پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

مستضعفين كى كاميابي

مستضعفین کى کامیابی

جلالى : آپ دنیا کى حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کى تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنى طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدى کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدى (ع) کى کامیابى دنیا کے مستضعفین کى کامیابى ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور سارى قدرت انھیں کى ہے _ مستکبرین کى تعدا د بہت ہى کم ہے جس کى کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسى لئے امام مہدى کى کامیابى کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کى تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمى انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدى ہونگے اور طاغوتى نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کى حکومت کى زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کى قدرت و تمکن ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(1)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کى حتمى نوید دے رہى ہے کہ دنیا کى طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدى کى کامیابى مستکبرین پر مستضعفین کى کامیابى ہوگى موضوع کى وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنى ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کى کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمى انقلاب کى قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کى ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کى کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(2)

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برترى چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسرى آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_ (3)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھى مستکبرین کى صفات قرار دیا گیا ہے دوسرى آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسى کى تحقیر کى اور لوگوں نے اس کى اطاعت کى کیونکہ لوگ فاسق تھے'' (4)

اس آیت میں لوگوں کى تو ہین کرنے کو مستکبرین کى صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہى معنا لوگوں کى اطاعت کے ہیں _

دوسرى آیت میں ارشاد ہے :

''موسى نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( 5)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشى کى علامت قرار دیا  گیا ہے _ دوسرى جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کى لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں '' (6)

دوسرى آیت میں کفر و شرک کى ترویج کو مستکبرین کى علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہارى رات ، دن کى فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے'' (7)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کى چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

1_ بڑا بننا اور برترى چاہنا

2_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

3_ اسراف

4_ لوگوں کو کمزور بنانا_

5_ فساد پھیلانا

6_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

7_ کفر و شرک کى ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہارى عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافى نہیں ہے _ تمہیں ہمارى اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبى ، نسلى ، لسانى ، قومى ، ملى ، ملکى ، شہرى ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازى کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کى ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومى اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنى مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمى توانائی خریدتے ہیں عمومى ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کى تشکیل سے ذاتى فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنى مرضى کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانى اور خودہواہى ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کى اپنى کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کارى سے لوگوں کى عظیم طاقت'' کو اپنى بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنى بھى روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنى ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنى طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامى و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقى طاقت عام لوگوں کى ہے _ زمین ، پانى ، قدرتى خزانے ، پبلک دالشور اور موجد سب ہى تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہى ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھى ملت ہى کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتى خزانے پورى قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کى کوئی طاقت بن سکتى ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہى اپنے کو کچلتے ہیں اور استعمارى طاقتوں کى بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کى کوشش کى ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کى ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنى عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کى جھوٹى طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کى کوشش کى ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعمارى پھندوں سے نجات حاصل کرنے کى جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کى طاغوتى حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسى (ع) نے فرعون کى حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسى (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفى صلى اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسرى کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کى نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر مستکبرین کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے _ شرک و بت پرستی

اور فساد سے مبارزہ کرتے تھے_ لوگوں کو وحدانیت ، خداپرستى اور وحدت کى دعوت دیتے تے ، ظلم و ستم اور استکبار کى مخالفت کرتے تھے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

یقینا ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا کہ وہ خدا کى عبادت کریں اور طاغوت سے اجتناب کریں '' (8)

فرماتا ہے '' جو بھى طاغوت سے اجتناب کرتا ہے اور خدا پر ایمان لاتا ہے وہ خدا کى رسى کو مضبوطى سے تھام لیتا ہے '' (9)

قرآن مجید مستضعفین کى نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کرنے کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' مستضعفین کى نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ مرد عورتیں اور بچے فریاد کررہے ہیں _ ہمارے خدا ہمیں اس ظالموں کے قریہ سے نکال لے اور اپنى طرف سے ہمارا سرپرست مقررکردے اور ہمارا مددگار معین فرما _ مومنین راہ خدا میں اور کفار راہ طاغوت میں جنگ کرتے ہیں _ لہذا شیطان کے طرف داروں سے جنگ کرو کہ شیطان کا مکر چلنے والا نہیں ہے '' (10)

 

مذکورہ بحث سے چند چیزوں کا اثبات ہوتا ہے:

1_ جو مستکبرین لوگوں پر حکومت کرتے ہیں وہ اقلیت میں ہیں ، ان کى اپنى کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستضعفین کى طاقت و قدرت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انھیں قید و بند میں ڈال کر کمزور بناتے ہیں _

2_ مستضعفین اکثریت میں ہیں حقیقى قدرت و توانائی ان ہى کى ہے ، وہ کمزور و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستکبرین کے پروپیگنڈوں سے خود کمزور سمجھتے ہیں _

3_ مستضعفین کى ناکامى اور بدبختى کا اہم ترین عامل ان کا احساس کمترى و کمزورى ہے ، چونکہ وہ خود کو ناتوان اور مستکبرین کو قوى و طاقتور سمجھتے ہیں لہذا ان کے ہاتھوں کى کٹھپلتى بن جاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور ہر قسم کى ذلت و محرومیت کو قبول کرلیتے ہیں _ ان میں مخالفت کى جرات نہیں ہے _ محروم و مستضعف لوگوں کى لا علاج بیمارى یہ ہے کہ انہوں نے اپنى عظیم طاقت کو فراموش کردیا ہے اور مستکبرین کى جھوٹى طاقت کے رعب میں آگئے ہیں اور طاغوتیوں کیلئے ظلم و تعدى کا راستہ اپنے ہاتھوں سے کھول دیا ہے _

4_ پسماندہ اور مستضعف طبقہ کى نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنى عظیم وقوى گم شدہ شخصیت کو حاصل کریں ایک عالمى انقلاب و حملہ سے سارى بندشین توڑڈالیں ، اور مستکبریں و طاغوتیوں کى حکومت کو ہمیشہ کیلئے نابود کردیں اور خود دنیا کى حکومت اور اس کے نظم و نسق کى زمام سنبھالیں کہ یہ کام بہت مشکل نہیں ہے _ کیونکہ اصلى قدرت و توانائی عوامل کے ہاتھ میں ہے ، ان ہى کى اکثریت ہے ، اگر دانشور ، موجد ، ملازمین ، ٹھیکیدار ، پولیس ، کسان اور صنعت گر سب ہى ہوش میں آجائیں اور اپنى عظیم توانائی کو مستکبرین کے اختیار میں نہ دیں تو ان کى جھوٹى حکومت لمحوں میں ڈھیر ہوجائے گى _ اگر سارى توانائیاں ، دفاع ، پولیس اور اسلحہ کو مستضعفین کى حمایت میں استعمال کیا جائے اور اس سلسلہ میں سب متحد ہوجائیں تو پھر مستکبرین کى کوئی طاقت باقى رہے گی؟

یہ کام اگر چہ بہت دشوار ہے لیکن ممکن ہے اور قرآن ایسے تابناک زمانہ کى خوش خبرى دے رہا ہے _ ارشاد ہے :

''ہم چاہتے ہیں کہ مستضعفین پر احسان کریں ، انھیں امام بنائیں اور انھیں زمین کا وارث بنائیں اور روئے زمین پر انھیں قوى بنائیں'' (11)

یہ عالمى انقلاب ، حضرت مہدى اور آپ کے اصحاب و انصار کے ذریعہ کامیاب ہوگا _ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے :

''جب ہمارا قائم قیام کرے گا اس وقت خداوند عالم ان کا ہاتھ بندوں کے سرپررکھے گا اور اس طرح ان کے حواس جمع اور عقل کامل کرے گا '' (12)

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ یہ عالمى اور عظیم انقلاب دین اور قوانین الہى کے عنوان کے تحت آئے گا _ امام مہدى اس کى قیادت کریں گے اور شائستہ و فداکار مومنین آپ کى رکاب میں جہاد کریں گے _

خدا نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور یہ خوش خبرى دى ہے کہ جس دین کو ان کے لئے منتخب کیا ہے اس پر انھیں ضرورى قدرت عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن و امان سے بدل دے گا کہ وہ خدا ہى کى عبادت کریں گے اور کسى کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے _ (13)

احادیث میں آیا ہے کہ اس آیت سے حضرت مہدى اور ان کے انصار و اصحاب مراد ہیں اور ان ہى کے ذریعہ پورى دنیا میں اسلام پھیلے گا اور تمام ادیان پر غالب ہوگا _

قرآن مجید و احادیث ایسے دن کى خوش خبرى دے رہى ہیں کہ جس میں دنیا کے مستضعفین خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور اپنى عظیم توانائی اور مستکبرین و طاغوتیوں کى ناتوانى کو سمجھیں گے اور مہدى کى قیادت میں توحید کے پرچم کے نیچے جمع ہونگے ایمان کى طاقت پر اعتماد کرکے ایک صف میں مستکبرین کے مقابلہ کھڑے ہوں گے اور ایک اتفاقى حملہ سے استکبار کے نظام کو درہم و برہم کردیں گے _ اسى تابناک زمانہ کفر و شرک اور مادہ پرستى کا قلع و قمع ہوگا ، لوگوں کے درمیان سے اختلاف و تفرقہ بازى ختم ہوجائے گى _ موہوم و اختلاف انگیز سرحدوں کا اعتبار نہیں ہرے گا اور سارى دنیا کے انسان صلح و صفائی اور آسائشے و آرام کے ساتھ زندگى بسر کریں گے _

 

 

1_ قصص/5
2_ قصص /4
3_ یونس /83
4_ زخرف /54
5_ عنکبوت/39
6_ اعراف/76
7_ سبأ/33
8_ سورہ نحل / آیت 36_
9_ سورہ بقرہ / آیت 256_
10_ سورہ نساء / آیت 76_
11_ قصص/5_
12_ بحار الانوار ج 52ص 336_
13_ نور/ 55_