پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

كھانا پكانا

کھانا پکانا

امورخانہ دارى میں ایک اہم کھانا پکانا بھى ہے جس کے ذریعہ خواتین کے ذوق اور سلیقہ کا پتہ چلتا ہے _ ایک سلیقہ مند اور باذوق گھر کى مالکہ خرچ میں بہترین اور لذیذغذائیں تیار کرتى ہے لیکن ایک بدسلیقہ خاتون زیادہ خرچ کرکے بھى مزیدار کھانے تیار نہیں کرپاتى _ خواتین لذیذ اور مزیدار

کھانوں کے ذریعہ اپنے شوہر کو گھر کى طرف راغب کرسکتى ہیں جو خوا تین اس گر سغ واقف ہیں ان کے شوہر خوش ذالقہ کھانوں کے شوق میں ہو ٹلوں میں نہیں گنواتے _

حضرت رسول خدا (ع) فرماتے ہیں : تم میں سے بہترین عورت وہ ہے جواپنے بدن میں خوشبو لگائے _ کھا نا پکانے کے فن میں ماہر ہوا ور زیادہ خرچ نہ کرے ایسى عورت کا شمار خدا کے عمال میں ہو گا اور خدا کے عامل کو بھى شکست اور پشیمانى کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا _ (128)

اس موقعہ پر کھا نا پکا نے فن پز بحث کرنا اور کھانے تیارکرنے کى ترکیب بیان کرنا مضف کے موضوع سخن سے خارج ہے _

البتہ اس سلسلے میں صحت بخش غذاؤں اور کھانا پکانے کے ماہرین کى لکھى ہولى رکتا بیں آسانى سے دستیاب ہیں ان کتابوں کے مطالعہ اور اپنے ذاتى تجربہ و سلیقہ سے کام لے کر خوش ذائقہ اور ، قوت بخش کھانے تیار کئے جا سکتے ہیں _ البتہ یہاں پر چند باتوں کا ذکر کر ناضرورى معلوم ہوتا ہے :

1 _ کھانا صرف لذت حاصل کرنے اور پیٹ بھرنے کى خاطر نہیں کھا یا جا تا بلکہ کھا نا کھانے کا مقصد صحت و سلامتى کا تحفظ اور بدن کے خلیوں کو زندہ رکةنے کے لئے جن چیزوں کى ضرورت ہوتى ہے ان کو بہم پہو نچا نا ہے _ لازمى اجزاء مختلف قسم کى غذاؤں ، پھلوں ، سبزیوں ، دالوں اور گوشت و غیرہ میں پائے جاتے ہیں _ مجموعى طور پر انھیں چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے _

1_ پانی

2_ معدنى مواد مثلا کیسلیشم _ فاسفورس ، لوہا ، تانبا

3_ نشاستہ (STARCH) والى چیزیں

4_ چربی

5_ پروٹین

6_ مختلف و ٹامن مثلاوٹا من بى ، وٹامن سى ، وٹامن ڈى و غیرہ

انسان کے بدن کازیادہ تروزن پانى کے ذریعہ تشکیل پاتا ہے _ پانى منجمد غذاؤں کو حل کرتا ہے تا کہ آنتوں کے ذریعہ جذب ہو جائیں _ بدن کے درجہ حرارت کو کنٹروں کرتا ہے _ معدنى مواد دانتوں اور ہڈیوں کى نشو و نما اور عضلات کے کام کى تنظیم کے لئے بھى لازمى ہے _

نشاستہ اور شکروالى چیزیں انرجى پیدا کرتى ہیں چربى انرجى اور حرارت پیدا کرتى ہے پروٹین بدن کى نشو و نما اور پرانے کى تجدید کیلئے ضرورى ہے ، وٹامن بدن کى نشو و نماہڈیوں کى اور اعصاب کى تقویت اور بدن کى مشینرى کو چلانے اور آنتوں میں غذاؤں کے جذب ہونے میں مدد دیتے ہیں _ مذکورہ مواد انسان کى صحت و سلامتى کے تحفظ اور زندہ رہنے کے لئے بیحد ضرورى ہیں _ ان میں سے ہر ایک کا اہم رول ہے اور وہ بدن کى کسى نہ کسى ضرورت کو پورا کرتے ہیں _ ان میں سے کسى کا بھى فقدا ن یا کمى یا زیادتى انسان کى زندگى و سلامتى کے لئے مضر ہے _ اور علاج اور خطرناک امراض پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے _ سلامتى و بیمارى ، عمر کى درازى اور کوتاہى ، اعصاب کى سلامتى و نفسیاتى بیماریاں ،خوشى و افسردگى ، خوبصورتى و بدصورتى ، غرضکہ وہ تما م حادثات و اثرات جن سے انسان کا بدن دوچار ہوتا ہے ، انسب کا غذا کى کیفیت سے گہرا تعلق ہے _

ہم جو کچھ کھاتے ہیں اسى سے ہمارى نشو ونما ہوتى ہے اگر انسان جان لے کہ کیا چیز اور کتنى مقدار میں کھانا چاہئے تو کم بیمار پڑے گا _ بد قسمتى تو یہى ہے کہ بدن کى غذائی ضروریات اور کھانے پینے کى چیزوں کى خاصیت پر توجہ دیئےغیر ، انسان اپنے پیٹ کو مزیدار غذاؤں سے بھر لیتا ہے اور اپنى صحت و سلامتى کو خطرے میں ڈال دیتا ہے _ اور جب ہوش آتا ہے اس وقت پانى سرسے اونچا ہوچکا ہوتا ہے اور بدن کى نازک مشینرى فرسودہ اور تباہ ہوچکى ہوتى ہے _ اس وقت اس طبیت اوراس طبیب یہ دوا اور وہ دوا کى تلاش شروع ہوتى ہے لیکن افسوس کہ رنگ و روغن سے فرسودہ مشینرى کى تعمیر و مرمت نہیں ہوسکتى _ یہى سبب ہے کہ پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے :'' پیٹ تمام بیماریوں کا مرکز ہے '' _ (129)

عموماً غذا کا انتخاب کرنا عورتوں کى ذمہ دارى ہوتى ہے _ لہذا کہ جا سکتا ہے کہ خاندان کی صحت و سلامتى ان کے ہاتھ میں ہوتى ہے _ اس بناء پر ایک خاتون خانہ کے کندھوں پر ایک بہت بڑى ذمہ دارى ہے اوراگراس سلسلے میں ذرا اسى بھى کوتاہى کى تو آپ کى ، شوہر اور بچوں کى تندرستى سخت خطرے سے دوچار ہوسکتى ہے _ اس کے علاوہ کھانا پکانے کے فن میں مہارت رکھنے والے کو ایک مکمل غذا شناس بلکہ ایک ماہر طبیب بھى ہونا چاہئے _ اس کا مقصد صرف گھر والوں کا پیٹ بھرناہى نہ ہو بلکہ اسے چاہئے کہ پہلے مرحلے میں ،صحت و سلامتى کى حفاظت اور بدن کى غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جن مواد کى ضرورت ہوتى ہے اس کا دھیان رکھے _ اور اس بات سے واقف ہو کہ کھانے پینے کى چیزوں میں کون کون سے اجزاء شامل کرنا لازم ہے _ اور کتنى مقدار میں ہونا چاہئے _ اس کے بعد بدن کى گوناگوں ضروریات کے مطابق ، کھانے پینے کى چیزوں کا انتخاب کرے _ اور اسے خوراک کے پروگرام کا جزو قراردے _ اسى کے ساتھ کوشش کرے کہ ضرورى اور مفید غذاؤں کواس طرح تیار کرے کہ وہ خوش ذائقہ اور مزیدار بھى ہوں _

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : اپنے شوہر کى نسبت عورت کا فرض ہے کہ گھر کے چراغ کو روشن کرے اور اچھى و عمدہ غذائیں تیار کرے _ (130)

ایک عورت نے رسول خدا (ص) کى خدمت میں عرض کیا : شوہر کے گھر میں عورت کے خدمت کرنے کى کیا فضیلت ہے ؟ فرمایا: گھر کو چلانے کے لئے جو بھى کام انجام دے ، خدا اس پر لطف کى نظر فرمائے گا _ اور جو شخص خدا کا منظور نظر ، ہوگا وہ عذاب الہى سے محفوظ رہے گا '' _ (131)

2_ انسان کى غذائی ضروریات ہمیشہ یکسان نہیں ہوتیں بلکہ مختلف سن و سال اور حالات کے مطابق اس میں فرق پیدا ہوتا رہتا ہے _ مثلاً چھوٹے بچے اور نوجواں چونکہ نشو و نما کى حالت میں ہوتے ہیں ان کو معدنى مواد خصوصاً کیلشیم کى زیادہ ضرورت ہوتى ہے ان کى غذا میں ان چیزوں کو شامل کرنا چاہئے جن میں معدنى مواد پایا جاتا ہو _ اسى طرح بچے اور نوجوان چونکہ زیادہ فعال ہوتے ہیں بھاگ دوڑ اور کھیل میں ان کى انرجى زیادہ صرف ہوتى ہے اس لئے ان کو انرجى والے مواد مثلاً چربى ، شکر اور نشاستہ والى غذاؤں کى ضرورت ہوتى ہے اوران کى غذا میں ان چیزوں کا لحاظ رکھنا چاہئے _ اسى طرح ہر انسان کى غذا ئی ضرورت کا تعلق اس کے شغل اور کاموں کى نوعیت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے مثلاً ایک مزدور پیشہ انسان کو چربى ، شکر اور نشاستہ کى زیادہ ضرورت ہوتى ہے کیونکہ اس کے کام میں محنت و مشقت زیادہ ہے لیکن جن کے شغل آسان اور زیادہ محنت طلب نہیں ان کو ایک مزدور کى طرح مذکورہ مواد کى ضرورت نہیں ہے _ گرمى کے موسم اور جاڑے کے موسم کے غذائی پروگرام بھى یکسان نہیں ہوتے _ ایک بیمار کا غذائی پروگرام بھى سالم افراد کے غذائی پروگرام سے مختلف ہوتا ہے _ عموماً ایک بیمار کى لئے ہلکى اور مقوى غذائیں تیار کرنى چاہئیں _ اس کے کھانے کے متعلق ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہئے _ بہر حال ایک خانہ دار خاتون کو ان تمام باتوں کا دھیان رکھنا چاہئے اور ہر فرد کى احتیاج کے مطابق اس کے لئے غذا تیار کرنى چاہئے _

3_ ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب انسان کا سن چالیس سے تجاوز کرجاتا ہے تو عموماً موٹا پے کى بیمارى میں مبتلا ہوجاتا ہے _ بعض لوگ موٹا پے کو صحت کى علامت سمجھیں لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے _ موٹا پے کو ایک خطرناک بیمارى کہا جاتا ہے _ جس کے نتیجہ میں گوناگوں امراض پیدا ہوجاتے ہیں _ موٹے لوگ مختلف امراض مثلا ًدل کے مرض ، بلڈ پریشر،رگوں کا سخت ہوجانا ، نیز گردے اور جگرکى بیماریوں ، دیا بیطس اور گال بلیڈر (CALL BLADDER) جیسى بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں _ ڈاکٹر کے تجربے اور بیمہ کمپنیوں کے اعداد و شمار سے اس بات کى تصدیق ہوتى ہے کہ دبلے آدمیوں کى عمر موٹے آدمیوں سے زیادہ لمبى ہوتى ہے _ چالیس سال کے بعد انسان کے بدن کى چستى میں کمى آجاتى ہے _ جس کے سبب اس کى فعالیت بھى گھٹ جاتى ہے _ اس لئے اسے چربى ، نشاستہ اور شکر والے اجزا کى کم ضرورت ہوتى ہے _ اس سن میں بدن میں طاقت کو پیدا کرنے والى مشینرى ، جو کہ کالریوں (CALORIES) کو انرجى میں تبدیل کرتى ہے ، اپنا کام کدرتى ہے جس کى وجہ سے کالریاں تبدیل نہیں ہوتیں اورکمراور شریانوں کے اطراف اور بدن کے اعضاء میں جمع ہوکر موٹا پا پیدا کردیتى ہیں _ موٹا پے کا بہترین علاج کم خورى ہے خصوصاً چربى اور شکر و نشاستہ والى غذاؤں میں کم کردنى چاہئے _

جن خواتین کو اپنے شوہر سے محبت ہے انھیں چاہئے کہ جو نہى اپنے شوہر میں موٹا پے کے آثار و علائم دیکھیں فوراً اس کے غذائی پروگرام پر توجہ کریں _ دھیان رکھیں کہ پر خورى نہ کرے _ چکنائی ، مٹھائی ، ملائی و غیرہ کے استعمال پر پابندى لگادیں _ شکر اور نشاستہ والى غذائیں مثلاً روٹی، چاول ، موٹا پا پیداکرنے میں اہم کردار ادا کرتى ہیں _ ایسا کام کریں کہ مردان کا استعمال کم کریں اوراس کى جگہ پر پروٹین والى غذائیں مثلاً انڈا، کلیجى ، گائے و بکرى اور چڑیوں کا گوشت ،مچھلى اور پنیر کا زیادہ استعمال کرائیں _ کیونکہ ان غذاؤں سے بھوک بھى مٹ جائے گى اور ان میں کالرى بھى کم پائی جاتى ہے _ اس عمر میں دودھ سے بنى چیروں کا استعمال بھى مناسب ہے _ اگر ڈاکٹر نے پرہیز نہ بتایا تو پھل اورسبزیاں بھى مناسب ہیں _ اس سلسلے میں داکٹر سے بھى مشورہ لے لیجئے جو خواتین اپنے شوہر سے محبت کرتى ہیں ان کو ان تمام نکات کو پورا لحاظ رکھنا چاہئے _ در حقیقت شوہر کى زندگى اور سلامتى ان کے ہاتھ میں ہے _ وہ جو کچھ بھى پکاکے سامنے رکھ دیں گى وہ اسے کھانے پر مجبور ہے _ البتہ اگر شوہر سے دل بھر گیا ہے اور بیوہ ہونا چاہتى ہیں اور چاہتى ہیں کہ اس کو اس طرح سے قتل کردیں کہ کسى کو بھى ان کے جرم کا پتہ نہ چلے اور پولیس کے ہاتھوں سے بچ جائیں نوان کے لئے یہ بہت آسان نسخہ ہے کہ گھى سے تر تراتى ہوئی مزیدار غذائیں اور مٹھائیان تیارکرکے شوہر کو کھلائیں اور اصرار کرکے اس کو خوب ڈٹ کرکھانے پر آمادہ کریں _ اس کے کھانے میں روٹى اور چاول کااستعمال کرانے کے لئے اس کے سامنے لذیذ اورمرغن کھانوں سے بھر ادستر خوان بچھائیں تا کہ وہ ان غذاؤں سے اپنا پیٹ خوب بھر لیا کرے اگر اس پروگرام پر عمل کیا توہ بیوہو ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گى _ جلد ہى اس سے چھٹکار امل جائے گا _ مزید بر آن بیوى کى خدمات اور خاطر تواضع کے سبب اس سے خوش بھى رہے گا _

ممکن ہے قارئین گرامى کہیں کہ مذکورہ پروگرام دولتمند طبقے کے لئے تو اچھا ہے جو انواع و اقسام کى لذید اور مہنگى غذائیں تیار کرنے پر قادر ہیں لیکن تیسرى درجے کے طبقے کے لئے ، کہ جو قوم کى اکثریت پر مشتمل ہے اور شب و روز کى محنت و مشقت کے بعد دو لقموں سے اپنا پیٹ بھر نے پر مجبور ہے ، قابل عمل نہیں _ اس طبقے کے لوگ بدن کى ضروریات کو پورا کرنے والے غذائی پروگرام پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں ؟

لیکن قارئین محترم کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ خوش قسمتى سے بدن کے لئے لازمى مواد ،انھیں سادہ اور فطرى غذاؤں میں کافى مقدار میں پایا جاتاہے _ اگر خاتون خانہ ، مقوى اور صحت بخش غذاؤں سے آشنا ہو اور کھانا پکانے کے فن میں بھى مہارت رکھتى ہو تو معمولى پھلوں ، تر کاریوں والوں مثلاً چنے ، ماش اور مسور کى دالوں ، گیہوں ، جو ، آلو پیاز ، ٹماٹر گاجر اور مختلف سبزیوں سے اس طرح کھانا تیار کرسکتى ہیں کہ مزیدار بھى ہو اور صحت و سلامتى کے لئے بھى فائدہ مند ہو _ البتہ سلیقہ اور ہوشیارى شرط ہے _

 

128 _ وسائل الشیعہ ج 14 ص 15
129_بحار الانوار ج 62 ص 390
130_ مستدرک ج 2 ص 551
131_بحارالانوار ج ص103