پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بگڑا ہو ابچّہ

بگڑا ہو ابچّہ

یہ صحیح ہے کہ بچے کو محبت و نوازش کى ضرورت ہوتى ہے لیکن محبت میں افراط صحیح نہیں ہے _ محبت غذا کے مانند ہے اگر ضرورى مقدار میں اپنے مقام پر صرف ہو تومفید ہے لیکن ضرورى مقدار سے زیادہ غیر مناسب مقام پر صرف ہو تونہ صرف یہ کہ سود مندنہیں ہے بلکہ کئی ایک نقصانات کى حامل بھى ہے _ زیادہ لا ڈپیار نہ صرف بچے کے لیے مفید نہیں ہے بلکہ ہے نہ ماں باپ کے دل بہلا نے کا ذریعہ ہے وہ ایک چھوٹا سا انسان ہے کہ جس کى خود اس کے لیے اور اکے مستقبل کے لیے تعمیر و تربیت کى جاتى ہے اور یہ بہت بڑى ذمہ دارى ماں باپ کے کند ھے پر رکھى گئی ہے _ بچہ ہمیشہ چھوٹا نہیں رھتا بلکہ بڑابھى ہو جاتا ہے اسے معاشر ے میں زندگى بسر کرنا ہے اور زندگى بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس میں اونچ نیچ ، کامیابى و ناکامى ، عروج وزوال راحت و مصیبت اور خوشى اور غم موجود ہو تا ہے _ ایک سمجھدار مربى صحیح اور علاقلانہ طرز تفکر کے ساتھ زندگى کے حوادث کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کى اس طرح سے تربیت کرتا ہے کہ وہ زندگى کے نشیب و فراز سے گزرنے کے لیے تیار ہو جائے _ ماں باپ کویہ بات معلوم ہو نا چاہیے کہ جیسے بچے کى تربیت کے لیے اصولى طور پر محبت ضرور ہى ہے اسى وہ بگڑ جاتے ہیں اوران کے ناز نخر ے بہت بڑھ جاتے ہیں _ اس برى صفت کا نتیجہ خطر ناک نکلتا ہے مثلا ً:

1_ جب بچہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کے ماں باپ اسے بے انتہا چاہتے ہیں، پرستش کى حد تک اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کى مرضى کے مطابق اسے سے سلوک کرتے ہیں تو اسے سے اس کى خواہشات کا دائرہ بہت وسیع ہوجائے گا _ وہ چاہے گا کہ فقط فرمان صادر کرے اور ماں باپ بلا چون و چرا اس پر عمل کریں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے _ ایسے بچے میں دن بدن استبداد اور قدرت طلبى بڑھتى جائے گى _ یہاں تک کہ وہ ایک آمر حکمران کى صورت اختیار کر لیتا ہے _ ایسا شخص جب معاشرے میں آتا ہے تو لوگوں سے بھى یہ توقع رکھتا ہے کہ اس سے اس کے ماں باپ کى طرح محبت کریں ، اور اس کى خواہشات پر اسى طرح عمل پیراموں جیسے اس کے ماں باپ ہوتے ہیں لیکن لوگ خود غرض شخص سے محبت کرتے ہیں اور نہ اس کى خواہشات کى طرح توجہ کرتے ہیں _ اس بناء پر معاشرے سے اس کادل اچاٹ ہوجاتا ہے _ وہ شکست و ریخت کا شکار ہوجاتا ہے _ احساس کمترى کے باعث تنہائی پسند اور گوشہ نشین ہوجاتا ہے _ وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ شکست و ناکامى کے ساتھ زندگى گزارے یا پھر خودکشى کرکے اپنے آپ کو اس سے نجات دے لے _ بگڑے ہوئے اور ناز پرورلوگ ازدواجى زندگى میں بھى عموماً کامیاب نہیں ہوتے _ ایسا شخص اپنى بیوى سے بھى یہ توقع رکھے گا کہ اس کى ماں سے بھى بڑھ کر اس سے اظہار محبت کرے، اس کے فرامین کى پورى طرح اطاعت کرے اور بلا چون و چرا ان پر عمل کرے _ لیکن افسوس کى عملى زندگى میں صورت حال مختلف ہے بہت سى بیویاں اپنے شوہر کے استبداد اور حکم کے سامنے تسلیم محض کے لیے تیار نہیں ہیں _ اس لیے گھریلو لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں _ اسى طرح ایک بگڑى ہوئی بیٹى بھى جب اپنے سسرال میں جاتى ہے تو اس کى بھى اپنے شوہر سے یہى توقع ہوتى ہے کہ وہ اس سے اس کے ماں باپ سے زیادہ محبت کرے اور اس کى ہر خواہش کوبلا حیل و حجّت قبول کرے _ عموماً مرد بھى ایک بلند پرواز اور ایسى بگڑى ہوئی عورت کى تمام خواہشات پورى نہیں کرسکتے ، لہذا گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _ ایسے مرد اور عورتیں دیکھنے میں آجاتے ہیں جو اپنے بڑھاپے میں بھى اس بات پر تیار نہیں ہیں کہ اس بگڑے پن اور بچگانہ عادت سے دست بردار ہو کر بڑے ہوجائیں _ ایسے لوگ گویا اس پر مصر ہیں کہ ہمیشہ بچے ہى رہیں _

 

2_ ناز ونعم میں پلنے والے بچے عموماً ضعیف و ناتوان روح اور رنجیدہ نفسیات کے حامل ہوتے ہیں _ یہ دوسروں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور خود اعتمادى سے عارى ہوتے ہیں _ لہذا جب مشکلات پیش آتى ہیں تو راہ فرار ڈھونڈتے ہیں _ ان میں یہ جرات نہیں ہوتى کہ بڑے کاموں میں ہاتھ ڈالیں _ زندگى کے مسائل حل کرنے کے لیے وہ اللہ پر اور اپنى ذات پر اعتماد کرنے کے بجائے دوسروں کى مدد کى طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں _

3_ لاڈپیار سے بگڑے ہوئے اور ناز پروردہ افراد عموماً خودپسند اور اپنے آپ میں مگن ہوتے ہیں _ چونکہ ان کى حد سے زیادہ تعریف کى جاتى ہے اس لیے وہ اپنے تئیں ایک بہت بڑى شخصیت سمجھنے لگتے ہیں جب کہ حقیقت یوں نہیں ہوتى _ وہ اپنى برائیاں نہیں دیکھتے بلکہ عیب کو کمال سمجھتے ہیں اور غرور بھى ایک بہت بڑا اخلاقى عیب اور ایک خطرناک نفسیاتى بیمارى ہے _

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:

خود پسندى بدترین چیز ہے _ (1)

امام على علیہ السلام نے یہ بھى فرمایا:

جو شخص بھى خودپسند ہواور بس اپنے میں مگن ہواس کے عیب اور برائیاں اس پر واضح ہوجائیں گى _(2)

ایسا شخص لوگوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کى جھوٹى شخصیت کى تعریف کریں _ اس وجہ سے کاسہ لیس اور چاپلوس قسم کے لوگ اس کے گرد جمع ہوجائیں گے _ لیکن سچ گو اور تنقید کرنے والوں کى اس کے ہاں کوئی جگہ نہ ہوگى _ خود پسند لوگ نہ صرف یہ کہ دوسروں کى محبت اور دوستى کو جذب نہیں کرسکتے بلکہ ہمیشہ دوسروں کے نزدیک قابل نفرت قرار پاتے ہیں _

 

حضرت امام على علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص بھى خودپسند ہوگا اور بس اپنى ذات میں مگن ہوگا وہ بہت زیادہ مشکلوں میں پھنس جائے گا _ (3)

4_ جن بچوں سے حد سے بڑھ کر محبت اور نوازش کى جاتى ہے اور ماں باپ ان کى ہر بات مانے چلے جاتے ہیں وہ رفتہ رفتہ ماں باپ بالکل مسلّط ہوجاتے ہیں _ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بھى اقتدار طلبى سے باز نہیں آتے اور ماں باپ سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں _ اگر ماں باپ ان کى خواہش کے مقابلے میں آئیں تو وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ غصّہ ،جھگڑا ، اور نازنخرا کرتے ہیں اور عادتیں بگاڑنے والے ماں باپ سے ہر جانہ وصول کرتے ہیں _ چونکہ اپنے لاڈلے پن کا احساس ہوتا ہے اس لیے آخر عمر تک ماں باپ سے جھوٹ بولتے ہیں اور ہر جانہ وصول کرتے ہیں _

5_ محبت میں افراط بعض اوقات اس مقام پر جا پہنچتى ہے کہ اسے خوش رکھنے کے لیے حقیقى مصلحتوں اور تعلیم و تربیت پر اس کى رضامندى کو ترجیح دینا پڑتى ہے _ اس کے عیبوں کو نہیں دیکھا جاتا یا نظر انداز کردیا جاتا ہے اور اس کى اصلاح کى کوشش نہیں کى جاتى _ اس کى خوشنودى حاصل کرنے کے لے کسى بھى کام سے دریغ نہیں کیا جاتا اگر چہ وہ غیر شرعى ہى کیوں نہ ہو اور اس طرح سے ماں باپ اپنے عزیز بچے کے ساتھ عظیم ترین خیانتوں کے مرتکب ہوتے ہیں _

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

بدترین باپ وہ ہے کہ جو اپنے بچے سے احسان اور مہر و محبت میں افراط اور حد سے تجاوز کرے _ (4)

بچے کو ہمیشہ خوف و رجاء کى کیفیت میں زندگى بسر کرنا چاہیے _ اسے یہ اطمینان ہونا

 

چاہیے کہ وہ واقعاً ماں باپ کا محبوب ہے اور جہاں بھى ضرورى ہو اوہ اس کى مدد کو دوڑیں گے اور دوسرى طرف اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں بھى اس نے کوئی غلط کام انجام دیا ماں باپ اس کا مؤاخذہ کریں گے _

ڈاکٹر جلالى لکھتے ہیں

بچّے سے پیار ایک ضرورى چیز ہے _ لیکن بچے کا یہ چاہنا صحیح نہیں ہے کہ ماں باپ سارا وقت اسى کو دے دیں اور ہمیشہ اسى کے چاؤ چونچلے کرتے _ (5)

ڈاکٹر جلالى ہى لکھتے ہیں :

اگر بچہ ایسے ماحول میں زندگى گزارتا ہو کہ جہاں اسے بہت لاڈسے رکھا جاتاہو _ ہمیشہ دوسرے اس کى حمایت کرتے ہوں _ اس کے برے اور ناپسندیدہ کاموں کو معاف کردیا جاتا ہو اور مشقت طلب دنیا میں رہنے کے لیے اسے تیار نہ کیا جاتا ہو وہ معاشرے میں ہمیشہ بہت سارى مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرے گا _ بچے کو آغاز تولد سے ہى یہ سکھایا جانا چاہیے کہ زندگى گزارنے والا وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ وہ ایک معاشرے کاحصّہ ہے اور اس کى خواہش کو دوسروں کى خواہشات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے _ (6)

اگر بچہ بے مقصد ہى روئے یا غصہ کرے یا سر کو دیوار سے مارے اور اس طرح سے ماں باپ پر کامیابى حاصل کرنا چاہے اور اپنى غلط سلط خواہشات کو منوانا چاہے تو اس کى طرف اعتناء نہیں کرنا چاہیے _ اسے چھوڑدیں تا کہ وہ سمجھ لے کہ اس کے رونے دھونے سے دنیا کا کچھ نہیں بگڑسکتا _ کچھ صبر کریں وہ خود ہى ٹھیک ہو جائے گا _

اگر آپ کا بچّہ زمین پرگرجائے تو ضرورى نہیں کہ اسے اٹھائیں اور اسے تسلى دیں یا زمین کو برا بھلا کہیں _ رہنے دیں تا کہ وہ خود اٹھے پھر اسے نصیحت کریں کہ محتاط رہے زمین پر نہ گرے _ اگر اس کا سر دیوار سے ٹکرا جائے تو چومنا اور پیار کرنا ضرورى نہیں ہے ایسے امور کى پرواہ نہ کریں _ کچھ ذرا ٹھیک ہوجائے تو پھر اسے نصیحت کریں _ جب آپ کا بچہ بیمار ہو جائے تو اس کے علاج کى کوشش کریں _ اس کے لیے دوا اور غذا مہیا کریں _ اس کى دیکھ بھال میں دریغ نہ کریں اس کى بیمارى کو ایک معمولى واقعہ قرار دیں اور اپنے روزمرہ کے کام انجام دیتے رہیں _ آپ کى نیند، کھانا اور کام معمول کے مطابق انجام پانا چاہیے _ ایسا نہ ہوکہ اپنے کام اورمعمولات زندگى کو چھوڑ بیٹھیں اور غم و اندوہ کے ساتھ روتى آنکھوں کے ساتھ اس کے بستر کے کنارے بیٹھ جائیں اور وقت بے وقت اس کے بخار میں تپتے ہوئے چہرے کو چومتے رہیں _ یہ کام بچے کے معالجے پر کوئی اثر نہیں ڈالتے البتہ اسے بگاڑ ضرور دیتے ہیں کیوں کہ وہ خوب احساس کرتا ہے کہ اس کى بیمارى ایک غیر معمولى واقعہ ہے جس نے ماں باپ کى زندگى کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے _

اپنے خط میں لکھتى ہے :

دو بیٹیوں کے بعد میرے ماں باپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا مجھے اپنى ماں کا شور شرا بہ اور جشن و سرور بھولتا نہیں، میرے ماں باپ نے اس قدر اسے لاڈپیار کیا کہ دو سال کى عمر میں وہ مجھے اور میرى بہن کو خوب مارتا اور کاٹتا تھا او رہمیں جرات نہ تھى کہ اپنا دفاع کریں _ جو کچھ وہ چاہتا بلا چون و چرا مہیا کردیا جاتا _ بچوں کو اذیت کرتا _ اس کے مدرسہ جانے کے لیے اس پر بہت زیادہ عنایات کى جاتیں _ لیکن وہ کوئی کام کرنے پر آمادہ نہ ہوتا _ استاد کى بات پر کان نہ دھرتا لہذا وہ سلسلہ تعلیم جارى نہ رکھ سکااور ترقى نہ کر سکا _ اب جب کہ بڑا ہوگیا ہے بالکل ان پڑھ

ہے _ تنہائی پسند، کم گواور اپنے آپ میں کھویا رہتا ہے _ کسى کام کے کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا _ بے مقصد ادھر ادھر غصہ کرتا اور جھگڑتا رہتا ہے _ اپنى بہنوں سے اسے کوئی محبت نہیں _ اس کاانجام کار معلوم نہیں ہے _

ہاں ہمارا پیارا بھائی ماں باپ کى غلط تربیت اور حد سے زیاادہ محبت میں افراط کى بھینٹ چڑھ گیا ہے _

 

 

1_ غررالحکم ، ص 446
2_ غررالحکم ، ص 685
3_ غرر الحکم ، ص 659
4_ تاریخ یعقوبى ، جلد 2 ، ص 320
5_ روانشناسى کودک ص 461
6_ روانشناسى کودک ص 353