پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

شوہر كى رضامندى ضرورى ہے ، ماں كى نہيں

شوہر کى رضامندى ضرورى ہے ، ماں کى نہیں

لڑکى جب تک ماں باپ کے گھر میں رہتى ہے اسے ان کى مرضى کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے لیکن جب اس کى شادى ہوجاتى ہے اور وہ شوہر کے گھر چلى جاتى ہے تو اس کے فرائض بھى بدل جاتے ہیں _

شادى کے بعد اسے چاہئے کہ شوہر کى دیکھ بھال کرے اور اس کى رضامندى اور خوشنودى کو ہر چیز پر مقدم سمجھے _ حتى کہ جہاں پر ماں باپ اورشوہر کى خواہش میں تصادم ہورہا ہو وہاں صلاح اسى میں ہے ، کہ شوہر کى اطاعت کرے اور اس کى مرضى کے مطابق عمل کرے _ خواہ اس کے ماں باپ کى رنجیدگى اور ناراضگى کا سبب ہى کیوں نہ بنے _ کیونکہ شوہر کى خوشنودى حاصل کرنے سے ، انس و محبت کا رشتہ جو کہ شادى شدہ زندگى کى بقا کا ضامن ہوتا ہے ، مستحکم تر ہوجائے گا _ لیکن اگر ماں کى خواہش و مرضى کو اولیت دى تو ممکن ہے اس مقدس عہد و پیمان میں تزلزل پیدا ہوجائے یا ٹوٹ جائے _ کیونکہ بہت سى مائیں صحیح تربیت اور اعلى فکر کى حامل نہیں ہوتیں _ انھوں نے اب تک اس بات کو نہیں سمجھاہے کہ لڑکى اور داماد کوان کے حال پر آزاد چھوڑدینے ہى میں ان کى بہترى ہے تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے مانوس ہوں اور مفاہمت پیدا کریں _اپنے حالات کے مطابق اپنى زندگى کے پروگرام کو تیارکرکے اس پر عمل کریں اور اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو مشورہ اور مفاہمت سے اسے حل کریں _

صحیح تعلیم و تربیت سے عارى خواتین ، چونکہ اس حقیقت کو جو عین مصلحت کے مطابق ہے سمجھ نہیں باتیں اس لئے اس فکر میں رہتى ہیں کہ داماند کو اپنى مرضى کے مطابق چلائیں _ اسى لئے براہ راست اور بالواسطہ طور پر ان کے امور میں مداخلت کرتى ہیں اور اس مقصد کے تخت اپنى بیٹى سے ، جو کہ ابھى جوان اور ناتجربہ کارہے اور اپنى بھلائی برائی سے پورى طرح آگاہ نہیں ہے ، استفادہ کرتى ہیں اس کو داماد پر اثر انداز ہونے کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتى ہیں _ برابر حکم دیتى رہتى ہیں کہ اپنے شوہر سے کس طرح برتاؤ کرو ، کیا کہو ، کیا نہ کہو _ سادہ لوح لڑکى چونکہ اپنى ماں کو اپنا خیرخواہ اور مصلحت اندیش ، سمجھتى ہے اس لئے اس کى اطاعت کرتى ہے اور اس کے کہنے پر عمل کرتى ہے _ اگر داماد ان کى مرضى کے مطابق چلتا رہا تو کیا کہنے _ لیکن اگر اس نے سرتابى کو تو لڑائی جھگڑا ، رسہ کشى اور ضد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے _ یہ نادان عورتیں ممکن ہے اس سلسلے میں اس قدر سختى اور ہٹ دھرمى سے کام لیں کہ اپنے بیٹى داماد کو اپنى ضد اور خود سرى پر قربان کرکے ان کى زندگیاں تباہ کردیں _ بجائے اس کے کہ لڑکى کو نصیحت کریں ، ساتھ نبھانے گى ترغیب دلائیں ، تسلى دیں ، برابر اس کے شوہر کى برائیاں کرتى رہتى ہیں _ مثلاً ہائے میرى بچى کى قسمت پھوٹ گئی _ کیسا خراب شوہر اس کے پلے پڑاہے کیسے اچھے اچھے رشتے آئے تھے _ فلان کى زندى کیسى اچھى گزرہى ہے _ میرى بھانجى کو دیکھو اس کے کیا ٹھاٹ باٹ ہیں _ فلاں اپنى بیوى کے لئے کیسے اچھے اچھے لباس لاتا ہے _میرى لڑکى بھلا کسى سے کم ہے جو ایسى زندگى گزارہے ؟ ہائے میرى بیٹى کے کیسے نصیب ہیں _ اس قسم کى باتیں جو ہمدردى اور خیرخواہى کے طور پرادا کى جاتى ہیں سادہ لوح لڑکى کو شوہر اور زندگى کى جانب سے بدظن اور سرومہر بنادیتى ہیں اور بہانہ بازیوں اور باہمى رنجش کے اسباب فراہم کردیتى ہیں _ لڑکى کے دل میں زہر آگین خیالات سرایت کرجاتے ہیں اور وہ بہانے تلاش کرکے اپنے شوہر سے لڑتے جھگڑتى اور اسے اذیت میں مبتلا کرتى ہے _ خود بھى اس کى حمایت میں کھڑى ہوجاتى ہیں اور زبانى و عملى طور پر اس کى تائید کرتى ہیں اور کامیابى حاصل کرنے کے لئے کسى بھى چیز حتى کہ طلاق دلانے اور اپنى بیٹى کا گھر اجاڑنے سے بھى دریغ نہیں کرتیں _ ذیل کى داستانوں پر توجہ فرمایئے_

ایک تیس سالہ عورت نے اپنى پچاس سالہ ماں کو ، جو کہ اس کو اپنے شوہر سے جدا کردینے کا باعث بنى تھى ، تھپڑماردیا _ عورت نے کہا کہ میرى ماں مجھ سے میرے شوہر کى بے حد برائی کیا کرتى تھى اور اسے گھر اور خاندان سے بے تعلق رہنے کا الزام دیا کرتى تھى _ آخر کار مجھے اپنے شوہر سے اختلاف پیدا ہوگیا اور میں اس سے طلاق لینے پر تیار ہوگئی لیکن فوراً ہى مجھے اپنے فعل پر پشیمانى کا احساس ہو ا لیکن اس پشیمانى کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ میرے شوہر نے علیحدہ ہونے کے چھ گھنٹے بعد ہى اپنى خالہ کى لڑکى سے منگنى کرلى اور میں نے فرط غم سے اپنى ماں کو ماردیا_ (75)

اى 39 سالہ مرد اپنى بیوى اور ساس کے ہاتھوں اتنا پریشان ہوا کہ اس نے خودکشى کرلى _ اس نے جو خط چھوڑ اس میں لکھا تھا چونکہ میرى بیوى ، جس شہر میں ، میں کام کرتا ہوں ، آنے پر راضى نہیں ہوتى اور اپنے ناروا سلوک سے مجھے اس قدر اذیت پہونچاتى ہے کہ میں اس سے نجات حاصل کرنے کى غرض سے اپنى زندگى کا خاتمہ کررہا ہوں میرى موت کى ذمہ دار میرى بیوى اور اس کى ماں ہے _ (76)

ایک مرد نے اپنى ساس کى دخل اندازیوں سے پریشان ہوکر خودکشى کرلى _ (77)

ایک مرد نے جو اپنى سا س کى بیجا مداخلتوں کے سبب بے حد تنگ آگیا تھا ، اس کو ٹیکسى سے باہر پھینک دیا _ (78)

ظاہر ہے اگر لڑکیاں اس قسم کى نادان اور خود غرض ماؤوں کى اطاعت و فرمانبردارى کریں گى اور ان کے غلط خیالات کا اثر قبول کریں گى تو یقینا اپنے بسے بسائے گھر کو خود اپنے ہاتھوں تباہ کردیں گى _

لہذا جو عورت خوش و خرم زندگى گزارنے اور اپنى شادہ شدہ زندگى کو برقرار رکھنے کى خواہشمند ہے اسے چاہئے کے بغیر سوچے سمجھے اپنى ماں کے افکار و خیالات کو قبول نہ کرے اور اسے سو فیصدى درست اور مصلحت کے مطابق تصور نہ کرلے _ ایک عقلمند اور ہوشیار عوت ہمیشہ احتیاط اور عاقبت اندیشى سے کا لیتى ہے اپنے ماں باپ کى گفتار اور تجاویز پر خوب غور کرتى ہے اور اس کے انجام و نتائج کے بارے میں سوچتى ہے اور اس کے وسیلے سے اپنى ماں کو پرکھتى ہے _ اگر دیکھتى ہے کہ اس کى ماں تعاون کرنے اور ایک عاقلانہ روش اپنانے کى ترغیب دلاتى ہے تو جان لیتى ہے کہ وہ خیرخواہ ، عقلمند اور مدبر خاتون ہے _ اس صورت میں اس کے کہنے پر عمل کرنا چاہئے اور اس کى عاقلانہ ہدایوں کو قبول کرنا چاہئے لیکن اگر دیکھے کہ اپنى جاہلانہ باتوں اور غیر عاقلانہ تجاویز کے ذریعہ اس کو اپنے شوہر سے بد ظن کردیتى ہے اور اس کى بدبختى کے اسباب فراہم کرتى ہے تو یقین کرلینا چاہئے کہ وہ نادان ، بد سلیقہ اور بداخلاق ہے _ ایسے موقع پر دور استوں میں سے ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے یا تو اپنى ماں کى رہنمائیوں اور احکام کے مطابق شوہر سے عدم تعاون کرے _ بہانہ بازیاں کرے شوہر کے خلاف اعلان جنگ کردے _ یا ماں کا باتوں پردھیاں نہ دے اور اپنے شوہر کى رضامندى اور خوشى کا خیال رکھے _ ایک سمجھدار عورت پہلى راہ کا انتخاب ہرگز نہیں کرے گى کیونکہ وہ سوچتى ہے ہ میں نے اگر ماں باپ کى باتوں پر عمل کیا تو اس کا یاک نتیجہ یہ ہوگا کہ میں راہ راست سے منحرف ہوجاؤں گى یا رسارى زندگى شوہر کے ساتھ لڑائی جھگڑے اور کشمکش میں گزرنے گى اور میری، شوہر اور بچوں کى زندگى اجیرن ہوجائے گى _ یا طلاق لے لوں اور ماں باپ کے گھر لوٹ آوں _ ایسى صورت میں مجبور ہوجاؤںگى کہ سارى زندگى ماں باپ کے سرپڑى رہوں _ حالانکہ میں جانتى ہوں کہ وہ مجھ کو خاندان کے ایک اصلى ممبر کى حیثیت سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں گے اور مجھ کو ایک بوجھ سمجھیں گے _اور مجھ سے جان چھڑانے کى کوشش کریں گے _ پس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ذلت و خوارى کے ساتھ زندگى گزاروں _ بھائی بہنوں کے لعن طعن سنوں اور اگر ماں باپ سے علیحدہ زندگى گزارنا چاہوں تو کہاں جاؤں _ تنہا کس طرح زندگى گزاروں _ اگر دوسرى شادى کرلوں تو معلم نہیں پہلے شوہر سے بہتر ہوگا یا نہیں کیونکہ میرى جیسى عورتوں کے لئے جن مردوں کے رشتہ آتے ہیں وہ عموماً طلاق یافتہ ہوتے ہیں یا ان کى بیویاں فوت ہوگئی ہوتى اورزیادہ تر بچوں والے ہوتے ہیں ایسى صورت میں ان کے بچوں کى دیکھ بھال کرنے پر بھى مجبور ہوجاؤں گى _

 

اس کے علاوہ اور دوسرى سینکڑوں مشکلات اور درد سر کاسامنا ہوگا اور معلوم نہیں کہ دوسرا شوہر کیسا ہوگا _ شاید اس میں اس سے بھى زیادہ اور بدتر عیوب ہوں _ لیکن اس کے ساتھ زندگى گزارنے پر مجبور ہوجاؤگى _ ممکن ہے میرے عدم تعاون کے سبب میرا شوہر پریشان ہوکر کوئی خطرناک فیصلہ کرلے _ فرار ہوجائے یا خودکشى کرلے _ ممکن ہے اس کشمکش اور ہٹ دھرمى کى نتیجہ میں خود میرى جان پر بن آئے اور سوائے خودکشى کے اور کوئی چارہ نظر نہ آئے اور اس ناجائز اقدام کے ذریعہ اپنى دنیا و آخرت دونوں تباہ کرلوں _

ایسے حالات میں قضیہ کے ہر پہلو پرخوب غورو فکر کرنى چاہئے اور اس کے نتائج کا تجزیہ کرنا چاہئے اور اس کے انجام کو ذہن میں رکھ کر ایک تھوس فیصلہ کرنا چاہئے کہ ماں یا دوسرے رشتہ داروں کى غیر منطقى تجاویز اور فضول باتوں سے قطع نظر کرکے اپنے شوہر کى دیکھ بھال میں لگ جائے _ اور اپنى ماں سے مناسب لہجہ میں کہدے کہ میرے مقدر میں اسى مرد سے شادى ہونا لکھا تھا _ لہذا اب میرى بہترى اسى میں ہے کہ پورى تندہى اور سنجیدگى کے ساتھ اس مشترکہ زندگى کو خوشحال اور پرمسرت بنانے کى کوشش کروں اور اپنے اچھے اخلاق و کردار کے ذریعہ اپنے شوہر کو راضى و خوش رکھوں _وہى مجھکو خوش نصیب بنا سکتاہے _ وہى میرا شریک زندگى اور مونس و غمخوار ہے _ میرى نظر میں اس سے بہتر کوئی دوسرا نہیں _ ہم لوگ مسائل کو خود حل کرلیں گے اور اگر کوئی مشکل آپڑى تو وہ حل ہوجائے گى _ آپ کى مداخلتوں کے سبب ممکن ہے ہمارى ازدواجى زندگى تباہ و برباد ہوجائے _ اگر آپ چاہتى ہیں کہ ہمارى آمدو رفت اور تعلقات قائم رہیں تو ہمارى نجى زندگى میں بالکل دخل اندازى نہ کیجئے اور میرے شوہر کى برائی نہ کیجئے _ ورنہ میں آپ سے قطع تعلق کرنے پر مجبور ہوجاؤں گى اگر آپ کى ان باتوں اور نصیحتوں کا ان پر اثر ہوتا ہے اور وہ اپنے رویہ میں تبدیلى پیدا کرلیتى ہیں تو آپ ان سے تعلقات قائم رکھیں لیکن اگراپنى اصلاح کرنے پر تیار نہیں تو آپ کى بہترى اسى میں ہے کہ ماں کے یہاں آنا جانا بہت کم کردیں _ اور اس طرح ایک بہت بڑے خطرے یعنى خاندان کا شیرازہ درہم برہم ہونے کے خطرے سے نجات حاصل کرلیں اور اطمینان کے ساتھ زندگى گزاریں _ اسى صورت میں ممکن ہے رشتہ داروں کى نظر میں آپ کى عزت ووقار کم ہوجائے لیکن اس کے بدلے میں آپ کے شوہر کى محبت و خوشنودى میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا اور اس کى نظروں میں آپ کى عزت ووقار بڑھ جائے گا _

حضرت رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامى ہے کہ تم میں سے بہترین عورت وہ ہے جس کا زیادہ بچے ہوں _ شوہر سے محبت کرنے والى ، پاک دامن اور باحیاہو اپنے ، رشتہ داروں کے مقابلے میں تسلیم نہ ہو لیکن اپنے شوہر کى مطیع و فرمانبردار ہو _ اپنے شوہر کے لئے آرائشے کرے _ خود کو غیروں سے محفوظ رکھے _ اپنے شوہر کى بات سنے اور اس کى اطاعت کرے _ جب دونوں تنہا ہوں تو اس کے ارادے پر عمل کرے لیکن ہر حال میں شرم و حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے''_

پھر فرمایا: تم میں سے بدترین عورت وہ ہے جو اپنے رشتہ داروں کى اطاعت کرے لیکن اپنے شوہر کى بات پر توجہ نہ دے _ کینہ ور اور بانجھ ہو _ برے کاموں سے پرہیز نہ کرے _ شوہر کى غیر موجودگى میں زینت و آرائشے کرے اور خلوت میں شوہر کى خواہشات کو رد کرے _ اس کے عذر کو قبول نہ کرے اور اس کے گناہوں کو معاف نہ کرے _ (79)

 

75_اطلاعات ہفتگى شمارہ 1628
76_روزنامہ اطلاعات 30 نومبر 1969
77_روزنامہ اطلاعات 2 مئی سنہ 1970
78_روزنامہ اطلاعات 3مئی سنہ 1970
79 _ بحارالانوار ج 103 ص 235