پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

دودھ پلانے كا پرو گرام

دودھ پلانے کا پرو گرام

ماہرین نے بچے کو دودھ پلانے کے لیے دو طریقے تجویز کیے ہیں

بعض کایہ نظریہ ہے کہ بچے کو غذا یا خوراک دینے کے لیے چاہیے کہ منظم اور دقیق پروگرام بنا یا جائے اور بچے کو اسى پروگرام کے تحت معین و قفوں میں دود ھ پلا یا جا ئے _

دو مرتبہ دود ھ پلانے کے در میان بعض نے تین گھنٹے کا و قفہ معین کیا ہے اور بعض نے چار گھنٹے کا یہ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر تین یا چار گھنٹے بعد بچے کو دودھ دینا چاہیے اور اس دوران بچے کودودھ دینے پرہیز کرنا چا ہیے _

بعض دوسرے ماہرین نے اس روش کو پسند نہیں کیا اور انہوں نے آزاد پرورش یا طبعى تنظیم کو تجویز کیا ہے _ وہ کہتے ہیں کہ جب بھى بچہ بھو کا ہو جا تا ہے اور وہ بھوک کا تقاضا کرتا ہے تواسے دودھ دینا چاہیے _

بعض کى نظر میں دوسرى روش اس پہلى سے بہتر ہے کہ جس میں معین و قفوں کى پابندى کى جاقى ہے چاہے جب دودھ یا جائے بچہ بھو کا بھى نہ ہو ان کے نزدیک دوسرى تجویز علاوہ برا ینکہ عملى لحاظ سے آسان ہے ظاہرا پسندیدہ اور معقول تر ہے کیونکہ پہلے مجوزہ پرو گرام کا تقاضا اگر چہ یہ ہے کہ بچے کو بھوک کے وقت دود ھ یا جائے نہ کہ معین اوقات میں لیکن اس کے باو جودیہ بہت سے نقائص کا حامل ہے بہر حال دوسرى تجویز بھى نقائص سے خالى نہیں ، ذیل کے چند نکات کى طرف توجہ کیجئے _

1_ بچے میں بھوک اور پیاس کو یقیتى طور پر متشخص نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بچہ بات تو نہیں کر سکتا کہ اپنے داخلى محسوسات کو بیان کرسکے اگر چہ ابتدائی طور پر بچہ بھوک مٹا نے کے لیے دودھ پیتا ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ دودھ پینے کا عادى بن جاتا ہے اور پستان کو چو سنے سے لطف آٹھاتا ہے _ اس صورت میں کبھى کبھى بچے کے اندرونى احساسات اسے تجریک کرتے ہیں کہ وہ روئے تا کہ دوسروں کى محبت کو اپنى طرف جذب کرسکے _ ماں بھى اسے چپ کرانے کے لیے اپنا دودھ پیش کردیتى ہے _ بچہ بھوک کے بغیر بھى روتا ہے اور ماں اس خیال سے دودھ دیتى ہے کہ وہ بھوکا ہے _ کبھى بھوک کى وجہ سے دودھ پیتا ہے اور کبھى بغیر بھوک کے بھى _ البتہ ہے کہ نامنظم طور پر اور بھوک کے بغیر غذا کا استعمال جیسے بڑوں کے لیے نقصان وہ ہے اسى طر ح بچوں کے لیے بھى کہ جن کا نظام ہضم ابھى قوى نہیں ہو تا _ نامنظم طور پردودھ دینے سے ممکن ہے بچے کے نظام ہضم میں کوئی خلل پیدا ہو جائے اور بچہ کسى بیمارى کے لیے تیار ہو جائے _ اس بنا پر غذا دینے کى آزاد روش بچے کى صحت و سلامتى کے لیے بے ضرر نہیں ہوسکتى کیونکہ اس میں بھوک کے وقت کو متشخص نہیں کیا جا سکتا _ بچوں میں بہت سى بیماریاں نامنظم اور زیادہ غذا کے باعث پیدا ہوتى ہیں _

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا :

زیادہ کھانے اور کھا نے کے بعد پھر کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ کھانے والا بیمار بھى زیادہ ہو تا ہے ( 1 )

2_ جو بچہ شروع ہى سے بغیر کسى نظم و حساب کے دودھ پیتا ہے وہ شروع سے بے نظمى کا عادى ہو جاتا ہے اور اپنى آئندہ کى زندگى میں نظم و ضبط سے عارى ایک فر د ثابت ہو گا

3_ جو بچہ جب بھى ردتا ہے اور اس کے منہ میں پستان دے دیا جاتا ہے وہ اسى عمر ے گریہ وزارى کا عادى ہو جاتا ہے اور وہ آئندہ بھى رونے دھونے اور منت سماجت کو ہى مقصد تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ سمجھنے لگتا ہے _ کاموں میں صبر اور حو صلہ سے کام نہیں لیتا _ وہ چاہتا ہے کہ جتنى جلدى ہو سکے مقصد تک پہنچ جانے اگر چہ اس کے لیے رونا پڑے یا التماس کرنے پڑے یا ذلت کا بو جھ اٹھا نا پڑ ے _

4_ ایسے بچے کے ماں لاپ اور مربیوں کو راحت و آرام نہیں ملتا کیونکہ وہ وقت بے وقت رونے مگتا ہے اور دودھ مانگتا ہے _

انہیں نقائص کى وجہ سے میں پہلى روش کو دوسرى روش پر ترجیح دیتا ہوں اور منظم طریقے سے غذا دینے کو بچے کى جسمانى اور روحانى نشو و نما کے لیے بہتر سمجھتا ہوں _

ڈاکٹر جلالى اس بار ے میں لکھتے ہیں:

اگر کسى ماہر ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق بچے کے لیے دودھ پلانے کا منظم پروگرام بنا یا جائے تو اس میں اسى کے مطابق عادت پیدا ہو جائے گى اورعادت خود اس بات کا سبب بنے گى کہ اس عادت سے مربوط طرز عمل اور رد عمل سے مائیں بچے کى سیرى اور بعوک کى حالت سے آگاہ ہو سکیں _

ثانیا انسان کے بہت سارے کام ہر روز چونکہ عادت کے مطابق انجام پانے چاہیں لہذا دود ھ دینے کا یہى منظم پروگرام اس کى بعد کى عادتوں کے لئے اچھى بنیاد بن جائے گا (2)

رسل لکهتاہے :

آج کل ہرماں بچے کى پرورش کے سادہ سے حقائق جانتى ہے اور اس کى تربیت کرتى ہے مثلا وہ جانتى ہے کہ بچے کو مناسب وقفوں سے غذا دینا کتنا ضرورى ہے نہ کہ جب وہ رورہا ہو اسے علم ہے کہ ایسى پا بندى اس لیے رکھى جاتى ہے ہ یہ غذا کے ہضم ہونے ہیں بہت فائدہ مند ہے ......

علاوہ از یں تربیت اخلاق کے حوالے سے بھى مطلوب ہے کیونکہ شیر خوار بچے اس سے زیادہ حیلہ ساز اور کمر باز ہوتے ہیں کہ جتنا بڑے ان کے بارے میں تصور کرتے ہیں _ بچے جب دیکھتے ہیں کہ رونے دھونے سے ان کا مقصود حاصل ہوجاتا ہے تو وہ پھر اسى روش کو اختیار کرتے ہیں اور بعد جب کہ وہ دیکھتے ہیں کہ شکوہ اور آہ و زارى کى عادت بجائے اس کے کہ نوازش کا باعث بنے نفرست کا سبب بنتى ہے تو تعجب کرتے ہیں اور ان کو بہت دھچکا پہنچتا ہے اور دنیا ان کے آنکھوں میں سرد ، خشک اور بے روح ہوجاتى ہے _

لیکن چند نکات کى طرف توجہ ضرورى ہے _

1_ سب بچوں کے لیے اور دودھ پینے کے تمام عرصے کے لیے غذا کا ایک جبسا پروگرام معین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نظام ہضم اور بچے کى غذائی ضرورت تمام مدّت میں ایک جیسى نہیں رہتى _ نو زائدہ بچہ کا معدہ اور نظام ہضم آغاز تولد سے چالیس پچاس روز تک بہت چھوٹا ہوتا ہے کہ جو تھوڑے سے دودھ سے بھر جاتا ہے _ نو زائدہ بچہ تھوڑے سے دودھ سے سیر ہوجاتا ہے لیکن تھوڑى ہى مدّت بعد پھر بھوکا ہوجاتا ہے اس مدّت میں چاہیے کہ دودھ پلانے کے درمیاں فاصلہ کم ہو مثلاً 21 اسے 2 گھنٹے تک لیکن اس کے بعد بچے کے بڑے ہونے کے اعتبار سے وقفوں میں زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے مثلاً تین گھنٹے یا چار گھنٹے یہاں تک کہ بعض اوقات اس سے بھى زیادہ کا _

2_ سب بچے جسمانى ساخت اور نظام ہضم کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے بعض کو جلدى بھوک لگ جاتى ہے اور بعض کو دیر سے لہذا ان سب کے لئے ایک جیسا پروگرام تجویز نہیں کیا جا سکتا _ سمجھدار اور ہوش مند مائیں اپنى ذمہ دارى کا احساس کرتى ہیں اور اپنے بچوں کى صحّت و سلامتى کى خواہاں ہوتى ہیں _ وہ بذات خود اپنى بچے کے لیے خاص شرائط و حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے غذا کا پروگرام منظم کرتى ہیں اور ضرورى ہو تو وہ ڈاکٹر کى طرف رجوع کرکے مشورہ بھى کرتى ہیں _

3_ جب بھى بچے کو دودھ دیا جائے تو اسے پورى طرح سیر کرنا چاہیے البتہ خواتین کو اس امر کى طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ بچے بالخصوص نوزاد بچہ جلدى سوجاتا ہے اور معمولاً دودھ پیتے پیتے سوجاتا ہے جب کہ ابھى وہ سیر نہیں ہواہوتا اس صورت میں ماں بچے کى پشت پر آہستہ آہستہ ہاتھ مارسکتى ہے تا کہ وہ بیدار رہے اور پورى طرح سے سیر ہوجائے _

4_ جب بچے کودودھ دینے کا منظم پروگرام ترتیب پاجائے تو اس پر صحیح طرح سے عمل درآمد کى طرف توجہ رکھنا چاہیے اور مقرر اوقات کے درمیان میں اسے ہرگز دودھ نہیں دینا چاہیے اگر چہ وہ گریہ و زارى کرے _ اس کام میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تا کہ بچہ آہستہ آہستہ اس غذائی پروگرام کا عادى ہوجائے _ اس کے بعد وہ خود بخود معین اوقات میں بیدار ہونے لگے گا اور دودھ کا تقاضا کرنے لگے گا _ ایسى صورت میں ایک صابر ، بردبار اور منظم بچہ بھى پروان چڑھے گا اور آپ بھى آرام وراحت میں رہیں گے_

5_ بچے کے غذائی پروگرام کو اس طریقے سے مرتب کرنا چاہیے کہ آدھى رات کے بعد سے صبح تک اسے غذا نہ دى جائے تا کہ وہ اس طرز عمل کا عادى ہوجائے _ اس صورت میں بچہ بھى آرام و راحت سے سوجائے گا اور ماں بھى چند گھنٹے سکون اور چین سے آرام کرسکے گی_

6_ ہر مرتبہ بچے کو دودھ دینے کے بعد پستان کو تھوڑى سى روٹى سے صاف کرنا چاہیے _ یہ کام بچے کى صحت و سلامتى کے لیے بھى مفید ہے اور پستان کو زخمى ہونے سے بھى بچاتا ہے _

7_ جب بچہ دودھ پیتا ہے تو عموماً کچھ ہوا اس کے معدے میں داخل ہوجاتى ہے _ اور اس کے لیے ناراحتى کا سبب بنتى ہے اور اس کے پیٹ میں ہوا بھر جاتى ہے _ دودھ دینے کے بعد آپ اسے بلند کرسکتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کى پشت پر ہاتھ مارسکتے ہیں تا کہ ہوا نکل جانے اور بچہ دل کى تکلیف میں مبتلا نہ ہو _

8_ بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیں تا کہ آپ کا دودھ خشک نہ ہو اور آپ پستان کے درد میں مبتلا نہ ہوں _ ایک خاتون کہتى ہے :

حضرت امام صدق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا اپنے بچے کو ایک پستان سے دودھ نہ دے بلکہ دونوں پستانوں سے دودھ دے تا کہ اسے کامل غذا مل سکے _ (3)

9_ دودھ پلانے والى ماؤں کو چاہیے کہ وہ زیادہ تھکادینے والے کام اور شدید غصہ سے اجتناب کریں کیونکہ ماں کى ناراضى اور شدیدغصّے کے اثرات دودھ پر مرتب ہوتے ہیں کہ جو بچے کے لیے نقصان دہ ہیں _

1_مستدرک ج 3ص 82
2_ روان شناسى کودک ص 224
3_ وسائل _ج 15 ص 176