پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

شوہر كے رشتہ داروں كے ساتھ ميل ملاپ كے ساتھ رہئے

شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ میل ملاپ کے ساتھ رہئے

زندگى کى مشکلات میں سے ایک مشکل ، شوہر کے رشتہ داروں سے بیوى کا اختلاف ہے _ اکثر عورتیں اپنے شوہر کى ماں ، بہن اور بھائیوں سے مل جل کرنہیں رہیں _ اور ہمیشہ میں لڑائی جھگڑا رہتاہے ایک طرف بیوى کوشش کرتى ہے کہ اپنے شوہر پر اس طرح سے قابض ہوجائے کہ وہ دوسروں حتى کہ اپنى ماں بہن اور بھائی پر توجہ نہ کرسکے _ او ان کے تعلقات کو ختم کر نے کى کوشش میں لگى رہتى ہے _ برا بھلا کہتى ہے _ شوہر سے جھوٹى شکایتیں کرتى ہے _ لڑائی جھگڑا کرتى ہے _ دوسرى طرف شوہر کى ماں خود کو اپنے بیٹے اور بہوکا مالک و مختار سمجھتى ہے اور ہر طرح سے اس بات کى کوشش کرتى ہے کہ اپنے بیٹے کو اپنے قابومیں رکھے اور نووارد بہواس کے حقوق پر قبضہ نہ جمالے _ اسى غرض سے بہوکے کاموں میں عیب نکالتى ہے ، اسے برا بہلا کہتى ہے _ جھوٹ و فریب سے کام لیتى ہے _ اور اس طرح ہر روز آپس میں لڑائی جھگڑا رہتا ہے _ خاص طور پر اگرایک گھر میں ساتھ رہتے ہوں _ اگر ان میں سے کوئی ایک یادونوں نادان اور ضدى ہوں تو بات بہت زیادہ بگڑ اجانے کا امکان ہے _ یہاں تک کہ مارپیٹ اور خودکشى تک کى نوبت آجاتى ہے _ ساس بہودن رات جھگڑئے اور زورآزمائی میں مشغول رہتى ہیں لیکن پریشانى اور غم و غصہ مرد کے حصہ میں آتا ہے _

اصل مشکل تو یہى ہے کہ دونوں طرف ایسے افراد ہیں کہ جن سے مرد آسانى کے ساتھ دستبردار نہیں ہوسکتا _ ایک طرف اس کى بیوى ہے جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر سینکڑوں امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ اس کے گھر آئی ہے تا کہ اس کى اور اس کے گھر کى مالک بن جائے _ ضمیر کہتا ہے ، اس کى خوشى و مرضى کے اسباب فراہم کروں اور اس کى حمایت کروں _ اس کے علاوہ وہ اس کى زندگى کى دائمى شریک اور اس کى بیوى ہے اس کى حمایت نہ کرنا مناسب نہیں _ دوسرى طرف سوچتا ہے کہ میرے ماں باپ نے سالہا سال میرى خاطر تکلیفیں اٹھائیں _ بڑى امیدوں اور آرزؤں کے ساتھ مجھے پالا پوسا اور بڑا کیا _ مجھے پڑھا لکھایا ، روزگار سے لگایا _ میرى شادى کى _ وہ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ ضعیفى میں ان کا سہارا بنوں _ یہ بات بھى درست نہیں کہ ان سے قطع تعلق کرلوں اور انھیں ناراض کردوں _ اس کے علاوہ زندگى میں ہزاروں نشیب و فراز آتے ہیں _ پریشانى ، دوستى ، دشمنى ، حادثے، موت غرضکہ طرح طرح کى مشکلیں در پیش ہوتى ہیں ایسے حساس موقعوں پر حامى و مددگار کى ضرورت ہوتى ہے اور مصیبت کے وقت جو میرے کام آئیں گے اور میرے اور خاندان کى مدد حمایت کریں گے وہ صرف میرے ماں باپ ہى ہوں گے اس وسیع دنیا میں بے یار و مددگار بن کر نہیں رہا جا سکتا _ اپنے رشتہ دار بہترین پناہ گاہ ہوتے ہیں ان سے دستبردار نہیں رہا جا سکتا _

اس موقع پر ایک عاقل انسان اپنے آپ کو بڑى مشکل میں گرفتار پاتاہے _ اپنى بیوى کى بات سنے اور ماں باپ کو چھوڑدے یا ماں باپ کى مرضى کے مطابق کام کرے اور بیوى کو رنجیدہ کردے _ اور ان میں سے دنوں باتیں اس کے لئے امکان پذیر نہیں ہوتیں اس لئے مجبور ہے کہ حتى الامکان دونوں کو خوش رکھنے کى کوشش کرے_ یہ کام بہت دشوار ہے لیکن اگر بیوى سمجھدار اور موقع شناس ہو اور ہٹ دھرمى سے کام نہ لے تو یہ مشکل آسان ہوجاتى ہے _ ایسے ہى موقع پر مرد ، اپنى بیوى سے جو کہ اس سے سب سے قریب اور اس کى سب سے بڑى غمگسار ہوتى ہے تو توقع کرتا ہے کہ اس مشکل کو حل کرنے میں اس کى مدد کرے _ بہو اگر اس کے سامنے خاکسارى دکھائے، اس کا احترام کرے ، اس سے محبت کا اظہار کرے ، کاموں میں اس سے صلاح و مشورہ لے، اس کى مدد کرے ،اور اس کے ساتھ بناہ کرنے کى کوشش کرے تو وہى ساس اس کى سب سے بڑى حامى و مددگار ثابت ہوسکتى ہے _

انسان اپنى خوش اخلاقى اور اظہار محبت کے ذریعہ ایک گروہ کو اپنا دوست اور ہمدرد بنالیتا ہے ، کیا افسوس کا مقام نہیں کے اپنے غرور و خود غرضى اور ہٹ دھرمى کے سبب ان سب محبت کرنیوالوں سے ناتہ توڑلے _ کیا آپ کو اس بات کى فکر نہیں کہ زمانے کے نشیب و فراز ، سختیوں اورپریشانیوں میں انسان کو دوسروں کى مدد کى ضرورت ہوتى ہے ، ایسے وقت میں صرف اپنے عزیز و اقارب ہى کام آتے ہیں

کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ خوش اخلاقى اور میل محبت کے ساتھ اپنوں کے ساتھ مل جل کر رہئے تا کہ انس ومحبت کى لذتوں کا لطف اٹھایئےور ایک گروہ آپ کا حقیقى معنوں میں حامى و پشت پناہ ہو _ کیا یہ مناسب ہے کہ غیروں کے ساتھ تو دوستى بنھایئےور اپنوں سے قطع تعلق کرلیجئے _ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ مصیبت کے وقت اکثر دوست انسان کا ساتھ چھورڈیتے ہیں لیکن وہى عزیز رشتہ دارجن سے آپ نے قطع تعلق کرلیا تھا آپ کى مدد کے لئے دوڑتے ہیں کیونکہ یہ خونى رشتے ہوتے ہیں اور انھیں آسانى سے توڑا نہیں جا سکتا _

مثل مشہور ہے کہ اگر اپنے عزیز رشتہ دار انسان کا گوشت بھى کھالیں تو اس کى ہڈیاں دور نہیں پھکیں گے _

حضرت علیہ علیہ اسلام فرماتے ہیں : انسان اپنے عزیز و اقارب سے کبھى بے نیاز نہیں رہ سکتا _ خواہ مالى ودولت اور اولاد رکھتا ہو _ ان کے التفات و احترام کى ضرورت ہوتى ہے وہى لوگ ہر طرح سے (ہاتھ اور زبان سے ) اس کى مدد کرتے ہیں _ اپنے عزیز و رشتہ دار بہتر طریقے سے دفاع کرسکتے ہیں _ مصیبت کے وقت سب سے پہلے وہى اس کى مدد کو دوڑتے ہیں _ جو شخص اپنے رشتہ داروں سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے گویا وہ ایک ہاتھ ان سے کھینچ لیتا ہے لیکن در اصل بہت سے ہاتھوں سے


محروم ہوجاتا ہے _ (59)

خواہر عزیزاپنے شوہر کى خوشنودى کے لئے ، اپنے سکون و آرام کے لئے ، اپنے سچے خیرخواہ اور حامى ومددگار پیداکرنے کے لئے اور اپنے شوہر کى محبت حاصل کرنے کى غرض سے اپنے اور اپنے شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ میل ملاپ کے ساتھ رہیئے_ بیجا ضد ،تکبر و جہالت سے دامن بچایئے عاقل و دانا بنئے _ اپنے شوہر کى فکروں میں اضافہ نہ کیجئے _ ایثار و قربانى سے کام لیجئے _ تا کہ خدا اور اس کے بندوں کى نظروں میں آپ محبوب و محترم بنى رہیں _

59_ بحار الانوار ج 74 ص 101