پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

گھر كى سجاوٹ

گھر کى سجاوٹ

ایک صاف ستھرا سجا ہوا مکان جس میںگھر کى تمام چیزیں سلیقے سے مناسب اور مخصوص جگہ پر رکھی

ہوں ہر لحاظ سے ایک بے ترتیب اور گندے مکان پر فوقیت رکھتا ہے _ اول تو یہ کہ ترتیب اور سلیقہ گھر کو رونق و خوبصورتى عطا کرتا ہے او رایسے کو باربار دیکھنے سے نہ صرف یہ کہ آنکھوں کو برا نہیں لگتا بلکہ مسرت اور خوشى حاصل ہوتى ہے_ دوسرے یہ کہ اس طرح گھر دارى کے کاموں میں آسانى ہوتى ہے _ گھر کى مالکہ کا وقت ضرورت کى چیزوں کو ڈھونڈھنے میں برباد نہیں ہوتا_ کیونکہ ہرچیز کى جگہ مخصوص ہے جس چیز کى ضرورت ہوئی اس وہیں سے اٹھالیا اور کام ختم ہونے کے بعد اسى جگہ رکھ دیا _ اس طرح کام آسانى سے انجام پاتے ہیں _

تیسرے یہ کہ ایک صاف ستھرااور مرتب و منظم گھر ، گھر کى مالکہ کے ذوق و سلیقہ کو ظاہر کرتا ہے ، مرد کو بھى صاف ستھرے گھر میں جاذبیت اور کشش محسوس ہوتى ہے اور گھر اور گھروالوں سے اس کى دلچسپى میں اضافہ ہوتا ہے اور گھر سے باہر اپنا زیادہ وقت نہیں گزارتا_

چوتھے یہ کہ ایک سلیقے سے آراستہ کیا ہوگھر ، گھروالوں کى عزت و سربلندى کا باعث بنتا ہے جو کوئی اسے دیکھتا ہے اس کى دلکشى اور خوبصورتى سے فرحت محسوس کرتا ہے اور گھر کى مالکہ کے ذوق و سلیقہ کى تعریف کرتا ہے _

سجاوٹ اور آرائشے کا سامان خرید خرید کر جمع کرنے سے زندگى خوبصورت نہیں ہوجاتى بلکہ ایک خاص ترتیب و سلیقے سے خوبصورتى پید ا ہوتى ہے _ خود آپ نے بھى یقینا ایسے دولتمنداور خوشحال گھرانے دیکھے ہوں گے جن کے پاس انواع و اقسام کے قیمتى سازو سامان کى بھر مار ہوتى ہے لیکن نظم و سلیقہ نہ ہونے کے سبب اس میں کوئی رونق نہیں ہوتى اور اس کو دیکھ کر ملال ہوتا ہے _ اس کے برعکس آپ نے ایسے غریب گھرانے بھى دیکھے ہوں گے کہ غربت و نادارى کے باوجود ان کى زندگیاں مسرت سے بھرپور اورخوبصورت میں _ مختصر اور معمولى سامان ہونے کے باوجود ان کے گھر مرتب و منظم اور صاف ستھرے ہیں _ ہر چیز اپنى جگہ قرینے سے رکھى ہوئی ہے _ در اصل ایک خاص نظم و ترتیب اور سلیقہ ہى خوبصورتى ہے _

اسى بناء پر خانہ دارى کے اہم فرائض میں سے ایک اہم کام ، نظم و ترتیب کاخیال رکھنا ہے _

سلیقہ مند خواتین خود بہتر جانتى ہیں کہ گھر کے سامان کو کس ترتیب سے رکھنا چاہئے _ البتہ بیجا نہ ہوگا کہ یاددہانى کے طور پر چند نکات بیان کردیئےائیں _

گھر کے سازو سامان کى اس کى نوعیت کے اعتبار سے ایک جگہ معین کردینى چاہئے _ تمام برتنوں کو ایک جگہ نہیں رکھنا چاہئے _ جن برتنوں کى ہر وفت ضرورت پڑتى ہے ان کو اس طرح رکھئے کہ آسانى سے نکالاجا سکے _ مٹھائی ، میوے اور ناشتہ کا سامان رکھنے والے برتنوں کوایک جگہ رکھئے ، شربت والے برتنوں کى ایک جگہ مقرر کیجئے _ چائے کے برتنوں کى علیحدہ اور کھآنے :ے برتنوں کى ایک جگہ معین کیجئے _ پھلوں کے لئے استعمال ہونے والے برتنوں کو ایک جگہ رکھئے _ دہى اور فیرینى و غیرہ کے پیالوں ، اور اچار مربّے کى کٹوریوں کى ایک مخصوص جگہ بنایئے غرضکہ سارے سامان کو اس ترتیب سے رکھئے کہ خود آپ کو آپ کے شوہر اور بچوں کو ان سب چیزوں کى مخصوص جگہ معلوم ہو اور اگر اندھیرے میں بھى کسى چیز کى ضرورت پڑجائے تو آسانى سے فوراً وہیں سے نکال لیں _

شاید بعض خواتین سوچیں کہ مذکورہ باتیں امیروں اور دولتمندوں کے لئے تو بہت اچھى ہیں کہ ان کے پاس سہولت کے سارے سامان موجود ہیں _ لیکن ہمارى سادہ اور معمولى زندگى کے لئے ان سب لوازمات کى کیا ضرورت ہے _ جى نہیں _ یہ خیال درست نہیں جو کچھ بھى گر ہستى کا سامان ہو اسے سلیقے اور ترتیب سے رکھنا چاہئے _ خواہ امیر ہو یا غریب_ معمولى اور مختصر سامان بھى قرینے سے رکھا ہو تو اچھا معلوم ہوتاہے _ مثلاً گھر کے تمام برتنوں کى ایک جگہ معین کردیجئے اور ہر قسم کے برتن کے لئے ایک گوشہ مخصوص کردیجئے _ گرمیوں کے کپڑوں کے لئے ایک جگہ اور جاڑوں کے کپڑوں کى دوسرى جگہ بنادیجئے _ اپنے شوہر اور بچوں کے کپڑوں کى جگہ مقرر کردیجئے _ روزمرہ استعمال کے کپڑوں کو اس طرح رکھئے کہ نکالنے میں آسانى ہو اور دوسرے کپڑوں کو محفوظ ترجگہ پر رکھ سکتى ہیں _ میلے کپڑے رکھنے کى مخصوص جگہ بنادیجئے ، روز استعمال میں آنے والے بستروں کو سامنے رکھئے اور مہمانوں کے استعمال کے لئے لحاف گدوں کمبل و غیرہ کو اندر رکھئے _ کھانے کے بعد جھوٹے چکنے برتنوں کو فوراً جمع کرکے دھونے کى معبنہ جگہ پررکھ دیجئے _ گھرکى سجاوٹ کے سامان کے لئے مناسب جگہ مقرر کیجئے _ اور ہر چیز اپنى معینہ جگہ پر رکھى رہے _ آپ کے اور بچوں کے کپڑے کمروں میں بکھرے نہ پڑے رہیں بلکہ انھیں عادت ڈلوایئےہ کپڑے اتار کر المارى میں رکھیں _ کھونٹى یا اسٹینڈپرٹانگیں _ بچوں کو نصیحت کیجئے کہ اپنے سامان مثلاً بستہ ، قلم ،کتابیں معینہ جگہ پر رکھا کریں _ اطمینان رکھئے اگر آپ ترتیب اور سلیقے سے کام لیں تو آپ کے بچوں کى بھى یہى عادت پڑجائے گى _

پھوہٹر عورتیں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے گھر کى بدنظمى کا الزام بچوں کے سر تھوپتى ہیں _ مگر یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ بچے ماں باپ کى تقلید کرتے ہیں _ اگر ماں باپ سلیقہ مند ہوں گے تو وہ بھى سلیقہ سیکھیں گے _ شروع میں بچے نظم و ترتیب کے مخالف نہیں ہوتے بلکہ سلیقہ مند ہوتے ہیں _ لیکن جب گھر کى بدسلیقگى اور بد انتظامى دیکھتے ہیں تو وہ بھى یہى سیکھتے ہیں _

روپیہ پیسہ _ قیمتى کا غذوں مثلاً چیک _ بانڈ _ سرٹیفکیٹ اور سندوں و غیرہ کو ایسى محفوظ جگہ پر رکھئے جو چھوٹے بچوں کى دسترس سے دور ہو _ کیونکہ اگر آپ کى غفلت سے ضائع ہوجائے تو بعد میں بچوں کو مارنے پیٹنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا _ لہذا حادث وقوع میں آنے سے پہلے ہى اس کا علاج کرلیناچاہئے _ معصوم بچے کا کوئی گناہ نہیں ہوتا _قصور بد سلیقہ ماں کاہوتا ہے جس نے قیمتى شیء کو حفاظت سے نہیں رکھا _

اس سلسلہ میں ذیل کے واقعہ سے عبرت حاصل کیجئے _

ایک شخص نے اپنى بیوى کو تین ہزار روپئے دیئےور حفاظت س رکھنے کى تاکید کى اس نے روپیہ لے کر طلاق میں رکھ دیا اور کسى معمولى کام سے باہر چلى گئی _ جب کمرے میں واپس آئی تو وہاں روپئے موجود نہیں تھے _ گھبرا کے ادھر ادھر نظر دوڑ ائی تودیکھاکہ اس کا پانچ سالہ بچہ صحن میں کوئی چیز جلا رہا ہے اور خوش ہورہا ہے _ ماں یہ دیکھ کر اس قد رغضبناک ہوئی کہ اپنے پانچ سالہ بچے کو اٹھاکر زمین پر پخ دیا _ اتفاق سے بچہ فوراً مرگیا وحشت زدہ ماں ، بچے کہ بیجان جسم کو دیکھ رہى تھى کہ اسى وقت اس کا شوہر آگیا اور ماجرا دریافت کیا _ بیوى نے واقعہ بیان کیا _ مرد نے طیش میں آکر بیوى کو خوب مارپیٹا اور موٹر سائیکل پر سوار ہوکر پولیس کو اس واقعہ کى رپورٹ دینے چلا گیا _ لیکن پریشانى اورگبھراہٹ کے عالم میں اس کى کسى گاڑى سے ٹکر ہوگئی _ اب اس مرد کى حالت بیحد نازک ہے '' _ (124)

آپ کے خیا ل میں اس واقعہ میں اصلى قصور وار کون ہے؟ اس کا فیصہ ہم قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں _ اس قسم کے واقعات و حادثات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں _ ممکن ہے خود آپ کى زندگى میں بھى واقع ہوئے ہوں _

دواؤں ، خطرناک اورزہر یلى چیزوں حتى کى مٹى کے تیل اور پٹروں کو ایسى جگہ رکھیں جو چھوٹے اورناسمجھ بچوں کى دسترس سے باہر ہو _ کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ ناسمجھى کے سبب اسے پى لیں اور ختم ہوجائیں _ اور پھر آپ سارى عمر روتى رہیں احتیاط کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے لیکن غفلت اور بے احتیاطى سے سینکڑوں خطرے لاحق ہوجاتے ہیں _ ایسے معصوم بچے جو بد سلیقہ ماں باپ کى غفلت سے تلف ہوئے اور ہورہے ہیں ان کى فہرست طویل ہے _ ان میں سے بعض کى خبریں اخباروسائل میں شائع ہوتى رہتى ہى _ یاددہانى کے طور پر چند سچے واقعات نقل کئے جاتے ہیں _

دو چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ، جن کى عمریں چھ سال اور چار سال تھیں ، ایک برتن میں بھرے ڈى ڈى ٹى دواکے محلول کونسى سمجھ کے پى گئے _ چھوٹى بچى تو فوراً مرگئی _دونوں بچے گھر میں تنہا تھے _ جب انھیں پیاس لگى تو پانى کے بجائے ڈى ڈى ٹى دوا کے محلول کولسى سمجھ کر پى گئے _ اسپتال میں بچوں کى ماں نے بتایا کہ کل رات میں نے تھوڑا سا ڈى ڈى ٹى پاؤ ڈرپانى میں بھگوکر رکھا تھا کہ چوہوں کے بلوں میں ڈالوں گى کہ یہ حادث رونما ہوگیا ''_ (125)

زبانى کى جگہ مٹى کا تیل پى لیا _ ایک پنچ سالہ بچّے نہ ماں کے پیر درد کی کھالیں _ انھیں اسپتال میں بھرتى کیا گیا ہے '' _ (126)

آخر میں بھى عرض کردیں کہ نظم و ضبط بہت اچھى چیز ہے لیکن نہ اس حد تک کہ آپ کا اور آپ کے شوہر کا سکون و چین سلب ہوجائے صفائی اور طہارت اگر حد سے تجاوز کرجائے اور وہم آزادى سلب ہوجانے کى حد تک بڑھ جائے تو خود ان خاندان کے لئے مشکلات پیدا ہوجاتى ہیں _ لڑائی جھگڑے اور علیحدگى تک کى نوبت آجاتى ہے _ ذیل کا واقعہ سنیں:_

ایک شخص کہتا ہے : اپنى بیوى کى عجیب و غریب پاکیزگى نے تو مجھے دیوانہ بنادیا ہے _ شام کو جب آفس سے تھکاہارا گھر آتا ہوں تو میرے لئے لازم ہے کہ حوض کے یخ بستہ پانى سے سات دفعہ ہاتھ پاؤں دھؤون _ جوتوں کو مخصوص جگہ پر رکھوں _ گھر کى مخصوص چپل پہنوں _ ہاتھ روم کى مخصوص چپل پہنوں باورچى خانہ ، ڈرائنگ روم ، غرضکہ گھر میں ہر جگہ احتیاط برتوں ، لباس کو اس کى مخصوص جگہ پرٹانگوں _ اگر سگریٹ پینے کى اجازت دے تو مخصوص کمرے میں جاکر پیئوں تا کہ پورے گھر میں اس کى بونہ پھیلے _ مختصر یہ کہ میں نے ایک عمر نہایت اطمینان و آزادى کے ساتھ گزارى ہے _ لیکن اس چار سالہ شادى شادہ زندگى میں میرى حالت قیدیوں سے بدتر ہوگئی _ کیا ضرورت ہے کہ انسان اس قدر حد سے زیادہ صفائی پسند ہو یہ وہم ہے اور میں وہم سے بیزار ہوں '' _ (127)

کسى بھى کام میں افراط و تفریط اچھى نہیں ہوتى بلکہ ہر حال میں میانہ روى سے کام لینا چاہئے _ نہ اس قدر بد سلیقگى کارفرما ہو کہ زندگى کى حالت ابتر رہے اور نہ اتنا زیادہ نظم و ضبط کالحاظ رکھا جائے کہ وہم کى حد تک بڑھ جائے اور آپ کا سکون وچین درہم برہم ہوجائے _

124_روزنامہ اطلاعات 12 فرورى سنہ 1970
125_روزنامہ اطلاعات 17 جولائی سنہ 1972
126 _روزنامہ اطلاعات 2 مارچ سنہ 1970
127_روزنامہ اطلاعات 23 جنورى سنہ 1972