پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بچّوں كى پرورش اور تعليم و تربيت

بچّوں کى پرورش

عورت کى ایک بہت حساس اور سنگین ذمہ دارى ،بچوں کى پرورش ہے _ بچے پالنا آسان کام نہیں ہے بلکہ بہت صبر آزما اور کٹھن کام ہے _ لیکن یہ ایک بیحد مقدس اور قابل قدر فریضہ ہے جو قدرت نے عورت کے سپردکیا ہے _ یہاں مختصراً چند باتین بیان کى جاتى ہیں _


1_ شادى کا ثمرہ

اگرچہ ایسا اتفاق بہت کم ہى ہوتا ہے کہ مرد عورت بچے پیدا کرنے کى خاطر شادى کریں _ عموماً دوسرے عوامل منجملہ جنسى خواہش اس کا محرک ہوتے ہیں _ لیکن زیادہ مدت نہیں گزرتى کہ آفرینش کا فطرى مقصد ، بچے کى صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے _

بچے کا وجود ، ازدواجى زندگى کے درخت کا پھل اور ایک فطرى آرزوہے _ بے اولاد جوڑے بے برگ و پھل درخت کى مانند ہوتے ہیں _ بچے کا وجود شادى کے رشتہ کو مستحکم کرتا ہے _ بچے کى معصوم گلکاریاں گھر کے ماحول میں رونق پیدا کرتى ہیں _ گھر اور زندگى سے میاں بیوى کى محبت اور دلچسپى میں اضافہ کرتى ہیں _ باپ کو سعى و کوشش کے لئے سرگرم اور ملى کو گھر میں مشغول رکھتى ہیں _

شروع میں شادى ، جنسى ہوس، جسمانى خواہشات اور جذباتى عشق و محبت کى ناپائیدار اور متزلزل بنیادوں پر قائم ہوتى ہے یہى وجہ ہے کہ ہمیشہ اس کے ٹوٹنے کا دھڑکا لگارہتا ہے _ طاقتور ترین عامل جو اس کو پائیدار بنانے کا ضامن ہوتا ہے وہ اولاد کا وجود ہے _ جوانى کا نشاط انگیز دور جلدى گذرجاتا ہے ، جنسى خواہشات اور ظاہرى عشق ٹھنڈا پڑجاتا ہے _ اس ہیجان انگیز دور کى واحد یادگار جو باقى رہ جاتى ہے اورمیاں بیوى کے لئے سکون و باہمى تعلق کے اسباب فراہم کرتى ہے وہ اولاد کى موجودگى ہے _

یہى سبب ہے کہ حضرت امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں : _

''انسان کى سعادت اسى میں ہے کہ ایسى صالح اولاد رکھتا ہو جس سے مد دکى امید کرسکے '' _ (150)

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:_

''نیک و صالح اولاد ایک ایسى خوشبو دار گھاس کى مانند ہے جو بہشت کى گھاس ہو''_ (151)

آنحضرت (ص) کا ارشاد ہے کہ اپنى اولاد کى تعداد میں اضافہ کرو _ کیونکہ میں قیامت کے دن تمہارى زیادتى کے سبب دوسرى اقوام پر فخر کروں گا _ (152)


2_ بچّوں کى تربیت

خواتین کى ایک اور بہت اہم ذمہ دارى بچوں کى تعلیم و تربیت ہے ، اس سلسلے میں ماں باپ دونوں کى ذمہ دارى ہوتى ہے لیکن اس ذمہ دارى کا زیادہ بوجھ ماں کے کندھوں پر ہوتا ہے _ کیونکہ وہى ہر وقت بچوں کى دیکھ بھال اور حفاظت کرسکتى ہے _ اگر مائیں ، ایک ماں کى مقدس اور اہم فرائض سے پورى طرح واقف ہوں تو سماج کے ان نونہالوں کى صحیح طریقے سے پرورش اور تعلیم و تربیت کرسکتى ہیں _ اورایک معاشرہ کى عام حالت بلکہ دنیا کو پورى طرح دگرگوں کرسکتى ہیں _ اس بناء پر بلاخلاف تردید کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے کى ترقى و پسماندگى کا دار و مدار خواتین پر ہوتا ہے _ یہى وجہ ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ :'' ماں کے پاوں کے نیچے جنّت ہے _ (153)

وہ بچے جو آج گھر کے چھوٹے سے ماحول میں تعلیم و تربیت پاتے ہیں کل سماج کے ذمہ دار عورت اور مرد بنیں گے _ ہر وہ سبق جو آج گھر کے ماحول میں ماں باپ کے سایہ میں سیکتھے ہیں کل کے سماج میں اس اس پر عمل کریں گے _ اگر خاندانوں کى اصلاح ہوگى تو معاشرے کى بھى یقینا اصلاح ہوجائے گى چونکہ معاشرہ ان ہى خاندانوں سے تشکیل پاتا ہے _ اگر آج کے بچے بدمزاج ، جھگڑالو، ظالم ، چاپلوس ، دروغ گو ، بد اخلاق ، کوتا فکر ، بے ارادہ ، نادان ، ڈرپوک ، شرمسیلے ، خود غرض ، زرپرست ، لا ابالى اور جبریہ ماحول میں پرورش پائیں گے تو کل بڑے ہو کر ان ہى برى صفات میں مبتلا ہوکر برے معاشرے کى تشکیل کریں گے _

اگر آج آپ سے خوشامد اور چاپلوسى کرکے کوئی چیز لیں گے تو کل ظالموں کى بھى خوشامد کریں گے _ اس کے برعکس اگر آج کے بچے ، سچے ، بہادر، بلند ہمت ، خوش اخلاق ، خیرخواہ بردبار ، ایماندار،رحم دل ، انصاف پسند ، اعلى نفس ، حق گو ، امانت دار، دانا، روشن فکر اور ملائم لہجہ میں بات کرنے والوں کى صورت میںتربیت پائیں گے تو کل یہى اعلى صفات ، کامل صورت میں ظاہر ہوں گی_

اس بناء پر والدین خصوصاً ماؤوں کى اپنے بچوں اور معاشرہ کے سلسلے میں بہت بڑى اور بھارى ذمہ دارى ہوتى ہے _ اگر آپ نے اپنے بچوں کى تربیت کے سلسلے میں صحیح تعلیم و تربیت کے اصولوں پر عمل کیا ، تو یہ آئندہ کے معاشرے کى بہت بڑى خدمت ہوگى اور اگر اس عظیم ذمہ دارى کو انجام دینے میں کوتاہى کى ، تو قیامت کے روز والدین اس کے ذمہ دار ہوں گے _

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں : تمہارى اولاد کا حق یہ ہے کہ تم سمجھو کہ وہ تم سے ہے _اچھا ہو یا برا ، تم سے نسبت رکھتا ہے _ اس کى پرورش اور تنبیہ اور خدا کى جانب اس کى رہنمائی کرنے اور فرماں بردارى میں اس کى مدد کرنے کے سلسلے میں تمہارى ذمہ دارى ہے _ اس کے ساتھ سلوک اس آدمى کا سا کرو کہ یقین رہے کہ اس کے ساتھ احسان کرنے میں نیک اور اچھا بدلہ ملے گا اور بد سلوکى کے مقابلے میں برا بدلہ مے لگا _ (154)

یہاں پر ایک بات کى یاد دہانى کرادیں کہ ہر خاتون، ماں کے فرائض اور صحیح تعلیم و تربیت کرنے کے فن سے واقف نہیں ہوتى ہے بلکہ اس کو یہ رموز سکھانا چاہئے _ یہاں ان مختصراً صفحات میں تربیت کے فن پر بحث نہیں کى جا سکتى اور اس وسیع موضوع کا تجزیہ و تحلیل نہیں کیا جا سکتا یہ موضوع دقیق اور تفصیل طلب ہے جس کے بیان کے لئے ایک الگ کتاب کى ضرورت ہے خوش قسمتى سے اس موضوع پر بہت سى کتابیں لکھى جا چکى ہیں _ دلچسپى رکھنے والى مائیں اس کامطالعہ کر سکتى ہیں اوراپنے ذاتى تجربیوں سے بھى استفادہ کرسکتى ہیں _ اور ہوشیار خواتین تربیت کے اصول و ضوابط پر عمل کرکے اوران کے آثار و نتائج پر توجہ کرکے جلدى ہى تربیت کے فن میں مہارت پیدا کرسکتى ہیں_ اس صورت میں خود بھى قابل قدر علمى خدمات انجام دے سکتى ہیں _ مثلاً اس دلچسپ موضوع پر زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرکرے ، تربیتى امور سے متعلق کتابوں کى تکمیل اور معاشرے کى اصلاح کا بیٹرا اٹھا سکتى ہیں _

البتہ یہاں پر ایک نکتہ کى یاددہانى ضرورى معلوم ہوتى ہے _ بہت سے لوگ صحیح تربیت کے معنى نہیں سمجھتے اورتعلیم و اور تربیت میں فرق محسوس نہیں کرتے _ اور تربیت کو ایک طرح کى تعلیم سمجھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شعراء و حکماء کى پند ونصیحتیں اور مذہبى باتیں یادکراکے اور نیک لوگوں کى سرگزشت سناکر بچے کى مکمل طور پر تربیت کى جا سکتى ہے اور اپنى مرضى کے مطابق بچے مؤدب اور نیک انسان بنایا جا سکتا ہے _ مثلاً ان کے خیال میں دروغ گوئی کى مذمت میں کوئی روایت اور قرآنى آیات بچے کو سکھادیں اور راستگوئی کى فضیلت میں چند حدیثیں زبانى یاد کرادیں _ اور بچے نے انھیں زبانى یاد کرکے لوگوں کے سامنے سنا کر انعام بھى حاصل کرلیا تو گویا وہ راستگو بن جائے گا _

لیکن تربیت کے سلسلے میں اتنا کافى نہیں ہے _ اگر چہ آیات وہ احادیث اور سبق آموز داستانیں یاد کرلینا ، بے سود اور بے اثر نہیں ہوتا لیکن جس قسم کى تربیت کے آثار ہم بچے میں دیکھنا چاہتے ہیں ، اس کى توقع ، اس قسم کے زبانى طریقوں سے نہیں کرنى چاہئے _

اگر ہم بچے کى صحیح اور مکمل تربیت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے مخصوص حالات و شرائط کا ہونا ضرورى ہے _ اس کے لئے ایک ایسا مناسب اور صالح ماحول پیدا کریں کہ بچہ طبعا نیک و صالح اور سچا بن کرنکلے _ جس ماحول میں بچے کى نشو و نما اور پرورش کى جائے _ اگر وہ ماحول ، نیکی سچائی ، امانت دارى ، ایماندارى و پاکیزگى ، نظم و ضبط، شجاعت و خیرخواہی، مہرووفا، انصاف پرورى سعى و کوشش، آزادى ، بلند ہمتى ، غیرت اور فداکارى کا ماحول ہوگا تو بچہ بھى ان ہى صفات کا عادى بنے گا _ اسى طرح اگر ایسے ماحول میں پرورش پائے جہاں خیانت ، بد تمیزى ، جھوٹ ، حیلہ بازى ، چاپلوسى ، ظلم ، بغض و کینہ پرورى ، لڑائی جھگڑے ، ضد ، کوتاہ فکرى ، نفاق ، اور دو غلاپن ہوا ور دوسروں کے حقوق کا لحاظ نہ رکھا جاتا ہو ، تو خواہ مخواہ ہى ان برى صفات کا عادى بن کر فاسد اور بدکردار نکلے گا _

ایسى صورت میں اگر اس کو دینى اور ادبى پند و نصیحتیں زبانى رٹادى جائیں تو بھى اس کى اصلاح نہیں ہوگى _ سینکڑوں آیتیں اور روایتیں اور سبق آموز شعر اور کہانیاں سنائی جائیں مگر اس پر کچھ اثر انداز نہ ہوں گى _ کیونکہ زبانى جمع خرچ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ عملى کردار پیش نہ کیا جائے _ دروغ گو ماں باپ ، آیت و حدیث کے ذریعہ بچے کو راستباز نہیں بنا سکتے _ گندے اور غیر مہذب ماں باپ اپنے عمل سے بچے کو گندہ اور بد تمیز بنادیتے ہیں _

بچہ جس قدر آپ کے اعمال و کردار اور طور طریقوں پر غور کرتا ہے اتنا آپ نصیحتوں اور باتوں پر توجہ نہیں دیتا _ لہذا جو والدین اپنے بچوں کى اصلاح اور تربیت کرنا چاہتے ہیں انھیں چاہئے پہلے خاندان کے ماحول ، خود اپنے باہمى روابط ، اور اخلاق و کردار وعمل کى اصلاح کریں تا کہ ان کے بچے خودبخود نیک اور شائستہ نکلیں _

 

150_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 96
151_وسائل الشیعہ ج 15 ص 97
152_وسائل الشیعہ ج 15 ص 96
153_مجمع الزوائد ج 8 ص 138
154_بحارالانوار ج 74 ص6