پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

دنيا والوں كے افكار

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافى مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدى کى حکومت ہوگى ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومى حالات اور انسان کى عقل و ادراکات کى یہى حالت رہى تو ایک عالمى حکومت کى تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھى جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھى نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہى جا سکتى ہے کہ انسان کى معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعى مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقى کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنى جگہ ثابت ہو چکى ہے کہ خودخواہى اور منفعت طلبى طبیعى چیز ہے اور اسى کسب کمال سعادت طلبى اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش و جانفشانى پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنى طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھى لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھى ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہى کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادى کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کى ضرورت ہے اور اسى احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجى رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہى کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کى تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنى سعادت و کمال کى تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کى سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کى سعادت کا بھى متمنى ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوى ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگى اور خانہ بدوشى کى زندگى بسر کى اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقى کى اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندى اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کى تشکیل ضرورى ہے _ اس فکر کى ترقى اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے اور اپنے ذاتى و خاندانى بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھى آمادہ ہوگئے _ اسى فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگى بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنى سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسى ، نہج سے زندگى گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانى جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھى ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگى بسر کرنے والے انسانوں کى فکر نے اتنى ترقى کى کہ وہ اپنے ملک کى محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کى ترقى سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانى ، نسلى ، شہرى اور دیہاتى اختلافات سے چشم پوشى کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کى سعادت کو اپنى سعادت و کامیابى تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکرى ہم آہنگى و ارتباط قوى ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسى کے مطابق اس ملک کى ترقیاں زیادہ ہوں گى _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانى سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث اور گوناگون تجربات کے بعد ترقى کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کى طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کى فکر نے ترقى کى اور کسى حد تک خودخواہى و کوتاہ نظرى سے نجات حاصل کى لیکن اب بھى خاصى ترقى نہیں کى ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھى علمى و صنعتى ترقى کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھى گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کى آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کى سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینى کى زندگى نہیں گزارسکتا _ عالمى حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کى سعادت و ترقى کى راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کى کوشش کررہا ہے _

بشر کى یہ درونى خواہش کبھى جمہوریت کى صورت میں ظاہر ہوتى ہے کبھى مشرق و مغرب کے بلاؤں کى صورت میں نمایاں ہوتى ہے کبھى اسلامى ممالک کے اتحادیہ کى شکل میں وجود پذیر ہوتى ہے کبھى سرمایہ دارى اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتى ہے _ اس اتحاد کى اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبى کى حکایت کرتى ہیں _

آج انسان کى کوشش یہ ہے کہ عمومى معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دى جائے ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمى مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کى یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبى ایک عالمى انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گى کہ یہ اتحاد بھى محدود ہے لہذا عالمى خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسى درد کى دوا ہى نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑى کردیتے ہیں _

انسان ابھى تجربہ کى راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہى کے احساس کو بھى ختم کرے اور عالمى خطرات و مشکلات کو بھى ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہى اور کوتاہ نظرى انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتى _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کى مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہى میں خود خواہى ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدى شیرازى کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنى آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکى خلقت کا سرچشمہ ایک ہى ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کى اصلاح کیلئے کافى نہیں ہیں _ عالمى اور اقوامى اتحاد کی انجمنوں کى تشکیل ، حقوق بشر کى تنظیم کى تأسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کى بیدارى اور اس کى عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑى طاقتوں کے دباؤں سے ابھى تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھى تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابى حاصل نہیں کر سکى ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کى پیشین گوئی کى جا سکتى ہے _

دنیا کى عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کى پیشین گوئی کى جا سکتى ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادى گرى یا خالص توحید سے _ یعنى انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کى مشنرى کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کى مشنرى کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنى گردن میں ڈال لے اور عالمى مشکللات اور بشرى کى اصلاح آسمانى قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہى جا سکتى ہے کہ انسان کا خداپرستى اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانى ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کى ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہى کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کى حکومت کى زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کى دعوت کو قبول کرے گا

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کى ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسى کى عبادت نہیں کریں گے اور کسى کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسى کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _'' (1)

قرآن مجید اس عالمى انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کى صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دى ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولى افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کى عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنى کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدى موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگى _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کى طرف متوجہ کرے گا اور ان کے اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _ (2)

حضرت على (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنى کى جڑیں کٹ جائیں گى اور عالمى امن کا دور ہوگا '' (3)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومى اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _ (4)


1_ آل عمران /94_
2_ بحار الانوار ج 52 ص 336_
3_ بحارالانوار جلد 52 ص 316_
4_ بحارالانوار ج 52 ص 351_