پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جنسى مسائل

جنسى مسائل

جنسى قوت انسان کى انتہائی قوى اور حساس جبلّتون میں سے ہے _ یہ قوت انسان کے لیے بہت تعمیرى ہے _ انسان کى نفسیاتى اور جسمانى زندگى کے لئے اس کے اچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں انسان کے بہت سے اعمال، یہاں تک کہ متعدد جسمانى اور نفسیاتى بیماریوں کى بنیاد یہى جبلّت ہوتى ہے اگر انسان کى پرورش عاقلانہ اور دست ہو تو یہ قوت انسان کى خوشى اور آرام کا ذریعہ بنتى ہے _ اور اگر تربیت میں افراط یا تفریط ہو تو ممکن ہے سینکڑوں جسمانى اور نفسیاتى نقصانات کا سبب بنے _ اور انسان کى دنیا و آخرت کو تباہ کردے _

ایسا نہیں ہے کہ جنسى قوت بلوغت کے زمانے میں پیدا ہوتى ہو _ بلکہ یہ بچپن ہى سے انسانى طبیعت میں خوابیدہ ہوتى ہے _ اور مختلف شکلوں میں اس کا ظہور ہوتا ہے _ چھوٹے بچے اپنے آلہ تناس کو چھکر لذت محسوس کرتے ہیں اور اس سے ان کے اندر ایک تحرک کى سى کیفیت پیدا ہوتى ہے وہ والدین کے اظہار محبت اور بوسوں سے لذت محسوس کرتے ہیں _ وہ خوبصورتى اور بد صورتى کى طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کبھى زبان سے اس کا اظہار بھى کرتے ہیں _ دو تین سال کى عمر میں وہ لڑکے اور لڑکى میں فرق سمجھنے لگتے ہیں اور بڑى توجہ اور جستجو سے ایک دوسرے کى شرم گاہ کو دیکھتے ہیں _ جب کچھ بڑے ہوجائیں تو وہاں تصویریں انہیں اپنى طرف کھینچتى ہیں _ وہ حیران ہو ہو کر ان کى طرف دیکھتے ہیں _ز بان سے فحش اور گندے مذاق کرتے ہیں اور ان پر خوش ہوتے ہیں جنس مخالف کى طرف انہیں کچھ کچھ میلان پیدا ہوجاتا ہے _ اور انہیں اپنى طرف متوجہ کرنے کى کوشش کرتے ہیں _ کبھى کبھى وہ تصریحاً یا اشارة جنسى امور کے بارے میں والدین سے سوال کرتے ہیں _ ماں باپ کى سرگوشیوں کى طرف وہ کان دھرتے ہیں اور ان کے کاموں پر نظر کرھتے ہیں _ اپنے دوستوں اور ہم عمروں سے گوشہ و کنار میں بیٹھ کر راز و نیاز کرتے ہیں _ ان سب چیزوں سے بخوبى واضح ہوتا ہے کہ جنسى قوت نابالغ بچوں میں بھى موجود ہوتى ہے لیکن مبہم اور تاریک صورت میں _ بغیر آگاہى اور کامل شعور کے ان کى توجہ اس کى طرف کھنچتى ہے لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں اس امر کى طرف ان کى توجہ ہوتى ہے کہ لذّت کہاں سے حاصل ہوتى ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ لذت کیسے حاصل کریں ؟ دس بارہ سال کى عمر تک بچے اسى حالت میں ہوتے ہیں اور ان کى جنسى جبلّت پورى طرح سے بیدار نہیں ہوتى اور ایک ابہام کى سى کیفیت ہوتى ہے لیکن بارہ سے پندرہ سال کى عمر میں وہ بڑى تیزى سے پروان چڑھتى ہے اور تقریبا بیدار ہوجاتى ہے _

فرض شناس ماں باپ اپنے بچوں کى جنسى جبلّت سے لا تعلق نہیں رہ سکتے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اس بارے میں کوئی حکمت عملى وضع نہ کریں _ کیوں کہ جنسى اعتبار سے تربیت دشوار ترین اور حساس ترین تربیتوں میں سے ہے _ اس سلسلے میں ذرّہ بھر اشتباہ یا غفلت بھى ممکن ہے بچوں کو برائی اور تباہى کى وادى کى طرف کھینچ لے جائے _

ماں باپ کى توجہ اس امر کى طرف ہونى چاہیے کہ بلوغ سے پہلے بدنى اور فکرى رشد کے اعتبار سے بچے تولید نسل او رجنسى قوت کو عمل میں لانے کى صلاحیت نہیں رکھتے _ اس لیے اللہ تعالى نے بلوغ سے پہلے ان کى جنسى جبلّت کو ان کى طبیعت میں خفتہ و خوابیدہ رکھا ہوتا ہے _ بچوں کى انفرادى اور اجتماعى بھلائی بھى اس میں ہے کہ بلوغ سے پہلے ان کى جنسى قوّت بیدار اور متحرک نہ ہو کیونکہ اگر جنسى قوت بلوغت سے پہلے اور جلدى ہى بیدار ہوجائے تو اس سے بچے کى زندگى بہت سى مشکلات کا شکار ہوجائے گى اور ہوسکتا ہے وہ اس کى بدبختى اور انحراف کے اسباب فراہم کرے _

لہذا ماں باپ کو ہر اس علم سے سخت پرہیز کرنا چاہیے کہ جس سے بچوں کى جنس جبلّت کو تحریک ہوسکے اور وہ بیدا رہوسکے _ اور ان کے لیے ایسے حالات فراہم کریں کہ ان کی نشو و نما تدریجى طور پر اور قطرى لحاظ سے ہو _ والدین اگر عقل مند اور باتدبیر ہوں تو وہ خود اس ضمن میں تمیز کرسکتے ہیں کہ کون سے کام مفید ہیں اور کون سے مضر _ لیکن ہم یاد دہانى کے طورپر کچھ باتیں بیان کرتے ہیں بچوں کى شرمگاہ پر ہاتھ پھیرنا ، وہاں پیار کرنا _ اخبار و جرائد کى خوبصورت اور ننگى تصویروں کو دیکھنا ، عشقیہ اور تحرک انگیز کانوں اور کہانیوں کو سننا، دوسروں کى شرم گاہ کى طرف دیکھنا یا اس پہ ہاتھ پھیرنا ، دوسروں کے حسن اور خوبصورت کى تعریف کرنا ، اور دوسروں کے ہر حصّہ بدن اور ننگى ٹانگوں کى طرف دیکھنا _ ماں باپ کى آپس میں یا دوسروں سے معاشقہ بازى اور جنسى مذاق ، شہوت انگیز مناظر کو دیکھنا یا ان کے بارے میں سننا اور اس طرح کے دیگر امور کو سرانجام دینا بچے کى جنسى قوت کو تحرک کرنے اور بیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اور بچہ بھى ایسى لذت کے حصول کے بارے میں سوچنے لگتا ہے _

پانچ چھ سال سے اوپر کى عمر کے بچوں کو تنہا نہ رہنے دیں _ ہوسکتا ہے وہ ایک دوسرے کى شرمگاہ سے کھیلیں اور اس سے ان میں تحریک پیدا ہو بچوں کو اجازت نہ دیں کہ وہ بستر پہ ایسے ہى پڑے رہیں اور جاگتے رہیں پانچ چھ سال کے بچوں کے بستر جدا کردیں اور انہیں ایک بستر پر نہ لٹائیں کیوں کہ ممکن ہے ایک دوسرے سے مس ہونے سے ان میں تحریک پیدا ہو _ پانچ چھ سال کے بچوں کو خود اپنے بستر پر نہ لٹائیں خاص طور پر مخالف جنس کے بچوں کو _ یہاں تک کہ ماں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا بدن اپنى چھ سالہ بیٹى کے بدن کے ساتھ ملے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

جب بچّے سات سال کى عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر جد اکردیں _ (1)

امام صادق (ع) اپنے بزرگوں سے نقل فرماتے ہیں:

عورتوں اور دس سالہ بچوں کے بستر جدا ہونے چاہئیں _ (2)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
جو ماں اپنى چھ سالہ بیٹى سے اپنا بدن ملتى ہے ایک طرح کے زنا کا ارتکاب کرتى ہے _ (3)

امام صادق علیہ السلام ہى فرمات ہیں:

مرد اپنى چھ سالہ بیٹى کو نہ چومے اور عورت اپنے سات سالہ بیٹے کو نہ چومے _(4)

بہت سے گھرانوں میں ;عمول ہے کہ عورتیں عریان یا نیم عریان بدن کے ساتھ گھروں میں چلتى پھرتى ہیں ، بعض مرد بھى اس سلسلے مین ھورتوں سے پیچھے نہیں رہتے _ وہ اپنے گھروں میں نیم عریان بدن یا ننگى پیڈلیاں اپنے چھوٹے بڑے بیٹے بیٹیوں کو دکھاتے رہتے ہیں _ ان گھروں کى بیٹیاں اور بیٹے بھى اپنے ماں باپ کى پیروى کرتے ہیں اور گھر میں نیم عریان بدن کے ساتھ رہتے ہیں _ اپنے تئیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک خاندان کے افراد ہیں _ اپنے میں محرم ہیں_ محرموں کے درمیان کوئی پابندى اور حجاب نہیں ہے _

یا ماں باپ سمجھتے ہیں کہ ان کے نیم عریان بدن اور ان کى ننگى ٹانگیں ان کے بچوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتے کیوں کہ اولاً تو وہ محرم ہیں اور ثانیاً بچے بھى ابھى کچھ نہیں سمجھتے _ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کى بیٹى کا کھلا سینہ اور ننگى ٹانگیں ان کے بیٹے پر کوئی اثر نہیں ڈالتى اور اس سے ان کى جنسى جبلّت کو کوئی تحریک نہیں ہوتى کیوں کہ وہ آپس میں بھائی بہن ہیں _ جب کہ یہ بات درست نہیں _ البتہ ہوسکتا ہے کہ بہت سے بچے ان واقعات کى طرف توجہ دیں _ لیکن یہ بات اتنى اطمینان بخش نہیں ہے _ جنسى جبلّت ایک بہت طاقتور قوّت ہے _ اور محرم و ناحرم ہونا ، بھائی اور بہن ہونا ، ماں اور باپ ہونا اس کے سر میں نہیں سماتا _ ہوسکتا ہے ایک نظر دیکھنے سے ان میں تحریک پیدا ہوجائے اور جنسى لذت کے حصول کى فکر ان میں بیدار ہوجائے _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

بہت ممکن ہے کہ ایک ہى نظر سے عشق اور جنسى خواہشات بیدار ہوجائیں _(5)

ایسى زودرس تحریکات ممکن ہے سادہ روح ، ناتجربہ کاراور نادان بچے کے لیے بہت برے نتائج کى حامل ہوں _ ہوسکتا ہے ناتجربہ کار بچہ یا نوجوان ان کے باعث زنا یا لواطہ کى طرف کھینچ جائے _ ہوسکتا ہے اس کے نتیجے میں استمناء کى ہولناک بیمارى میں مبتلا ہوجائے اس سلسلے میں ایسے بچوں کے ماں باپ ذمہ دار ہیں کہ جن کى بے احتیاطیوں اور غیر عاقلانہ طرز عمل کى وجہ سے ان کے بچوں کى اس قوت کو تحریک ملى _

اس مقام پر برا نہیں ہے کہ ایک دانشور کى اس تحریر کى طرف توجہ فرمائیں _

اپنے بچوں کى نفسیاتى سلامتى کے لیے چاہیے کہ ہم اپنا جسم ان کے سامنے عریان نہ کریں _ اور حتى المقدور اس سے اجتناب کریں _ بعض اوقات ممکن ہے ہمارے بچے چورى چھپے جب ہم نہارہے ہوں یا کپڑے تبدیل کررہے ہوں ہمارى طرف دیکھیں _ ہمیں نہیں چاہیے کہ اس کام پر ان کى تشویق کریں _ (6)

یہ صحیح ہے کہ ماں باپ اپنى اولاد کے لیے محرم ہیں اور گھر میں جیسے جى چاہے رہیں لیکن اپنے اور اپنے بچوں کے اجتماعى فوائد کو اپنى بے جا ہوس اور آزادى کى نذر نہیں کردینا چاہیے اور اپنى اور اپنى اولاد کى زندگى کو تباہى کے خطرے سے دوچار نہیں کرنا چاہیے _ کیونکہ اس کے نتیجہ میں زندگى حسرت و ندامت کى نذر ہوجائے گى _

ایک شخص کى ران ننگى تھى _ رسول اکرم (ص) کى نظر پڑى تو فرمایا:

اپنى ران کو ڈھانپ لو کیونکہ یہ بھى چھپانے کى چیز ہے _ (7)

مناسب نہیں ہے کہ چار سال سے زیادہ عمر کا بیٹا ماں کے ساتھ مل کے نہائے _ اسى طرح چار سالہ بیٹى کو بھى باپ کے ساتھ نہیں نہانا چاہیے _ بچوں اور بالخصوص نوجوانوں کو تنہا اور بیکار نہ رہنے دیں کہ کہیں وہ حصول لذّت اور استمناء کى فکر میں نہ پڑ جائیں _ منھے بچے کى شرم گاہ کو حتى المقدور اس کے بہن بھائیوں سے پوشیدہ رکھیں _ کبھى کبھى بچوں کو فحش لگانے نہ دیں _ میاں بیوى کو نہیں چاہیے کہ بچوں کى موجودگى میں ایک بستر پرسوئیں اور ان کى موجودگى میں ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑکریں _

ایک خاندان کى مشکلات میں سے میاں بیوى کے جنسى روابط کا مسئلہ بھى ہے میاں بیوى کا حق ہے کہ وہ اکٹھے ہوئیں اور اس کے سواچارہ بھى نہیں ہے _ اور اگر گھر میں چند ایک چھوٹے بڑے بچّے ہوں تو ماں باپ کے لیے آپس میں رابطے کى مشکلات پیدا ہوجاتى ہیں _ بہر حال اس سلسلے میں ان کى ذمہ دارى ہے کہ یہ عمل ایسے طریقے سے انجام دیں کہ ان کے بچے بالکل اس طرف متوجہ نہ ہوں ، ورنہ ممکن ہے کہ ان کے جذبات بھڑک اٹھیں اور وہ برائی، تباہى اور گناہ کى طرف کھینچ جائیں _

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

مرد کو نہیں چاہیے کہ جب بچہ کمرے میںموجود ہو تو وہ اپنى بیوى کے قریب ہو _ کیونکہ یہ عمل زناکاباعث بنے گا _ (8)

رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

واللہ اگر کوئی شخص اپنى بیوى سے مباشرت کرے جب کہ بچہ کمرے میں جاگ رہا ہو _ وہ انہیں دیکھے اور ان کى آواز سانسوں کى صدا سنے تو وہ بچہ کبھى فللاح نہیں پائے گا _ لڑکا یا لڑکى آلودہ زنا ہوجائے گا _

جب کبھى امام سجاد علیہ السلام اپنى زوجہ کے قریب ہونا چاہتے تو خدمت گزاروں کو باہر بھیج دیتے دروازے بند کرلیتے اورپردے گرالیتے _ (9)

رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا ہے کہ مرد اپنى بیوى کے نزدیک ہو جب کہ ننھا بچہ گہوارے میں ان کى طرف دیکھ رہا ہو _ (10)

لہذا جن میاں بیوى کا بچہ ہوا نہیں پہلے کى سى آزاد روش اختیار نہیں کرنا چاہیے _ اپنے بچوں کى عفت کى حفاظت کى خار ان کے لیے ضرورى ہے کہ وہ جنسى تعلق بالکل مخفى طر یقے سے کریں اور اس طرح سے چھپ کرکہ بچے کو بالکل بونہ آئے جب کہ ایسا کرنا کوئی آسان نہیں ہے _ یہ نہ کہیئے گا کہ بچے تو نادان ہیں انہیں کسى چیز کا کیا پتہ _ جب کہ بچے بڑے تیز اور شیطان ہوتے ہیں _ ماں باپ کے کاموں پر بڑى نظر رکھتے ہیں _ انہیں بڑى خواہش ہوتى ہے کہ ماں باپ کى پوشدیہ باتیں معلوم کریں _ یہاں تک کہ بعض اوقات اپنے تئیں سوتا ظاہر کرتے ہیں تا کہ ماں باپ کے مخفى کاموں کا انہیں پتہ چلے _ دروازے اور دیوار کى اوٹ سے کبھى بڑى توجہ سے کان لگاکے ماں باپ کى باتیں سننے کى کوشش کرتے ہیں لہذا ایک خاندان کى مشکلات میں سے ایک مسئلہ یہ بھى ہے کہ جس کا حل کوئی آسان بھى نہیں _ ممکن ہو تو اچھا ہے کہ میاں بیوى کى خلوت کا کمرہ بچوں کے سونے کے کمرے کے نزدیک نہ ہو اور بچوں کو وہ ایسى عادت ڈالیں کہ جب وہ سور ہے ہوں یا آرام کررہے ہوں تو ان کے خاص کرمے میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں اور جنسى عمل ان اوقات میں انجام دیں جب بچے پورى طرح سورہے ہوں لیکن ایسا کمرہ ہر کسى کو میسّر نہیں ہے _

ایک مغربى دانشور لکھتے ہیں:

دور حاضر کى عمارتوں میں بیشتر گھر ایسے بنے ہوتے ہیں کہ بناتے وقت جنسى مسائل کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہوتا _ در حقیقت آج کل کے گھروں کو جنسى تقاضوں کے مخالف گھر قرار دینا چاہیے _ بہت کم ایسے گھر یا فیلٹ ملتے ہیں کہ جن میں والدین کے لیے جدا کمرے کى ضرورت کو ملحوظ رکھا گیا ہو _ اکثر ایسے کمروں کى دیوار میں باریک ہوتى ہیںاور بچے ان کے گرداگرد ہوتے ہیں _ یہ ایک تلخ اور ناگوار حقیقت ہے کہ ان نکات کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کى وجہ سے جن والدین کے لیے الگ گوشہ آرام نہ ہو ان والیدن کى طبعى خواہشات گھٹى رہتى ہیں _ (11)

البتہ مخصوص کمرے کا ایک نقصان یہ ہے کہ والدین سوتے ہوئے اپنى اولاد سے بے خبر ہوجاتے ہیں _ انہیں بھى اکیلا چھوڑدیتے ہیں خصوصاً جب ان میں کوئی بڑا بچہ ہو _ اور بیٹا اور بیٹى ہو تو یہ کام بے احتیاطى سے خالى نہیں ہے _ اگر چہ کم خطرہ ہے بہر حال احتیاط ضرورى ہے _ خود ماں باپ جیسے بھى ہو مشکل کو حل کریں _ البتہ اس صورت میں جب ماں باپ مجبور ہوں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک کمرے میں سوئیں تو وہ مجبور ہیں کہ وہ آپس میں تعلق کو مخفى رکھیں اور اس سلسلے میں زیادہ توجہ اور احتیاط سے کام لیں _ اولا ماں باپ کو ایک بستر پر نہیں سونا چاہیے بلکہ ان کا بستر جدا جدا ہونا چاہیے _ ممکن ہو تو وہ آپس مں اسى وقت میں جب بچے گھر پر نہ ہوں _ ایسا نہ ہو تو نصف شب جب یقین ہو کہ بچے بالکل سو رہے ہیں تو چپکے سے کمرے سے نکل جائیں اور کسى خلوت کى جگہ پر چلے جائیں اور پھر سونے کے کمرے میں لوٹ آئیں _ بہر حال اگر ماں باپ مسئلے کى اہمیّت جانتے ہوں اور اپنى ذمہ دارى سمجھتے ہوں تو ہر مسئلے کو حل کرہى لیں گے _ یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ

خداوند کریم قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے :

یا ایہا الذین آمنوا لیستاذنکم الذین ملکت ایمانکم و الذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث مرّات من قبل صلوة الفجر و حین تضعون ثیابکم من الظہیرة و من بعد صلوة العشاء ثلث عورات: لکم_

اے ایمان والو تمہارے خادموں اور نابالغ بچوں کو تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آناچاہیے _ ایک تو نماز صبح سے پہلے دوسرے دوپہر کو جب (سوتے وقت) کپڑے بدلتے ہیں اور تیسرے نماز عشاء کے بعد ، یہ تین وقت تمہارے پردوں کے وقت ہیں _ (سورہ نورہ _ آیت 58)

بالغ ہونے سے پہلے بچے عموماً ماں باپ سے بلاواسطہ یا بالواسطہ جنسى مسائل کے بارے میں سوال کرتے ہیں _ بعض ماں باپ پردہ پوشى کے لیے سوال کوٹال دیتے ہیں _ مثلاً کہتے ہیں: چپ رہو ، فضول باتیں نہ کرو ، یہ بات تم سے متعلق نہیں ہے ، بڑے ہوکر سمجھ جاؤگے _

یوں وہ بچوں کو چپ کروادیتے ہیں _ لیکن بعض ماں باپ بچوں کے سوالوں کا جواب تو دیتے ہیں لیکن غلط اور خلاف حقیقت _ بچے بھى سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ ہمیں دھوکا دے رہے ہیں _

یہ دونوں طرز عمل درست نہیں ہیں کیوں کہ بچہ سمجھنے کے لیے سوال کررہا ہے اگر آپ نے اس کى صحیح راہنمائی نہ کى تو ممکن ہے دوسرے اسے بھٹکادیں _ خوش قسمتى سے بلوغ سے پہلے جنسى امور سے متعلق بچوں کے سوال کوئی ایسے پیچیدہ اور ناقابل جواب بھى نہیں ہوتے بلکہ ان کے سادا سے سوالوں کا آسانى سے جواب دیا جا سکتا ہے _ سب بڑى بات جو بچے کو ایک عرصے تک سوچ میں ڈالے رکھتى ہے وہ بچے اور بچى کى شرمگاہ میں فرق ہے ایک چھوتا بچہ خوب سمجھتا ہے کہ اس کى اور لڑکى کى شرمگاہ میں فرق ہے لیکن اسے اس کى وجہ معلوم نہیں ہوتى _ وہ کبھى اپنے آپ کو ناقص سمجھتا ہے اور کبھى لڑکى کو _ اس کا دل چاہتا ہے کہ اس فرق کو سمجھے _ اسى لیے وہ ماں باپ سے اس کے بارے میں سوال کرتاہے _ماں باپ کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں اس سے صراحت سے کہیں کہ تمام لڑکے اسى طرح سے پیدا ہوتے ہیں اور تمام لڑکیاں بھى اسى طرح سے پیدا ہوتى ہیں پھربعد میں لڑکے باپ بن جائیں گے اور لڑکیاں ماں بن جائیں گى اور پھر ان کى اولاد ہوگى اور یوں انسان دنیا میں آتے رہیں گے اور یوں یہ دنیا آباد رہے گى _

آپ یہ نہ سوچیں کہ آپ کا بچہ تمام حقائق جاننا چاہتا ہے _ وہ جتنا پوچھتا ہے اتنا سى جاننا چاہتا ہے ، اس سے زیادہ نہیں بلوغ سے پہلے بچے کو اس کى فکرى سطح کے مطابق تدریجا جنسى مسائل سے آگاہ کریں _ اگر آپ نے اسے کچھ نہ بتایا تو اسکول یا گلى محلے کے بچوں سے اسے معلوم ہوجائے گا _ یوں یہ راز کى باتیں اس کے لیے راز نہیں رہیں گى _ ماں باپ سے یہ باتیں سننا گلى محلّے کے گندے بچوں سے سننے کى نسبت بہتر ہے _ اگر آپ نے اس کى صحیح راہنمائی کى تو وہ گندے بچوں کى گمراہى سے بچ سکتا ہے _

جب آپ کا بچہ بالغ ہوجائے اور آپ کو یہ احساس ہو کہ اس کى جنسى قوت کسى حد تک بیدار ہوچکى ہے اور اس میں مسلسل تبدیلى پیدا ہورہى ہے تو آپ کسى مناسب موقع پر اسے کہہ سکتے ہیں:

جب بچے جوان ہوجاتے ہیں تو انہیں خواہش ہوتى ہے کہ وہ کسى کو اپنا رفیق بنائیں لڑکیاں لڑکوں کو اور لڑکے لڑکیوں کو چاہتے ہیں _ اس میں کوئی عیب کى بات نہیں _ البتہ اگر کوئی پاک باز اور نیک رفیق ہو تو انسان کى خوش نصیبى ہے ورنہ بڑا رفیہ تو انسان کى دنیا و آخرت کو تباہ کردیتا ہے ... ...

... شادى کے بعد انسان کى ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتى ہں بیوى کے خراجات جدا اور اولاد ہوجاتى ہے تو اس کے مخارج جدا _ یہ سب کچھ مرد کو پورا کرنا ہوتا ہے _ تم بھى تعلیم پورى کرلو اور کمانے لگوتو تمہارہى بھى شادى کردیں گے _ خوب دل لگاکر پڑھو ، لائق بن جاؤ تو اچھے لوگ تم سے پیار کریں اور تمہیں بھى کوئی اچھى سى بیوى مل جائے ...

... استمناء سے بچناء یہ بہت برى لا ہے _ گناہ ہے ، خدا دیکھتا ہے اس کى نظر میں یہ برا جرم ہے پھر انسان کى صحت کے لیے بھى تباہى کا باعث ہے شاید پھر انسان شادى کے بھى قابل نہ رہے _

برے دوستوں سے بچناء ان کى برى باتوں سے بچناء وہ انسان کو تباہ کردیتے ہیں ... بچے بالغ ہوجائیں تو ان کے زیر بغل اور زیر ناف بال اگنے لگتے ہیں _ انہیں ہوسکتا ہے وہ اپنا کوئی عجیب سمجھیں _ ان کى راہنمائی کیجئے گا _ بال صاف کرنے کا طریقہ اور اس کى اہمیّت انہیں سمجھایئےا بجى کو خون آنے لگے تو ہوسکتا ہے وہ خوف زدہ ہوجائے دور چھپاتى پھرے ماں کو اس سلسلے میں پیارہے اس کى راہنمائی کرنا چاہیے ، اسى طرح اس کى چھپاتیاں ابھر نے لگیں تو ہوسکتا ہے وہ بہت عجیب محسوس کرے _ ماں کو اس بارے میں بھى پیارسے اسے ضرورى امور کى راہنمائی کرنا چاہیے _

اسى طرح بیٹے ہییں جب علامت بلوغ پیدا ہوتى ہے تو وہ سوتے ہوئی الٹے الٹے خواب دیکھتا ہے _ جس سے اس کو تحریک ہوتى ہے اور احتلام ہوجاتا ہے _ کبھى وہ اس کو نقص سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو گنہگار اضطراب کى وجہ سے اس سلسلے میں کسى سے بات چیت بھى نہیں کرتا _ ایسے ایسے موقع پر والدین کى ذمہ دارى ہے کہ اسے سمجھائیں اس کى مشکل حل کریں _ ماں بھى بیٹى کى مشکل حل کرے اور اس سے کہے تیرے زیرناف و بغل بالوں کا اگنا ، یا خون بالغ ہونے کى علامت ہے لڑکیوں میں اس عمر میں اسى طرح کى علامات ہوتى ہیں خون کے ایام میں تجھ پر نماز واجب نہیں ہے ، روزہ بھى نہ رکھو بعد میں قضا کرلینا _ پھر اسے ماہوارى کے احکم اور غسل و نظافت و غیرہ کا طریقہ بتائے _ باپ بھى بیٹے سے اس طرح کہے کہ اب تو بالغ ہوگیا ہے ، تیرے زیر ناف و بغل بال اگیں گے _ تحریک کنندہ خواب دیکھو گے تمام لڑکوں سے ایسى عمر میں ایسا ہى ہوتا ہے اس سے کوئی زیر پریشانى محسوس نہ کرو _ اگر محتلم ہو جاؤ تو اس سے تمہارا لباس نجس ہو جائے گا _ غسل بھى تم پر واجب ہوجائے گا _ غسل کرنے کا طریقہ یہ ہے ... اس طرح ماں باپ بچوں کے اضطراب اور پریشانى کو دور کرکے انہیں زمان بلوغ کے واقعات کے لیے پہلے سے آمادہ کردیتے ہیں جس سے بچے اس دور کو ایک طبیعى دور سمجھ کے چھپاتے نہیں _

 

1_ مکارم الاخلاق ، ج 1 ، ص 356
2_ وسائل ، ج 14،ص 286
3_ وسائل ، ج 14، ص 170
4_ وسائل، ج 14، ص 170
5_ غررالحکم ، ص 416
6_ پیوند ہاى کودک و خانوادہ ، ص 177
7_ مستدرک حاکم ، ج 4 ، ص 181
8_ وسائل ، ج 14 ، ص 94
9_ وسائل، ج 14 ، ص 94
10_ مستدرک، ج 2، ص 546
11_ پیوندہا ى کودک و خانوادہ ، ص 178