پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

امام زمانہ عج كا مسكن

امام زمانہ عج کا مسکن

فھیمى : زمانہء غیب میں امام زمانہ کا مسکن کہاں ہے ؟

ہوشیار : آپ (ع) کے مسکن کى تعین نہیں ہوئی ہے _ شاید کوئی مخصوص نہ ہو بلکہ اجنبى کى طرح لوگوں کے در میان زندگى بسر کرتے ہوں اور یہ بھى ممکن ہے دور افتادہ علاقوں کورہا ئشے کیلئے منتخب کیا ہو _ احادیث میں دارد ہوا ہے کہ حج کے زمانہ میں آپ تشریف لاتے اور اعمال و مناسک حج میں شریک ہوتے ہیں لوگوں کوپہچانتے ہیں لیکن لوگ انھیں نہیں پہنچان پاتے _ (1)

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمانہ اسى سرداب میں ،جو کہ آپ سے منسوب ہے اور زیارت گاہ بنا ہوا ہے ، غائب ہوئے ہیں _ اس میں زندگى گزارتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے _ اگر اس سرداب میں موجود ہیں تو دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟ ان کیلئے کھانا پانى کون لے جاتاہے ؟ وہاں سے نکلتے کیوں نہیں؟ عرب کے شاعر نے اس مضمون پر مشتمل کچھ اشعار کہے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے : کیا ابھى وہ وقت نہیں آیا کہ جس میں سرداب اس شخص کو باہرنکالے جسم تم انسان کہتے ہو؟ تمہارى عقلوں پر پتھر پڑگئے ہیں کہ عنقا اور خیالى چڑیا کے علاوہ ایک تیسرا موجود بھى ایجاد کرلیا _

ہوشیار: یہ محض جھوٹ ہے اور عناد کى بناپر اس کى نسبت ہمارى طرف دى گئی ہے _ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے _ کسى روایت میں بیان نہیں ہوا کہ بارہویں امام سرداب میں زندگى گزاتے ہیں اور وہیں سے ظاہر ہوں گے _ کسى شیعہ دانشور نے بھى ایسى بات نہیں کى ہے _ بلکہ احادیت میں تو یہ ہے کہ امام زمانہ (ع) لوگوں کے درمیان ہى زندگى گزارتے ہیں اور ان کے درمیان آمد ورفت رکھتے ہیں _

سدیر صیرفى نے امام جعفر صادق سے روایت کى ہے آپ(ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر اس لحاظ سے حضرت یوسف سے مشابہہ ہیں کہ برادران یوسف بھى آپ (ع) کو نہیں پہچان سکے تھے جبکہ عاقل بھى تھے اور یوسف کے ساتھ زندگى بھى گزارچکے تھے _ لیکن جب یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو جب تک یوسف (ع) نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا اس وقت تک آپ کو نہیں پہچان سکے اور باوجودیکہ یوسف حضرت یعقوب سے اٹھارہ روز کے فاصلہ پر تھے لیکن یعقوب کو آپ کى کوئی اطلاع نہیں تھى _ خدا حضرت حجّت کیلئے بھى ایسا ہى کرے گا _ لوگوں کو اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے _ آپ (عج) لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں ان کے بازار میں تشریف لے جاتے ہیں ، ان کے فرش پر قدم رنجا ہوتے ہیں لیکن انھیں نہیں پہچان پاتا _ اسى طرح زندگى گزارتے رہیں گے _ یہاں تک خدا ظہور کاحکم فرمائے گا _ (2)

 

اما م کى اولاد کے ممالک

جلالى : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ کى بہت سے فرزندہیں جو کہ وسیع و عریض ممالک ظاہرہ ، رائقہ ، صافیہ ، ظلوم اور عناطیس میں زندگى گزارتے ہیں اور آپ کى اولاد میں سے لائق و شائستہ پانچ افراد ، طاہر ، قاسم ، ابراہیم ، عبدالرحمن اور ہاشم ان ممالک پر حکومت کرتے ہیں _ ان ملکو ں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں کى آب و ہوا اور نعمتیں بہشت برین کا نمونہ ہیں _ وہاں مکمل امن و امان ہے ، بھیڑیا اور بکرى ایک جگہ رہتے ہیں _

درندے انسانوں کو کچھ نہیں کہتے _ ان ممالک کے باشندے مکتب امام کے تربیت یافتہ شیعہ اور صالح افراد ہیں ، فتنہ و فساد کا وہاں گزر نہیں ہے _ کبھى کبھى امام زمانہ بھى ان نمونہ ممالک کے معائنہ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ایسى ہى اور سیکڑوں دلچسپ باتیں ہیں

ہوشیار : ان مجہول ممالک کى داستان کى حیثیت افسانہ سے زیادہ نہیں ہے _ ان کا مدرک وہ حکایت ہے جو حدیقة الشیعہ ، انور نعمانیہ اور جنة الماوى میں نقل ہوئی ہے مدعا کى وضاحت کى لئے ہم اس کے سند بیان کرتے ہیں :

داستان اس طرح نقل ہوئی ہے : على بن فتح اللہ کاشانى کہتے ہیں : محمد بن حسین علوى نے اپنى کتاب میں سیعد بن احمد سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا : حمزہ بن مسیّب نے شعبان کى 8 تاریخ سنہ 544 ھ میں مجھ سے بیان کیا کہ عثمان بن عبدالباقى نے جمادى الثانى کى 7 تاریخ سنہ 543 ھ میں مجھ سے حکایت کى کہ احمد بن محمد بن یحیى انبارى نے دس رمضان سنہ 543 ھ میں بتایا کہ : میں اور دوسرے چند اشخاص عون الدین یحیى بن ہبیرہ وزیر کى خدمت میں پہنچے _ اسى مجلس میں ایک محترم اور اجنبى شخص بھى موجود تھا _ اس اجنبى نے کہا : چند سال قبل میں نے کشتى کا سفر کیا تھا ، اتفاقاً ملاح راستہ بھٹک گیا اور ہمیں ایک سربستہ راز جزیرہ پر پہنچا دیا کہ جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم و اطلاع نہیں تھى _ ناچار کشتى سے اترے اور اس سرزمین میں داخل ہوئے _ یہاں احمد بن محمد ان ممالک کى حیرت انگیز داستان اس اجنبى سے تفصیلا نقل کرتے ہیں اور داستان شروع کرتے ہیں _ اس داستان کو سننے کے بعد وزیر مخصوص کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے بعد ہم سب کو بلایا اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک تمہیں کسى سے یہ داستان نقل کرنے کى اجازت نہیں ہے _ جب تک وزیر زندہ تھا ہم نے کسى سے بھى یہ داستان بیان نہ کى _ (3)

اجمالى طور پر داستان کى سند بیان کردى ہے تا کہ قارئین داستان کے ضعف کا اندازہ لگالیں تفصیل کے شائقین مذکورہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسى حکایتوں سے ایسے ممالک کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا _ اول تو اس داستان کا راوى ایک مجہول آدمى ہے کہ جس کى باتوں کا کوئی اعتبارنہیں ہے _ ثانیاً یہ ممکن نہیں ہے کہ روئے زمین پر ایسے ممالک آباد ہوں اور ان کى کسى کو خبر نہ ہو خصوصاً دور حاضر میں کہ تمام زمین کى نقشہ کشى کردى گئی ہے جو دانشوروں کى توجہ کا مرکز ہے اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس داستان سے ایسے خم ٹھوک کر دفاع کیا ہے جیسے اسلام کے مسلم ارکان سے کرتے ہیں _  کہتے ہیں : ممکن ہے وہ ممالک ابھى تک موجود ہوں اور خدا اغیار و نامحرموں سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہو _ لیکن میرے نقطہ نظر سے اس کے جواب کى ضرورت نہیں ہے _ میں نہیں جانتا کہ انھیں ایسے بے مدرک اور ضعیف موضوع کو ثابت کرنے کیلئے کس چیز نے مجبور کیا ہے کہتے ہیں بالفرض ایسے ممالک آج اگر موجود نہ ہوں تو بھى کہا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ زمانوں میں تھے بعد میں نیست و نابود ہوگئے اور ان کے باشندے متفرق ہوگئے ہیں _ یہ احتمال بھى بے بنیاد ہے _ کیونکہ اگر ایسے وسیع اور شیعہ نشین ممالک آباد ہو تے تو بہت سے لوگون کو ان کى اطلاع ہوتى اور ان کے حالات و کوائف اجمالى طور پر سہى تاریخ میں ثبت ہوتے _ یہ بات محال معلوم ہوتى ہے کہ چند بڑے ممالک موجود ہوں اور کسى کو ان کى خبر نہ ہو اور یہ سعادت صرف ایک مجہول شخص کو نصیب ہونے کے بعد ان کے آثار صفحہ روزگار سے اس طرح مٹا دیئے جائیں کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کى تحقیق میں بھى ان کا نام و نشان نہ ملے _

علامہ ، محقق شیخ آقا بزرگ تہرانى مذکورہ داستان کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اسے شک کى نگاہ سے دیکھتے اور لکھتے ہیں _ یہ داستان محمد بن على علوى کى کتاب تغازى کے آر میں نقل ہوئی ہے _ اس سے على بن فتح اللہ کاشانى یہ سمجھ بیٹھے کہ مرقومہ داستان کتاب ہى کا جز ہے _ جبکہ یہ اشتباہ ہے _ ممکن نہیں ہے کہ داستان کتاب کا جز ہوکیونکہ یحیى بن ہبیر کہ جس کے گھر یہ قضیہ پیش آیا وہ سنہ560 ھ میں مر چکا تھا اور کتاب تغازى کے مولف اس سے دوسو سال پہلے گزرے ہیں _ اس کے علاوہ داستان کے متن میں بھى تناقض ہے کیونکہ داستان کے ناقل احمد بن محمد بن یحیى انبارى کہتے ہیں کہ وزیر نے ہم سے عہد لیا کہ مذکورہ داستان کو تم میں سے کوئی بیان نہ کرے اور ہم نے اپنے عہد کو پورا کیا چنانچہ جب تک وہ زندہ رہا اس وقت تک کسى سے بیان نہیں کى _ اس بناپر اس داستان کى حکایت وزیر کى تاریخ وفات 560 کے بعد ہوئی جبکہ داستان کے متن میں عثمان بن عبد الباقى کہتے ہیں : احمد بن محمد بن یحیى انبارى کہتے ہیں کہ یہ داستان سنہ 543 ھ میں مجھ سے نقل کى گئی _(4)

دوسرى جگہ کہتے ہیں : عثمان بن عبد الباقى نے سات جمادى الثانى سنہ 543 ھ میں مجھ سے حکایت کى کہ احمد بن محمد نے دس رمضان سنہ 543 ھ میں مجھ سے بتایا : آپ جانتے ہیں کہ جمادى الثانى کے دو ماہ بعدرمضان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ حادثہ کے رونما ہونے سے دو ماہ قبل ہے یعنى جمادى الثانى میں اسے کسى سے بیان کیا جائے _

ہم امام زمانہ کے محل سکونت کے موضوع میں مجبور نہیں ہیں کہ زبر دستى پوچ دلیلوں سے ''جزائر خضرائ'' جابلقا اور جابرصا کو ثابت کریں یا کہیں : آپ(ع) نے اپنى سکونت کیلئے اقلیم ثامن کا انتخاب کیا ہے _

فہیمى : تو جزیرہ خضراء کى داستان کیا ہے ؟

ہوشیار : چونکہ وقت ختم ہونے والا ہے اس لئے بقیہ مطالب آئندہ جلسہ میں بیان کروں گا اور احباب رضامندہوں تو آئندہ میرے غریب خانہ ہى پر جلسہ منعقد ہوجائے _

1_ بحار الانوار ج 2 ص 152
2_ بحارالانوار ج 52 ص 154_
3_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج 3 ص 58_
4_ الذریعہ ج 5 ص 106_