پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

دجال كا واقعہ

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھى ظہور کى علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھى پیشانى کے بیچ میں سے ، ستارہ کى مانند چمکتى ہے _ اس کى پیشانى پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانى کى نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگى ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گى _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہى نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہى روزى دیتا ہوں ، میرى طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنى بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھى تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنى خدائی کا دعوى کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھى تک زندہ ہے _ اور آخرى زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _ (1)


علما نے تمیم الدا مى سے ، جو کہ پہلے نصرانى تھا اورسنہ 9 ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا _(2) _

ھوشیار : انگریزى میں دجال کو انٹى کرایسٹ (antlchrlst) کہتے ہیں یعنى مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسى مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھى لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسى کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے _(3) _

اسى رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسى میں مجسم ہوئی تھى اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھى _ یہ و ہى روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھى دنیا میں موجود ہے (4)_

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسى مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(5)

انجیل کى آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنى گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھى نصارى کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسى نے بھى لوگوں کو دجال کے خروج کى خبردى تھى اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسى لئے نصارى اس کے منتظر تھے اور قوى احتمال ہے کہ حضرت عیسى نے جس دجال کے بارے میں خبردى تھى ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسى کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنى پیغمبر ى کا جھوٹا دعوى کیا تھا _ اسى کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسى نبى کو _ (6)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کى احادیث کى کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنى قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے (7)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسى وقت تک قیامت نہیں آئے گى جب تک تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _( 8)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال (9) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گى جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے (10) _

آپ (ع) ہى کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے (11)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتى ہے کہ دجال کسى معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصارى کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کى تفصیل اور احادیث اہل سنت کى کتابوں میں ان ہى طریق سے نقل ہوئی ہیں _ بہرحال اجمالى طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کى جو تعریف و توصیف کى گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے (12) _

دجال کا اصلى قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہى جا سکتى ہے افسانوں کى آمیزش سے اس کس حقیقى صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخرى زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازى میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازى لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکى ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کى کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کى سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کى موت کى گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنى میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کى اور اپنے

 

 

1_ بحارالانوار ج 52 ص 193 ، صحیح مسلم ج 8 ، ص 46 تا ص 87 ، سنن ابى داؤد ج 2 ص 212_
2_ صحیح مسلم ج 18 ص 79 ، سنن ابى داؤدج 3 ص 314
3_ رسالہ یوحنا باب 2 آیت 22
4 _ رسالہ اول باب 2 آیت 18
5 _صحیح مسلم ج 18 ص 79 ، سنن ابى داؤد ج 3
6 _رسالہ دوم یوحنا آیت 7
7 _ بحارالانوار ج 52 ص 197
8 _ سنن ابى داؤد ج 2
9 _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص 113
10_ سنن ابى داؤد ج 2
11_ مجمع الزواید ج 7 ص 333
12_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوى اور اس کى سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _ اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کى خبر دى تھى اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہى آخرى زمانہ میں خروج کرے گا اور اسى سے انہوں نے اس کى طول حیات کا نتیجہ بھى اخذ کرلیا ہے _