پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ابتداء ہى ميں غيبت كبرى كيوں واقع نہ ہوئي ؟

ابتداء ہى میں غیبت کبرى کیوں واقع نہ ہوئی ؟

تمام احباب کى موجود گى میں ڈاکٹر صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

ڈاکٹر : غیبت صغرى کا کیا فائدہ تھا؟ اگر یہى طے تھا کہ امام زمانہ غیبت اختیار کریں گے تو امام حسن عسگرى (ع) کى وفات کے بعد ہى کیوں غیبت کبرى کا آغاز اور مکمل انقطاع نہ ہو ا؟

ہوشیار: امام اور لوگوں کے رہبر کا غائب ہونا ، وہ بھى عرصہ دراز کیلئے عجیب و غیر مانوس بات ہے اور لوگوں کے لئے اس کاتسلیم کرنا مشکل ہے _ اس لئے رسول (ص) اور ائمہ نے یہ عزم کیا کہ : آہستہ آہستہ لوگوں کو اس امر سے مانوس کیا جائے اوراسے تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے ، لہذا گاہ بگاہ وہ ان کى غیبت اور اس زمانہ میں لوگوں کے مشکلوں میں گھر نے کى خبر دیتے تھے اور ان کا انتظار کرنے والوں کے لئے ثواب بیان کرتے اور انکار کرنے والوں کى سرزنش کرتے تھے _ کبھى اپنے عمل سے غیبت کى شبیہ پیش کرتے تھے _

اثبات الوصیت میں مسعودى لکھتے ہیں : امام على نقى (ع) لوگوں کے ساتھ کم معاشرت کرتے تھے اور اپنے مخصوص اصحاب کے علاوہ کسى سے ربط و ضبط نہیں رکھتے تھے _ جب امام حسن عسکرى (ع) ان کے جانشین ہوئے تو آپ بھى لوگوں سے اکثر پس پردہ سے گفتگو فرماتے تھے تا کہ ان کے شیعہ بارہویں امام کى غیبت سے مانوس ہوجائیں _(1)

اگر امام حسن عسکر ى کى رحلت کے بعد ہى مکمل غیت واقع ہوجاتى تو امام زمانہ کے مقدس وجود ہى سے لوگ غافل رہتے اور رفتہ رفتہ فراموش کردیتے _ اس لئے غیبت صغرى سے ابتداء ہوئی تا کہ شیعہ اس زمانہ میں اپنے امام سے نائبوں کے ذریعہ رابطہ کریں اور ان کى علامتوں اور کرامات کو مشاہدہ کریں اور اپنے ایمان کى تکمیل کریں جب خیالات مساعد اور کامل آمادگى ہوگئی تو غیبت کبرى کا آغاز ہوا _
کیا غیبت کبرى کى انتہا ہے؟

انجینئر: کیا غیبت کبرى کى کوئی حد معین ہے؟

ہوشیار : کوئی حد تو معین نہیں ہے _ لیکن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ غیبت اتنى طویل ہوگى کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

امیر المؤمنین نے حضرت قائم کے بارے میں فرمایا:

'' ان کى غیبت اتنى طویل ہوگى کہ جاہل کہے گا : خد ا کو رسول (ص) کے اہل بیت کى احتیاج نہیںہے ''_ (2)
 

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''قائم (ع) میں جناب نوح (ع) کى ایک خصوصیت پائی جائیگى اور وہ ہے طول عمر ''(3)

 

1_ اثبات الوصیہ ص 206_
2_ اثبات الہداة ج 6 ص 393_
3_ بحارالانوار ج 51 ص 217_