پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

كيا مہدى آخرى زمانہ ميں پيدا ہونگے ؟

کیا مہدى آخرى زمانہ میں پیدا ہونگے ؟

ہم آپ کى بت کو اس حدتک تو تسلیم کرتے ہیَ کہ مہدى کا وجود اسلام کے مسلم موضوعات ہیں سے ہے کہ پیغمبر اکرم(ع) نے بھى ان کے ظہور کى خبردى ہے _ لیکن اس بات میں کیا حرج ہے کہ مہدى ابھى پیدا نہیں ہوئے ہیں جب دنیا کے حالات سازندگار ہوجا ئیں گے اس وقت خداوند عالم پیغمبر اکرم (ع) کى اولامیں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ عدل وانصاف کے پھیلانے ،ظلم کے مٹا نے اور خدا پرستى کے فروغ کے لئے قیام کرے گا اور کامیاب ہوگا؟

ہوشیار: اول تو ہم نے عقلى و نقلى دلیلوں سے یہ بات ثابت کردى ہے کہ امام کے وجود سے کوئی زمانہ خالى نہیں ہے چنانچہ امام نہ ہوں گے تو یہ دنیا بھى نہ ہوگی، اس بناپر ہمارے زمانہ میں بھى امام موجود ہیں _

دوسرے ہم نے پیغمبر اور ان کے اہل بیت کى احادیث سے امام مہدى کے وجود کو ثابت کیا ہے _ پس ان کے اوصاف و تعارف کو بھى احادیث ہى سے ثابت کرنا چاہئے خوش قسمتى سے امام مہدى کى تمام علامتیں اور صفات احادیث میں موجود ہیں اور اس میں کسى قسم کا ابہام نہیں ہے لیکن چونکہ ان حادیث کے بیا ن کیلئے کئی جلسے درکار ہیں اس لئے آپ کے سامنے انکى فہرست پیش کرتا ہوں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو احادیث کى کتب کا مطالعہ فرمائیں _
مہدى کى تعریف

امام بارہ ہیں ان میں پہلے على بن ابیطالب اور آخرى مہدى ہیں 91 حدیث

امام بارہ ہیں اور آخرى مہد ى ہیں 94  حدیث
امام بارہ ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع) کى نسل سے ہوں گے اور نواں قائم ہے 107 حدیث
مہدى (عج) عترت رسول (ص) سے ہیں  389 حدیث
مہدى (عج) اولاد على (ع) سے ہیں 214 حدیث
مہدى (عج)اولاد فاطمہ (ع) سے ہیں 192 حدیث
مہدى (عج)اولاد حسین (ع) سے ہیں 185حدیث
مہدى (عج)حسین (ع) کى نویں پشت میں ہیں 148 حدیث
مہدى (عج)امام زین العابدین (ع) کى اولاد سے ہیں 185 حدیث
مہدى (عج)امام محمد باقر (ع) کى اولاد سے ہیں 103 حدیث
مہدى (عج)امام جعفر صادق (ع) کى اولاد سے ہیں 103 حدیث
مہدى (عج)امام جعفر صادق (ع) کى چھٹى پشت میں ہیں 99  حدیث
مہدى (عج)امام موسى کاظم (ع) کى اولاد میں ہیں 101 حدیث
مہدى (عج)امام موسى کاظم (ع) کى پانچویں پشت میں ہیں 98  حدیث
مہدى (عج)امام رضا (ع) کى اولاد سے ہیں 95  حدیث
مہدى (عج)امام محمد تقى (ع) کى تیسرى پشت میں ہیں 90  حدیث
مہدى (عج)امام على نقى (ع) کى اولاد سے ہیں 90  حدیث
مہدى (عج)امام حسن عسکرى (ع) کے فرزند ہیں 145 حدیث
مہدى (عج)کے والد کا نام حسن ہے 148 حدیث
مہدى (عج)رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت ہیں 47 حدیث (1)


رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدى (عج) میرى اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کى بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کى غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کى مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسى طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکى ہوگى _(2)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدى کى تعریف و توصیف کى گئی ہے اس سے کسى قسم کے شک کى گنجائشے باقى نہیں رہتى _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضرورى ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہى شخص میں اپنے نام اور اپنى کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کى ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _ (3)

چنانچہ اسى ممانعت کى بناپر جب حضرت على بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھى تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت على بن ابى طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصى اجازت لى ہے _ صحابہ کى ایک جماعت نے بھى حضرت على (ع) کى بات کى تائید کى _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدى کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گى کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدى کى علامت بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسى بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدى ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کى طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدى ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میرى کنیت رسول (ص) خدا کى کنیت ہے _ (4)


مہدى امام حسین (ع) کى اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدى کو حسن (ع) کى اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابى داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : على (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کى نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _ (5)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطى کى وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہى حدیث اسى متن و سند کے ساتھ دوسرى کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _ (6)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّى کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدى کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے طور پر اہل سنّت کى کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کى جاتى ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہى دن باقى رہے گا تو بھى خدا اس دن کو اتنا طولانى بنادے گا کہ میرى اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کى : اے اللہ کى رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کى نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کى پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے '' (7)

ابوسعید خدرى نے روایت کى ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدى ، کہ جن کى اقتداء میں جناب عیسى نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدى میرے اس بیٹے کى نسل سے ہوگا ''_ (8)

سلمان فارسى کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کى خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _ (9)

 

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدى کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہى ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کى پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدى کو نسل حسن (ع) سے قراردیتى ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھى ہو تو پہلى حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہى امام زمانہ کے جد ہیں 7 اس لئے امام محمد باقر کى مادر گرامى امام حسن کى بیٹى تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھى اس بات کى تائید ہوتى ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کى قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کى قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدى تمہارے ان ہى دونوں بیٹوں کى اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگى '' (10)

 

اگر مہدى مشہور ہوتے ؟

جلالى : اگر مہدى موعود کى شخصیت اتنى ہى مشہور ہوتى اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنى ہوتیں تو اصولى طور پر اشتباہ اور کج فہمى کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھى آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکى بعض اولاد کو بھى اس کى خبر نہ تھى ، پس جعلى و جھوٹے مہدى جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدى کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابى حاصل کى ؟ اگر مسلمان مہدى کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسرى علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسى کا ظم (ع) کو کیسے مہدى سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھى عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدى کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسى کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالى صفات ، توحید و عدالت کى حکومت کى تشکیل ، ظلم و ستم کى بیخ کنى ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کى اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدى کى حقیقى خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسى حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہى سے بیان کرتے تھے _ رسول اسلام نے مہدى کى حقیقى علامتوں کو على بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالى طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھى اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کى سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدى کى حقیقى و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کى بعض اولاد بھى اس کى تفصیل نہیں جانتى تھى _

اس اجمالى گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدى موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسى طریقہ سے انہوں نے مہدى کو نجات دى ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدى کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینى طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کى ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنى حکومت کو بچانے کے لئے بنى امیہ و بنى عباس ہر احتمالى خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گرى سے بھى درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کى حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسى کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہى ہوتا ، اپنى کرسى کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھى دریغ نہیں کرتے تھے _ بنى امیہ اور بنى عباس کو مہدى کى علامتوں اور خصوصیات کى کامل اطلاع نہیں تھى اس کے باوجود انہوں نے احتمالى خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدى قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنى امیہ و بنى عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کى حکومت کا خاتمہ کریں گے اسى وقت سے وہ ہمارى دشمنى پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لى اور اس امید پر کہ وہ مہدى کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑى ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کى تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقى واقعات کى اطلاع ہى نہ ہونے دى ''_ (11)

ائمہ اطہار(ع) مہدى کى خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھى حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلى کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کى مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسى چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدى کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(12)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت على (ع) پاکیزہ زندگى اور ان کى عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کى بشارتیں سنى تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھى ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسرى طرف بنى امیہ و بنى عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامى معاشرہ کى زبوں حالى کو اپنى آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کى حفاظت کرنے ، ان کى امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسى حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہى مہدى موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدى موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کى اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمى سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسى وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدى کى حقیقى علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادى جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدى کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقى ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھى حاصل نہ ہوتا _ اسى اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے على بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں ہوئی ہیں وہ تو پورى ہوتى ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پورى نہیں ہورہى ہیں؟ على بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہى ہے لیکن چونکہ آپ کى حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پورى ہورہى ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کى حکومت کا زمانہ ابھى نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کى حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگى تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کى حکومت کى تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _ (13)

 

 

1_ یہ احادیث منتخب الاثر ، مولف آیت اللہ صافى ، سے نقل کى گئی ہیں _
2_ بحارالانوار جلد 51 ص 72_
3_ الطبقات الکبرى طبع لندن جلد 1 ص 67_
4_ الطبقات الکبرى ج 5 ص 66_
5_ سنن ابى داؤد ج 2 ص 208_
6_ اثبات الہداة ج 2 ص 208_
7_ ذخائر العقبى ص 136_
8_ کتاب البیان فى اخبار صاحب الزمان باب 9_
9_ ینابیع المودة ج1 ص 145_
10_ اثبات الہداة ج 7 ص 183_
11_ کمال الدین جلد 2 ص 23_
12_ غیبت شیخ ص 302_
13_ غیبت شیخ طبع دوم ص 207_