پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

نبوّت عامہ اور امامت

نبوّت عامہ اور امامت

فھیمى : میرى سمجھ میں یہ بات نہیں آتى کہ شیعہ ایک امام کے وجودکوثابت کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ اپنے عقیدہ کے سلسے میں آپ اتنى جد و جہد کرتے ہیں کہ : اگر امام ظاہر نہیں ہے تو پردہ غیبت میں ہے _ اس بات کے پیش نظر کہ انبیاء نے احکام خدا کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کرہے _ اب خدا کو کسى امام کے وجود کى کیا ضرورت ہے ؟

ہوشیار: جو دلیل نبوت عامہ کے اثبات پر قائم کى جاتى ہے اور جس سے یہ بات ثابت کى جاتى ہے کہ خدا پر احکام بھیجنا واجب ہے اس دلیل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احکام کا وجود بھى ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت کرنے کیلئے پہلے میں اجمالى طور پر نبوت عامہ کے برہان کو بیان کرتا ہوں _ اس کے بعد مقصد کا اثبات کروں گا _

اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائی مسائل میں صحیح طریقہ سے غور کریں جو کہ اپنى جگہ ثابت ہوچکے ہیں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _

1_ انسان اس زاویہ پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تن تنہا زندگى نہیں گزار سکتا بلکہ دوسرے انسانوں کے تعاون کامحتاج ہے _ یعنى انسان مدنى الطبع خلق کیا گیا ہے _ اجتماعى زندگى گزارنے کیلئے مجبور ہے _ واضح ہے کہ اجتماعى زندگى میں منافع کے حصول میں اختلاف ناگزیر ہے _ کیونکہ معاشرہ کے ہر فرد کى یہ کوشش ہوتى ہے کہ وہ مادہ کے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد کے حصول کى راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو راہ سے ہٹادے جبکہ دوسرے بھى اسى مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں _ اس اعتبار سے منافع کے حصول میں جھگڑا اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدى کا باب کھلتا ہے لہذا معاشرہ کو چلانے کیلئے قانون کا وجود ناگزیر ہے تا کہ قانون کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و تعدى کرنے والوں کى روک تھام کى جائے اور اختلاف کا خاتمہ ہوجائے _ اس بنیاد پر یہ بات کہى جا سکتى ہے کہ بشریت نے آج تک جو بہترین خزانہ حاصل کیا ہے وہ قانون ہے اور اس بات کا بھى اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اپنى اجتماعى زندگى کے ابتدائی زمانہ سے ہى کم و بیش قانون کا حامل تھا اور ہمیشہ سے قانون کا احترام کرتا چلا آرہا ہے _

2_ انسان کمال کا متلاشى ہے اور کمال و کامیابى کى طرف بڑھنا اس کى فطرت ہے _ وہ اپنى سعى مبہم کو حقیق مقصد تک رسائی اور کمالات کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے ، اس کے افعال ، حرکات اور انتھک کوششیں اسى محور کے گرد گھومتى ہیں _

3_ انسان چونکہ ارتقاء پسند ہے اور حقیقى کمالات کى طرف بڑھنا اس کى سرشت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لئے اس مقصد تک رسائی کا کوئی راستہ بھى ہونا چاہئے کیونکہ خالق کوئی عبث و لغو کام انجام نہیں دیتا ہے _

4_ یہ بھى ثابت ہوچکا ہے کہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے جسم کے اعتبار سے مادى ہے _ لیکن روح کے ذریعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال رکھتى ہے ، وہ ترقى یافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _

5_ انسان چونکہ روح و بدن سے مرکب ہے اس لئے اس کى زندگى بھى لامحالہ دوقسم کى ہوگى : ایک دنیوى حیات کہ جس کا تعلق اس کے بدن سے ہے _ دوسرے معنوى حیات کہ جس کا ربط ا س کى روح اور نفسیات سے ہے _ نتیجہ میں ان میں سے ہر ایک زندگى کے لئے سعادت و بدبختى بھى ہوگى _

6_ جیسا کہ روح اور بدن کے درمیان سخت قسم کا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ایسا ہى دنیوى زندگى اور معنوى زندگى میں بھى ارتباط و اتصال موجود ہے _

یعنى دنیوى زندگى کى کیفیت ، انسان کے بدن کے افعال و حرکات اس کى روح پر بھى اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ نفسانى صفات و کمالات بھى ظاہر افعال کے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہیں _

7_ چونکہ انسان کمال کى راہ پر گامزن ہے اور کمال کى طرف راغب ہونا اس کى فطرت میں داخل ہے ، خدا کى خلقت بھى عبث نہیں ہے _ اس لئے انسانى کمالات کے حصول اور مقصد تک رسائی کے لئے ایسا ذریعہ ہونا چاہئے کہ جس سے وہ مقصد تک پہنچ جائے اور کج رویوں کو پہچان لے _

8_ طبعى طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنى ہى مصلحت و فوائد کو مد نظر رکھتا ہے _ بلکہ دوسرے انسانوں کے مال کو بھى ہڑپ کرلینا چاہتا ہے اور ان کى جانفشانى کے نتیجہ کا بھى خودہى مالک بن جانا چاہتا ہے _

9_ باوجودیکہ انسان ہمیشہ اپنے حقیقى کمالات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس حقیقت کى تلاش میں ہر دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے لیکن اکثر اس کى تشخیص سے معذور رہتا ہے کیونکہ اس کى نفسانى خواہشیں اور درونى جذبات عقل عملى سے حقیقت کى تشخیص صلاحیت اور انسانیت کے سیدھے راستہ کو چھپادیتے ہیں اور اسے بدبختى کى طرف کھینچ لے جاتے ہیں _

 


کونسا قانون انسان کى کامیابى کا ضامن ہے ؟

چونکہ انسان اجتماعى زندگى گزار نے کیلئے مجبور ہے اور منافع میں اپنے بھائیوں سے مزاحمت بھى اجتماعى زندگى کالازمہ ہے لہذا انسانوں کے درمیان قانوں کى حکومت ہونا چاہئے تا کہ اختلاف و پراکندگى کا سد باب ہوجائے _ قانوں بھى معاشرہ کو اسى صورت میں چلا سکتا ہے کہ جب درج ذیل شرائط کا حامل ہوگا _

1_ قوانین جامع و کامل ہوں تا کہ تمام اجتماعى و انفرادى امور میں ان کا نفوذ اور دخل ہو _ ان میں تمام حالات اور ضرورتوں کى رعایت کى گئی ہو ، کسى موضوع سے غفلت نہ کى گئی ہو ایسے قوانین کو معاشرہ کے افراد کى حقیقى اور طبیعى ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہئے _

2_ قوانین حقیقى کامیابى و کمالات کى طرف انسان کى راہنمائی کرتے ہوں ، خیالى کامیابى و کمالات کى طرف نہیں _

3_ ان قوانین میں عالم بشریت کى سعادت و کامیابى کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور مخصوص افراد کے مفاد کو پور ا نہ کرتے ہوں _

4_ وہ معاشرے کو انسانى کمالات و فضائل کے پایوں پر استوار کرتے ہوں اور اس کے اعلى مقصد کى طرف راہنمائی کرتے ہوں یعنى اس معاشرے کے افراد دنیوى زندگى کو انسانى فضائل و کمالات کا ذریعہ سمجھتے ہوں اور اسے ( دنیوى زندگى کو) مستقل ٹھکانا خیال نہ کرتے ہوں_

5_ وہ قوانین ظلم و تعدى اور ہرج و مرج کو رد کرکے کى صلاحیت رکھتے ہوں اور تمام افراد کے حقوق کو پورا کرتے ہوں _

6_ ان قوانین کى ترتیب و تدوین میں روح اور معنوى زندگى کے پہلوؤں کى بھى مکمل طور پر رعایت کى گئی ہو یعنى ان میں سے کوئی قانون بھى نفس اور روح کیلئے ضرر رساں نہ ہو اور انسان کو سیدھے راستہ سے منحرف نہ کرتا ہو _

7_ معاشرے کو انسانیت کے سیدھے راستہ سے منحرف کرنے اور ہلاکت کے غار میں ڈھکیل دینے والے عوامل سے پاک و صاف کرتا ہو _

8_ ان قوانین کا بنانے والا تزاہم ( ٹکراؤ) مصلحت اور مفاسد کو بھى اچھى طرح جانتا ہو _ زمان و مکان کے اقتضا سے واقف ہو _

انسان یقینا ایسے قوانین کا محتاج ہے اور یہ اس کى زندگى کے ضروریات میں شمار ہوتے ہیں اور قانون کے بغیر انسانیت تباہ ہے _ لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا بشر کے بنائے ہوئے قوانین اس عظیم ذمہ دارى کو پورا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کو چلانے کى صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں ؟

ہمار ا عقیدہ ہے کوتاہ فکر اور کوتاہ اندیش افراد گا بنایا ہوا قانون ناقص اور معاشرہ کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کى صلاحیت سے عارى ہے _ دلیل کے طور پر چند موضوعات پیش کئے جا سکتے ہیں _

1_ انسان کے علم و اطلاع کا دائرہ محدود ہے _ عام آدمى مختلف انسانوں کى ضروریات خلقت کے رموز و اسرار خیر و شر کے پہلوؤں ، زمان و مکان کے اقتضاء کے اعتبار سے فعل و انفعالات ، تاثیر وتأثر اور قوانین کے تزاحم سے مکمل طور پر واقف نہیں ہے _

2_ اگر بفرض محال قانون بنانے والے انسان ایسے جامع قانون بنانے میں کامیاب بھى ہوجائیں تو بھى وہ دنیوى زندگى اور معنوى حیات کے عمیق ارتباط اور ظاہر حرکات کے نفس پر ہونے والے اثرات سے بے خبر ہیں اور کچھ آگہى رکھتے ہیں تو وہ ناقص ہے اصولى طور پر معنوى زندگى ، ان کے پروگرام سے ہى خارج ہے _ وہ بشریت کى خوش بختى اور سعادت مندى کو مادى امور میں محدود سمجھتے ہیں جبکہ ان دونوں زندگیوں میں گہرا ربط ہے اور جدائی ممکن نہیں ہے _

2_ چونکہ انسان خودخواہ ہے لہذا دوسرے انسانوں کا استحصال طبیعى ہے چنانچہ نوع انسان کا ہر فرد اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دیتا ہے _ پس اختلاف اور استحصال کا سد باب کرنا اس کى صلاحیت سے باہر ہے ، کیونکہ قانون بنانے والے انسان کو اس کى خواہش ہرگز اس بات کى اجازت نہیں دیتى کہ وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کے منافع و مفاد سے چشم پوشى کرکے لوگوں کى مصلحت کو مد نظر رکھے _

4_ قانون بنانے والا انسان ہمیشہ اپنى کوتاہ نظرى کے اعتبار سے قانون بناتا ہے اور انھیں اپنے کوتاہ افکار ، تعصبات اور عادتوں کے غالب میں ڈھالتاہے ، لہذا چند افراد کے منافع اور مفاد کے لئے قانون بتاتا ہے اور قانون بناتے وقت دوسروں کے نفع و ضرر کو ملحوظ نہیں رکھتا _ ایسے قوانین میں عام انسانوں کى سعادت کو مد نظر نہیں رکھا جاتا _ صرف خدا کے قوانین ایسے ہیں جو کہ انسان کى حقیقى ضرورتوں کے مطابق اور خلقت کے رموز کے مطابق نبے ہیں ، ان میں ذاتى اغراض و مفاد او رکجى نہیں ہے اور ان میں عالم بشریت کى سعادت کو مد نظر نظر رکھا گیا ہے _ واضح ہے کہ انسان قانون الہى کا محتاج ہے اور خدا کے الطاف کا اقتضا یہ ہے کہ وہ مکمل پروگرام بنا کر اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بندوں تک پہنچائے _


سعادت اخروی

جس وقت انسان دن رات اپنى دنیوى زندگى میں سرگرم ہوتا ہے اسى وقت اس کے باطن میں بھى ایک سربستہ زندگى موجود ہوتى ہے _ ممکن ہے وہ اس کى طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور مکمل طور پر اسے فراموش کرچکا ہو _ اس مجہول زندگى کى بھى سعادت و شقاوت ہوتى ہے _ بر حق عقائد و افکار ، پسندیدہ اخلاق اور شائستہ اعمال روحانى ترقى او رکمال کا باعث ہوتے ہیں اور اسے سعادت و کمال کى منزل تک پہنچاتے ہیں جیسا کہ باطل عقائد ، برے اخلاق اور ناروا حرکتیں بھى نفس کى شقاوت و بدبختى کا سبب قرار پاتى ہیں _ اگر انسان ارتقاء کے سیدھے راستہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ اپنى ذات کے جوہر اور حقیقت کى پرورش کرتا اور اسے ترقى دیتا ، اپنے اصلى مرکز عالم نورانیت کى طرف پرواز کرتا ہے اور اگر روحانى کمالات اور پسندیدہ اخلاق کو اپنى حیوانى قوت و عادت اور خواہش نفس پر قربان کردیتا ہے اور ایک درندہ و ہوس راں دیوبن جاتاہے تو وہ ارتقاء کے سیدھے راستہ سے منحرف ہوجائے گا اور تباہى و بدبختى کے بیابان میں بھٹکتا پھرے گا _ پس معنوى حیات کے لئے بھى انسان ایک مکمل پروگرام اور معصوم راہنما کامحتاج ہے _ کسى کى مدد کے بغیر اس خطرناک راستہ کو طے نہیں کرسکتا کیونکہ اس کى نفسانى خواہشیں اس کى عقل کواکثر صحیح فیصلہ کرنے اور حقیقت بینى سے باز رکھتى ہیں اور اسے ہلاکت کى طرف لے جاتى ہیں ، وہ اچھے کہ برا اور برے کو اچھا کرکے دکھاتى ہیں _ صرف خالق کائنیات انسان کے حقیقى کمالات ، واقعى نیک بختى اور اس کے اچھے برے سے واقف ہے اور وہى اس کى نفس کى سعادت و کامیابى اور بدبختى و ناکامى کے عوامل سے بچانے کامکمل دستور العمل انسان کے اختیا رمیں دے سکتا ہے _ پس اخروى سعادت تک پہنچنے کے لئے بھى انسان خالق کائنات کا محتاج ہے _

اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ خدائے حکیم نے انسان کو ، جو کہ سعادت و بدبختى دونوں کى صلاحیت رکھتا ہے ، ہرگز خواہشات نفس اور حیوانى طاقت کا مطیع نہیں بنایا ہے اور جہالت و نادانى کے بیابان میں سرگرداں نہیںچھوڑا ہے _ بلکہ اس کے بے شمار الطاف کا اقتضا تھا کہ وہ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعہ ایسے احکام ، قوانین اور مکمل دستور العمل جو کہ دنیوى و اخروى سعادت و کامیابى کا ضامن ہو ، انسانوں تک پہنچائے اور سعادت و کامیابى اور بدبختى و ناکامى سے انھیں آگاہ کرے تا کہ ان پر حجّت تمام ہوجائے اور مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوجائے _


ترقى کا راستہ

انسان کى ترقى اور خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ، برحق عقائد ، اعمال صالح اور نیک اخلاق ہیں کہ جنھیں خدا نے انبیاء کے پاکیزہ قلوب پرنانزل کیا ہے تاکہ وہ انھیں لوگوں تک پہنچادیں لیکن یادرہے یہ راستہ کوئی وقتى اور تشریفاتى نہیں ہے کہ جس کا مقصد سے کوئی ربط نہ ہو بلکہ یہ حقیقى اور واقعى راستہ ہے کہ جس کا سرچشمہ عالم ربوبیت ہے جو بھى اس پر گامزن ہوتا ہے _ وہى اپنے باطن میں سیر ارتقاء کرتا ہے اور بہشت رضوان کى طرف پرواز کرتا ہے _

بعبارت دیگر : دین حق ایک سیدھا راستہ ہے ، جو بھى اسے اختیار کرتا ہے اسکى انسانیت کامل ہوتى ہے اور وہ انسانیت کے سیدھے راستہ سے سرچشمہ کمالات کى طرف چلا جاتا ہے جو دیانت کے سیدھے راستے سے منحرف ہوجاتا ہے وہ مجبوراً انسانیت کے فضائل کى راہ کو گم کرکے حیوانیت کے کج راستہ پر لگ جاتا ہے _ حیوانیت و درندگى کے صفات کى تقویت کرتا اور راہ انسانیت کو طے کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ایسے شخص کى زندگى دشوار ہوجاتى اور جہنم اس کى تقدیر بن جاتاہے _


عصمت انبیائ

خداوند عالم کے لطف کا اقتضا یہ ہے کہ لوگوں تک احکام اور ضرورى قوانین پہچانے کے لئے انبیاء کو مبعوث کرے تا کہ وہ مقصد تخلیق کى طرف ان کى راہنمائی کریں _ خدا کا یہ مقصد اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے کہ جب اس کے احکام بغیر کسى تحریف _ بغیر کمى بیشی_ کے لوگوں تک پہنچ جائیں اور ان کا عذر بھى ختم ہوجائے _ اس لئے پیغمبر خطا و نسیان سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں یعنى خدا سے احکام لینے ، ان کا یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے محفوظ ہوتے ہیں _ اس کے علاوہ ان احکام پر انبیاء کو خود بھى عمل کرنا چاہئے تا کہ ان کے قول و عمل میں تضاد نہ ہو اور قول و عمل کے ذریعہ لوگوں کو حقیقى کمالات کى طرف دعوت دیں کہ ان کے پاس کو ئی عذر و بہانہ باقى نہ رہے اور راہ حق کى تشخیص میں ادھر ادھر نہ بھٹکین اور پھر پیغمبر ہى احکام خدا کا اتباع نہیں کریں گے تو ان کى تبلیغ کا بھى کوئی اثر نہ ہوگا ، لوگان پر اعتماد نہیں کریں گے ، کیونکہ وہ اپنى بات کے خلاف عمل کرتے ہیں اور اپنے عمل سے لوگوں کو احکام کے خلاف عمل کرنے کى دعوت دیتے ہیں اور یہ بات تو واضح ہے کہ عملى تبلیغ اگر قولى تبلیغ کے برابر نہیں تو کم بھى نہیں ہے _

ہمارے علوم و مدرکات خطا سے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ وہ حواس اور قوائے مدرکہ کے ذریعہ حاصل حاصل ہوتے ہیں اور حواس سے سرزد ہونے والى غلطى و خطا سب پر عیاں ہے _ لیکن لوگوں کى ہدایت کیلئے جو علوم و احکام خدا کى طرف سے وحى کے ذریعہ انبیاء پر نازل ہوتے ہیں _ ان کى یہ کیفیت نہیں ہے ، انھیں انبیاء نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ حاصل نہیں کیا ہے ورنہ ان کى معلومات میں خطاکار واقع ہونا ضرورى ہوتا اور اس طرح لوگوں تک حقیقى احکام نہیں پہنچ سکتے تھے _ بلکہ ان کے علوم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عالم غیب سے ان کے قلب پر نازل ہوتے ہیں ، ان حقائق کو وہ علم حضورى کى صورت میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن چیزوں کا وہ دل کى آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان پر عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں اور وہ انھیں لوگوں کے اختیار میں دیتے ہیں ، چونکہ انبیاء ان حقائق کا ادراک کرتے ہیں اسلئے ان کے سمجھنے اور یادر کھنے میں کوئی خطا واقع نہیں ہوتى _

اسى لئے وہ ان احکا م کى مخالفت اور عصیان سے بھى معصوم و محفوظ ہوتے ہیں ، اپنے علم پر عمل کرتے ہیں کیونکہ جو شخص عین حقائق اور اپنے کمالات و سعادت کا مشاہدہ کرتا ہے وہ یقین کے ساتھ اپنے مشاہدات پر عمل کرتا ہے اور ایسا انسان اپنے کمال کو نہیں گنواتا ہے _


امامت پر عقلى دلیل

نبوّت عامہ کى دلیل کى وضاحت کے بعد آپ اس بات کى ضرور تصدیق کریں گے کہ اسى برہان کا اقتضا یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر نہ ہو تو اس وقت کسى انسان کو نبى کا جانشین اور احکام خدا کا خزینہ دار ہونا چاہئے کہ جو احکام کى حفاظت اور ان کى تبلیغ میں کوشاں رہے _ کیونکہ انبیاء کى بعثت اور لوگوں تک احکام بھیجنے میں جو خدا کا مقصد ہے وہ اسى وقت پورا ہوگا اور اس کے الطاف کمال کوپہنچیں گے اور اس کے بندوں پرحجت تمام ہوگى جب اس کے تمام قوانین و احکام لوگوں میں بغیر کسى تحریف کے محفوظ رہیں گے _ پس پیغمبر کى عدم موجودگى میں لطف خدا کا اقتضاء یہ ہے کہ انسانوں میں کسى کو ان احکام کى حفاظت و نگہدارى کا ذمہ داربنائے _

اس منتخب شخص کو بھى احکام لینے ، یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے معصوم ہونا چاہئے تا کہ خدا کا مقصد پورا ہوجائے اور اس کے بندوں پر اسکى حجت تمام ہوجائے _ احکام دین کو اس میں جلوہ گر ہونا چاہئے ، خود ان پر عمل پیرا ہونا چاہئے تا کہ دوسرے اپنے اعمال و اخلاق اور اقوال کى اس کے اعمال سے مطابقت کریں _ اس کا اتباع کریں ، اور راہ حقیقت کو تلاش کرنے میں کسى شک و تردد میں مبتلا نہ ہوں اور ہرطریقہ سے حجت تمام ہوجائے _ چونکہ وہ اس اہم ذمہ دارى کے قبول کرنے میں خطا و اشتباہ سے معصوم ہے _ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ علوم کسب نہیں کئے ہیں اورلوگوں کے علوم سے بہت زیادہ مختلف ہیں ،بلکہ پیغمبر کى ہدایت سے اس کى چشم بصیرت چمک اٹھتى ہیں وہ دل کى آنکھوں سے انسانیت کے حقائق و کمالات کو مشاہدہ کرتا ہے اس لئے وہ بھى خطا سے محفوظ و معصوم ہے اور یہى حقائق و کمالات کا مشاہدہ ان کى عصمت کى علت ہے اور اپنے علوم و مشاہدات کے مطابق عمل کرنے کا باعث ہے اور علم و عمل کے ذریعہ لوگوں کا امام بنتا ہے _

بہ عبارت دیگر : نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے انسان کامل کا وجود ضرورى ہے کہ جو خدا کے برحق عقائد کا معتقد اورانسانیت کے نیک اخلاق و صفات پر عمل پیراہو اور احکام دین پر عمل کرتاہو اور سب کو اچھى طرح جانتا ہو ، ان مراحل میں خطا و عصیان سے معصوم ہو ، علم و عمل کے ذریعہ تمام انسانى کمالات اس میں وجود پذیر ہوگئے ہوں اور وہ لوگوں کا امام ہو ں جس زمانہ میں ایسا شخص موجود نہ ہوگا اس زمانہ میں خدا کے وہ احکام ، جو کہ لوگوں کى ہدایت کے لئے نازل ہوئے ہیں ، ختم ہوجائیں گے اور حق تعالى کے فیوض و غیبى امداد کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور عالم ربوبیت و عالم انسانى میں کوئی رابطہ برقرار نہ رہے گا ں

بہ عبارت دیگر: نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے شخص کو موجود ہونا چاہئے جو کہ مستقل ، خدا کى تائید و ہدایت اور فیضان کا مرکز ہو اور وہ معنوى فیوض ، باطنى مدد کے ذریعہ ہر انسان کو اس کى استعداد کے مطابق مطلوبہ کمال تک پہنچائے اور احکام الہى کا خزینہ دار ہوتا کہ ضرورت کے وقت مانع نہ ہونے کى صورت میں لوگ اس کے علوم سے مستفید ہوں _ امام حجّت حق ، نمونہ دین اور انسان کامل ہے جو بشر کى توانائی کى حد تک خدائی معرفت رکھتا اور اس کى عبادت کرتا ہے _ اگر اس کا وجود نہ ہوگا تو خدا کى کامل معرفت اور عبادت نہ ہوگى _ امام کا قلب خدا کے علوم کا خزینہ دار اور اسرار الہى کا مخزن ہے ایک آئینہ کى مانند ہے کہ جس میں عالم ہستى کے حقائق جلوہ گر ہوتے ہیں تا کہ دوسرے ان حقائق کے انعکاس سے مستفید ہوں _

جلالی: دین کے احکام و قوانین کا طریقہ اسى میں منحصر نہیں ہے کہ ایک شخص ان سب کو جانتا ہو اور ان پر عمل کرتا ہو ، بلکہ اگر دین کے تمام احکام و قوانین کو مختلف لوگوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان میں سے ایک جماعت بعض احکام کا علم حاصل کرکے ان پر عمل پیرا ہو تو اس صورت میں بھى ، علم و عمل کے اعتبار سے دین کے تمام احکام لوگوں کے درمیان محفوظ رہیں گے _

ہوشیار: آپ کا فریضہ دو اعتبار سے غلط ہے:

اول: گزشتہ بحثوں میں یہ بات کہى جا چکى ہے کہ نوع انسان کے درمیان ایک ممتاز انسان کو موجود ہونا چاہئے کہ جس میں انسانیت کے تمام ممکنہ کمالات جمع ہوں اور وہ دین کے سیدھے راستہ پرقائم ہو اور تعلیم و تربیت میں خدا کے علاوہ کسى کا محتاج نہ ہو _ اگرایسا کامل انسان لوگوں کے درمیان نہ رہے تو انسانیت کى کوئی غایت نہ ہوگى اور غایت کے بغیر نوع کا بتاہ ہونا یقینى ہے جبکہ آپ کے فرضیہ میں ایسا کامل انسان نہیں ہے کیونکہ ان اشخاص میں اگر چہ ایک بہت سے احکام کو جانتا اورا ن پر عمل کرتا ہے لیکن دین کے سیدھے راستہ پر ان میں سے کوئی بھى واقع نہیں ہوا ہے بلکہ سب جادہ حقیقت سے منحرف ہیں کیونکہ صراط مستقیم اور دین کے احکام کے درمیان ایک مضبوط و عمیق رابطہ برقرار ہے کہ جس کو منقطع کرنا ممکن نہیں ہے _

دوسرے : جیسا کہ پہلے بھى بیان کیا جا چکا ہے کہ جو قوانین خدا کى طرف سے انسان کى ہدایت کیلئے نازل ہوئے ہیں انھیں ہمیشہ ان کے درمیان محفوظ رہنا چاہئے یعنى ان میں :سى قسم کى تحریف ممکن نہ ہو اور تغیر و تبدل کے ہر خطرہ سے محفوظ ہوں تا کہ لوگ ان کے صحیح ہونے کو پورے اعتماد سے تسلیم کرلیں اور یہ اسى وقت ممکن ہے جب ان کا محافظ و خزینہ دار معصوم اور خطا و نسیان اور معصیت سے محفوظ ہو _ جبکہ آپ کے دونوں مفروضوں میں یہ چیز نہیں ہے کیونکہ خطا و نسیان اور معصیت ہر فرد سے سرزد ہوسکتى ہے _ نتیجہ میں خداوند عالم کے احکام تغیر و تبدل سے محفوظ نہیں ہیں اور خدا کى حجت تمام نہیں ہے اور بندوں کا عذر اپنى جگہ باقى ہے _


امامت حدیث کى نظر میں

ہوشیار: امامت سے متعلق جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب اہل بیت کی روایات میں موجود ہیں ، اگر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو احادیث کى کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _ ان میں سے چند یہ ہیں:

ابوحمزہ کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق (ع) کى خدمت میں عرض کى کیا امام کے وجود کے بغیر زمین باقى رہ سکتى ہے ؟ فرمایا: اگر زمین پر امام کا وجود نہ ہوگا تو دھنس جائے گى _(1)

و شاء کہتے ہیں : میں نے امام رضا (ع) کى خدمت میں عرض کى : اما م کے بغیر زمین باقى رہ سکتى ہے ؟ فرمایا: نہیں _ عرض کى : ہم تک روایت پہنچى ہے کہ زمین حجت خدا ، امام کے وجود سے اس وقت خالى ہوتى ہے جب خدا اپنے بندوں پر غضبناک ہوتا ہے _ امام رضا (ع) نے فرمایا کہ : زمین وجود امام سے خالى نہ ہوگى ورنہ دھنس جائے گى _(2)

ابن طیا رکہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا : اگر زمین پر صرف دو انسان ہوں گے تو بھى ان میں سے ایک امام ہوگا _ (3)

حضرت ابوجعفر (ع) فرماتے ہیں : خدا کى قسم حضرت آدم (ع) کے انتقال کے وقت سے اس وقت تک خدا نے زمین کو اس امام کے وجود سے خالى نہ رکھا ہے جس سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور وہى لوگوں پر خدا کى حجت ہے _ زمین کبھى امام کے وجود سے خالى نہیں رہتى کیونکہ وہ بندوں پرخدا کى حجت ہے _ (4)


حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے : خدا نے ہمیں بہترین طریقہ سے خلق فرمایا ہے اور زمین و آسمان میں اپنے علم کاخزینہ دار قراردیا ہے ، درخت ہم سے ہم کلام ہوتے ہیں اور ہمارى عبادت سے خدا کى عبادت ہوتى ہے اگر ہم نہ ہوتے تو خدا کى عبادت نہ ہوتى _ (5)

آپ (ع) ہى کا ارشاد ہے : اوصیاء خدا علوم کے دروازے ہیں _ ان ہى کے ذریعہ دین میں داخل ہونا چاہئے اگر وہ نہ ہوتے تو خدا نہ پہچانا جاتا اور خدا ان کے وجود سے اپنے بندوں پر حجت قائم کرتا ہے _ (6)

ابوخالد کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (ع) سے آیت فآمنوا باللہ و رسولہ و النّور الذى انزلنا _ کى تفسیر دریافت کى تو آپ نے فرمایا : اے ابوخالد خداکى قسم نور سے مراد ائمہ ہیں، اے ابوخالد نور امام سے مومنوں کے دل سورج سے زیادہ روشن ہوتے ہیں _ وہى مومنوں کے دلوں کو نورانى بنانتے ہیں _ خدا جس سے چاہتا ہے ان کے نور کو پوشیدہ رکھتا ہے اور اس کا قلب تاریک ہوجاتا ہے _ (7)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں : جب خد اکسى کو اپنے بندوں کے امور کے لئے منتخب کرتا ہے تو اسے سعہ صدر عطا کرتا ہے ، اس کے قلب کو علم و حکمت کا اور حقائق کاسرچشمہ قرار دیتا ہے اور ہمیشہ اپنے علوم کا الہام کرتا ہے اس کے بعد وہ کسى جواب سے عاجز نہیں ہوتا ہے اور صحیح راہنمائی اور حقائق کو بیان کرنے میں گمراہ نہیں ہوتا ، خطا سے معصوم ہے خدا کى توفیقات و تائیدات ہمیشہ اس کے شامل حال رہتى ہیں ، خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے خدا نہ اسے متخب کیا ہے تا کہ اس کے بندوں پر حجت و گواہ ہوجاے _ یہ خدا کى بخشش ہے ،جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے _ بے شک خدا بہت بڑا فضل کرنے والا ہے _ (8)

پیغمبر فرماتے ہیں: ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں _ ان کے تباہ ہونے سے آسمان والے بھى تباہ ہوجائیں گے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے باعث امان ہیں اگر میرے اہل بیت نہ رہیں گے تو زمین والے ہلاک ہوجائیں گے _(9)

حضرت على بن ابى طالب کا ارشاد ہے : زمین خدا کیلئے قیام کرنے والے قائم اور حجت خدا سے خالى نہیں رہتى ، وہ کبھى ظاہر و آشکار ہوتا ہے _ کبھى پوشیدہ رہتا ہے تا کہ خدا کى حجت باطل نہ ہوجائے وہ کتنے اور کہاں ہیں؟؟ خدا کى قسم وہ تعداد میں بعت کم ہیں لیکن خدا کے نزدیک قدر کے اعتبار سے عظیم ہیں ان کے ذریعہ اپنى حجت و برہان کى حفاظت کرتا ہے تا کہ اس امانت کو اپنے ہى رتبہ کے افراد کے سپردکریں اوراپنے جیسے لوگو ں کے قلوب میں اس کا بیچ بوئیں _

علم نے انھیں بصیرت و حقیقت تک پہنچادیا ہے ، وہ یقین کى منزلوں میں وارد ہوچکے ہیں اور جس چیز کو مال دار و دولت مند دشوار سمجھتے ہیں وہ ان کیلئے سہل و آسان ہے جس چیز سے جاہل دڑتے ہیں یہ اس سے مانوس ہیں _ یہ دنیا میں ان جسموں کے ساتھ رہتے ہیں کہ جن کى ارواح ملائے اعلى سے معلق رہتى ہیں _ یہ زمین پر خدا کے خلیفہ اور دین کے دعوت دینے والے ہیں _ (10)

آپ (ص) ہى کا ارشاد ہے : اہل بیت (ع) کے وجود میں قرآن کے گراں بہا گوہر ودیعت کئے گئے ہیں _ وہ خدا کے خزانے ہیں اگر وہ بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں کرتا _ (11)

دوسرى جگہ ارشاد فرماتے ہیں _ اہل بیت کى برکت سے حق اپنى جگہ مستقر ہوا ہے او ر باطل کى بنیاد اکھڑگئی ہے اور اس کى بنیاد تو اکھڑ نے والى ہى تھى _ انہوں نے دین کو سمجھ لیا ہے _ چنانچہ اس کو حفظ کرتے اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں _ یہ تعقل ، سننے اور نقل کرنے میں محدود نہیں ہے _ یقینا علم کے بیان کرنے والے بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت ہى کم ہیں _ (12)

اب میں اپنے بیان کو سٹمیتا ہوں ، اور اس سلسلے میں مذکورہ عقلى دلیلوں اور احادیث سے استفادہ کرتا ہوں : جب تک روئے زمین پر نوع انسان کا وجود ہے اس وقت تک ان کے درمیان ایک ایسے کامل و معصوم انسان کا وجود بھى ضرورى ہے کہ جس میں اس نوع کے تمام کمالات جلوہ گر ہوں ، علم و عمل سے لوگوں کى ہدایت کرتا ہو اور لوگوں کا امام ہو وہ انسانى کمالات کى راہوں کو طے کرتا اور دوسرے لوگوں کو ان کمالات و مقامات کى طرف بلاتا ہو _ اس کے واسطہ سے عالم انسانیت کا عالم غیب سے ارتباط و اتصال برقرار رہتا ہے _ عالم غیب کے فیوض و برکات پہلے اس کے مقدس وجود پر اور پھر دوسروں پر نازل ہوتے ہیں _ اگر لوگوں کے درمیان ایسا کامل اور ممتاز انسان موجود نہ ہو تو نوع انسان کى کوئی غرض و غایت نہ رہے گى اور غرض و غایت سے انقطاع کے بعد نوع کا تباہ ہوجانا یقینى ہے _ پس دوسرى دلیلوں سے قطع نظر یہ دلیل بھى اس بات پر دلالت کرتى ہے کہ : کوئی زمانہ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ بھى ، وجود امام سے خالى نہیں ہے اور چونکہ ہمارے زمانہ میں امام ظاہر نہیں ہیں اس لئے کہنا چاہئے کہ پردہ غیب میں ہیں _
نگارندہ: بحث طویل ہوگئی تھى _ لہذا بقیہ بحث کو دوسرے جلسہ پر موقوف کردیا گیا _

 

 

1_ اصول کافى ج 1 ص 324_
2_ اصول کافى ج 1 ص 334_
3_ اصول کافى ج 1 ص 335_
4_ اصول کافى ج 1 ص 333_
5_ اصول کافى جلد1 ص 368_
6_ اصول کافى جلد 1ص 369_
7_ اصول کافى جلد 1 ص 372_
8_ اصول کافى جلد 1 ص390_
9_ تذکرة الخواص الامة ص 182_
10_ نہج البلاغہ ج 3 خطبہ 147_
11_ نہج البلاغہ ج 2 خطبہ 150_
12_ نہج البلاغہ ج 2 خطبہ 234_