پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بخارى و مسلم اور احاديث مہدى (عج)

بخارى و مسلم اور احادیث مہدى (عج)

چوتھے یہ کہ اگر کوئی حدیث بخارى و مسلم میں نہ ہو تو یہ اس کے ضعیف ہونے کى دلیل نہیں ہے کیونکہ بخارى و مسلم کے مؤلفوں کا مقصد تمام حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا _

دار قطنى لکھتے ہیں ایسى بہت سى حدیثیں موجود ہیں جنھیں بخارى و مسلم نے اپنى صحاح میں نقل نہیں کیا ہے جبکہ ان کى سند بالکل ایسى ہے جیسى ان احادیث کى ہے جو انھوں نے نقل کى ہیں _

بیہقى لکھتے ہیں : مسلم و بخارى کا ارادہ تمام حدیثوں کو جمع کرنے کا نہیں تھا _ اس بات کى دلیل وہ احادیث ہیں جو کہ بخارى میں موجود ہیں لیکن مسلم نہیں اور مسلم میں ہیں بخارى میں نہیں ہیں _ (1)
 

اور جیسا کہ مسلم نے یہ دعوى کیا ہے کہ انہوں نے اپنى کتاب میں صرف صحیح حدیثوں کو نقل کیا ہے تو ابوداؤد بھى اسى کے مدعى ہیں _

ابوبکر بن داسہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ : میں نے اپنى کتاب میں چارہزار آٹھ سو حدیثیں لکھى ہیں جو کہ سب صحیح یا صحیح کے مشابہ ہیں _

ابوالصباح کہتے ہیں کہ ابوداؤد سے نقل ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے صرف صحیح یا صحیح سے مشابہ احادیث نقل کى ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف تھى تو میں نے اس کے ضعف کا بھى ذکر کردیا ہے پس جس حدیث کے بارے میں ، میں نے خاموشى اختیار کى ہے اسے معتبر سمجھنا چاہئے _

خطابى کہتے ہیں : سنن ابى داؤد ایک گراں بہا کتا ب ہے ، اس جیسى کوئی کتاب نہیں لکھى گئی جو کہ مسلمانوں میں مقبول ہو جسے عراق ، مصر ، مغرب اور دوسرے علاقے کے علما میں مقبولیت حاصل ہوئی ہو _ (2) مختصر یہ کہ بخارى اور مسلم اور دوسرى کتابوں کى احادیث اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان کى صحت و ضعف سے باخبر ہونے کیلئے ان کے راویوں کى تحقیق کى جائے _

پانچویں یہ کہ بخارى و مسلم ، جن کى احادیث کى صحیح ہونے کا آپ کو اعتراف ہے ، میں بھى مہدى سے متعلق احادیث موجود ہیں اگر چہ ان میں لفظ مہدى نہیں آیا ہے ، منجملہ ان کے یہ حدیث ہے:

پیغمبر :(ص) نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسى بن مریم نازل ہوں گے جبکہ تمہارا امام خود تم ہى سے ہوگا _


ضرورى وضاحت

ابن خلدون کے بارے میں یہ بات کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ مہدى (ع) سے متعلق احادیث کو کلى طور پر قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں قابل رد سمجھتے ہیں کیونکہ جیسا کہ پہلے بھى آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اس عالم نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھى اور ہے کہ آخرى زمانہ میں پیغمبر (ص) کے اہل بیت میں سے ایک شخص اٹھے گا اور عدل و انصاف قائم کرے گا _ اجمالى طور پر یہاں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مہدى (ع) موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا _ دوسرے یہ کہ راویوں کے بارے میں رد وقدح اور جرج و تعدیل کے بعد لکھتے ہیں :

''مہدى موعود کے بارے میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان میں سے بعض کے علاوہ سب مخدوش ہیں '' _ یہاں بھى ابن خلدون نے کلى طور پر مہدى سے متعلق احادیث کو قابل رد ہیں جانا ہے بلکہ ان میں سے بعض کى صحت کا اعتراف کیا ہے _

تیسرے یہ کہ مہدى موعود سے متعلق احادیث انھیں روایتوں میں منحصر نہیں ہیں جن پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں جرح و تعدیل کى ہے بلکہ شیعہ اور اہل سنت کى کتابوں میں اور بھى بہت سى متواتر و یقین آور احادیث موجود ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ابن خلدون کى دست رس میں ہوتیں تو وہ مہدى موعود کے عقیدہ جو کہ مذہبى بنیادوں پر استوار ہے ، جس کا سرچشمہ وحى ہے ، کے بارے میں کبھى شک نہ کرتے مذکورہ مطالب سے اس غلط فہمى کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ ابن خلدون نے مہدى سے متعلق احادیث کو قطعى قبول نہیں کیا ہے _ ایسا نظریہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ''دیگ سے زیادہ چمچا گرم ہے _

ابن خلدون اس بحث کے خاتمہ پر لکھتے ہیں :'' ہم نے پہلے ہى یہ بات ثابت کردى ہے کہ جو شخص انقلاب لانا چاہتا ہے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتا ہے اور طاقت جمع کرکے حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مقصد میں اسى وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب اس کے قوم قبیلے والوں کى اکثریت ہو اور خلوص کے ساتھ اس کى حمایت کرتے ہوں اور مقصد کے حصول کے سلسلے میں اس کے مددگار ہوں دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خاندانى تعصب کى بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں _ اس کے علاوہ کامیابى ممکن نہیں ہے _ مہدى موعود کے عقیدہ کے سلسلے میں بھى یہ مشکل پیدا ہوتى ہے کیونکہ فاطمیین بلکہ طائفہ قریش ہى پراگندہ اور منتشر ہوگیا ہے اور اب ان میں خاندانى تعصب باقى نہیں رہا ہے بلکہ اس کى جگہ دوسرے تعصبات نے لے لى ہے ، ہاں حجاز و ینبع میں حسن (ع) و حسین(ع) کى اولاد میں سے کچھ لوگ آباد ہیں جن کے پاس طاقت ور سوخ ہے البتہ وہ بھى صحرا نشین ہیں جو کہ مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ہیں، پھر ان کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں ہے _ لیکن اگر ہم مہدى موعود کے عقیدہ کو صحیح مان لیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ مہدى انھیں میں سے ظاہر ہوں گے اور ان لوگوں میں بھى اتفاق و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور وہ قومى تعصب کى بناپر ان کى حمایت کریں گے اور مقصد کے حصول کى وجہ سے ان کى مدد کریں گے ، اس لحاظ سے تو ہم مہدى (ع) کے ظہور اور ان کے انقلاب و تحریک کا تصور کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ممکن نہیں ہے _ (3)

جواب

اس بات کے جواب میں کہنا چاہئے کہ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتاہے _ طاقت جمع کرنا چاہتا ہے ، حکومت تشکیل دینا چاہتا ہے تووہ اسى صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے ایک گروہ سنجیدگى سے اس کى مدد وحمایت کرے ، مہدى موعود اور ان کے عالمى انقلاب کیلئے بھى یہى شرط ہے _ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ان کى حمایت کرنے والے صرف علوى سادات اور قریش ہوں گے _ کیونکہ اگر ان کى حکومت قوم و قبیلے کى حدتک محدود ہوتى تو ان کے طرف دار قوم و قبیلے کے لحاظ سے ان کى مدد کرتے جیسا کہ طوائف الملوکى کے زمانہ میں اسى نہج سے حکومتیں قائم ہوتى تھیں ، بلکہ یہ عام بات ہے کہ جو حکومت محدود اور خاص عنوان کے تحت قائم ہوتى ہے تو اس کے حمایت کرنے والے بھى محدود ہوتے ہیں خواہ وہ حکومت قومى ملکى ، اقلیمى یا مکتبى و مقصدى ناقص ہے _

لیکن اگر کوئی کسى خاص مقصد اور منصوبہ کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس منصوبہ اور مقصد کے ہمنواؤں کا ہونا ضرورى ہے _ اس کى کا میابى اسى صورت میں ممکن ہے کہ ایک گروہ اس منصوبہ کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اور اسے عملى جامہ پہنا نے کیلئے سنجیدگى سے جدو جہد کرتا ہو اور مقصد کے حصول کے سلسے میں اپنے قائد کى حمایت کرتا ہو اور قربانى دینے سے دریغ نہ کرتا ہو _ مہدى موعود کى عالمى حکومت بھى ایسى ہى ہے _ ان کا منصوبہ بھى عالمى ہے وہ بشریت کو جو کہ تیزى کے ساتھ مادیت کى طرف بڑ ھ رہى ہے اور الہى قوانین سے رو گرداں ہے _ آپ اسے الہى احکام اور منصوبہ کى طرف متوجہ کریں گے اور اس دقیق منصوبہ کونا فذ کر کے اس کى مشکلیں حل کریں گے _ بشریت کے ذہن سے موہوم سرحدوں کو ، جو کہ اختلاف و کشمکش کا سر چشمہ ہیں باہر نکال کراسے توحید کے قومى پرچم کے نیچے جمع کریں گے _ آپ دین اسلام اور خدا پرستى کو عالمى بنائیں گے _ اسلام کے حقیقى قوانین نافذ کر کے ظلم و بیداد گرى کا قلع قمع کریں گے _ اور پورى کائنات میں عدل و انصاف اور صلح و صفا پھیلائیں گے _

ایسى عظیم تحریک اور عالمى انقلاب کى کامیابى کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حجاز اور مدینہ کے اطراف میں بکھر ے ہوئے علوى سادات کافى ہیں _ بلکہ اس کیلئے تو عالمى تیارى ضرورى ہے _ مہدى موعود کى کامیابى اسى وقت ممکن ہے جب غیبى تائید کے علاوہ ایک طاقت ور گروہ وجود میں آئے جو کہ خداکے قوانین اور منصوبہ کودرک کر ے _ اور دل و جان سے اس کے نفاذکى کوشش کرے _ ایسے عالمى انقلاب کے اسباب فراہم کرے اور انسانى مقاصدکى تکمیل میں کسى قسم کى کوتاہى نہ کرے _اس صورت میں اگر انہیں معصوم اور قوى و جرى قائد مل جائے ، کہ جس کے ہا تھ میں الہى قوانین و احکام ہوں اور تائید غیبى اس کے شامل حال ہو ، تو وہ لوگ اس کى حمایت کریں گے اور عدل و انصاف کى حکومت کى تشکیل میں فدا کارى کا ثبوت دیں گے _

 

 


1_ صحیح مسلم بشرح امام نووى ج 1 ص 24_
2_ مقدمہ سنن ابى داؤد
3_ مقدمہ ابن خلدون ص 327_