پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

خانہ داري

خانہ داری

''گھر'' یوں تو ایک چھوٹى سى چہار دیوارى کا نام ہے لیکن یہ ایک بہت بڑى نعمت ہے اور اس کے فوائد نہایت گرانقدر اور بے شمار ہیں _ جس وقت انسان روزمرہ کے کامویں اور باہر کے شور وغل سے تھک جاتا ہے تو پناہ لینے کى غرض سے گھر آتاہے جس وقت زندگى کے نشیب و فراز اور کشمکش حیات سے گھبرا جاتا ہے تو آرام کرنے کے لئے گھر آتاہے ، حتى کہ جب سیر و تفریح سے بھى تھک جاتا ہے تو یہیں پر آکر پناہ لیتا ہے _ جى ہاں گھر، بہترین پناہ گاہ ہے کہ جہاں انسان بغیر کسى قید و بند کے اطمینان کے ساتھ آرام کرتاہے _ یہ انس و محبت ، صدق و صفا اور سکون و آرام کا مرکز ہوتا ہے، نیک اور بافضیلت مردوں اور عورتوں کى پرورش گا ہ ہے _ بچوں کى تعلیم و تربیت کا مرکز اور ان کى شخصیت و کردار کى تعمیر گاہ ہے _ ایک ایسا چھوٹا سا معاشرہ ہے جس کے ذریعہ انسانوں کا بہت بڑا معاشرہ تشکیل پاتا ہے _

بڑے معاشرے کى ترقى و تنزلى ، اچھائی و برائی سب کچھ اسى چھوٹے سے معاشرہ سے مربوط ہے یہ چھوٹا سا خاندانى معاشرہ ، اگر چہ بڑے معاشرے کا ہى ایک جزو شمار ہوتا ہے تا ہم کسى حد تک ذاتى آزادى اور استقلال سے بہرہ مند ہے اسى لئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سماج کى اصلاح کرنى ہو تو اس کى شروعات خاندانوں کى اصلاح سے کرنى چاہئے_

زندگى اس اہم بنیاد اور سماج کى اس عظیم تعلیم و تربیت گاہ کے نظم و نسق کى ذمہ دارى عورتوں پرہے _ یعنى سماج کى ترقى و تنزلى اور اچھائی و برائی کا دارو مدار عورتوں کے ارادہ و اختیار میں ہے _ اسى بناء پر خانہ دارى کو نہایت قابل فخر اور باعزت شغل یا پیشہ کہا جاتا ہے _

''جو لوگ گھر کے ماحول بے وقعت سمجھتے ہیں اور خانہ دارى کے شریفانہ کام کو اپنے لئے عار سمجھتے ہیں در اصل ان لوگوں نے خانہ دارى کے حقیقى معنوں اور اس کى اعلى قدر و قیمت اور اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا ہے _

ایک خانہ دار خاتوں کو فخر کرنا چاہئے کہ اس کو ایک انتہائی اہم اور حساس عہدہ سونپا گیا ہے اور وہ اپنى قوم و ملت کى ترقى و خوشحالى کے لئے ایثار و قربانى کرتى ہے _ تعلیم یافتہ خواتین کى اس سلسلے میں اور زیادہ ذمہ دارى ہے ان کو چاہئے کہ دوسروں کے لئے نمونہ ثابت ہوں اور دوسرے عملى طور پر ان سے خانہ دارى اور شوہر دارى کا سبق سیکھیں _ انھیں چاہئے کہ عملى طور پر ثابت کریں کہ تعلیم یافتہ ہونے سے نہ صرف یہ کہ خانہ دارى اور شوہر دارى کے کاموں پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ تعلیم تو زندگى کے آداب اور طور طریقے سکھاتے ہے _

ایک پڑھى لکھى خاتون کو چاہئے کہ امور زندگى کو بہترین طریقے سے انجام دے اور خانہ دارى کے باعزت شغل کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھے اور اپنے طرز علم سے پڑھى لکھى خواتین کى لیاقت و برترى کو ثابت کرے _ نہ کہ پڑھے لکھے ہونے کا عذر کرکے کسى کام میں ہاتھ نہ لگائے اور اس طرح پڑھى لکھى خواتین کو بدنام کرے _ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب ، بے کار گھومنا اور ذمہ داریوں سے پہلو تہى کرنا نہیں بلکہ اپنى ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے انجام دینا اور ایک مدبر اور سلیقہ مند خاتون خانہ کى مثال قائم کرنا ہے _ اس سلسلے میں ذیل کے واقعہ پر توجہ فرمایئے_

ایک شخص جس نے ایک انٹر پاس لڑکى سے شادى کى تھى ، عدالت میں کہا کہ میرى بیوى گھر کے کسى کام میں ہاتھ نہیں لگاتى اور جب میں اعتراض کرتا ہوں توکہتى ہے ،'' برتن دھونا، کھانا پکانا پکڑے دھونا اور بچے پالنا ایک انٹر پاس عورت کا کام نہیں ہے اگر تمہیں میرے طور طریقے پسند نہیں ہیں تومجھ کو طلاق دے دو اور ایک نوکرانى سے شادى کرلو''_ پرسوں رات کو میں نے اپنى انٹر پاس بیوى کے رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کو کھانے کى دعوت دى _ کھانے کے وقت میں نے دستر خوان بچھایا اور اپنى بیوى کے فریم کئے ہوئے سرٹیفیکٹ کو دستر خوان پر سجادیا اور کہا: معاف کیجئے ، وہى کھانا حاضر ہے جو ہرروز حقیر کى بیگم بندہ کو کھانے کے لئے دیتى ہے میں نے مصلحت اسى میں سمجھى کہ آپ بھى اس کے ذریعہ پذیرائی کروں'' _ (105)

بہر حال امور خانہ انجام دینا اور خاتون خانہ دار ہونا ایک ایسا باعزت اور شریفانہ کام ہے جس کے ذریعہ عورتوں کى ہنرمندى اور لیاقت ظاہر ہوتى ہے _ مناسب ہوگا کہ اس سلسلے میں خود تعلیم یافتہ خواتین کے نظریات وخیالات سے روشناس ہوں _

خانم فریدہ نوروز شمیرانى (بى اے) کہتى ہیں: خاتون خانہ کو چاہئے کہ امور خانہ دارى میں ماہر ہونے کے علاوہ اپنے شوہر کى اچھى ساتھى ، اپنے بچوں کى اچھى ماں ہو اور ایک اچھى میزبان ہو _

بچوں کى ڈاکٹر مسنر فصیحى کہتى ہیں : میرى نظر میں حقیقى گھر کى مالکہ وہى عورت ہوتى ہے جو دفتر میں کام نہ کرتى ہو _ کیونکہ ہمارے ملک میں دفتروں میں غذا کا مناسب انتظام نہ ہونے اور بچوں کے لئے نرسرى اسکول و غیرہ کى کمى کے سبب کام کرنے والوں کو پورى طرح سہولتیں حاصل نہیں ہیں لہذا ایک کام کرنے والى ماں اپنے شوہر اور بچے کى طرف سے فکر مند رہتى ہے _

میڈیکل کالج کى مسنر صغرى یکتاکہتى ہیں : خاتون خانہ کم بجٹ میں ایک گھر کو صاف و ستھرا اور آراستہ رکھ سکتى ہے ، اپنے شوہر کے غم اور خوشى میں شریک ہوسکتى ہے اور اپنے شوہر کى سماجى اور ذہنى حالت سے غافل نہیں ہوتى _

مسنر ایران نعیمى کہتى ہیں :گھر کى مالکہ ایسى خاتون ہوتى ہے جو غیر ضرورى تفریحات میں کمى کرے اور اس کامقصد گھر کى حالت بہتر بنانا ہو اور آمدنى کے لحاظ سے اپنے خاندان کے اخراجات چلانا جانتى ہو '' _(106)


105_روزنامہ اطلاعات _ 24 نوامبر سنہ 1971ئ
106_روزنامہ اطلاعات 17 آپریل سنہ 1972ئ