پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ملكيّت

ملکیّت

ماں سے محبت انان کى طبیعت کا حصّہ ہے جن چیزوں کى انسان کو ضرورت ہوتى ہے انہیں اپنى ملکیت بنالیتا ہے _ اور اپنے تئیں اس کا مالک سمجھتا ہے _ دوسروں سے بھى وہ توقع رکھتا ہے کہ اس کى ملیکت کا حترام کریں اور اس کے مزاحم نہ ہوں _ ملکیّت کى خواہش انسان کى فطرت ہیں اس طرح سے، موجود ہے کہ اسے کاملاً ختم نہیں کیا جا سکتا _ جدھرسے بھى اس کا مقابلہ کیا جائے وہ کسى اور صورت میں ظاہر ہوجائے گى _ ملکیت اگر چہ ایک امر اعتبارى ہے لیکن ایسا امر اعتبارى کہ جس نے حقیقت کى صورت اختیار کررکھى ہے اور انسان کى فطرت میں جاگزیں ہوچکا ہے اور اس کے بغیر انسانى کا نظام چلنا ممکن نہیں ہے _ جب سے بچہ اپنے آپ کو بچاننے لگتا ہے اور اپنے احتیاجات کو سمجھنے لگتا ہے تو اس کا اشیاء سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے اور اس کا احساس اس کے وجود میں پیدا ہوجاتا ہے _

بچے کو جو چیز زمین پہ پڑى مل جائے یا کسى کے ہاتھ سے لے لے وہ اسے اپنے آپ سے مختص سمجھتا ہے _ اسے مضبوط سے تھام لیتا ہے اور آسانى سے تیار نہیں ہوتا کہ کسى کودے دے _ وہ اپنے جوتے ، لباس اور کھلونوں کا اپنے آپ کو مالک سمجھتا ہے اور کسى کو اجازت نہیں دیتا کہ ان میں تصرف کرے اور اگر کوئی اجازت کے بغیر انہیں استعمال کرے تو اسے غاصب اور متجاوز سمجھتا ہے اور اس کے خلاف قیام کرتا ہے اور لڑتا ہے _

آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچے اپنے کھلونوں سے یہاں تک کہ نایت غیر اہم سى چیزوں سے کتنى محبت کرتے ہیں اور ان کى حفاظت کرتے ہیں اور ان کے لیے لڑتے

جھگڑتے ہیں او ریہ ان کا حق ہے کیوں کہ وہ مالک ہیں اور اپنے حق کا دفاع کرتے ہیں _ اگر کوئی اپنے حق کے حصول کے لیے قیام کرے تو اسے شریر اور غلط نہیں سمجھنا چاہیے _ احساس ملکیّت کوئی غلط چیز نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے لیے فطرى ہے _ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس فطرى احساس کو قبول کرلیں اور اس کى خلاف ورزى نہ کریں _

ایسا بہت ہوتا ہے کہ بچے ایک دوسرے کى ملکیّت میںتجاوز کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسروں کى چیزوں او رکھلونوں میں تصرف کریں یا انہیں غصب کرلیں ماں باپ کو چاہیے کہ ایسے کاموں کى بچوں کو اجات نہ دیں _ کیوں کہ جن میں زیادہ طاقت ہوگى انہیں دوسروں کے حقوق اس طرح غصب کرنے کى عادت پڑجائے گى _ اور چھوٹے مظلوم بن جائیں گے او ران کے دل اس پر ملول ہوں گے _ اگر ماں باپ ایسے امور میں ظالم کى حمایت کریں تو وہ شریک جرم ہوں گے اور جو بچہ مظلوم ہوگاوہ ان کے بارے میں بدگمان ہوجائے گا _ اگر وہ ایسے مسئلے پر چپ رہیں تو اپنے سکوت سے بھى وہ زیادتى کرنے والے کے عمل کى تائید کریں گے اور اسے تشویق کریں گے _ اور اس طرح سے وہ بچوں کو تجاوز پر سکوت اور حق کا دفاع نہ کرنا سکھائیں گے _ اور یہ بھى ایک بہت بڑا جرم ہے _ ماں باپ کو ایسے امور میں دخیل ہونا چاہیے _ زیادتى کرنے والے بچے کى زیادتى کو روکنا چاہیے اور اسے اجازت نہیں دینا چاہیے کہ وہ طاقت سے کسى دوسرے بچے کے کھلونے چھین لے _ لیکن یہ کام مارپیت اور گالى گلوچ کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے _ بلکہ شروع میں اچھے انداز سے اور مشفقانہ طریقے سے اسے سمجھائیں کہ یہ چیز تمہارى بہن کى ہے یا تمہارے بھائی کى ہے _ اور تمہیں ان میں تصرف کا حق نہیں پہنچتا _ بعد ازاں پورى قاطعیت سے کہیں کہ ہم اجازت نہیں دے سکتے کہ تم اپنى بہن یا بھائی کى چیزوں پر زبردستى قبضہ جمالو_ اور اگر یہ طریقہ بھى مؤثر نہ ہو تو کچھ سختى اور ڈانٹ ڈپٹ سے روکیں اور جس بچے کے ساتھ زیادتى ہوتى ہو اس کى حمایت کریں یہ صحیح ہے کہ احساس ملکیّت کا احترام کیا جانا چاہیے اور جائز حدود میں اس کى حمایت کى جانا چاہیے لیکن اس بالکل آزاد او رغیر مشروط نہیں چھوڑ دینا چاہیے _ انسان کى نفسانى خواہشات ہمیشہ بڑھتى رہتى ہیں اور کسى معین حد پر جاکر ٹھرتى نہیں _ اگر ان پر کنڑول نہ کیا جائے تو انسان کى تباہى اور ہلاکت کا سبب بن جاتى ہیں _ اصول ملکیّت انسانى ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہیے _ اور ملیکت کے حصول کے لیے کام اور محنت کو جائز قرار دیا گیا ہے _ اور حبّ مال جائز حدود میں نہ فقط عیب نہیں ہے بلکہ انسان کے لیے ایک فطرى امر شمار ہوتا ہے لیکن اگر بالکل آزادى دے دى جائے تو پھر یہ مال پرستى کى صورت اختیار کرے گى _ ایسے بہت سے لوگ ہیں کہ جو مال و دولت پہ مرے جاتے ہیں _ بغیر ضرورت کے شب و روز دیوانہ وار اس کے لیے لگے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض لوگ حصول دولت کے لیے اپنا آرام و راحت عزت و آبرو، ، دین و اکرام اور احترام و شرافت سب کچھ فردا کردیتے ہیں ایسے لوگوں کو عقل مند انسان نہیں سمجھا جا سکتا _ ماں پرستى بھى ایک طرح کا جنون ہے وہ لوگ کہ جنہیں نہ ضرورت ہوتى ہے نہ خود کھاتے ہیں نہ دوسروں کو دیتے ہیں فقط اور فقط جمع کیے جاتے ہیں اور ڈھیر لگائے جاتے ہیں ایسے لوگوں کو عاقل اور خردمند نہیں سمجھاجاسکتا_

لہذا ماں باپ بچے کے احساس ملکیت کے حترام کے ساتھ ساتھ اس کى زیادہ طلبى کى خواہش کو بھى روکیں _ اس کے کھلونے ضرورت کے مطابق ہونا چاہئیں _ زیادہ نہیں _ بس اتنے کہ ان سے وہ کھیل سکے اور کوئی کام سیکھ سے _ نہ اتنے کے بس جمع کررکھے اور دوسرے بچوں کے مقابلے میں فخر کرتا رہے _ اگر اس کے پاس اتنے کھلونے ہوں کہ اسے ان کى ضرورت نہ ہو اور انہیں اس نے بس جمع کرکے رکھ چھوڑا ہو تو بہتر یہ ہے کہ ماں باپ اسے شوق دلائیں کہ وہ دوسرے بچوں کو دے دے جنہیں ان کى ضروت نہیں جب کہ دوسرے بچوں کے پاس کھلونے نہیں ہیں او ران کو ضرورت بھى ہے _ مناسب نہیں ہے کہ تم ان کا ذخیرہ کر رکھو اور دوسروں کو نہ دو _ جن کھلونوں کى تمہیں ضرورت نہیں ہے وہ دوسرے ضرورت مند بچوں کو دے دو _ وہ خوش ہوں گے خدا بھى خوش ہوگا او رماں باپ بھى _ بچہ چون کہ صاف ذہن ہوتا ہے اور فطرى طور پر خیرخواہ ہوتا ہے اور اس کى خواہش ہوتى ہے کہ ماں باپ کى خوشنودى حاصل کرے وہ ان کى بات سنتا ہے اور یوں اس کے اندر جو دو عطا کى ایک پسندیدہ عادت پیدا ہوجائے گى _ اس صورت میں جب کہ بچے کو کھلونے کى ضرورت نہیں _

اور دوسرا بھى کوئی بچہ ان کھلونوں سے کھیلنا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ ماں باپ بچے کو نرمى اور پیار سے تشویق کریں کہ وہ کچھ دیر کے لیے کھلونے دوسرے بچے کو دے دے تا کہ وہ ان سے کھیل سکے _ اس طرح سے اس میں تعاون اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے _ باہمى تعاون کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے ایسے کھلونے بچوں کو خرید کردیے جا سکتے ہیں کہ جن سے مشترکہ طور پر کھیلا جائے _ اور انہیں شوق دلانا چاہیے کہ مل جل کر کھیلیں _ اور مل جل کر فائدہ اٹھائیں _ مختصر یہ کہ ماں باپ کو چاہیے تریت کرتے ہوئے تمام مراحل بچوں کے لیے حد اعتدال کو محلوظ رکھیں احساس ملکیت کے اصول کى حمایت کریں اور خرابیوں کو روکیں ، کوشش کریں کہ اس احساس کو کنٹرول کریں اور صحیح راستے پر ڈالیں _ اور اس امر پر نظررکھیں کہ کہیں وہ مال و دولت کے اندھے عاشق اور زرپرست نہ بن جائیں _