پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

احساس وابستگي

احساس وابستگی

نومولود بہت کمزور سا وجود ہے جو دوسروں کى مدد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے نہ پرورش پا سکتا ہے نو مولود ایسا محتاج وجود ہے جس کى ضروریات دوسرے پورى کرتے ہیں _ جب وہ رحم مادر میں تھا تواسے نرم و گرم جگہ میسّر تھى _ وہاں اس کى غذا اور حرارت کیاحتیاج ماں کے ذریعے پورى ہو رہى تھى _ وہ چین سے ایک گوشے میں پڑاتھا اوراپنى ضروریات کے لیے بالکل بے فکر تھا _ اب جب کہ وہ دنیا میں آیا ہے تو احساس نیاز کرتا ہے _ بچے کا پہلا پہلا احساس شاید سردى کے بارے میں ہوتا ہے اور اس کے بعد بھوک کے بارے میں _ اسے پہلى بار احساس ہوتا ہے کہ حرارت اور غذا کے لیے وہ دوسرے کا محتاج ہے _ اس مرحلے میں وہ کسى کو نہیں پہچانتا _ اپنى ضروریات کو فطرتاً سمجھتا ہے اور ایک انجانى قدرت مطلقہ کى طرف متوجہ ہوتا ہے _ اپنے تئیں اس قدرت مطلقہ سے منسلک سمجھتا ہے _ اسے انتظار ہوتا ہے وہ قدرت اس کى ضروریات پورا کرے گى _ بچہ زندگى کى ابتدا ہى میں کسى سے وابستگى کا احساس کرتا ہے اور یہ احساس زندگى کے تمام مراحل میں اس کے ساتھ رہتا ہے _ بھوک یا پیاس لگے تو دوسروں کو متوجہ کرنے کے لیے روتا ہے _ ماں کے سینے سے چمٹ جاتا ہے اور اس کى محبتوں اور لوریوں سے سکون محسوس کرتا ہے _ اگر اسے کوئی تکلیف ہو یا کسى خطرے کا احساس کرے تو ماں کے دامن میں پناہ لیتا ہے _

یہى وابستگى اور احساس ضرورت ہے جو بعد میں دوسرے لوگوں کى تقلید کى صورت میں ظاہر ہوتا ہے_ یہ ایک نفسیاتى وابستگى ہے _ بچہ اپنے اخلاق اور طرز عمل کو اپنے ارد گردوالوں کے اخلاق اور طرز عمل کے مطابق ڈھالتا ہے _ یہى احساس تعلق ہے جو بعد ازاں کھیلوں اور دوسرے سے مل جل کر کام کرنے اور دوست بنانے میں ظاہر ہوتا ہے _ بیوى بچوں سے الفت و محبت کا سرچشمہ بھى یہى احساس ہے اجتماعى زندگى کى طرف میلان ، باہمى تعاون اور مل جل کر کام کرنے کا مزاج بھى اسى احساس سے تشکیل پاتا ہے _ احساس وابستگى کو کوئی معمولى سى چیز نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بچے کى اخلاقى اور سماجى تربیت اور اس کى تکمیل شخصیت کا ایک اہم ذریعہ ہے _ اگر اس احساس وابستگى و تعلق کى صحیح طور پر راہنمائی کى جائے تو بچہ آرام و سکون محسوس کرتا ہے _ وہ پر اعتماد اور خوش مزاج ہوجاتا ہے _ اچھى امیدوار توکل کى کیفیت اس میں پیدا ہوجاتى ہے _ دوسروں کے بارے میں اس میں حسن ظن پیدا ہوجاتا ہے _ اس طرح معاشرتى زندگى کى طرف قدم بڑھاتا ہے _ دوسروں کو اچھا سمجھتا ہے اور ان سے تعاون کى امید رکھتا ہے _ جب معاشرے کے بارے میں اس کے رائے اچھى ہوگى تو اس سے تعاون بھى کرے گا اور اس کے لیے ایثار بھى کرے گا _ معاشرے کے لوگ بھى جب اسے اپنا خیر خواہ اور خدمت گزار سمجھیں گے تو وہ بھى اس سے اظہار محبت کریں گے _

اس کے برعکس اگر یہ گراں بہا احساس کچلا جائے اور اس سے صحیح طور پر استفادہ نہ کیا جائے تو خدا نے جو صحیح راستہ بچے کے لیے مقرر کیا ہے اس کى اجتماعى زندگى اس سے بھٹک جائے گى _ ماہرین نفسیات کا نظریہ ہے کہ بہت سے مواقع پر خوف ، اضطراب ، بے اعتمادى ، بدگمانى ، شرمندگی، گوشہ نشینی، افسردگى اور پریشانى یہاں تک کہ خودکشى اور جراثیم کى بنیاد بچپن میں پیش آنے والے واقعات ہوتے ہیں

اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے کے احساس وابستگى کو صحیح طرح سے مطمئن کریں تو ہمیشہ اس کے مددگار ہیں _ جب اسے بھوک لگے تو غذا دیں اور اس کے لیے آرام و راحت کا سامن فراہم کریں _ اگر اسے درد ہو یا کوئی اور تکلیف پیش آئے تو فوراً اس کى داد رسى کریں _ اس کى نیند اور خوراک کو منظم رکھیں _ اس طرح سے کہ اسے بالکل پریشانى نہ ہو او ر وہ آرام کا احساس کرے _

نو مولود کو مارپیٹ نہ کریں _ نو مولود کچھ نہیں پہچانتا _ اسے صرف اپنى ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور ایک انجانى قدرت پر بھروسہ کرتا ہے _ وہ رنے کى زبان سے اس کى پناہ حاصل کرتا ہے اور اپنى احتیاج کا اظہار کرتا ہے _ مارپیٹ کے ذریعے اسے مایوس اور بدظن نہ کردیں _

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

''بچوں کو رونے پر مارنانہ چاہیئےیونکہ چار ماہ تک اپنے اس رونے کے ذریعے وہ اللہ اور اس کى توحید کى گواہى دیتے ہیں '' _(1)

ہر حال میں بچے کے مددگار رہیں اگر وہ کوئی انجام دینا چاہتا ہے اور آپ اس کى مدد نہیں کرسکتے تو بھى اس سے نوازش و محبت سے پیش آئیں _ اگر بچہ پریشان ہواور وہ ناراحتى محسوس کرتا ہو تو اس پریشانى کے اسباب ختم کریں اور اس کو مطمئن کریں اسے ہرگز ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ میں تمہیں یہیں چھوڑ کر جارہى ہوں _ کیونکہ یہى ڈانٹ ڈپٹ ممکن ہے اس کى روح پر برا اثر کرے اور اسے پریشان کردے _ بچہ چاہتا ہے کہ وہ ماں باپ اور دوسروں کو محبوب ہو _ اگر ماں باپ اس سے محبت نہ کریں تو وہ اس پر سخت پریشان ہوتا ہے _ وہ ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ ان کا پیارااور محبت ہمیشہ باقى رہے _ بعض ماں باپ بچے کے اس جذبے سے استفادہ کرتے ہیں اور بچے کو ڈانٹتے ہیں کہ اگر تونسے یہ کام نہ یکا تو ہم تم سے پیار نہیں کریں گے لیکن آپ کو چاہیے کہ اس حربے کو استعمال نہ کریں _ کیونکہ اس طرح کى ڈانٹ ممکن ہے تدریجاً بچے کى روح پر برے اثرات مرتب کرے اور اس سے اس کا عتماد اور رآرام جاتا رہے اور یہ بچے کے ضعیف اعصاب اور داخلى اضطراب کا سبب بن جائے _ اگر وہ رورہا ہو یا شور کررہا ہو تو وہ یہ نہیں چاہ رہا ہوتا کہ آپ کو بے آرام کرے بلکہ وہ آپ کى توجہ مبذول کرنا چاہ رہا ہوتا ہے تا کہ آپ اس کى بات سنیں _ آپ صبر اور سمجھدارى کے ساتھ اس کى بے آرامى کى وجوہ سمجھیں اور اس بے آرامى کو دور کریں _ تا کہ اسے آرام ملے _ اگر آپ اسے رونے پر ڈانٹیں گے یا ماریں _ گے تو ممکن ہے وہ خاموش ہوجائے _ لیکن کیسے خاموش ؟

ایک اضطراب آمیز
 

مایوسانہ خاموشى کہ جو بہت خطرناک ہے جو ممکن ہے اس کے مستقبل کو دگرگوں کردے _ ماں باپ کى موجودگى سے بچہ ہمیشہ خوش رہتا ہے اور ان کى جدائی سے وحشت کھاتا ہے _ آپ کبھى اپنى موت کے بارے میں سے بات نہ کریں کیونکہ یہ اس کى پریشانى اور وحشت کا سبب ہوگى _ اگر آپ بیمار ہوجائیں تو موت کاذکر نہ کریں _ بلکہ اپنے بچوں کو پر امید رکھیں اور ان کا حوصلہ بڑھائیں اگر آپ ایک عرصے کے لیے بچوں سے دور ہونے پر مجبور ہوں تو پہلے انہیں اس پر آمادہ کریں _ ان کادل بڑھائیں پھر سفر اختیار کریں اور اس کے بعد ابھى ہمیشہ ان سے رابطہ برقرار رکھیں اور نامہ و پیام کے ذریعے سے ان کى دھارس بندھاتے رہیں_

اگر آپ کا بچہ بیمار ہوجائے تو دوا کھلانے کے لیے اسے موت سے اور اچھا نہ ہونے سے نہ ڈرائیں _ بلکہ ایسے مواقع پر تشویش کى راہ اختیار کریں اور اسے صحیح ہوجانے کى امید دلائیں _ یہاں تک کہ اسے اگر کوئی خطرناک بیمارى ہو تو اپنى پریشانى اور اضطراب کو اس سے چھپائے رکھیں _ مختصر یہ کہ پورى عمر اپنے بچوں سے ایسا سلوک رکھیں کہ وہ آپ کو اپنا بہترین غمگسار اور غمخوار سمجھیں _

البتہ اس بات کا خیال رہے کہ بچے سے اظہار محبت ضرورى حد تک اور ضرورى مقامات پر ہونا چاہیے _ اس طرح سے کہ وہ لا ڈپیارسے بگڑنہ جائے اور خود اعتمادى سے محروم نہ ہوجائے _ جہاں بچہ واقعى کوئی کام نہ کرسکتا ہو اس کى مدد کرنا چاہیے لیکن اگر وہ ایک کام خود کرسکتا ہے اور اسے مدد کى ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ دوسروں پر رعب جمانے کے لیے شور کررہا ہو تو اس کى طرف اعتناء نہیں کرنا چاہیے _

رسل لکھتا ہے :

اگر بچہ کسى وجہ اور واضح علت کے بغیر روئے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے اور وہ جتنا چلاّ نے دیں _ ایسے مواقع پر اگر کوئی اور روش اپنائی گئی تو وہ جلدى ہى ایک جابر حاکم کى صورت اختیار کرلے گا ایسے مواقع کہ جہاں ضرورت ہے کہ اس کى طرف توجہ کى جائے وہاں بھى افراط سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ حسب ضرورت طرز عمل اپنا ناچاہیے اور زیادہ ہى اظہار محبت نہیں کرنا چاہیے _(2)

1_ بحار الانوار _ جلد 104 ص 103
2_ در تربیت ، ص 79