پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

مہدى ظہور كيوں نہيں كرتے ؟

مہدى ظہور کیوں نہیں کرتے ؟

جلالى : دنیا ظلم و جور اور کفرو الحاد سے بھر چکى ہے تو دنیا کى آشفتہ حالى کو ختم کرنے کے لئے مہدى ظہور کیوں نہیں کرتے؟

ہوشیار: کوئی بھى تحریک و انقلاب اسى وقت کامیابى سے ہمکنار ہوتا ہے جب اس کیلئے ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوتى ہے _ کامیابى کى اہم ترین راہ یہ ے کہ سارے انسان اس انقلاب کے خواہاں ہوں اور سب اس کى تائید و پشت پاہى کیلئے تیارہوں _ اس صورت کے علاوہ انقلاب ناکام رہے گا _ اس قاعدہ کلى سے انقلاب مہدى موعود بھى مستثنى نہیں ہے _ یہ انقلاب بھى اس وقت کامیاب ہوگا جب ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوگى _ آپ کا انقلاب معمولى نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور عالمى ہے _ اس کا بہت عمیق و مشکل پروگرام ہے _ آپ تمام نسلى ، ملکى ، لسانى ، مقصدى اور دینى اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ روئے زمین پر صرف ایک قوى نظام کى حکمرانى ہو کہ جس سے صلح و صفائی کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگى بسر کریں _ آپ جانتے ہیں کہ منبع ہى سے پانى کى اصلاح کى جا سکتى ہے لہذا آپ اختلافى عوامل کو جڑے ختم کردینا چاہتے ہیں تا کہ درندہ خصلت انسانوں سے درندگى کى عادت ختم ہوجائے اور شیر و شکر کى طرح ایک ساتھ زندگى گزاریں _ امام مہدى دنیا سے کفر و الحا دکو نابود کرکے لوگوں کو خدائی قوانین کى طرف متوجہ کرکے دین اسلام کو عالمى آئین بنانا چاہتے ہیں _

افکار و خیالات کے اختلاف کو ختم کرکے ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتے ہیں اور جھوٹے خداؤں ، جیسے سرحدى ، لسانى ، ملکى ، گروہى ، علاقائی اور جھوٹى شخصیتوں کو ذہن انسان سے نکال کر پھینک دینا چاہتے ہیں _ مختصر یہ کہ نوع انسان اور معاشرہ انسانى کو حقیقى کمال و سعادت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں اور انسانى اخلاق و فضائل کے پایوں پر ایک معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں _

اگر چہ ایسى باتوں کا لکھنا مشکل نہیں لیکن محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایک ایسے عالمى و عمیق انقلاب کا آنا آسان نہیں ہے _ ایسا انقلاب مقدمات ، اسباب ، عام ذہنوں کى آمادگى اور زمین ہموار ہونے کے بغیر نہیں آسکتا _ ایسے عمیقانقلاب کا سرچشمہ دلوں کى گہرائی کو ہونا چاہئے _ خصوصاً مسلمانوں کو اس کا علم بردار ہونا چاہئے ، قرآن مجید بھى صلاحیت و شائستگى کو اس کى شرط قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہم اپنے شائستہ بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے'' (1)_

اس بناپر جب تک نوع انسان رشد و کمال کى منزل تک نہیں پہنچے گى اور امام مہدى کى حکومت حق کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوگى ، مہدى ظہور نہ فرمائیں گے _ واضح ہے کہ افکار کى آمادگى لمحوں میں نہیں ہوتى ہے بلکہ حوادث کے پیش آنے کے ساتھ طویل زمانہ میں ہوتى ہے اور تب لوگ کمال کى طرف مائل ہوتے ہیں لوگوں کو اس اور اس ملک کے بارے میںاس قدر بحث و مباحثہ کرنا پڑے گا اور موہوم سرحدوں کے اوپر اتنى جنگ و خونریزى کرنا پڑے گى کہ لوگ ایسى باتوں سے عاجز آجائیں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ سرحدیں تنگ نظر لوگوں کى ایجاد ہے _ اس صور ت میں وہ اعتبارى اور اختلاف انگیز حدود سے ڈریں گے اور سارى دنیا کو ایک ملک اور سارے انسانوں کو ہم وطن اور نفع و ضرر اور سعادت و بدبختى میں شریک سمجھیں گے _ اس زمانہ میں کالے گورے ، سرخ و پیلے ، ایشائی ، افریقى ، امریکى ، یورپى ، شہرى ، دیہاتى اور عرب و عجم کو ایک نظرسے دیکھیں گے _

انسان کى اصلاح ، سعادت اور آسائشے کے لئے دانشور ایسے قوانین مرتب کرتے رہیں اور پھر ان پر تبصرہ کریں اور ایک زمانہ کے بعد انھیں لغو قراردیں اور ان کى بجائے دوسرے قوانین لائیں یہاں تک اس سے لوگ اکتا جائیں اور دنیا والے بشر کے قوانین کے نقصان اور قانون بنانے والى کى کم عقلى و کوتاہ فکرى کا اندازہ لگالیں اور ان قوانین کے سایہ میں ہونے والى اصلاح سے مایوس ہوجائیں اور اس بات کا اعتراف کرلیں کہ انسان کى اصلاح صرف پیغمبروں کى اطاعت اور قوانین الہى کے نفوذ سے ہوسکتى ہے _

بشر ابھى خدائی پروگرام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ علوم و اختراعات کے ذریعہ انسان کى سعادت کے اسباب فراہم کئے جا سکتے ہیں _ لہذا وہ الہى اور معنوى پروگرام کو چھوڑ کر مادیات کى طرف دوڑتا ہے اور اسے اتنا دوڑنا چاہئے کہ وہ عاجز آجائے اور سخت دھچکا لگے تو اس وقت اس بات کااعتراف کرے گا کہ علوم و اختراعات اگر چہ انسان کو فضا کے دوش پر سوار کرسکتے ہیں ، اس کے لئے آسمان کروں کو مسخر کرسکتے ہیں ، اور مہلک ہتھیار اس کے اختیار میں دے سکتے ہیں لیکن عالمى مشکلوں کو حل نہیں کر سکتے اور استعمار و بیدادگرى کا قلع و قمع کرکے انسانوں کو روحانى سکون فراہم نہیں کر سکتے _

جس وقت سے انسان نے حاکم و فرمانروا کو تلاش کیا ہے اور اس کى حکومت کو قبول کیا ہے اس وقت سے آج تک ان سے اس بات کو توقع رہى ہے اور ہے کہ وہ طاقتور اور ذہین افراد ظلم و تعدى کا سد باب کریں اور سب کى آسائشے و آرام کا ساماں کریں _ لیکن ان کى یہ توقع پورى نہیں ہوتى ہے اور ان کے حسب منشا حکومت نہیں بنى ہے _ لیکن جب بارہا اس کا مشاہدہ ہوچکاکہ حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے _ دنیا میں بھانت بھانت کى حکومتوں کى تاسیس ہو فریب کار اور رنگ رنگ پارٹیاں تشکیل پائیں اور ان کى نااہلى ثابت ہوتا کہ انسان ان کى اصلاحات سے مایوس ہوجاتے اور اسے خدائی اصلاحات کى ضرورت محسوس ہو اور وہ توحید کى حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوجائے _ ہشام بن سالم نے امام صادق سے روایت کى ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

''جب تکہر قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئے گى اس وقت تک صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا _ تا کہ جب وہ اپنى حکومت کى تشکیل دیں تو کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملى ہوئی تو ہم بھى اسى طرح عدل قائم کرتے '' (2)_

 

امام محمد باقر(ع) کا ارشاد ہے :

''ہمارى حکومت آخرى ہے _ جس خاندان میں بھى حکومت کى صلاحیت ہوگى وہ ہم سے حکومت کرلے گا _ تاکہ جب ہمارى حکومت تشکیل پائے تو اس وقت کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملتى تو م بھى آل محمد (ص) کى طرح عمل کرتے اور آیہ ''والعاقبة للمتقین'' کے یہى معنى ہیں '' (3)

گزشتہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ انسان کى طبیعت ابھى توحید کى حکومت قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے لیکن ایسا بھى نہیں ہے کہ وہ اس نعمت سے ہمیشہ محروم رہے گا _ بلکہ جو خدا ہر موجود کو مطلوبہ کمال تک پہنچاتا ہے وہ نوع انسان کو بھى مطلوبہ کمال سے محروم نہیں رکھے گا _ انسان نے جس روز سے کرہ زمین پر قدم رکھا ہے اس ى دن سے وہ ایک سعادت مند و کامیاب اجتماعى زندگى کا خواہشمند رہا ہے اور ا س کے حصول کى کوشش کرتا رہا ہے _ وہ ہمیشہ ایک تابناک زمانہ اور ایسے نیک معاشرہ کا متمنى رہا ہے کہ جس میں ظلم و تعدى کا نام و نشان نہ ہو انسان کى یہ دلى خواہش فضول نہیں ہے اور خداوند عالم ایسے مقصد تک پہنچنے سے نوع انسان کو محروم نہیں کرے گا _ ایک دن ایساضرور آئے گا کہ جس میں انسان کا ضمیر و دماغ پورے طریقے سے بیدار ہوگا _ گوناگوں قسم کے احکام و قوانین سے مایوس اورحکّام و فرمانروائی سے ناامید ہوجائے گا ، اپنے ہاتھ سے کھڑى کى ہوئی مشکلوں سے عاجز آجائے گا اور پورے طریقہ سے خدائی قوانین کى طرف متوجہ ہوگا _ اور لا ینحل اجتماعى مشکلات کا حل صرف پیغمبروں کى تاسى میں محدود سمجھے گا _ اسے یہ محسوس ہوگا کہ اسے دو گرانقدر چیزوں کى ضرورت ہے _ 1_ خدا کے قوانین اور اصلاحات کیلئے الہى منصوبہ 2_ معصوم و غیر معمولى زمام دار کہ جو خدائی احکام و قوانین کے نفاذ و اجراء میں سہو و نسیان سے دوچار نہ ہو اور سارے انسانوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہو _ خداوند عالم نے مہدى موعود کو ایسے ہى حساس و نازک زمانہ کیلئے محفوظ رکھا ہے اوراسلام کے قوانین و پروگرام آپ کو ودیعت کئے ہیں _


دوسرى وجہ

ظہور میں تاخیر کے سلسلہ میں اہل بیت کى روایات میں ایک اور علت بیان ہوئی ہے _ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''خداوند عالم نے کافروں اور منافقوں کے اصلاب میں با ایمان افراد کے نطفے ودیعت کئے ہیں اسى لئے حضرت على (ع) ان کافروں کو قتل نہیں کرتے تھے جن سے کوئی مؤمن بچہ پیدا ہونے والا ہوتا تھا تا کہ وہ پیدا ہوجائے اور اس کى پیدائشے کے بعد جو کافر ہاتھ آجاتا تھا اسے قتل کردیتے تھے _ اسى طرح ہمارے قائم بھى اس وقت ظاہر نہ ہوں گے جب تک کافروں کے اصلاب سے خدائی امانت خارج ہوگى _ اس کے بعد آپ(ع) ظہور فرمائیں گے اور کافروں کو قتل کریں گے '' _(4)

 

امام زمانہ خداپرستى اور دین اسلام کو کافروں کے سامنے پیش کریں گے جو ایمان لے آئے گا وہ قتل پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ تہ تیغ کیا جائے گا اور اہل مطالعہ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ طول تاریخ میں کافر منافقوں کى نسل سے مومن و خداپرست بچے پیدا ہوئے ہیں _ کیا صدر اسلام کے مسلمان کافروں کى اولاد نہ تھی؟ اگر فتح مکہ میں رسول خدا کافر مکہ کا قتل عام کردیتے تو ان کى نسل سے اتنے مسلمان وجود میں نہ آتے _ خدا کے لطف و فیض کا یہ تقاضا ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پرچھوڑدے تا کہ مرور ایام میں ان کى نسل سے مومن پیدا ہوں اور وہ خدا کے لطف و فیض کا مرکز بن جائیں _ جب تک نوع سے مومن و خداپرست لوگ وجود میں آتے رہیں گے اس وقت تک وہ باقى رہے گى اور اسى صورت میں اپنا سفر طے کرتى رہے گى _ یہاں تک کہ عمومى افکار توحید و خداپرستى کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں گے اور اس وقت امام زمانہ ظہور فرمائیں گے _ بہت سے کفار آپ کے ہاتھ پر ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ کفر و الحاد ہى میں غرق رہیں گے اور کچھ لوگ ایسے بھى ہیں جن سے کوئی مومن پیدا نہ ہوگا _

اس کے بعد جلسہ ختم ہوگیا اور طے پایا کہ آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

 

1_ انبیائ/105_
2_ بحار الانوار ج 52 ص 244_
3_ بحارالانوار ج 52 ص 332_
4_ اثبات الہداة ج 7 ص 105_