پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بے جا تعصّب

بے جا تعصّب

غرض مندى اور بے جا تعصب تحقیق کے منافى ہے _ جو شخص حقائق کى تحقیق کرنا چاہتا ہے اسے تحقیق سے پہلے خود کو بغض و عناد اور بے جا تعصب سے آزاد کرلینا چاہئے ، اور اس کے بعد غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کرنا چاہئے _ اگر تحقیق کے دوران کوئی چیز حدیث کے ذریعہ ثابت ہوتى ہے تو اس حدیث کے راویوں کى وثاقت سے بحث کرے ، اگر ثقہ ہیں تو ان کى روایتوں پر اعتماد کرے ، خواہ سنّى ہوں یا شیعہ ، یہ بات طریقہ تحقیق کے خلاف ہے کہ ثقہ راویوں کى احادیث کو شیعہ ہونے کے الزام میں رد کردیا جائے _ عامة المسلمین سے منصف مزاج حضرات اس بات کى طرف متوجہ رہے ہیں _

عسقلانى لکھتے ہیں : جن مقامات پر تضعیف کرنے والے قول پر توقف کرنا چاہئے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تضعیف کرنے والے اور جس کى تضعیف کى گئی ہے ان کے درمیان عقیدہ کا اختلاف اور عدالت و دشمنى ہو مثلاً ابو اسحاق جوزجانى ، ناصبى تھا اور کوفے والے شیعہ مشہور تھے _ اس لئے اس نے ان کى تضعیف میں توقف نہیں کیا اور سخت الفاظ میں انھیں ضعیف قراردیتا تھا _ یہاں تک کہ اعمش ، ابو نعیم اور عبیداللہ ایسے احادیث کے ارکان کو ضعیف قراردیدیا ہے _ قشیرى کہتے ہیں :'' لوگوں کى اغراض و خواہشیں آگ کے گڑھے ہیں _ اگر ایسے موارد میں راوى کى توثیق وارد نہ ہوتى ہو تو تضعیف مقدم ہے '' _(1)

ابان بن تغلب کے حالات لکھنے کے بعد محمد بن احمد بن عثمان ذہبى لکھتے ہیں اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ بدعتى ہونے کے باوجود تم ابان کى توثیق کیوں کرتے ہو تو ہم جواب دیں گے کہ بدعت کى دو قسمیں ہیں ، ایک چھوٹى بدعت ہے جیسے تشیع میں غلو، یا تشیع بغیر انحراف _ البتہ تابعین اور تبع تابعین میں ایسى بدعت رہى ہے اس کے باوجود ان کى سچائی ، دیانت دارى اور پرہیزگارى باقى رہى اگر ایسے افراد کى احادیث رد کرنا ہى مسلم ہے تو نبى (ص) کى بے شمار حدیثیں رد ہوجائیں گى اوراس بات میں قباحت ہے وہ کسى پر مخفى نہیں ہے _ دوسرى قسم بدعت کبرى ہے یعنى مکمل رافضى _ رافضیت میں غلو اورابوبکر و عمر کى بدگوئی _ البتہ ایسے راویوں کى حدیثوں کو رد کردینا چاہئے اور ان کى کوئی حیثیت نہیں ہے _ (2)

مختصر یہ کہ ان تضعیفات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ بھر پور کوشش اور چھان بین سے راوى کى صلاحیت اور عدم صلاحیت کا سراغ لگانا چاہئے _

 

1_ لسان المیزان ج 1 ص 16_
2_ میزان الاعتدال ج 1 ص 5_