پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

مقدمہ

مقدمہ

دنیا کے آشفتہ اور افسوس ناک حالات نے لوگوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے ، اسلحہ کى دوڑ ، سردو گرم جنگ اور مشرق و مغرب کے درمیان صف آرائی اور وحشت ناک بحرانوں نے دنیا والوں کے دل و دماغ کو فرسودہ کردیا ہے _ جنگى اسلحہ کى پیدا وار اور بہتا ت، نسل آدم کو تہدید کررہى ہے ، عالمى دہشت گردوں اور خودسروں نے پسماندہ قوموں کو زندگى کے حق سے بھى محروم کردیا ہے ، پسماندہ طبقے کى روز افزوں محرومیت ، دنیا کے بیماروں اور بھوکے لوگوں کا استغاثہ و امداد طلبى اوربڑھتى ہوئی بیکارى نے حساس و زندہ دل و خیراندیش اشخاص کو پریشانى میں مبتلا کردیا ہے_ اخلاقى تنزل ،دینى امور سے بے پروائی ، احکام الہى سے روگردانى ، مادہ پرستى اور شہوت رانى میں افراط نے دنیا کے روشن خیال افراد کو مضطرب کردیا ہے _

یہ اور ایسے ہى سیکڑوں حالات نے عاقبت اندیشى اور بشر کے خیرخواہ و اصلاح طلب افراد کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور انسانیت کى تباہى و پستى کے اندیشے کى گھنٹیاں ان کے کانوں میں بج رہى ہیں_ وہ انسان کى مشکلیں حل کرنے اور عالمى بحران کو دفع کرنے کى کوشش کرتے ہیں اور اس لئے ہر در پردستک دیتے ہیں لیکن جتنى کوششیں کرتے ہیں اتنى ہى مایوسى سے دوچار ہوتے ہیں _ کبھى اس حد تک مایوس ہوجاتے ہیں کہ انسان کى اصلاح کى قابلیت ہى کا انکار کردیتے ہیں اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں بد ظن ہوجاتے ہیں اور اس کے بھیانک نتائج سے لرزہ بر اندام رہتے ہیں اور دنیائے انسانیت کى مشکلیں حل کرنے کے سلسلے میں عاجزى کا اظہار کرتے ہیں _ اس سے بڑھ کر ، کبھى غیظ و غضب کى شدت کى بناپر انسانیت کے ارتقاء کے بھى منکر ہوجاتے ہیں اور اس کے علم و صنعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ کبھى عام حالات میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ علم و صنعت کى کوئی غلطى نہیں ہے بلکہ سرکش اور خودخواہ انسان اس سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے اور اصلاح کى بجائی اس سے فساد کى طرف لے جاتا ہے _


دنیا کا مستقبل شیعوں کى نظر میں

لیکن شیعوں نے یأس و ناامیدى کے دیو کو کبھى اپنے پاس نہیں آنے دیا ہے وہ انسان کى عاقبت اور سرنوشت کے بارے میں نیک توقع رکھتے ہیں _ دنیا کے نیک و شریف انسانوں کو کامیباب تصوّر کرتے ہیں _ وہ کہتے ہیں ( اس بات کو ثابت بھى کردیا ہے) کہ یہ مختلف قسم کے پروگرام اور بشر کے خود ساختہ دل فریب مسلک انسان کو بدبختى کے گرداب سے نہیں نکال سکتے اور عالمى خطرناک بحران کا علاج نہیں کر سکتے ہیں بلکہ وہ صالح بشر کى کامیابى و سعادت کیلئے صرف اسلام کے متین و جامع قوانین ، جن کا سرچشمہ منبع وحى ہے ، کو کافى سمجتھے ہیں _

وہ ایک روشن مستقبل کى پیشین گوئی کرتے ہیں _ جس زمانہ میں انسان حد کمال کو پہنچ جائے گا اور دنیا کى حکومت کى زمام ایسے معصوم امام کے ہاتھ میں ہوگى جو کہ غلطى و اشتباہ اور خود غرضى و خودخواہى سے پاک ہوگا _ کلى طور پر شیعہ امیدوار بنانے والے عطیات کے حال ہیں ، انہوں نے اس تاریک زمانہ میں بھى اپنے ذہن میں حکومت الہى کا نقشہ بنا رکھا ہے اور اس کے انتظار میں زندگى گزاررہے ہیں اور اس عالمى انقلاب کیلئےتیارہیں _


انتظار فرج اور ظہور میں تاخیر کى وجہ

شیعوں کے دشمن جن چیزوں پر اعتراض کرتے ہیں ان میں سے ایک مہدى موعود پر ایمان اور انتظار فرج ہے _ وہ کہتے ہیں کہ : شیعوں کى پسماندگى کا ایک سبب مصلح غیبى پر ایمان رکھنا ہے _ اس عقیدہ نے شیعوں کو بے پروا اور کاہل بنادیا ہے ، اجتماعى کوشش سے بازر کھا ہے اور ان سے علمى ترقیات و فکرى اصلاحات کى صلاحیت سلب کرلى ہے _ چنانچہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں ذلیل و رسوا ہیں اور اب اپنے امور کى اصلاح کیلئے امام مہدى کے ظہور کے منتظر ہیں

ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم شیعہ اور مسلمانوں کے انحطاط کے اسباب کى تحقیق کریں لیکن اجمالى طور پر یہ بات مسلّم ہے کہ اسلام کے احکام و عقائد مسلمانوں کے انحطاط و پستى کا باعث نہیں بنے ہیں بلکہ خارجى اسباب و علل نے دنیائے اسلام کو پستى میں ڈھکیلا ہے ، یہ بات یقین کے ساتھ کہى جا سکتى ہے کہ آسمانى مذاہب میں سے اسلام سے زیادہ کسى نے بھى ملت کى ترقى و عظمت اور اس کے اجتماعى امور کى تاکید نہیں کى ہے _ اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے ظلم و فساد سے جنگ اور نہى عن المنکر کو لازمى قرار دیا ہے اور اجتماعى و سماجى اصلاحات ، عدل پرستى اور امر بالمعروف کو دین کے واجبات میں شامل کیا ہے _ امر بالمعروف اور نہى عن المنکر کیلئے اتنا ہى کافى ہے کہ یہ سارے مسلمانوں پر واجب ہیں تا کہ ایک گروہ خود آمادہ کرے _

''تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو خبرکى دعوت دے ، نیکیوں کاحکم دے برائیوں سے منع کرے اور ایسے ہى لوگ نجات یافتہ ہیں ''_ (1)

بلکہ ان دو فریضوں کو مسلمانوں کے افتخارات میں شمار کرتا ہے اور فرماتا ہے :

'' تم دنیا میں بہترین امت ہو کیونکہ تم امربالمعروف اور نہى عن المنکر کرتے ہو'' (2)

پیغمبر (ص) مسلمانوں کے امور کى اصلاح کى کوشش کو اسلام کا رکن اور مسلمان ہونے کى علامت قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :'' جو بھى دنیائے اسلام کى طرف سے بے پروائی کرے ، کوشش نہ کرے ، اہمیت نہ دے ، وہ مسلمان نہیں ہے '' _

قرآن مجید دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو مسلح اور تیار رہنے کا حکم دیتا ہے : ''جہاں تک ہوسکے دشمنوں کے مقابلہ میں خود کو مسلح و آمادہ کرو اور انھیں دہشت زدہ کرنے کیلئے جنگى توانائی کو مضبوط بناؤ'' (3)

اب ہم آپ ہى سے پوچھتے ہیں : ان آیتوں اور اس سلسلے میں وارد ہونے والى سیکڑوں احادیث کے باوجود اسلام نے مسلمانوں سے یہ کب کہا ہے کہ وہ دنیا کى علمى ترقى و صنعت سے آنکھیں بند رکھیں اور اسلام کیلئے جو خطرات ہیں انھیں اہمیت نہ دیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسلام اور مسلمانوں کى حمایت کیلئے ظہور امام مہدى (ع) کے منتظر رہیں؟ اور دنیائے اسلام پر ہونے والے حملوں کے سلسلے میں خاموش رہیں اور ایک مختصر جملہ _ '' اے اللہ: ظہور مہدى میں تعجیل فرما'' کہکر میدان چھوڑدیں

ہم نے اپنى کتاب میں یہ بات تحریر کى ہے کہ انتظار فرج بجائے خود کامیابى کا راز ہے _ چنانچہ جب کسى قوم و ملت کے دل میں چراغ امید خاموش ہوجاتا ہے اور یأس و ناامیدى کا دیواس کے خانہ دل میں جایگزیں ہوجاتا ہے توہ کبھى کامیابى و سعادت کا منھ نہیں دیکھ سکتى ہے جو لوگ اپنى کامیابى کے انتظار میں ہیں انھیں اپنے آخرى سانس تک کوشاں رہنا چاہئے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہئے اور مقصد سے بہرہ مند ہونے کیلئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے _

امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے کہ : '' ضرور آل محمد (ص) کى حکومت قائم ہوگى لہذا جو شخص امام زمانہ کے انصار میں شامل ہوناچاہتا ہے اسے بھر پور طریقہ سے متقى و پرہیزگار بننا اور نیک اخلاق سے آراستہ ہونا چاہئے اور اس کے بعد قائم آل محمد (ص) کے ظہور کا انتظار کرنا چاہئے _ جو بھى اس طرح ہمارے قائم کے ظہور کا انتظار کرے اور اس کى حیات میں مہدى (ع) کا ظہور نہ ہو بلکہ ظہور سے قبل ہى مرجائے تو اسے زمانہ کے انصار کے برابر اجر و ثواب ملے گا'' _ اس کے بعد آپ نے فرمایا:'' کوشش و جانفشانى سے کام لو اور کامیابى کے منتظر رہو ، اس معاشرہ کو کامیابى مبارک ہو جس پر خدا کى عنایات ہیں ''_(4)

اسلام نے مسلمانوں کى تیارى کو بہت اہمیت دى ہے، اس کیلئے اتنا ہى کافى ہے کہ امام صادق نے فرمایا:'' ظہور قائم کے لئے تم خود کو تیار رکھو اگر چہ ایک تیر ہى ذخیرہ کرنے کے برابر ہو '' _ (5)

خدا نے مقرر کردیا کہ دنیا کے پراگندہ امور کى مسلمانوں کے ذریعہ اصلاح ہو اور ظلم و ستم کا جنازہ نکل جائے اور کفر و الحاد کى جڑیں کٹ جائیں ، پورى دنیا پر اسلام کا پرچم لہرائے کوئی سوجھ بوجھ رکھنے والا اس میں شک نہیں کرستا کہ ایسا عالمى انقلاب مقدمات اور وسائل کى فراہمى کى بغیر ممکن نہیں ہے _

قرآن مجید نے بھى اس بات کى تصدیق کى ہے کہ روئے زمین پرحکومت کیلئے شائستگى ضرورى ہے _ خداوند عالم کا ارشاد ہے :'' ہم نے لکھدیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے '' (6) مذکورہ مطالب کے پیش نظر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس انقلاب کا علم بردار مسلمانوں کو ہونا چاہئے وہ اس کے مقدمات و اسباب فراہم نہ کریں اور اس سلسلے میں ان کى کوئی ذمہ دارى نہیں ہے ؟ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند اس بات کو تسلیم کرے گا _


ایک پیغام

غیرت دار مسلمانو غفلت کا زمانہ ختم ہوچکا ہے ، خواب غفلت سے اٹھو اختلافات سے چشم پوشى کرلو ، پرچم توحید کے نیچے جمع ہوجاؤ ، اپنى زمام مشرق و مغرب کے ہاتھ میں نہ دو ، ہرجگہ تہذیب و تمدن انسانیت کے طلایہ دار بن جاؤ_ اپنى عظمت و استقلال اور تہذیب و تمدن کے محل کو اسلام کے محکم پایوں پر استوار کرو _ روح قرآن سے الہام حاصل کرو ، اسلام کى عزّت و سربلندى کى راہ پر چل کھڑے ہو ، مشرق و مغرب کے غلط اورزہریلے افکار کو لگام چڑھادو بشرى تمدن کے قافلے کى قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لو ، اپنى عظمت و حریت حاصل کرو ، جہالت و نادانى اورفکرى جمود و خرافات سے جنگ کرو _ جوانو اسلام کے حقائق سے واقفیت پیدا کرو تا کہ استعمارى دیو تم سے مایوس ہوجائے اور تمہارے مرزوبوم (سرزمین) سے فرار کرجائے _

پیارے مسلمانو عزت و اقتدار شائستہ اور صالح لوگوں سے مخصوص ہے ، تم نے اپنى شائستگى کو ثابت کردیا ہے _ قرآن کے اجتماعى ، اقتصادى اور اخلاقى علوم کے گراں بہا منابع کو حاصل کرو ، دنیا والوں کے سامنے اسلام کے تئیں اصلاحى پروگرام کو پیش کرو اور اپنے عمل سے یہ ثابت کردو کہ اسلام صرف عبادت گا ہوں میں گوشہ نشینى کى تلقین نہیں کرتا ہے بلکہ وہ بشر کى ترقى و سرفرازى کے اسباب فراہم کرتا ہے _ تم دنیا کے خیر اندیش افراد کى امید بندھا دو اور اس مقدس جہاد میں انھیں بھى مدد کرنے کى دعوت دو اور دنیائے انسانیت کے قافلہ تمدن و خیرخواہى کى قیادت کرو _

اے جوانان اسلام اس مقدس جہاد اور انسانیت کے عظیم مقصد و ذمہ دارى کو پورا کرنے میں تمہارا بہت بڑا حصہ ہے _ تمہیں عظمت اسلام، مسلمانوں کى ترقى اور امام زمانہ (عج) کے مقصد کى تکمیل میں بھرپور طریقہ سے کوشش کرنا چاہئے _ تمہیں آفتاب عدالت حضرت مہدى (ع) کے اصحاب میں شامل ہونا چاہئے کہ جن کے بارے میں امیر المؤمنین(ع) فرمایا ہے:'' مہدى موعود کے سارے اصحاب وانصار جوان ہوں گے ، ان میں بوڑھے کمیاب ہوں گے '' _(7)
و من اللہ التوفیق
ابراہیم امینی
حوزہ علمیہ قم _ ایران
فروردین 1374 (مارچ 1995ء)

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں نے ایک انٹر کالج میں منعقد ہونے والى محفل میں شرکت کى _ یہ باشکوہ محفل 15 / شعبان کو امام زمانہ کى ولادت کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھى _ بڑى ہى آراستہ و پیراستہ محفل تھى ، اس میں ہر طبقے کے لوگ شریک تھے جبکہ اکثریت تعلیم یافتہ اور جوانوں کى تھى ، اس کا نظم و نسق اس کالج کى انجمن اسلامى کے ہاتھ میں تھا_

پروگرام کا آغاز ایک کمسن بچے نے کلام پاک کى تلاوت سے کیا _ اس کے بعد دوسرا طالب علم نے امام زمانہ کے بارے میں اشعار پڑھے، پھر ایک طالب علم کالکھا ہوا بہت ہى دلچسپ مقالہ پڑھاگیا _ پروگرام کے اختتام پر مذکورہ کالج کے پرنسپل جناب ہوشیار صاحب نے امام زمانہ (ع) کے سلسلے میں بصیرت افروز تقریر کى _ اور بعد از آں شیرینى و غیرہ سے ضیافت کى گئی _ مذکورہ پروگرام سے سب ہى متاثر تھے لیکن میں اں سب سے زیادہ متاثر تھا _ میں آرائشے اور مہمان نوازى کے وسائل سے متاثر نہیں ہواتھا_ بلکہ میں ان جوانوں کى پاکیزہ روح سے متاثر ہوا تھا جو کہ دین و دانش کے جمع کرنے کے ساتھ حقائق و معارف کى اشاعت ، اور عمومى اذہان و افکار کوروشن کرنے میں بے پناہ کوشش کررہے تھے _ ملّت کے نونہالوں کى روح پاکیزگى ، بلند ہمتى اور صفائے قلب محفل کے درودیوارسے عیاں تھى وہ ذوق و شوق اور گرم جوشى سے شرکت کرنے والوں کا استقبال و مدارات کررہے تھے_

ان روشن فکر اور حوصلہ مند جوانوں نے مجھے مسلمانوں کے تابناک مستقبل کے بارے میں مطمئن کردیا _ میں نے ان کے دوش پر قوم کى تہذیب و ترقى کا پرچم دیکھا تو میرى آنکھوں میں خوشى کے آنسو ڈبڈبانے لگے اور اس کالج کى انجمن اسلامى اور طلبہ کى کمیٹى اور ان کى بلند ہمتى کو میں نے دل کى گہرائی سے سراہا اور خداوند عالم سے ان کى کامیابى کیلئے دعا کى _

اسى اثناء میں انجینئر مدنى صاحب نے _ جو کہ جناب ہوشیار صاحب کے پاس بیٹھے تھے _ کہا:'' کیا آپ لوگ واقعاً امام غائب پر عقیدہ رکھتے ہیں؟ کیا آپ کے عقیدہ کى بنیاد تحقیق پر استوار ہیں یا تعصب کى بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں؟

ہوشیار: میرا ایمان اندھى تقلید کى بناپر نہیں ہے _ میں نے تحقیق و مطالعہ کے بعد یہ عقیدہ قبول کیا ہے ، پھر بھى اس عقیدہ پر نظر ثانى اور تحقیق کیلئے تیارہوں _

انجینئر: چونکہ امام زمانہ (عج) کا موضوع میرے لئے بخوبى واضح نہیں ہے اور ابھى تک اس سلسلے میں ، میں خود کو مطمئن نہیں کر سکا ہوں، اس لئے آپ سے بحث و تبادلہ خیال کے ذریعہ آپ کے مطالعہ سے مستفید ہونا چاہتاہوں _

ڈاکٹر امامى اور فہیمى : اگر ایسى کوئی نشست کا اہتمام ہوا تو ہم بھى اس میں شرکت کریں گے _

ہوشیار: جو وقت بھى آپ لوگ مقرر کریں میں حاضر ہوں _

آخر کار مناظرہ کے لئے ہفتہ کى شب کا تعین ہوااور اسى پر جشن ختم ہوگیا ، ہفتہ کى شب میں انجینئر صاحب کے گھر پر مجلس مناظرہ منعفد ہوئی رسمى چائے و غیرہ کے بعد 8 بجے مناظرہ کى کاروائی شروع کرنے کا اعلان ہوا _

 


1_ آل عمران / 104
2_ آل عمران /110
3_ انفال / 60
4_ غیبت نعمانى ص 106_
5_ بحار الانوار ج 52 ص 366_
6_ انبیائ/105_
7-  بحار الانوار ج 52 ص 333