پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

كيا پانچ سال كا بچہ امام ہوتا ہے؟

کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوتا ہے؟

جلسہ شروع ہونے کے بعد فہیمى صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا :

فھیمى : بالفرض امام حسن عسکرى کے یہاں بیٹا تھا لیکن اس بات کو کیونکر قبول کیا جاسکتا ہے کہ، پانچ سال کا بچہ منصب امامت و ولایت پرمتمکن ہوتاہے ؟ اور احکام خدا کى حفاظت وتحمل کے لئے اس کا انتخاب ہوتا ہے اور کمسنى میں ہى علم وعمل کى اعتبار سے لوگوں کا امام اور ان پر خدا کى حجت قرار پاتا ہے؟

ھوشیار : آپ نے نبوت اور امامت کو ایک ظاہرى اور معمولى چیز تصوّ رکرلیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ اس کے لئے کسى قید وشرط کى ضرورت نہیں ہے_ جو شخص احکام کے حفظ وتحمل کى صلاحیت رکھتا ہے اسى کو منتخب کر لیا جا تا ہے ، اس کے علاوہ کسى اور چیز کى ضرورت نہیں ہے _ گویا محمد بن عبداللہ(ص) کى جگہ ابوسفیان کا نبوت کے لئے انتخاب ہو سکتا ہے اور على بن ابیطالب کے بجائے طلحہ وزبیر امام بن سکتے ہیں لیکن اگر آپ غور کریں گے اور اہل بیت کى احادیث کا مطالعہ فرمائیں گے تو اس بات کى تصدیق فرمائیں گے کہ یہ بات اتنى آسان نہیں ہے _ کیونکہ نبوت بہت عظیم مقام ہے اس مقام پر فائز انسان کا خدا سے ارتباط واتصال رہتا ہے اور وہ عالم غیبى کے افاضات سے مستفید ہوتا ہے خدا کے احکام وقوانین وحى اور الہام کى صورت میں اس کے قلب پر نازل ہوتے ہیں اور انھیں حاصل کرنے میں اس سے کوئی اشتباہ و خطا واقع نہیں ہوتى _ اسى طرح امامت بھى ایک عظیم منصب ہے _ اس عہدہ کا حامل خد ا کے احکام اور نبوت کے علوم کو اس طرح حفظ و ضبط کرتا ہے کہ جس میں خطا و نسیان اور معصیت کا امکان نہیں ہے _ اس کا بھى عالم غیبت سے رابطہ رہتا ہے اور خدا کے افاضات و اشراقات سے بہرہ مند رہتا ہے _ علم و عمل کے سبب لوگوں کا امام اور دین خدا کا نمونہ و مظہر قرار پاتا ہے _

واضح ہے کہ ہر شخص میں اس منصب پر پہنچنے کى صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کیلئے روح کے اعتبار سے انسانیت کے اعلى درجہ پر فائز ہونا چاہئے تا کہ عوالم غیبى سے ارتباط اور علوم کے حفظ و حصول کى اس میں لیاقت پیدا ہو سکے اور اس کى جسمانى ترکیب اور دماغى قوتوں میں نہایت ہى اعتدال پایا جاتا ہو کہ جس سے عام ہستى کے حقائق اور غیبى افاضات کو بغیر کسى خطا و اشتباہ کے الفاظ و معانى کے قالب میں ڈھال سکے اور لوگوں تک پہنچا سکے _

پس خلقت کے اعتبار سے رسول اور امام ممتاز ہیں اور اسى ذاتى استعداد و امتیاز کى بنا پر خداوند عالم انھیں نبوت و امامت کے عظیم و منصب کے لئے منتخب کرتا ہے اگر چہ یہ امتیازات عہد طفولیت ہى سے ان میں موجود ہوتے ہیں _ لیکن جب صلاح ہوتى ہے ، کوئی مانع نہیں ہوتا اور حالات سازگار ہوتے ہیں تو ان ہى نمایان افراد کا منصب نبوت وامامت کے حامل کے عنوان سے سرکارى طور پر تعارف کرایا جاتا ہے اور وہ احکام کے حفظ و تحمل کے لئے مامور ہوتے ہیں _

یہ انتخاب کبھى بلوغ کے بعد یا بزرگى کے زمانہ میں ہوتا ہے اور کبھى عہد طفولیت میں ہوتا ہے _ جیسا کہ حضرت عیسى علیہ السلام نے گہوارہ میں لوگوں سے گفتگو کی اور کہا : میں نبى ہوں اور کتاب لے کر آیا ہوں _ سورہ مریم میں خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ حضرت عیسى نے فرمایا :'' میں خدا کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب اور نبوت عطا کى ہے ، میں جہاں بھى رہوں با برکت ہوں اور تا حیات مجھے نماز و زکوة کى وصیت کى ہے ''_

اس اور دوسرى آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ حضرت عیسى بچینے ہى سے نبى اور صاحب کتاب تھے _

اس لئے ہم کہتے ہیں کہ پانچ سال کے بچہ کا عوالم غیبى سے ارتباط رکھنے اور تبلیغ احکام کى ایسى عظیم ذمہ دارى کے لئے منصوب کئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ اس امانت کى ادائیگى اوراپنى ذمہ دارى کو پورا کرنے کى طاقت رکھتا ہے _

چنانچہ امام على نقى بھى والد کے انتقال کے وقت نو یا سات سال کے تھے اور کم سنى کى بناپر بعض شیعہ ان کى امامت کے بارے میں مستردد تھے_ اس مسئلہ کے حل کرنے کى غرض سے کچھ شیعہ آپ(ع) کى خدمت میں شرفیاب ہوئے اور آپ(ع) سے سیکڑوں مشکل ترین سوالات معلوم کئے اور مکمل جواب حاصل کئے اور ایسى کرامات کو مشاہدہ کیا کہ جن سے ان کا شک برطرف ہوگیا _ (1)

امام رضا (ع) نے انھیں اپنے جانشین اور امام کے عنوان سے پیش کیا تھا اور مخاطبین کے تعجب پر فرمایا تھا: '' حضرت عیسى بھى بچپنے میں نبى اور حجت خدا ہوئے تھے ''(2)_

حضرت امام على نقى (ع) بھى چھ سال اور پانچ ماہ کى عمر میں شفقت پدرى سے محروم ہوگئے تھے اور امامت آپ کى طرف منتقل ہوگئی تھی_(3)

جناب فہیمى صاحب ، انبیاء و ائمہ کى خلقت کچھ اس زاویہ سے ہوئی ہے کہ جس کا عام افراد سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا _
نابغہ بچّے

کبھى عام بچوں کے درمیان بھى نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں جو کہ استعداد او حافظہ کے اعتبار سے اپنے زمانہ کے نابغہ ہوتے ہیں اور ان کے ادراکات و دماغى صلاحیت چالیس سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھى ہوتى ہے _

ان ہى میں سے ایک ابو على سینا بھى ہیں _ ان سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے بتا یا : '' جب میں اچھے برے کو سمجھنے لگا تو مجھے معلم قرآن کے سپرد کیا گیا _ اس کے بعد ادب کے استاد کے حوالے کیا _ ادب کے استاد کو شاگرجو بھى سنا تے تھے اسے میں حفظ کرلیتا تھا _ اس کے علاوہ استاد نے مجھے حکم دیا تھا کہ : تم '' الصفات '' ، ''غریب المصنف ، '' ادب الکاتب'' ، '' اصلاح المنطق'' ، ''العین'' ، ''شعر و حماسہ'' ، ''دیوان ابن رومی'' ، '' تصریف'' ''مازنی'' اور سیبویہ کى نحو بھى سنایا کرو _ چنانچہ انھیں بھى میں نے ایک سال چھ ماہ میں ختم کڑدالا ، اگر استاد تعویق سے کام نہ لیتے تو اس سے کم مدت میں تمام کرلیتا اور جب دس سال کو ہو ا تو اہل بخارا کو انگشت بدندان کردیا _ اس کے بعد فقہ کى تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور بارہ سال کى عمر میں ابو حنفیہ کى فقہ کے مطابق فتوى دینے لگا تھا اس کے بعد علم طب کى طرف متوجہ ہو اور سولہ سال کى عمر میں'' قانون'' کى تصنیف کى اور چوبیس سال کى عمر میں خود کو تمام علوم کا ماہر سمجھتا تھا _ (4)

فاضل ہندى کے بارے میں منقول ہے کہ تیرہ سال کى عمر سے پہلے ہى انہوں نے تمام معقول و منقول علوم کو مکمل کرلیا تھا اور بارہ سال کى عمر ے پہلے ہى کتاب کى تصنیف میں مشغول ہوئے تھے _(5)

'' ٹوماس ینگ'' کو برطانیہ کے عظیم دانشوروں میں شمار کرنا چاہئے ، وہ بچپنے ہى سے ایک عجوبہ تھا _ دو سال کى عمر سے پڑھنا جانتا تھا ، آٹھ سال کى عمر میںخود ہى ریاضیات کا مطالعہ شروع کیا ، نو سے چودہ سال کا زمانہ اپنى کلاسوں کے درمیان کے مختصر وقفوں میں فرانسیسى ، اطالوى ، عبرى ، عربى اورفارسى کى تعلیم کا دورہ گزارا اور مذکورہ زبانوں کو اچھى طرح سیکھ لیا _ بیس سال کى عمر میں رویت کى تھیورى پر ایک مقالہ لکھ کر دربارشاہى میں پیش کیا اور اس میں اس بات کى تشریح کى کہ آنکھ عینک کے لینز کى خمیدگى میں ردو بدل کے ذریعہ کیسے واضح تصویر دیکھى جا سکتى ہے _ (6)

اگر آپ مشرق و مغرب کى تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ایسے بہت سے نابغہ ملیں گے _

جناب فہیمى صاحب ، نابغہ بچے ایسے دماغ اور صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں کہ کمسنى میں ہزاروں قسم کى چیزیں یادکرلیتے ہیں اور علوم کى مشکلوں اور کتھیوں کو حل کرتے ہیں ،اور ان کى محیّر العقول صلاحیت لوگوں کو انگشت بدندان کردیتى ہے تو اگر خدا ، حضرت بقیةاللہ ، حجت حق ، علت مبقیہ انسانیت حضرت مہدى کو پانچ سال عمر میں ولى و امام منصوب کردے اور احکام کى حفاظت و تحمل کو ان کے سپرد کردے تو اس میں تعجب کى کیا بات ہے ؟ ائمہ اطہار نے بھى آپ کى کمسنى کے بارے میں پیشین گوئی کى ہے _

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

صاحب الامرکى عمر مبارک ہم میں سب سے زیادہ ہوگى اور زیادہ گمنام رہیں گے_

 

 

1_ اثبات الوصیہ ص 126_
2_ اثبات الوصیہ ص 166_
3_ مناقب ابن شہر آشوب ج 4 ص 401، اثبات الوصیہ ص 174_
4_ ہدیةالاحباب طبع تہران ص 76_
5_ ہدیة الاحباب ص 288_
6_ تاریخ علوم مؤلفہ بى برروسو ترجمہ صفارى طبع سوم ص 432_