پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بچہ اور فرائض ديني

بچہ اور فرائض دینی

یہ درست ہے کہ لڑکا پندرہ سال کى عمر میں اور لڑکى نو سال کى عمر میں مکلّف ہوتے ہیں اور شرعى احکام ان پر لاگو ہو جاتے ہیں _ لیکن دینى فرائض کى انجام دہى کو بلوغت تک ٹالانہیں جا سکتا_ انسان کو بچپن ہى سے عبادت اور دینى فرائض کى انجام دہى کى عادت ڈالنى چاہیے تا کہ بالغ ہوں تو انہیں شوق سے بجالائیں خوش قسمتى سے ایک مذہبى گھرانے میں پرورش پانے والا بچہ تین سال کى عمر ہى سے اپنے ماں باپ کى تقلید میں بعض مذہبى کام بجالاتا ہے _ کبھى ان کے لیے جائے نماز بچھاتا ہے ، کبھى ان کے ساتھ سجدے میں جاتا ہے ، اللہ اکبر اور لا الہ اللہ کہتا ہے چھوٹے چھوٹے مذہبى اشعار مزے مزے سے پڑھتا ہے _ فرض شناس اور سمجھ دار ماں باپ بچے کى ان فطرى حرکات سے استفادہ کرتے ہیں _ ان پر مسکراکر اور اظہار مسرت کرکے اسے تقویت کرتے ہیں _ اگر زبردستى یہ چیزیں بچے پر ٹھونس نہ جائیں تو بہت مفید ہوتى ہیں _ اس عمر میں ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ بچے کو سکھانے اور نماز پڑھانے و غیرہ کے امور میں جلدى کریں یا ان پر دباؤ ڈالیں _ پانچ سال کى عمر کے قریب بچہ سورہ فاتحہ و غیرہ یا دکرسکتا ہے آہستہ آہستہ یادکروانا شروع کریں اور پھر سات سال کى عمر میں اسے حکم دیں کہ وہ باقاعدہ نماز پڑھا کرے _ اول وقت میں خود بھى نماز پڑھا کریں اور بچوں کو بھى اس کى نصیحت کریں _ نو سال کى عمر میں انہیںحتمى طور پر نماز پڑھنے کى تلقین کریں _ انہیں سمجھائیں کہ سفر حضر میں نماز پڑھا کریں _ عمل نہ کرے تو سختى بھى کریں اور اس سلسلے میں کوئی سستى نہ کریں _ اگر ماں باپ خود نمازى ہوں تو آہستہ آہستہ بچوں کو بھى اس کا عادى بناسکتے ہیں اور پھر وہ سنّ بلوغ تک پہنچ کر خود بخود شوق و ذوق سے نماز پڑھنے لگیں گے _ اگر ماں باپ نے یہ عذر سمجھا کہ بچہ ابھى چھوٹا ہے ، بالغ نہیں ہوا اور اس پر نماز ابھى فرض نہیں ہوئی لہذا اسے کچھ نہ کہیں تو پھر بالغ ہوکر بچے کے لیے نماز پڑھنا مشکل ہوگا_ کیوں کہ جس عمل کا انسان بچپن میں عادى نہ ہو اہو بڑے ہو کر اسے اپنا نا مشکل ہوتا ہے یہى وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اطہار(ع) نے چھ یا سات سال کى عمر میں بچے کو نماز پڑھنے کا عادى بنانے کا حکم دیا ہے _

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

ہم اپنے بچوں کو پانچ سال کى عمر میں نماز پڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں اور سات سال کى عمر میں انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں _ (1)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

جب آپ کے بچے چھ سال ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کاحکم دیں اور سات سال کے ہوجائیں تو انہیں اس کے لیے زیادہ تاکید کریں اور اگر ضرورت ہو تو مارپیٹ سے بھى انہیں نماز پڑھوائیں _ (2)

امام باقر علیہ السلام یا امام صادق علیہ السام نے فرمایا:

جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے کہیں کہ منہ ہاتھ دھوئے اور نمازپڑھے لیکن جب 9 سال کا ہوجائے تو اسے صحیح اور مکمل وضو سکھائیں اور سختى سے نماز پڑھنے کا حکم دیں _ ضرورت پڑے تو اسے مارپیٹ کے ذریعے بھى نماز پڑھنے پر مائل کیا جا سکتا ہے _ (3)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جب بچہ چھ برس کا ہوجائے تو ضرورى ہے کہ وہ نماز پڑھے اور جب وہ روزہ رکھ سکتا ہو تو ضرورى ہے کہ روزہ رکھتے _ (4)

روزے کے معاملے میں بچے کو آہستہ آہستہ عادت ڈالنا چاہیے _ جو بچہ سن تمیز کو پہنچ چکا ہوا سے سحرى کے لیے بیدار کریں تا کہ وہ ناشتے کى جگہ سحرى کھائے اور اس کا عادى ہو جائے _ جب بچہ روزہ رکھ سکتا ہو تو ضرورى ہے کہ اسے اس کى ترغیب دى جائے اور اگر وہ روزہ رکھ کر اسے نبھانہ پارہاہو تو اسے درمیان میں کچھ کھانے پینے کو دیا جا سکتا ہے _ آہستہ آہستہ اس کے روزوں کى تعداد بڑھائی جائے البتہ اس کى طاقت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے بچہ بالغ ہوجائے تو اسے کہا جائے کہ تم پر فرض ہے کہ روزہ رکھواور نماز پڑھوا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گنہ کار ہوگے _ بہتر یہ ہے کہ اسے روز ے کى فضیلت اور ثواب بھى بتایا جائے تا کہ اس میں برداشت کرنے کى قوت بڑھے_ رمضان المبارک کے آخرى ایام میں بچے کى دیگر ذمہ داریوں میں کمى کى جانا چاہیے تا کہ وہ آرام سے روزہ رکھ سکے _ آخر رمضان المبارک میں اسے انعام کے طور پر بھى کچھ دیں _ دن دھیان رکھیں کہ کہیں چھپ چھپا کرروزہ توڑنہ لے _

ماں باپ کے لیے ضرورى ہے کہ بلوغ سے پہلے بچے کو احتلام کى علامتوں سے آگاہ کریں _ غسل اور استنجا کے بارے میں اسے بتائیں_

اس نکتے کى یاددہانى بھى ضرورى ہے کہ اگر ماں باپ کى خواہش ہے کہ ان کے بچے اہل مسجد ہوں اور دینى محافل کى طرف راغب ہوں تو پھر بچپن ہى سے انہیں اس کا عادى بنائیں _ مسجد اور دینى محفل میں انہیں اپنے ہمراہ لے جایا کریں تا کہ ان میں بھى اس کا شوق پیدا ہوجائے ورنہ بڑے ہوکر وہ رغبت سے ایسى محفلوں میں نہیں جایا کریں گے _

آخر میں اس بات کى طرف بھى توجہ ضرورى ہے کہ بچہ بالغ ہونے سے پہلے مکلف نہیں ہوتا اور مذہبى فرائض اس پر عائد نہیں ہوتے اور انہیں ترک کرنے پر اسے گناہ نہیں ہوگا مگر ماں باپ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلوغ سے پہلے بچوں کو آزاد چھوڑدیں کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں _ کیونکہ نماز روزہ اس پر واجب نہ بھى ہو تو اگر وہ کسى کا شیشہ توڑ آئے کسى کے جسمانى عضو کو نقصان پہنچائے مثلاً کسى کا کان کاٹ دے ، آنکھ اندھى کردے یا ہاتھ توڑڈالے تو واجب ہے کہ بالغ ہوکر اس کى شرعى دیت اداکرے _

دوسرى طرف اگر آزاد چھوڑدیا جائے کہ جو اس کے جى میں آئے کرے تو پھر بڑا ہوکر بھى وہ گناہ اور غلط کاموں کا عادى ہوگا کیونکہ بالغ ہوکر پھر وہ بچپن کا طر ز عمل نہیں چھوڑے گا _ لہذاا ماں باپ کے لیے ضرورى ہے کہ اسے بچپن ہى سے واجبات اور محرّمات کى حدود سے آگاہ کریں _ حرام کا م انجام دینے سے روکیں او رواجب کام کى انجام وہى میں اس کى مدد کریں _

 


1_ وسائل ، ج 3، ص 12
2_ مستدرک ، ج 1 ، ص 171
3_ وسائل، ج 3، ص 13
4_ همان، ص 19، باب استحباب أمر الصبیان بالصلاة، ح 4