پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

لوگ مہدى (عج) كے منتظر تھے

لوگ مہدى (عج) کے منتظر تھے

وجود مہدى کا عقیدہ لوگوں میں اتناراسخ ہوگیا تھا کہ وہ صدر اسلام ہى سے ان کے انتظار میں تھے اور دن گنا کرتے تھے_ اور حق کى کامیابى وحکومت کو یقینى سمجھتے تھے یہ انتظار ہرج و مرج اور وحشت ناک حوادث و بحرانوں میں اور زیادہ شدید ہوجاتا تھا اور ہر لمحہ انتظار کے مصداق کى تلاش میں رہتے تھے اور کبھى غلطى سے بعض افراد کو مہدى سمجھ بیٹھے تھے :


محمد بن حنفیہ

مثلاً محمد بن حنفیہ بھى رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت تھے اس لئے مسلمانوں کے ایک گروہ نے انھیں مہدى سمجھ لیا تھا _

طبرى لکھتے ہیں کہ جس وقت مختار نے خروج اور قاتلان حسین (ع) سے انتقام لینے کا قصد کیا تو اس وقت انہوں نے محمد حنفیہ کو مہدى اور خود کو ان کے وزیر کے عنوان سے پہچنوایا اور اس سلسلے میں لوگوں کے سامنے کچھ خط بھى پیش کئے _ (1)

محمد بن سعد نے ابوحمزہ سے روایت کى ہے کہ لوگ محمد بن حنفیہ کو '' السلام علیک یا مہدى '' کہکر سلام کرتے تھے _ چنانچہ وہ خود بھى کہتے تھے'' ہاں میں ہى مہدى ہوں میں فلاح و بہبود کى طرف تمہارى راہنمائی کرتاہوں _ میرا وہى نام ہے جو رسول کا تھا اور میرى کنیت بھى آنحضرت (ص) ہى کى کنیت ہے _ لہذا تم مجھے سلام علیک یا محمد یا سلام علیک یا اباالقاسم کہکر سلام کیاکرو ''_ (2)

اس اور ایسى ہى دوسرى مثالوں سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ رسول خدا کے نام اور کنیت کا جمع ہونا مہدى موعود کى خصوصیات و علامتوں میں سے ہے _ اسى لئے محمد بن حنفیہ نے اپنى کنیت اور نام کى طرف اشارہ کیا ہے _ لیکن تاریخ کى ورق گردانى سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن حنفیہ نے کبھى یہ نہیں کہا کہ میں مہدى ہوں _ بلکہ دوسرے لوگ انھیں مہدى کے عنوان سے پیش کرتے تھے چنانچہ وہ کبھى اس سلسلے میں خاموش اختیار کرتے تھے اور کبھى تائید کرتے تھے _ شاید ان کى خاموشى کى وجہ یہ ہو کہ اس طرح وہ قاتلان امام حسین (ع) سے انتقام اور حکومت کو اس کے اہل تک پہنچانا چاہتے تھے_

محمد بن سعد کہتے ہیں : محمد بن حنفیہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ ، حکومت اہل حق کى ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گى _ جو شخص اس حکومت کو دیکھے گا ، اسے عظیم کامیابى نصیب ہوگى اور جو اس سے قبل ہى مرجائے گا اسے خدا کى بے شمار نعمتیں میسر ہوں گى _ (3)

چنانچہ محمد بن حنفیہ نے اپنے اس خطبہ میںفرمایا جو کے اپنے سات ہزار اصحاب کے درمیان دیا تھا _ اس کام میں تم نے عجلت سے کام لیا ہے _ خدا کى قسم تمہارے اصلاب میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو کہ آل محمد کى مدد کیلئے جنگ کریں گے _ آل محمد کى حکومت کسى پر مخفى نہیں ہے لیکن اس کے قائم ہونے میں تاخیر ہوگى _ قسم اس ذات کى جس کے قبضہ قدرت میں محمد کى جان ہے ، حکومت نبوت کے گھر میں لوٹ آئے گى _ (4)


محمد بن عبداللہ بن حسن

مسلمانوں کا ایک گروہ محمد بن عبداللہ بن حسن کو مہدى سمجھتا تھا _ ابوالفرج لکھتے ہیں کہ حمید بن سعید نے روایت کى ہے کہ محمد بن عبداللہ کى ولادت پر آل محمد نے بہت خوشیاں منائیں اور کہا مہدى کا نام محمد ہے _ وہ محمد کو مہدى موعود سمجتھے تھے _ اس لئے ان کا بہت احترام کرتے تھے اور مجلسوں کا موضوع قراردیتے تھے ، شیعہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے تھے _ (5)

ابوالفرج لکھتے ہیں : جب محمد بن عبداللہ پیدا ہوئے تو ان کے خاندان والو ں نے ان کا نام مہدى رکھا اور انھیں روایات کا مہدى موعود تصور کرنے لگے _ لیکن ابوطالب کى اولاد کے علما انھیں نفس زکیہ کہتے تھے کہ جس کا احجار زیب میں شہید ہونا مقدر تھا _ (6)

ابوالفرج ہى لکھتے ہیں کہ :ابوجعفر منصور کا غلام کہتا ہے کہ منصور نے کہا : تم محمد بن عبداللہ کى تقریر میں شرکت کرو دیکھو کیا کہتے ہیں _ میں نے حکم کے مطابق ان کى تقریر میں شرکت کى وہ فرما رہے تھے : تمہیں یہ تو یقین ہے کہ میں مہدى ہوں اور حقیقت بھى یہى ہے '' _ غلام کہتا ہے کہ میں لوٹ آیا اور ان کى بات منصور سے نقل کى _ منصور نے کہا : محمد جھوٹ کہتے ہیں بلکہ مہدى موعود میرا بیٹا ہے _ (7)

سلمہ بن اسلم نے محمدبن عبداللہ کى شان میں کچھ اشعار کہے کہ جن کا ترجمہ یہ ہے :

جو کچھ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ اس وقت ظاہر ہوگا جب محمد بن عبداللہ ظاہر ہوں گے اور زمام حکومت سنبھالیں گے _ محمد کو خدا نے ایسى انگوٹھی عطا کى ہے جو کسى دوسرے کو نہیں دى اور اس میں ہدایت و نیکیوں کى علامتیں ہیں _

ہمیں امید ہے کہ محمد ہى وہ امام ہیں کہ جن کے ذریعہ قرآن زندہ ہوگا اور ان کے توسط سے اسلام کو فروغ ملیگا ، اصلاح ہوگى اور یتیم ، عیال دار اور ضرورت مند لوگ خوشحال زندگى گزاریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جب کہ وہ ضلالت و گمراہى سے بھرچکى ہوگى اور اسى وقت ہمارا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا _ (8)


احادیث مہدى اور فقہائے مدینہ

ابوالفرج لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو مدینہ کے مشہور فقیہ و عالم محمد بن عجلان نے بھى ان کے ساتھ خروج کیا _ جب محمد بن عبداللہ قتل ہوگئے تو حاکم مدینہ نے محمد بن عجلان کو بلایا اور کہا: تم نے اس جھوٹے انسان کے ساتھ کیوں خروج کیا تھا؟ اس کے بعد ان کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیا تو مدینہ کے علماء اور سر آوردہ افراد نے کہا : اے امیر محمد بن عجلان مدینہ کے فقیہ و عابدہیں انھیں معاف کیا جائے کیونکہ وہ محمد بن عبداللہ کو روایات ہى کا مہدى موعود سمجھتے تھے _ (9)

دوسرى جگہ لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو ان کے ساتھ مدینہ کے دوسرے نمایاں فقیہ و عالم عبداللہ بن جعفر بھى خروج کیا اور محمد بن عبداللہ کے قتل کے بعد فرار کرگئے اور امان ملنے تک مخفى رہے _ ایک روز حاکم مدینہ جعفر بن سلیمان کے پاس گئے تو اس نے کہا : اس علم و فقاہت کے باوجود آپ نے ان کے ساتھ کیوں خروج کیا تھا؟ جواب میں کہا: میں نے اس لئے محمد بن عبداللہ کا تعاون کیا تھا کہ میں یقین کے ساتھ انہیں مہدى موعود سمجھتا تھا کہ جن کا روایات میں تذکرہ ہے _ ان کے مہدى ہونے میں کوئی شک نہیں تھا _ قتل کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مہدى نہیں ہیں _ اس کے بعد میں کسى کے فریب میں نہیں آوں گا _ (10)

ان واقعات سے یہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ مہدى کا عقیدہ و موضوع صدر اسلام اور پیغمبر (ص) کے عہد سے نزدیک والے زمانہ میں اتنا ہى مسلم تھا کہ لوگ آپ (ع) کے منتظر رہتے تھے اور صاحبان علم و ستم رسیدہ افراد کہ جو مہدى کى علامتوں کو بخوبى نہیں جانتے تھے وہ محمد بن حنفیہ کو اور کبھى محمد بن عبداللہ اور دوسرے اشخاص کو مہدى موعود سمجھ لیتے تھے لیکن علمائے اہل بیت اور صاحبان علم یہاں تک کہ محمد کے والد عبداللہ بھى جانتے تھے کہ وہ مہدى نہیں ہے _

ابوالفرج لکھتے ہیں: ایک شخص نے عبداللہ بن حسن سے عرض کى : محمد کب خروج کریں گے ؟ انہوں نے جواب دیا : جب تک میں قتل نہیں کیا جاؤنگا اس وقت تک وہ خروج نہیں کریں گے _ لیکن خروج کے بعد قتل کردیئےائیں گے _ اس شخص نے کہا : انّا للہ و انّا الیہ راجعون'' اگر وہ قتل کردیئےائیں گے تو امت ہلاک ہوجائے گى ، عبداللہ نے کہا: ایسا نہیں ہے _ اس شخص نے دوبارہ عرض کى ، ابراہیم کب خروج کریں کے ؟ کہا جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک خروج نہیں کریں گے _ لیکن وہ بھى قتل کردیئےائیں گے اس شخص نے کہا ، انا للہ و انا الیہ راجعوں، امت ہلاک ہوا چاہتى ہے _ عبداللہ نے جواب دیا : ایسا نہیں ہے بلکہ ان کام امام مہدى موعود ایک پچیس سال کى عمر کا جوان ہے جو دشمنوں کو تہہ تیغ کرے گا _ (11)

ابوالفرج ہى تحریر فرماتے ہیں : ابوالعباس نے نقل کیا ہے کہ میں نے مروان سے کہا: محمد خود کو مہدى کہتے ہیں _ اس نے کہا :نہ وہ مہدى موعود ہیں نہ ان کے باپ کى نسل سے ہوگا بلکہ وہ ایک کنیز کا بیٹا ہے _ (12)

پھر لکھتے ہیں : جعفر بن محمد جب بھى محمد بن عبداللہ کو دیکھتے گریہ کرتے اور فرماتے تھے: ان (مہدی) پر میرى جان فدا ہو لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ شخص مہدى موعود ہے جبکہ یہ قتل کردیا جائے گا اور کتاب على میں اس امت کے خلفاء کى فہرست میں اس کا نام نہیں ہے_(13)

محمد بن عبداللہ بن حسن کے پاس ایک جماعت بیٹھى تھى کہ جعفر بن محمد تشریف لائے سب نے ان کا احترام کیا _ آپ نے دریافت کیا ، کیا بات ہے ؟ حاضرین نے جواب دیا ہم محمد بن عبداللہ جو کہ مہدى موعودہیں کى بیعت کرنا چاہتے ہیں _ آپ نے فرمایا : اس ارادہ سے دست کش ہوجاؤ کیونکہ ابھى ظہور کا وقت نہیں آیا ہے اور محمد بن عبداللہ بھى مہدى نہیں ہے _ (14)
مہدى اور دعبل کے اشعار

دعبل نے جب امام رضا (ع) کو اپنا مشہور قصیدہ سنا یا تو اس کے خاتمہ پر درج ذیل شعر پڑھا:


خروج امام لامحالة واقع  یقوم على اسم اللہ والبرکات

یعنى ایک امام کا انقلاب لانا ضرورى ہے وہ خدا کے نام اور برکت سے انقلاب لائے گا _

امام رضا(ع) نے یہ شعر سن کر بہت گریہ کیا اور فرمایا: روح القدس نے تمہارى زبان سے یہ بات کہلوائی ہے _ کیا تم اس امام کو پہچانتے ہو ؟ عرض کى نہیں : لیکن سنا ہے ، آپ (ع) میں سے ایک اما م قیا م کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریگا امام (ع) نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا محمد (ع) امام ہے اور ان کے بعد ان کے فرزند على (ع) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کے بیٹے حسن (ع) امام ہوں گے اور ان کے بعد ان کہ لخت جگر حجت قائم امام ہوں گے _ ان کى غیبت کے زمانہ میں انتظار کرنا اور ظہور کے بعد ان کى اطاعت کرنى چاہئے وہى زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ لیکن ان کے ظہور کا وقت معین نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اچانک و ناگہان ظہور کریں گے _ (15)

ان اور ایسے ہى دیگر واقعات سے تاریخ بھر پڑى ہے اگر اشتیاق ہے تو تاریخ کا مطالعہ فرمائیں _

چونکہ کافى وقت گزر چکا تھا لہذا یہیں پر جلسہ کو ختم کردیا گیا اور آنے والے ہفتہ کى شب پر موقوف کردیا گیا _

 

 

1_ تاریخ طبرى ج 4 ص 449_ و ص 494، تاریخ کامل طبع اول ج 3 ص 339 و ص 358_
2_ طبقات الکبیر طبع لندن ج 5 ص 66_
3_ طبقات الکبرى ج 7 ص 71_
4_ طبقات الکبرى ج 7 ص 80_
5_ مقاتل الطالبین ص 165_
6_ مقاتل الطالبین ص 162_
7_ مقاتل الطالبین ص 162_
8_ ان الذى یروى الرواة لبین /  اذا ماابن عبداللہ فیہم تجردا /  لہ خاتم لم یعطہ اللہ غیرہ  وفیہ علامات من البر و الہدی / انا لنزجوان یکون محمد  اماماً بہ یحیى الکتاب المنزل / بہ یصلح الاسلام بعد فسادہ  و یحیى یتیم باس و معمول / و یملا و عدلا ارضنا بعد ملئہا  ضلالا و یأتینا الذى کنت آمل(مقاتل الطالبین ص 164)
9_ مقاتل الطالبین ص 193_
10_ مقاتل الطالبین ص 195_
11_ مقاتل الطالبین ص 167_
12_ مقاتل الطالبین ص 166_
13_ مقاتل الطالبین ص 142_
14_ مقاتل الطالبین ص 141_
15_ ینابیع المودة جلد 2 ص 197_