پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

خود اعتمادي

خود اعتمادی

تمام زندگى جد و جہد ، پکار ، کوشش اور جستجو کا نام ہے ، ہر انسان کو زندگى بھر میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے _ زندہ رہنے اور زندگى گرانے کے لیے اسے عالم طبیعت کى قوتوں سے ناچار جنگ کرنا پڑتى ہے اور انہیں تسخیر کرنا پڑتا ہے بیماریوں اور ان کے اسباب کے خلاف لڑنا پڑتا ہے _ تجاوزوں ، زیادیتوں اور آرام و آزادى کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوامل کے خلاف جد و جہد کرنا پڑتى ہے _ کارزار زندگى میں وہى کامیاب ہے جس کا دل بڑا ہو ، ہمت بلند ہو _ اور ارادہ قوى ہو _ ہر کسى کى خوش بختى یا بدبختى کى بنیاد ود اس کے وجود میں موجود ہے _ دنیا کے بڑے انسان کى درخشان کامیابیوں کا سبب ان کى خود اعتمادى ، قوت ارادى اور مسلسل کوشش رہى ہے عظیم اور قوى لوگ زندگى کى مشکلات سے نہیں دڑتے _ وہ ذاتى استقلال اور خدا پر بھروسنہ کرتے ہوئے ان کے خلاف بر سر پیکار ہوتے ہیں _ اور کمر ہمت باندھ کے جد و جہد کرتے ہیں اور انہیں مغلوب کرلیتے ہیں _ ہمت اور عالمى حوصلگى ہر مشکل کو آسان بنادیتى ہے _ بلکہ جو چیز دوسروں کے لیے محال ہوتى ہے اسے ممکن بنادیتى ہے _ وہ زندگى کے گہرے سمندر میں کسى تنکے کى مانند نہیں ہوتے کہ جو فقط لہروں کے سہارے ادھر ادھر بھٹکتے رہیں بلکہ ایک ماہر پیراک کى طرح اپنے قوى بازؤں آہنى ارادوں اور توکل الى اللہ سے جس طرف کو چاہتے ہیں تیرتے ہیں بلکہ دنیا کے واقعات کا رخ بدل دیتے ہیں _ ہر انسان اپنے ذاتى استقلال ، خود اعتمادى ، ارادے اور جد و جہد سے اپنى زندگى میں کامیاب ہوتا ہے دین مقدس اسلام میں بھى دنیاوى اور اخروی

کامیابى و ناکامى کو انسان کے اعمال اور کوشش کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے _ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :

وَأَن لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى‏ / وَأَنَّ سَعْیَهُ سَوْفَ یُرَى‏

انسان کے لیے جو کچھ بھى ہے وہ اس کى کوشش کا ماحصل ہے اور وہ جلد اپنى سعد کو (مجسّم) دیکھ لے گا_(نجم ، 39، 40)

حضرت امیر المومنین على علیہ السلام فرماتے ہیں:

الصوء بہمّتہ

ہر کسى کى قیمت اس کى ہمت کے مطابق ہے _ (1)

جو شخص خود استقلال اور خود اعتمادى کا حامل ہو وہ مشکلات کے حل لیے دوسروں کا منتظر نہیں رہتا بلکہ اپنى بلند ہمتى اور پختہ ارادے کے ذریعے میدان عمل میں کودپڑتاہے اور جب تک اپنے مقصد کو پانہیں لیتا کوشش اور جدّ و جہد سے دستبردار نہیں ہوتا _

امام سجّاد علیہ السلام فرماتے ہیں :

تمام اچھائیاں اس امر میں جمع ہیں کہ انسان دوسروں کے بھر وسے پر نہ بیٹھارہے _(2)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

مومن کى عزت اور بزرگى کا راز یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں میں موجود چیز سے امید وابستہ نہ رکھے _ (3)

البتہ خو د اعتمادى سے محروم افراد اپنى ذات پر بھروسنہ نہیں کرتے _ وہ اپنے تئیں حقیر اور ناتوان سمجھتے ہیں ، زندگى کے مسائل کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور ان کے ساتھ مقابلے کى جرات سے عارى ہوتے ہیں _ وہ شکل کاموں اور ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں _ منفى سوچوں اور پاس و ناامیدى کى وجہ سے ممکن کاموں کو بھى محال بناکر پیش کرتے ہیں _ اپنى زندگى کو محرومى اور کنارہ کسى کے عالم میں گزاردیتے ہیں _

اب جب کہ استقلال اور خود اعتمادى کى اہمیّت واضح ہوگئی ہے ، اس امر کى یاددہانى بھى ضرورى ہے کہ اس انسانى کمال کى بنیاد ہر انسان کے اپنے وجود میں مخفى ہے لیکن تربیت اور تکامل کى محتاج ہے _ اس کى تربیت کا بہترین اور حسّاس ترین زمانہ بچپن کا دور ہے _

روح انسانى میں استقلال اور خود اعتمادى کى بنیاد بچپن ہى میں پڑجاتى ہے _ چنانچہ بے اعتمادى اور قوت ارادى سے محرومى ، دوسروں کے انتظار بیٹھے رہنے کا سرچشمہ بھى بچپن کى غلط تریت ہى ہے _ وہ ماں باپ جو اپنے بچوں سے محبت رکھتے ہیں اور انہیں اپنى ذمہ دارى کا احساس بھى ہے _ انہیں چاہیے کہ اپنى اولاد کى تربیت کریں اور آئندہ کى زندگى کے لیے انہیں تیار کریں _ اس صورت میں وہ اپنے فریضے پر بھى عمل کریں گے اور اپنى کامیابى کے اسباب بھى فراہم کریں گے _

حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

اپنى اولاد کى اس طرح سے تربیت کر کہ وہ تیرى عزت و سربلندى کا باعث بنے _ (4)

چار سال کى عمر سے لے کر آٹھ سال کى عمر تک شخصیّت کى پرورش ، استقلال، اور خود اعتمادى پیدا کرنے کا بہترین دور ہے _ اس زمانے میں بچہ استقلال کى طرف میلان رکھتا ہے اور اپنے آپ کو مشکلات سے مقابلے کے لیے تیار کرتا ہے _ کم سن بچہ اگر چہ اپنى کمزورى کا احساس بھى رکھتا ہے اور وہ کسى بڑى طاقت کے زیر سایہ رہنا چاہتا ہے تا ہم استقلال اور خود اعتمادى کى طرف میلان بھى اس کى ذات میں چھپا ہوتا ہے _ وہ چاہتا ہے کہ اپنى ضروریات کو پورا کرے اور ذاتى استقلال حاصل کرلے _ وہ نئے نئے کاموں اور اپنى ایجادات سے بہت خوش ہوتا ہے اور فخر سے انہیں دوسروں کو دکھاتا ہے _ آپ نے بچوں سے ایسے جملے بہت سنے ہوں گے _

_ دیکھ میں کیا کررہا ہوں ؟

_ دیکھا میں نے کتنى بڑى چھلانگ لگائی ہے _

_ دیکھو میں اپنے کپڑے خود پہن سکتا ہوں _

_ میں جوتا خود ہى پہنوں گا _

_ میں گلاس میں پانى پیوں گا _

_ میں خود ہى کھانا کھاؤں گا _

_ میں نہیں چاہتا کہ آپ میرے لیے چائے ڈالیں _

_ دیکھو میں نے کیسى خوبصورت تصویر بنائی ہے _

_ میں درخت پہ چڑھنا چاہتا ہوں _

وہ ضد کرتاہے کہ اس کى جیب میں جو پیسے ہیں انہیں اپنى مرضى کے مطابق خرچ کرے اس کى خواہش ہوتى ہے کہ کھلونے اپنى مرضى سے رکھے _ کبھى کبھى ماں باپ کے حکم کے خلاف ضد کرتا ہے _ کبھى چاہتا ہے کہ ماں باپ کى مدد کرے _ چھوٹى بیٹى برتن اور لباس دھونے میں مان کى مدد کرتى ہے _ چاہتى ہے کہ کھانا پکانے ، دستر خوان بچھانے اور گھر کى صفائی میں ماں کى مدد کرے _ چھوٹا بیٹا چاہتا ہے کیا رہى کو ٹھیک کرے ، تصویر بنائے ، خط لکھے اور چیزیں خرید نے میں اپنے باپ کى مدد کرے _ اور ضد کرتا ہے کہ اپنا لباس اور جوتا خود انتخاب کرے راستے میں چلتے ہوئے ماں باپ سے آگے یا پیچھے چلتا ہے _ خانہ دارى کے امور میں اور گھر کے سامان کے سلیقے میں دخل دیتا ہے _ بعض چیزیں بالکل نہیں کھاتا _ ان کاموں سے اور ایسے سینکڑوں دیگر کاموں سے بچہ اپنے وجود کے استقلال کا اعلان کرنا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنى شخصیّت کا اظہار کرے اور اپنے تئیں کمال تک پہنچائے _ چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو قوى بنائے وہ چاہتا ہے کہ

جہاں تک ممکن ہو سکے دوسروں پر اپنے انحصار کو کم کرے اور اپنے استقلال میں اضافہ کرے لیکن بچے کى شخصیت ماں باپ کے طرز عمل سے بہت زیادہ واستہ ہوتى ہے _ ماں باپ بچے کو آزاد چھوڑسکتے ہیں تا کہ وہ خودارادى سے کام کرے _ انہیں چاہیے کہ وہ اس کى کامیابى پر اور نئی نئی چیزوں پر اظہارمسرت کریں _ اسے شاباش کہیں اور اس کا حوصلہ بڑھائیں اس کے ذوق اور استعداد کے مطابق مفید کام اس کے ذمہ چھوڑ دیں _ راہنمائی اور حوصلہ افزائی کے ذریعے اس کام اور کوشش پر ابھاریں_ اس طرح بچے کى شخصیت او راستقلال کى تدریجاً تکمیل ہوتى جائے گى _ وہ اپنے وجود کے آثار اپنى آنکھوں سے دیکھے گا اور اس میں خود اعتمادى پیدا ہوگى _ اس کاارادہ قوى ہوگا _ ایسے بچوں میں بچپن ہى سے عقلى صلاحیتوں اور خود اعتمادى کے آثار ظاہر ہوتے ہیں _

ایک ماہر نفسیات لکھتے ہیں:

ایک شخص نے ایک ننھے ماہى گیر کو دیکھا کہ وہ بڑى مہارت سے مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہے _ اور بڑى بڑى مچھلیاں پکڑرہاہے _ اسے تعجب ہوا ، اور اس نے اس کى مہارت کى تعریف کى _ ننھے ماہى گیر نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا میرى مہارت کوئی تعجب کى بات نہیں :یونکہ میں بچپن ہى سے ماہى گیرى کررہاہوں _ اس نے پوچھا مگر تمہارى عمر کیا ہے ؟ کہنے لگا چھ سال (5)

اگر ماں باپ نے اس بچے کى حوصلہ افزائی نہ کى ہوتى بلکہ اس کى حوصلہ شکنى کے اسباب فراہم کئے ہوتے تو اس میں ایسى مہارت ہرگز پیدا نہیں ہوسکتى تھى اور اس میں کبھى خود اعتمادى پیدا نہ ہوتى _ بعض ماں باپ کہ جو اپنے بچوں سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کا وجود ان کا محتاج بنارہے _ انہیں کام کى اجازت نہیں دیتے _ ان کے تمام کام خود انجام دیتے ہیں _ خود ہى ان کے لئے ارادہ کرتے ہیں اور خود ہى انتخاب !

بہت سے ماں باپ نہ صرف یہ کہ اپنى اولاد میں استقلال اور خود اعتمادى پید اکرنے میں مدد نہیں کرتے بلکہ اپنى ڈانٹ ڈپٹ اور ان کے کاموں میں کیڑے نکالنے سے ان کى روح استقلال طلبى کو سلادیتے ہیں بچے کو ایجادات سے روکتے ہیں اور اس کے رساتے میں رکاوٹ کھڑى کردیتے ہیں _ اس کے کام پر تنقید کرتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں _ اور اسے کے کام کیڑنے نکال کر اسے شرمندہ کرتے ہیں اور اس کى حوصلہ شکنى کرتے ہیں _

اے عزیز ماں باپ ہمارے بچوں نے بہر حال بڑا ہونا ہے اور آخر کار ہم سے جدا بھى ہونا ہے آئندہ کى زندگى میں انہیں مشکلات اور مسائل کا سامنا بھى کرنا ہے _ آپ کو بھى فطرت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اور ان کى آزادى کى خواہش کا جواب دینا چاہیے _ آزادى کى خواہش کوئی عیب کى بات نہیں کہ آپ اس کا مقابلہ کرنے لگیں _ بلکہ یہ آزادى کسى وجود کے استقلال اور کمال کا اظہار ہوتى ہے _ آپ کوشش کریں کہ صحیح طریقے سے اس سے فائدہ اٹھائیں اور بچوں کو آئندہ کى زندگى کے لیے تیار کریں _ آپ امن پر اصرار نہ کریں کہ جہاں آپ کے بچوں کو ارادہ کرنا چاہیے وہاں آپ خود ان کے لیے ارادہ کریں _ بلکہ آپ کو چاہیے کہ ان کے لیے مسئلہ کو واضح کردیں اور اس کے بعد انتخاب اورارادہ ان کے ذمہ چھوڑ دیں _

اگر بچہ کوئی کام شروع کرے اور اسے اس میں رغبت نہ ہو تو آپ اس میں دخالت نہ کریں بے جا دخل اندازى سے اسے آزردہ خاطر نہ کریں _ اسے چھوڑدیں کہ وہ اپنے سلیقے سے کام مکمل کرے _ او ر اپنى نئی نئی چیزوں سے خوش ہو _ اس کے کام پر تنقید نہ کریں ، گریہ کہ خود وہ اس چیز کا اظہار کرے _

اگر آپ کى بیٹى چاہتى ہے کہ خود سے کھانا تیار کرے تو اس کى راہنمائی کریں اور کام اس کے ذمہ چھوڑدیں _ اور اس میں دخیل نہ ہوں _ کیا حرج ہے کہ ایک مرتبہ وہ خراب کھانا پکاٹے _ اس کے کھانا پکانے پر نکتہ چینى نہ کریں _ کیا آپ کو معلوم ہے آپ کى نکتہ چینى اور ڈانٹ ڈپٹ اس کى روح کو کس قدر مجروح کردیتى ہے _ اور کس قدر اس کى خود اعتمادى کو نقصان پہنچاتى ہے _

ایک خاتون اپنے خط میں لکھتى ہیں:

بچپن میں میں جو کام بھى کرنا چاہتى مجھ سے کہا جاتا تجھے نہیں پتہ تو کیا ہے ؟ تونے یہ برتن توڑدیا ہے _ تیرے کھانے میں نمک زیادہ ہے _ تونے پانى زیادہ ڈال دیا ہے _ خراب کردیا ہے _ تم کام کو ہاتھ نہ لگاؤ _ جھاڑونہ دے تجھے کیا پتہ جھاڑوکیسے دیا جاتا ہے _ مہمانوں کے سامنے بات نہ کر _ اور اسى طرح کى سینکڑوں باتیں _ جب میں کھانا پکاتى تو کئی دفعہ چکھتى کہ کہیں نمک زیادہ نہ ہو _ پانى زیادہ نہ ہو _ لیکن پھر مجھے سرزنش کى جاتى _ یہى وجہ ہے کہ مجھ میں خود اعتمادى پیدا نہیں ہوسکى _ میں خود کو کمزور اور بے حیثیت سمجھتى ہوں _ احساس کمترى اور خود پر عدم اعتماد سے میں بہت دکھى ہوں _ یہ حالت اب بھى مجھ میں باقى ہے _ ایک مجلس کا انتظام میرے ذمہ ہے ہر ہفتے جب کہ مجھے اس مجلس کے انتظام کے لیے جانا ہوتا ہے تو مجھ میں اضطراب

پیدا ہوجاتاہے اور میرا دل گھبراتا ہے _ میں کہتى ہوں کہ شاید اچھى تقریر نہ کر سکوں کبھى یوں بھى ہوتا ہے کہ بہت سى باتیں یادہوتى ہیں اور یہ باتیں متعدد مجالس میں بیان بھى کر چکى ہوتى ہوں لیکن پھر بھى خوف و ہراس ہوتا ہے _ دل چاہتا ہے کہ میرے سر پر کوئی ذمہ دارى نہ ہو _ جس کام کى طرف بھى بڑھتى ہوں اپنے آپ کو روکتى رہتى ہوں تا کہ کسى طرح سے درمیان میں ہى کام چھوٹ جائے _ بہت چاہتى ہوں کہ بے اعتمادى کى یہ کیفیت ختم ہوجائے لیکن نہیں ہوتى _

ایک اور خاتون لکھتى ہیں:

بچپن ہى سے میرى ماں کى کوشش ہوتى تھى کہ وہ کاموں میں میرى مدد کرے _ وہ مجھے اجازت نہ دیتى کہ میں کوئی کام تنہا انجام دوں _ رفتہ رفتہ مجھے اس کى عادت ہوگئی _ اور کسى دوسرے کا سہارا لینا میرا مزاج بن گیا_ میں کاموں کى انجام د ہى اور مشکلات کے حل میں اپنى طاقت سے استفادہ نہ کرتى بلکہ امى سے یا دوسروں سے مدد لیتى _ بے اعتمادى کى یہ حالت ہوگئی کہ کسى چھوٹى سى مشکل پر بھى بجائے اس کے کہ خود اس کے حل کے لے کوئی چارہ کرتى دوسروں سے مدد لیتى اور اپنے تئیں اس کا اہل نہ سمجھتى _

آخر میں اس امر کى یاددہانى ضرورى ہے کہ ممکن ہے بعض بچے اپنے وجود کے اظہار کے لیے غلط کام شروع کردیں _ مثلا پھولوں کو مسل دیں _ درختوں کى ٹہنیوں کو توڑدیں _ پرندے ، کتے او ربلّى کو تکلیف پہنچائیں _ اپنے ہم جو لیوں کو اذیت دیں _ دوسروں کو نقصان پہنچائیں _ اپنى بہن کے بال کھینچیں _ ایسے امور میں ماں باپ خاموش بیٹھے نہیں رہ سکتے اور ان کے کاموں کى تائید نہیں کرسکتے _ البتہ اس امر کى طرف انہیں متوجہ رہنا چاہیے کہ بچے کا مقصد کسى سے دشمنى یا سرکشى نہیں بلکہ وہ اپنے وجود کا اظہار چاہتا ہے _ ایسے امور سے روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کى توجہ دوسرے مفید کاموں کى طرف مبذول کردى جائے _ اور اسے تعمیرى کھیلوں کى طرف اور مفید کاموں میں مہارت حاصل کرنے میں مشغول کردیا جائے تا کہ وہ غلط کام چھوڑ دے _

 

1_ نہج البلاغہ ج 3 ص 163
2_ اصول کافى ، ج 2 ص 148
3_ اصول کافى ، ج 2 ص 148
4_ تحف العقول ص 269_
5_ روان شناسى کودک و بالغ ص 246