى ہے _ ایسى صورت میں وہ گوشہ نشین ہو جاتے ہیں یا اپنے شکست کى تلافى کے لیے ظلم اور خطر ناک کام انجام دیتے ہیں _ بے قید آزادى کبھى بچے کى ہلاکت کا باعث بھى بن جاتى ہے _ شاید بچے کادل یہ چاہتا ہو کہ وہ بغیر کسى پابندى کے سڑک پردورڈے یا بجلى کے ننگے تار کو چھو ئے یا گرم سماوار کو ہاتھ لگا ئے _ اس بناء پر تربیت کے یہ دو طریقے کہ جوایک دوسرے کے مقابل ہیں ایکم افراط کا حافل ہے اور دوسرا تفریط کا _ یہ دونوں طرز عمل درست نہیں ہیں _ بچے کى تربیت کے معاملے میں ان پر عمل پیرا نہیں ہوا جاسکتا _ اس معاملے میں بہترین قابل انتخاب روش بچے کى محدود اور معتدل آزادى ہے _ اللہ نے انسانى وجود کو مختلف جبلتوں اور محسوسات کا مرکب بنا یا ہے کہ جو انسانى شخصیت کى تکمیل کے لیے سودمند ہیں _ مثلا محبت ، نفرت ، شجاعت ، خوف ، دفاع ، جستجو ، تقلید اور کھیل کا غوغا و غیرہ یہ داخلى کیفیات و محسوسات اللہ کى طرف سے انسانى قوتوں کا سر چشمہ ہین اورزندگى کى مشکلات کو حل کرنے کے لیے انسان کو عطا کى گئی ہیں _ انہیسے انسانى شخصیّت تشکیل پاتى ہے _ ان جبلتوں کو آزاد ماحول میں پرورش اور رشد کا موقع ملنا چاہیے _ انہیں کچلنے سے انسانى شخصیّت برى طرح مجروح ہو جاتى ہے _

خوف خطرات سے بچنے کے کام آتا ہے غصہ دشمن پر حملہ آور ہونے کے کام آتا ہے جستجو حصول علم کے لیے ضرورى ہے _ جس شخص میں خوف اور غصہ نہ ہو وہ ناقص انسان ہے یہ درست نہیں ہے کہ بچے کے ان احساسات کو دباد یا حائے یا کچل دیا جائے _ آزاد ماحول میں بچہ ان احساسات سے استقادہ کحرسکتا ہے آزادانہ عمل کرسکتا ہے ، اپنى شخصیّت کو پروان چڑھا سکتا ہے اور اجتماعى زندگى کے لیے اپنے تئیں تیار کرسکتا ہے _

دین مقدس اسلام نے آزادى کى طرفى خصوصى تو جہ دلائی ہے _ نمونے کے طور پر چند ایک احادیث ملا حظہ فرمائیں _

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا :

لا تکن عبد غیرک فقد جعلک اللہ حدا

غیرہ کا بندہ نہ بن اللہ نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے (1)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جس شخص میں یہ پانچ خصوصیات نہ ہوں اس کا وجود فائدہ مند نہیں ہے _

اوّل _ دین

دوم _ عقل

سوم _ادب

چہادم _ آزادی

پنجم _ خوش اخلاقى (2)

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلّم نغ فرمایا:

بچہ سات سال کى عمر تک فرماں رواہے _ سات سال کى عمر سے لے کر چو دہ سال تک فرماں بروار ہے چودہ سال کے بعد سات سال ماں باپ کا وزیر اور مشیر ہے (3)

البتہ مطلق آزادى بھى ممکن نہیں ہے _ معاشر ے میں زندگى بسر کرنے والا انسان کا ملانہیں رہ سکتا کیونکہ معاشرے کے تمام افراد آزادى اور زندگى کا حق رکھتے ہیں _ ایک فرد کى آزادى کے لیے دوسروں کے حقوق پا مال نہیں کیے جا سکتے _ بچے کو بچپن ہى سے سمجھا دینا چاہیے کہ بے قید و شرط آزادى کے ساتھ زندگى بسر نہیں کى جاسکتى _ دوسرے لوگ بھى زندگى اوور کے حقدار ہیں _ مثلا بچہ چاہتا ہے کہ کھیلے _ کھیل اس کى تربیت کے لیے بھى ضرورى ہے _ اسے اس بات کى آزادى ہو ناچا ہیے کہ اپنے ذوق اور سلیقے کے مطابق کھیلے لیکن اس کھیل میں ماں باپ ، ہمساسوں اور دوسرے بچوں کے حقوق کا بھى خیال رکھے اور ان کى آزادى میں حائل نہ ہو _ درست ہے کہ اسےکھیلنا چاہیے لیکن اسے یہ بھى معلوم ہو نا چاہیے کہ اسے لوگوں کے در و دبوار خراب اور گندہ کرنے اور شیشے توڑ نے کا حق نہیں _ لہذا کھیل میں تو اسے آزادى ہے لیکن ایک محدود او رمشروط آزادى نہ کہ بے قید و شرط آزادى _

بچہ اپنے غصّے کو استعمال کرسکتا ہے _ اسے مناسب موقعے پر استعمال کرکے اپنال دفاع کرسکتا ہے _ لیکن اسے یہ بھى معلوم ہو نا چاہیے ہ غصّے کے وقت اسے یہ حق حاصل نہیں کہ گھر کے سامان کى توڑ پھوڑ شروع کردے یا ماں باپ اور دوسرے لوگجوں کو کوى نقصان پہنچائے یا کسى کى تو ہین کرے یاکسى کا حق پامال کرے _

اس حکمت عملى کے لیے ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کى عمر ، فہم ، طاقت ، خواہشات اور جذبات کو ملحوظ نظر رکھیں اور اس کے اعمال او رحرکات کو دوحصّوں میں تقسیم کریں _

1_ وہ کام جو اس کے لیے جائز ہیں _

2_ و ہ کام جن کا وہ مجاز نہیں ہے _

انھیں ان میں سے ہر ایک کى حدود پورى طرح سے واضح کرنا چاہیے _ اس کے بعد انہیں چا ہیے کہ جائز امور میں بچوں کو پورى آزادى دیں تا کہ وہ اپنى جبلّت اور طبیعت کے مطابق عمل کرسکیں اور اپنى شخصیّت کو پر وان چڑھا سکیں _ بچے کو اجازت دینى چاہیے کہ وہ خود غور کرے _ ارادہ کرے اور کام کے _ نہ صرف بچے کو کامل آزادى دینى چاہیے بلکہ ضرورى مواقع پر اس کى مدد بھى کرنا چاہیے لیکن جو کام اس کے لیے مناسب نہیں ان سے سختى سے رو کنا چاہیے اور ان کى خلاف ورزى کى اجازت نہین دینا چاہیئے

اس طرز عمل سے بچے کى آزادى سلب نہیں ہو گى او رنہ ہى اس کى صلاحیتیں کچلى جائیں گى _ بلکہ اس کو آزادى ہو گى البتہ حدود کے اندر _ اور ساتھ ہى اس کے جذبات اور طبیعت پر کنٹرول بھى پیدا ہو جائے گا _ جبلّت پر کنٹرول اس کو کچلنے اور اسے پیچھے کھینچنے کے معنى میں نہیں ہ8ے بلکہ اس کا مطلب ہے نفس پر قابو اور تقویت ارادہ تا کہ وہ اپنى صلا حیتوں کو غلط کاموں پہ صرف نہ کرے بلکہ انہیں مفید اور سودمند کاموں کمے لیے جمع رکھے _

آخر میں ماں باپ کو نصیحت کى جاتى ہے کہ پہلے تو وہ صحیح اور غیر صحیح کاموں کى حدود کو قطعى طور پر معین کریں تا کہ بچہ اپنى ذمہ دارى کو سمجھ سکے _ مثلا ایسے کام جو بچے یا خاندان کى سلامتى اور امن و سکون کے لیے نقصان وہ ہیں _ نیز ایسے کام جو جسمانى یا مالى طور پر ضرر ساں ہیں _ اسى طر ح شریعت او رقانون کے خلاف کام نیز اخلاقى اور معاشرتى اصولوں کے خلاف کام او رایسے کام جو دوسروں کى آزادى میں حائل ہو تے ہیں اور ان کے حقوق ضائع کرنے کا باعث بنتے ہیں انھیں بلیک لسٹ کردیا جاناچاہیے او ربچے کو ان سے سختى سے روک دیناچاہیے _ ایسے کاموں کے علاوہ دیگر کاموں میں بچہ بالکل آزاد ہو ناچاہیے _ اور ان امور میں اسے خود سو چنا چاہیے - خود اراده کرنا چاہیے - او مخور انہیس انجام دینا چاہیے -

دوسرایہ کہ بچے کى تو نائی کو ملحوظ رکھنا چاہیے _ اس کے عقلى رشد اور جسمانى طاقت کے مطابق اس کے لیے نظم و ضبط ہو نا چاہیے اور سخت قسم کے نظم و ضبط اور غیر منطقى احکام سے پرہیزکرنا چاہیے _

تیسرا یہ کہ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے قول پر پکے رہیں اور بچے سغ پورى صراحت سے کہہ دینا چاہیے کہ یہ کام تو انجام دنے سکتا ہے اور وہ کام تجھے حتماترک کرنا چاہیے

ماں باپ کو چاہیے کہ بے جا احساسات او رجذبات کو ایک طرف رکھ دیں _ شک و شبہ سے اجتناب کرین تا کہ بچہ اپنى ذمہ دار ى کو سمجھے اور اپنے فریضہ کى ادائیگى میں شک نہ کے _

امام حسن عسگرى علیہ السلام فرماتے ہیں :

بچپن میں کسى بچے کى ماں باپ کے حکم کے خلاف جسارت اور بے اعتنائی

بڑا ہو کراس کے سر کش اور نافرمان ہو جانے کا باعث بنتى ہے (4)

چوتھا یہ کہ ماں باپ کو چاہیے کہ آپس میں ہم آہنگ ہوں او راہتلاف سے سختى سے پہیز کری'ں اور اپنے اختلافات سے بچے کو شک اور دو دلى میں مبتلا نہ کردیں _

 

1_ بحار الانوار ج 77 ، ص 214
2_ بحار ، ج ، 1 ، ص 83
3_ وسائل ، ج 15 ، ص 195
4_ بحار ، ج ، 78، ص 374