پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

قيام كے خلاف احاديث كى تحقيق

قیام کے خلاف احادیث کى تحقیق

انجینئر: ہوشیار صاحب آپ کى گزشتہ باتوں '' انتظار فرج'' کى بحث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ (ع) کى غیبت میں شیعوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلامى حکومت کى تاسیس اور اسلام کے سیاسى و اجتماعى قوانین کے اجراء کیلئے کوشش کریں اور اس طرح امام زمانہ کے عالمى انقلاب اور ظہور کے اسباب فراہم کریں میرے خیال میں آپ کى باتیں بعض احادیث کے منافى ہیں _ جیسا کہ آپ کو بھى معلوم ہے کہ بعض ایسى احادیث بھى موجود ہیں جو کہ قیام و ظہور مہدى سے قبل کسى بھى تحریک و انقلاب کى ممانعت کرتى ہیں _ اگر آپ تجزیہ کریں تو مفید ہوگا _

ہوشیار: آپ کى یاد ، دہاتى کا شکریہ _ ایسى احادیث ، دو طریقوں سے تجزیہ و تحقیق کى جا سکتى ہے _ پہلے تو سند کے اعتبار سے تحقیق ہونى چاہئے کہ وہ صحیح و معتبر ہیں یا نہیں _ دوسرے دلالت کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ کسى بھى انقلاب و تحریک ممانعت کیلئے دلیل بن سکتى ہیں یا نہیں لیکن احادیث کى تحقیق و تحلیل سے قبل مقدمہ کے طور پر میں ایک اور بات عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں _ اس طرح ہم مذکورہ مسئلہ سے دو حصوں میں بحث کریں گے _

1_ اسلام میں حکومت

2_ احادیث کى تحقیق


اسلام میں حکومت

اسلام کے احکام و قوانین کے مطالعہ یہ بات بخوبى سمجھ میں آتى ہے کہ دین اسلام صرف ایک عقیدتى اور عبادى دین نہیں ہے بلکہ عقیدہ ، عبادت ، اخلاق ، سیاست اور معاشرہ کا ایک مکمل نظام ہے _ کلى طور پر اسلام کے احکام و قوانین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

1_ فردى احکام جیسے نماز ، روزہ ، طہارت ، نجاست ، حج ، کھانا ، پینا و غیرہ ان چیزوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں انسان کو حکومت اور اجتماعى تعاون کى ضرورت نہیں ہوتى ہے بلکہ وہ تن تنہا اپنا فریضہ پورا کرسکتا ہے _

2_ اجتماعى احکام ، جیسے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف ، نہى عن المنکر ، فیصلے ، اختلافات کا حل ، قصاص ، حدود ، دیات ، تعزیرات ، شہرى حقوق ، مسلمانوں کے آپس اور کفار سے روابط اور خمس و زکوة ، یہ چیزیں انسان کى اجتماعى و سیاسى زندگى سے مربوط ہیں _ انسان چونکہ اجتماعى زندگى گزارنے کیلئے مجبور ہے ، اور اجتماعى زندگى میں تزاحمات پیش آئیں گے لہذا اسے اسے قوانین کى ضرورت ہے ، جو ظلم و تجاوز کا سد باب کریں اور افراد کے حقوق کا لحاظ رکھیں _ اسلام کے بانى نے اس اہم اور حیات بخش امر سے چشم پوش نہیں کى ہے بکلہ اس کیلئے حقوقى جزائی اور شہرى قوانین مرتب کئے ہیں اور اختلافات کے حل اور قوانین کے مکمل اجراء کیلئے عدالتى احکام پیش کئے ہیں _ ان قوانین کى تدوین اور وضع سے یہ بات بخوبى سمجھ میں آجاتى ہے کہ عدلیہ کا تعلق دین اسلام کے متن سے ہے اور شارع اسلام نے اس کى تشکیلات پر خاص توجہ دى ہے _ اسى طرح اسلام کے احکام و قوانین کا معتد بہ حصہ راہ خدا میں جہاد اور اسلام و مسلمین سے دفاع سے متعلق ہے _ اس سلسلہ میں دسیوں آیتیں اور سیکڑوں حدیثیں وارد ہوئی ہیں _ مثلاً : خداوند عالم مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے :

جاہدوا فى سبیل اللہ حق جہاد (حج/ 78)

راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کرو _

و قاتلوہم حتى لا تکون فتنة و یکون الدین للہ (بقرہ /12)

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوجائے اور صرف دین خدا باقى رہے

فقاتلوا ائمة الکفر انہم لا ایمان لہم لعلہم ینتہون (توبہ/ 12)

پس تم کفر کے سرغنہ لوگوں سے جنگ کرتے رہو کہ ان کے عہد کا کوئی اعتبار نہیں ہے تا کہ یہ اپنى شرارتوں سے باز آجائیں _

ایسى آیتوں سے کہ جن کے بہت سے نمونے موجود ہیں ، یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ اسلام کى نشر و اشاعات ، کفر و استکبار اور ظلم و ستم سے جنگ مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بلکہ بعض آیتوں میں تو یہ حکم بھى دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنى دفاعى طاقت کو مضبوط بنانے کى کوشش کریں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے مسلح رہیں _ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

واعدوا لہم ماستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترہبون بہ عدو ّ اللہ و عدوکم و آخرین من دونہم لا تعلمونہم اللہ یعلمہم _ (انفال / 60)

اور جہاں تک ہوسکے جنگى توانائی اور بندھے ہوئے گھوڑے فراہم کرو اور اس سے

دشمنان خدا اور اپنے دشمنوں اور دوسرے لوگوں پر دھاک بٹھا ور تم انھیں نہیں جانتے نگر خدا انھیں جانتا ہے _

مذکورہ آیتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلحہ کى فراہمى اور فوجى توانائی اسلام کا جز ہے _ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہمیشہ دفاعى طاقت کے استحکام اور دشمنوں کے حملوں کو روکنے کیلئے مختلف قسم کا اسلحہ بنائیں کہ جس سے دشمنان اسلام ہمیشہ مرعوب ووحشت زدہ رہیں اور تعدى و تجاوز کى فکر ان کے ذہن میں خطور نہ کرے _


امر بالمعروف اور نہى عن المنکر

امر بالمعروف اور نہى عن المنکر بھى اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ہے اور یہ سب پرواجب ہے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ظلم و فساد ، استکبار ، تعدى و تجاوز اور معصیت کارى سے مبارزہ کریں ، اسى طرح توحید ، خداپرستى کى اشاعت اور لوگوں کو خیر و صلاح کى طرف بلانے کى کوشش کرنا بھى واجب ہے اس اہم اور حساس فریضہ کى تاکید کے سلسلہ میں دسیوں آیتیں او رسیکڑوں احادیث وارد ہوتى ہیں _ مثلاً:

ولتکن منکم امة یدعون الى الخیر یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر (آل عمران /104)

''تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو لوگوں کو نیکیوں کى طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف نہى عن المنکر کریں'' _

دوسرى جگہ ارشاد فرماتا ہے :

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر و تومنون باللہ ( آل عمران/ 110)

تم بہترین امت ہو کر لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو _

مختصر یہ کہ اسلام کا سیاسى و اجتماعى پروگرام اوراحکام و قوانین جیسے جہاد، دفاع قضاوت ، حقوقى ، شہرى و جزائی ، قوانین ، امر بالمعروف و نہى عن المنکر ، فساد و بیدادگرى سے مبارز ہ ، اجتماعى عدالت کا نفاذ ان سب کیلئے نظم و ضبط اور ادارى تشکیلات کى ضرورت ہے اور ایک اسلامى حکومت کى تاسیس کے بغیر ان احکام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامى حکومت کى تاسیس ، جو کہ اسلام کے قوانین کے نفاذ اور اس کے سیاسى ، اجتماعى ، اقتصادى فوجى اور انتظامى و حقوقى پروگرام کے اجراء کى ضامن ہے ، اسلام کا اصل نصب العین ہے _ اگر شارع نے ایسے قوانین و پروگرام وضع کئے ہیں تو ان کے نفاذ کیلئے حاکم اسلام کى ضرورت کو بھى ملحوظ رکھا ہے _ کیا جنگ و دفاع فوجى نظم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟ کیا ظلم و بیدادگرى ، دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے ، اجتماعى عدالت کا نفاذ ، احقاق حق اور ہرج و مرج کا سد باب عدلیہ اور انتظامى نظلم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟

چونکہ اسلام نے قوانین و پروگرام کئے ہیں اس لئے ان کے اجراء و نفاذ کا بھى منصوبہ بنایا ہے _ اور یہى اسلامى حکومت کے معنى ہیں کہ حاکم اسلام یعنى ایک شخص ایک وسیع ادارى امور کى زمام اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور قوانین الہى کو نافذ کرکے لوگوں میں امن وامام برقرار کرتا ہے _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں واقع ہوتى ہے اس سے جدا نہیں کیاجا سکتا _

 

رسول (ص) خدا مسلمانوں کے زمامدار

رسول خدا (ص) اپنى حیات طیبہ میں عملى طور پر حکومت اسلامى کے زمامدار تھے مسلمانوں کے امور کے نگراں تھے _ اور اس اہم ذمہ دارى کى انجام وہى کى خاطر خدا کى طرف سے آپ کو بہت سے اختیارات دیئےئے تھے _ قرآن فرماتا ہے :

النّبى اولى بالمومنین من انفسہم ( احزاب /60)

نبى کو مومنین کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے _ دوسرى جگہ ارشاد ہے :

فاحکم بینہم بما انزل اللہ ولا تتبع اہوائہم ( مائدہ / 48)

جو احکام و قوانین ہم نے آپ (ص) پر نائل کئے ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان حکومت کیجئے اور ان کى خواہش کا اتباع نہ کیجئے _

اس بنا پر رسول (ص) دو منصبوں کے حامل تھے ایک طرف وحى کے ذریعہ خدا سے رابط تھا اور ادھر سے شریعت کے احکام و قوانین لیتے تھے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے اور دوسرى طرف امت اسلامیہ کے زمام دار و حکمران بھى تھے اور مسلمانوں کے سیاسى و اجتماعى پروگرام کا اجراء آپ ہى فرماتے تھے _

رسول (ص) خدا کى سیرت کے مطالعہ سے یہ بات بخوبى روشن ہوجاتى ہے کہ آپ(ص) عملى طور پر مسلمانوں کے امور کى باگ ڈور اپنے دست مبارک میں رکھتے اور ان پر حکومت کرتے تھے_ حاکم و فرمانروا مقرر کرتے ، قاضى معین کرتے ، جہاد و دفاع کا حکم صادر فرماتے مختصر یہ کہ آپ (ص) ان تمام کاموں کو انجام دیتے تھے جو ایک امت کیلئے لازم ہوتے تھے _ (1)

اس کام پر آپ خدا کى جانب سے مامور تھے _ آپ (ص) کو یہ ذمہ دارى سپردکى گئی تھى کہ اسلام کے سیاسى اور اجتماعى قوانین کو نافذ کریں _ مسلمان جہاد پر مامور تھے لیکن رسول خدا کو یہ حکم تھا کہ وہ انھیں جہاد و دفاع کیلئے ، آمادہ کریں _ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

'' یا ایہا النبى حرّض المومنین على القتال'' ( انعام / 25)

اے نبى (ص) مومنین کو جہاد کى ترغیب دلاہیئے

دوسرى جگہ ارشاد ہے :

یا ایہا النبى جاہد الکفار و المنافقین و اغلظ علیہم (توبہ /73)

اے نبى (ص) کفار و منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختى کیجئے _

رسول (ص) لوگوں کے درمیان حکومت و قضاوت کرنے پر مامور تھے ، قرآن کہتا ہے :

انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بمااراک اللہ و لا تکن للخائنین خصیما'' _ (نساء/ 105)

ہم نے آپ پر بر حق کتاب نازل کى ہے تا کہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کریں جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے اور خیانت کاروں کے حق میں عداوت نہ کیجئے _

ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوتى ہے کہ رسول خدا نبى ہونے ، وحى لینے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ مسلمانوں کى حکومت اور زمامدارى پر بھى مامور تھى اور اس بات پر مقرر تھے کہ سیاسى و اجتماعى احکام و پروگرام کو نافذ کرکے مسلمانوں پر حکومت کریں چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضرت کو مخصوص اختیارات دیئے گئے تھے اور مسلمانوں پر آنحضرت کى حکومتى احکام کى اطاعت کرنا واجب تھا _

قرآن مجید میں ارشاد ہے :

اطیعوا للہ و اطعیواالرسوال و اولى الامر منکم (نساء/ 59)

اللہ کى اطاعت کرو اور سول (ص) کى اطاعت کرو اور اپنے صاحبان امر کى اطاعت کرو _ نیز ارشاد ہے :

و اطیعوا اللہ و رسولہ و لا تنازعو فتفشلوا '' ( انفال / 46)

اور خدا اور اس کے رسول کى اطاعت کرو نزاع و اختلاف سے پرہیز کرو کہ کمزور پڑجاؤ گے _

و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (نساء/ 64)

اور ہم نے جس رسول کو بھى بھیجا خدا کے حکم سے اس کى اطاعت ہوتى _

ان آیتوں میں رسول (ص) کى اطاعت خدا کى اطاعت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کى اطاعت کے ساتھ اس کے رسول (ص) کی بھى اطاعت خدا کى اطاعت اس طرح ہوگى کہ لوگ اس کے احکام کو قبول کریں جو کہ رسول کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں _ اس کے علاوہ مسلمانوں پر یہ واجب کیا گیا تھا کہ وہ رسول کے مخصوص احکام کى بھى اطاعت کریں _ رسول (ص) خدا کے مخصوص فرمان عبارت ہیں : وہ حکم و دستورات جو آپ مسلمانوں کے حاکم ہونے کى حیثیت سے صادر فرماتے تھے_ اس لحاظ سے وہ بھى واجب ہیں _ مختصر یہ کہ حکم خدا سے رسول (ص) کى اطاعت واجب ہے _

اس بناپر ابتدائے اسلام ہى سے حکومت دین کا جزو تھى اور عملى طور پر پیغمبر اس کے عہدہ دار تھے _


اسلامى حکومت رسول (ص) کے بعد

رسول کى وفات کے بعد نبوت اور وحى کا سلسلہ ختم ہوگیا _ لیکن دین کے احکام و قوانین اسلام کے سیاسى اور اجتماعى پروگرام مسلمانوں کے درمیان باقى رہے _ یہاں یہ سوال اٹھتاہے کیا رسول اکرم کى رحلت کے بعد آپ(ص) کى حاکمیت کا منصب بھى نبوت کى طرح ختم ہوگیا ؟ اور اپنے بعد رسول خدا نے کسى کو حاکم و زمام دار مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اس ذمہ دارى کو مسلمانوں پر چھوڑدیا ہے _ یا اس اہم و حساس موضوع سے آپ(ص) غافل نہیں تھے اور اس ذمہ دارى کو پورا کرنے کے لئے کسى شخص کو منتخب فرمایا تھا؟

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام خود مسلمانوں کے حاکم اور اسلام کے قوانین و پروگرام کو نافذ کرنے والے تھے ، آپ اسلامى حکومت کے دوام کى ضرورت کو بخوبى محسوس کرتے تھے _ آنحضرت(ص) اچھى طرح جانتے تھے کہ بغیر حکومت کے مسلمان زندہ نہیں رہ سکتے اور اسلامى حکومت اسى صورت میں ہوسکتى ہے کہ جب اس کو چلانے کیذمہ دارى اسلام شناس ، عالم ، پرہیزگار ، امین اور عادل انسان کے دوش پر ڈالى جائے ، تا کہ وہ دین کے احکام و قوانین کو نافذ کرکے اسلامى کومت کو دوام بخشے _ اسى لئے رسول اکرم نے ابتداء تبلیغ رسالت ہى سے خداوند عالم کے حکم کے مطابق مناسب موقعوں پر حضرت على بن ابى طالب علیہ السلام کو مسلمانوں کے امام و خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے اس سلسلہ میں احادیث شیعہ و اہل سنت کى کتابوں میں موجود ہیں _منجملہ ان کے یہ ہے کہ حجة الوداع کے سفر میں غدیر خم کے مقام پر قافلہ روک کر ہزاروں صحابہ کے سامنے فرمایا:

الست اولى بالمومنین من انفسہم ؟ قالوا بلى یا رسول اللہ فقال من کنت مولاہ فعلى مولاہ ، ثم قال: اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ _ فلقیہ عمر بن الخطاب فقال : ہنیئاً لک یا بن ابى طالب _ اصبحت مولاى و مولا کل مومن و مومنہ _(2)

رسول (ص) نے لوگوں سے فرمایا: کیا میں مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ اصحاب نے عرض کى : بے شک ، اللہ کے رسول ، اس وقت آپ (ع) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے على مولا ہیں _ پھر فرمایا : با ر الہا على کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن _ پس عمر بن خطاب نے حضرت على سے ملاقت کى اور کہا : فرزند ابوطالب مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے ''_

ایسى احادیث سے یہ بات عیاں ہوتى ہے کہ رسول (ص) نے اپنى حاکمیت کو دائمى بناکر اسے على بن ابى طالب کے سپرد کردیا ہے _ اس سے پہلے اس منصب کیلئے آپ کو آمادہ کیا اور ضرورى علوم و اطلاع آپ کے اختیار میں دیں _ آنحضرت جانتے تھے کہ على ذاتى علم و عصمت کے حامل ہیں اور منصب امامت کے لائق ہیں _ اسى لئے آپ (ص) نے خدا کے حکم سے حضرت على کو اس منصب کیلئے منتخب کیا اور اس حیثیت سے پہچنوایا _ حضرت على اسلام کے احکام و قوانین کے حافظ بھى تھے اور حاکم اسلام و مجرى قوانین بھى تھے رسول نے غدیر میں حضرت على کے اختیار میں اپنا اولى بالتصرف کا منصب دیا _ اور عمر بن خطاب کے ذہن میں بھى ان ہى معنى نے خطور کیا اورانہوں نے على سے کہا : اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے _

مسلمان بھى یہى سمجھتے چنانچہ انہوں نے امیرالمومنین کى بیعت کى وفادارى کااظہار کیا اگر ان معنى میں على کو مولا نہ بنایا گیا ہوتا تو تو بیعت کى ضرورت نہ ہوتى _


على (ع) جانشین رسول (ص)

رسول خدا نے خدا کے حکم سے حضرت على (ع) کو مسلمانوں کا امام و زمام دار منصوب فرمایا اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کى امامت کو دائمى بنادیا _ لیکن آپ کى وفات کے بعد بعض صحابہ نے اختلاف کیا ، لوگوں کى کمزورى اور جاہلیت سے غلط فائدہ اٹھایا اور حضرت على کے شرعى حق کو غصب کرلیا اور اسلامى حکومت کو اس کے حقیقى وارث سے جدا کردیا _ حضرت على (ع) کے بیعت نہ کرنے ، خطبے دینے ، احتجاج کرنے اور شکوہ کرنے کى وجہ یہى تھى کہ مسلمانوں کى حاکمیت و زمام دارى کو غصب کرلیا گیا تھا _ خلفا نے دین کے احکام و معارف کو حضرت على (ع) سے نہیں لیا تھا _ اگر چہ آپ کے علمى تبحر و مرتبہ کے معترف تھے یہاں تک کہ مشکل مسائل میں آپ(ع) سے رجوع کرتے تھے _

جس وقت خلافت حضرت على (ع) کے ہاتھ میں آئی اور آپ(ع) نے خلافت کے تمام امور جیسے حاکم و فرمانروا کا تقرر ، قضات کا انتخاب ، زکوة و خمس کى وصولیابى کی ذمہ دارى کا سپرد کرنا ، جہاد ودفاع کاحکم صادر کرنا اور سپہ سالاروں کے تقرر کو اپنے اختیار میں لے لیا تو طلحہ و زبیر نے آپ (ع) کے مخالفت کى اور جنگ جمل برپاکردى وہ آپ کى حکومت کے مخالف تھے آپ (ع) کے علمى مرتبہ اور احکام و معارف کے بیان کے مخالف نہیں تھے _ احکام کے بیان میں معاویہ کو بھى آپ سے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ اس نے حکومت او رتخت خلافت کے سلسلہ میں آپ (ع) سے جنگ کى تھى _

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول اکرم کى وفات سے اسلامى حکومت ختم نہیں ہوئی بکلہ حضرت على بن ابى طالب کے خلیفہ منصوب ہونے سے اسلامى حکومت کے باقى رکھنے کى تصریح ہوگئی اور اس بات کى وضاحت ہوگئی کہ شارع اسلام نے سیاسى و اجتماعى قوانین کے نافذ کرنے میں کبھى دریغ نہیں کیا ہے _ یعنى اسلامى حکومت کو ہمیشہ باقى رہنا چاہئے _

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بعد امام و خلیفہ اور حاکم منتخب کیا اور امام حسن (ع) نے اپنے بعد اپنے بھائی امام حسین اور امام حسین (ع) نے اپنے بیٹے امام زین العابدین کو منصوب کیا اور اس طرح بارہویں امام حضرت حجة بن الحسن تک ہر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کرایا _ خداداد علم و عصمت اور طہارت اور اپنے ذاتى کمال و صلاحیت کے علاوہ مسلمانوں کے امام و حاکم بھى منصوب ہوئے _ اس بناپر مسلمانوں کى امامت اور معصوم حکمرانوں کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اگر چہ حضرت على بن ابى طالب کے علاوہ بظاہر کوئی امام بھى اپنا شرعى حق حاصل نہیں کرسکا اور اسلامى حکومت کو جارى نہ رکھ سکا _


زمانہ غیبت میں اسلامى حکومت

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کے سیاسى اور اجتماعى پروگرام کى کیا کیفیت ہے؟ جس زمانہ میں معصوم امام و حاکم تک رسائی نہیں ہے کیا اس میں شارع اسلام نے احکام و منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا اسلام یہ سارے قوانین صرف رسول کى حیات ہى کے مختصر زمانہ کیلئے تھے؟ اور اس وقت سے ظہور امام مہدى تک ان کى کوئی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس طویل زمانہ میں جہاد، دفاع ، حدود کے اجراء قصاص و تعزیرات ظلم و بیدادگرى سے جنگ، مستضعفین اور محروموں سے دفاع، فساد و سرکشى اور معصیت کارى سے مبارزہ سے دست کشى کرلى ہے اور ان کے نفاذ کو حضرت مہدى کے ظہور پر موقوف کردیا ہے ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں آیات و احادیث صرف کتابوں میں بحث کرنے کیلئے آئی ہیں ؟ میرے خیال میں کوئی با شعور مسلمان ایسى باتوں کو قبول نہیں کرے گا ؟ مسلمان خصوصاً مفکر ین یہى کہیں گے کہ یہ احکام بھى نفاذ ہى کے لئے آئے ہیں _ اگر حقیقت یہى ہے تو تمام زمانوں کو منجملہ اس زمانہ کو قوانین کے اجراء سے کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام نے سیاسى و اجتماعى منصوبے بنائے ہیں لیکن انھیں عملى جامہ پہنانے کیلئے حاکم مقرر نہیں کئے ہیں _


زمانہ غیبت میں مسلمانوں کا فریضہ

یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اور معصوم امام کو خدا کى طرف سے مسلمانوں کا حاکم منصوب کیا گیا ہے اور ان کے امور کى زمام ان ہى کے ہاتھ میں دى گئی ہے _ اور اس سلسلہ میں انھیں کوشش کرنى چاہئے لیکن اصلى ذمہ دارى مسلمانوں پر عائد کى گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اسلامى حکومت کى تأسیس و استحکام اور پیغمبر و امام کو طاقت فراہم کرنے کے سلسلہ میں مخلصانہ کوشش کریں اور ان کے تابع رہیں _ اسى طرح جب معصوم امام تک رسائی ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامى حکومت کى تاسیس اور اسلام کے سیاسى و اجتماعى منصوبوں کے اجراء کیلئے کوشش کریں جو فکر اسلام نے کسى زمانہ میں یہاں تک کہ اس زمانہ میں بھى اپنے احکام کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کى دعوت دى ہے _ اکثر احکام و قوانین مسلمانوں کو مخاطب کرکے بیان کئے گئے ہیں مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے :

و جاہدوا فى اللہ حق جہادہ ( حج/ 78)

راہ خدا میں حق جہاد ادا کرو _

انفروا خفافا و ثقالا و جاہدوا باموالکم و انفسکم فى سبیل اللہ ( توبہ /41)

مسلمانو تم ہلکے ہو یا بھارى راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو _

تومنون باللہ و رسولہ و تجاہدون فى سبیل اللہ (صف/11)

تم خداو رسول پر ایمان رکھتے ہو راہ خدا میں جہاد کرو _

و قاتلوا فى سبیل اللہ الذین یقاتلونکم و لا تعتدوا ( بقرہ/ 190)

راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتى نہ کرو _

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ( نساء /67)

شیطان کے طرف داروں سے جہاد کرو کہ شیطان کامکر کمزور ہے _

و قاتلوا حتى تکون فتنة و یکون الدین کلہ للہ ( انفال / 39)

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا باقى رہے _

و مالکم لا تقاتلون فى سبیل اللہ (انفال /39)

راہ خدا میں تم جہاد کیوں نہیں کرتے؟

فقاتلوا ائمة الکفر انہم لا ایمان لہم (توبہ/12)

کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو کہ ان کى قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة ( توبہ / 36)

اور مشرکین سے سب اسى طرح جنگ کرو جیسا کہ وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں _

واعدوا لہم مااستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ و عدوکم ( انفال / 60)

اور جہاں تک تم سے ہوسکے دشمنوں کے لئے جنگى توانائی اور گھوڑوں کى صف کا انتظام کرو کہ اس سے خدا کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر رعب طارى ہوگا _ والسارق و السارقة فاقطعوا ایدہما جزاء ً بما کسبا نکالا من اللہ و اللہ عزیز حکیم (مائدہ / 38)

اور چورمرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے ایک بدلہ اور خدا کى طرف سزا ہے اور خدا عزت و حکمت والا ہے _

الزّانیہ و الزّانى فاجلدو کل واحد منہما اماة جلدة ولا تاخذ بہما رافة فى دین اللہ _ ( نور/ 2)

زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ اور خبردار دین خدا کے سلسلہ میں کسى مروت کا شکار نہ ہوجانا _

ولتکن منکم امة یدعون الى الخیر و یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر ( آل عمران / 104)

اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کى طرف دعوت دے نیکیوں کا حکم دے ، برائیوں سے منع کرے _

یا ایہا الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء للہ (نساء/ 125)

ایمان لانے والو تم عدل قائم کرنے والے اور خدا کیلئے گواہ بن جاؤ_

ایسى ہى بے شمار آیتیں ہیں جن میں ھام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان سے ان اجتماعى فرائض کى انجام وہى کى خواہش کى گئی ہے جو اسلامى حکومت کى مصلحت کے مطابق ہوں _ مثلاً دشمنوں سے جنگ اور را ہ خدا میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، مستکبرین اور کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو، دنیا کے لوگوں کو خیر و صلاح کى دعوت دو ، فساد ، معصیت اور ستمگرى سے مبارزہ کرو_ عدل و انصاف قائم کرو اور حدود خدا کو جارى کرو _

معمولى غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ یہ ایسے اجتماعى اہم امور کا اجراء حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور چونکہ مسلمانوں سے اس امر کا مطالبہ کیا گیا ہے اس لئے اس کے مقدمات فراہم کرنا ، یعنى اسلامى حکومت کى تاسیس میں کوشش کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بعبارت دیگر ہر شعبہ میں دین کے قوانین کا نفاذ اسلامى حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے جبکہ دینى احکام کا نفاذ مسلمانوں کا فریضہ ہے قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے _

خدا نے تمہارے لئے دین کے وہ احکام مقرر کئے ہیں جن کى نوح کو وصیت کى اور پیغمبر ان ہى کى تمہارى طرف بھى وحى کى اور جس چیز کى ہم نے ابراہیم و موسى اور عیسى کو وصیت کى تھى وہ یہى تھى کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ پیدا کرنے سے اجتناب کرو '' (3)_

قرآن مجید کے عام خطابات اور اسلام کے سیاسى و اجتماعى احکام کے استمرار سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں معصوم امام تک رسائی نہ ہو _ اس میں اسلامى حکومت کى تاسیس خود مسلمانوں کا فریضہ ہے تا کہ اس کے ذریعہ ہر شعبہ میں دینى احکام کو نافذ کریں اور اس کے تمام منصوبوں کو عملى جامہ پہنائیں _

اگر ہم اس عقلى بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہرج و مرج میں حکومت کے بغیر زندگى گزارنا ممکن نہیں ہے ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ شارع اسلام نے بھى ہرج و مرج کو پسند نہیں کیا ہے ، اور انسان کى دنیوى و اخروى سعادت و کامیابى کے لئے خاص حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے اور اسى لئے سیاسى و اجتماعى احکام و پروگرام مقررکئے ہیں ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلامى حکومت کى تشکیل کا وجوب اور اسلام کے سیاسى و اجتماعى قوانین اور منصوبوں کاا جراء و رسول (ص) خدا کى مختصر حیات ہى میں محدود نہیں ہے _ بلکہ انھیں ہر زمانہ میں جارى رہنا چاہئے ، اگر اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر زمانہ اور ہر شعبہ میں دین کو قائم کرنا مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ امام زمانہ کى غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامى حکومت کى تشکیل میں کوشاں رہیںاورپیغمبر اسلام کى حکومت کو استمرار بخشیں تاکہ اسلام کے سیاسى و اجتماعى منصوبے اور احکام کے پرتو میں امن و امان اور سالمیت کا ماحول پیدا ہوجائے اور خدائے متعال کى عبادت و اطاعت تزکیہ نفس اور سیر الى اللہ کیلئے زمین ہموار ہوجائے _


نبوّت

حکومت کى تشکیل کى ضرورت اور اس کے استمرار میں کوشاں رہنا ایک عقلى بات ہے اسے سارے عقلا تسلیم کرتے ہیں _ اسلام نہ صرف اس عقلى بات کو رد نہیں کیا ہے بلکہ اس کى تائید کى ہے چنانچہ جب جنگ احد میں رسول خدا کے شہید ہوجانے کى جھوٹى خبر گشت کرنے لگى تو اس جھوٹى خبر سے ان اسلامى جانبازوں کے حوصلہ ماند پڑگئے جو جنگ میں مشغول تھے تو یہ آیت نازل ہوئی _

اور محمد (ص) بھى ایک رسول(ص) ہیں ان سے پہلے بھى بہت سے رسول گزر چکے ہیں _ اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم پچھلے پاؤن اپنى سابقہ حالت کى طرف پلٹ جاؤگے ؟ (4) یعنى ان کے مرجانے یا تقل ہوجانے سے تم اپنے اجتماعى نظم و ضبط سے ہاتھ دھو بیٹھوگے اور جہاد کو ترک کردوگے ؟ جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں مذکورہ آیت اسلامى و اجتماعى نظام کے استمرار و تحفظ کو عقل سلیم رکھنے والے مسلمانوں پر چھوڑاہے اور اس بات کى تاکید کى ہے کہ مسلمان لمحہ بھر کیلئے بھى یہاں تک پیغمبر کے قتل ہوجانے یا مرجانے سے بھى جہاد اور اسلامى و اجتماعى نظام سے دست کش نہ ہوں _

سقیفہ بنى ساعد ہ میں جو انجمن تشکیل پائی تھى اس کے سبھى ارکان پیغمبر (ص) کی اسلامى حکومت کے استمرار و ضرورت پر اتفاق نظر رکھتے تھے ، کسى ایک نے بھى یہ نہیں کہا تھا کہ ہمیں حاکم و خلیفہ کى ضرورت نہیں ہے ، ہاں اس کے مصداق کى تعیین کے بارے میں اختلاف تھا _ انصار کہتے تھے_ امیر و خلیفہ ہم میں سے ہوگا _ مہاجرین کہتے تھے اس منصب کے مستحق ہم ہیں _ بعض کہتے تھے _ ہم امیر ہوں گے اور تم ہمارے وزیر ، ایک گروہ کہہ رہا تھا ایک شخص ہم مییں سے اور ایک تم میں سے امیر ہوگا _ لیکن یہ بات ایک آدمى نے بھى نہیں کہى کہ ہمیں امیر و خلیفہ کى ضرورت نہیں ہے اور زمامدار کے بغیر بھى ہم اجتماعى زندگى گزارسکتے ہیں _

یہاں تک حضرت على نے بھى کہ جنھیں رسول خدا نے خلیفہ منصوب کیا تھا جو اپنے الہى حق کو برباد ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور سقیفہ بنى ساعدہ کى کاروائی کے مخالف تھے ، اس سلسلہ میں بعض صحابہ بھى آپ کى حمایت کرتے تھے ، رسول (ص) کى اسلامى حکومت کے استمرار و ضرورت کى مخالفت نہیں کى اور کبھى نہ فرمایاکہ : خلیفہ کى تعیین کى ضرورت ہى کیا تھى کہ جس کیلئے انہوں نے عجلت سے کام لیا ہے ؟ بلکہ فرمایا: خلافت و امامت کا میں زیادہ مستحق ہوں ، کیونکہ اس منصب کے لئے رسول خدا نے مجھ منتخب کیا ہے اور ذاتى علم و عصمت اور لیاقت کا بھى حامل ہوں _ با وجودیکہ حضرت على اپنے ضائع شدہ حق اور اسلامى خلافت کو اصلى محور سے منحرف سمجھتے تھے لیکن چونکہ اصل حکومت کى ضرورت کو تسلیم کرتے تھے اس لئے کبھى بھى خلفاء کو کمزور بنانے کى کوشش نہ کى بلکہ نظام اسلام کى بقاء کى خاطر ضرورى موقعوں پر ان کى مدد کى اور فکر تعاون سے بھى دریغ نہ کیا _ اگر آپ(ع) کے اعزاء یا اصحاب با وفا میں سے خلفا کسى کو کسى کام پر مأمور کرتے اور وہ اسے قبول کرلیتے تھے تو حضرت علی (ع) انھیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے ، آپ کى روش سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ آپ (ص) حکومت کے وجود کو ہر حال میں ضرورى سمجھتے تھے چنانچہ جب خوارج یہ کہہ رہے تھے لا حکم الا اللہ تو آپ (ص) نے فرمایا تھا: کلمة حق یراد بہا الباطل _ یعنى بات صحیح ہے مراد غلط ہے ہاں اصلى حاکم خدا ہى ہے لیکن خوارج یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت و امارت بھى خدا ہى سے مختص ہے _ جب کہ لوگوں کو حاکم و امیر کى ضرورت ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تا کہ صالح افراد کى حکومت میں مومن اعمال صالح انجام دے گا اور کافر آرام کى نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کى آخرى حد تک پہنچا دے گا اسى حاکم کى وجہ سے مال جمع ہوتا ہے ، دشمن سے لڑاجاتا ہے ، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوى سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ حاکم حکومت سے الگ ہوجائے اور برے حاکم کے علیحدہ ہونے سے دوسروں کو آرام ملے _ اس بناپر اسلامى حکومت کى تشکیل اور ضرورت و استمرار میں شک نہیں کرنا چاہئے _ اور یہ حساس و سنگین ذمہ دارى مسلمانوں پر عائد کى گئی ہے کہ جس زمانہ میں ان کى دست رس پیغمبر یا معصوم امام تک نہ ہو اس میں انھیں حکومت کى تشکیل و استحکام کیلئے کوشش کرنا چاہئے _ اور جس زمانہ میں امام تک رسائی نہ ہو اس میں انھیں علماء و فقہا میں سے اس فقیہ کو قیادت و امامت کے لئے منتخب کرنا چاہئے جو کہ اسلامى مسائل خصوصاً سیاسى و اجتماعى مسائل سے کما حقہ واقف ہو اور تقوی، انتظامى صلاحیت اور سیاسى سوجھ بوجھ کامل ہو _ کیونکہ ایسے شخص کى رہبرى و امامت کو ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھى قبول کیا ہے اور اس کى وصیت کى ہے _ ایسا ہى آدمى ملت اسلامیہ کى قیادت کرسکتا ہے اور اسلام کے اجتماعى وسیاسى منصوبوں کو عملى صورت میں پیش کر سکتا ہے _ اس بات کى وضات کردینا ضرورى ہے کہ حکومت اسلامى اور ولایت فقیہ کا مسئلہ اتنا نازک اور طویل ہے کہ اس کیلئے ایک مستقل کتاب کى ضرورت ہے _ اس مختصر کتاب میں ہم اس کے وسیع اور متنوع پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے _ لہذایہاں اشارہ ہى پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنى بحث کو یہى ختم کرتے ہیں _ اس مقدمہ کو بیان کرنے کا مقصد جو کہ کچھ طولانى ہوگیا ، یہ ہے کہ جو احادیث امام مہدى کے انقلاب و تحریک سے قبل رونما ہونے والے انقلاب کى مخالف ہیں ، ان کى تحقیق کریں اور اس نکتہ پر توجہ رکھیں کہ جہاد ، دفاع ، حدود ، قصاص ، تعزیرات ، قضاوت ، شہادت ، امر بالمعروف ، نہى عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ ، محروم و مستضعفین سے دفاع اور دوسرے اجتماعى و سیاسى مسائل ہیں جو اسلام کے ضرورى اور اہم مسائل ہیں انکى تردید نہیں کى جا سکتى ، بلکہ ان پر عمل کرنا اور کرانا ضرورى ہے اور اس کام کیلئے اسلامى حکومت کى ضرورت ہے اور اسلامى حکومت کى تشکیل اور دین کے احکام و قوانین کے اجراء کیلئے بھى جہاد و انقلاب کى ضرورت ہے _ اس بناپر انقلاب کى مخالف احادیث کى تجزیہ و تحقیق کرنا چاہئے کسى مناسب موقع پر اس موضوع پر تفصیلى بحث کریں گے تا کہ بہتر نتیجہ حاصل ہوسکے چونکہ جلسہ کا وقت ختم ہوچکا ہے لہذا اس زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے _

ڈاکٹر : احباب سے گزارش ہے کہ آئندہ ہفتہ جلسہ ہمارے گھر منعقد ہوگا

 

1_ الترتیب الاداریہ اور کتاب الاموال مولفہ حافظ ابو عبید ملا حظہ فرمائیں _
2_ ینابیع المودة / 297_
3_ شوری/ 13
4_ آل عمران / 144_