پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اگر آپ كے شوہر گھر ميں كام كرتے ہيں

اگر آپ کے شوہر گھر میں کام کرتے ہیں

جب مرد گھر باہر کام پر جاتا ہے تو اس کى بیوى اس کى غیر موجودگى میں آزاد رہتى ہے لیکن اگر گھر میں کام کرتا ہے تو اس کى بیوى پابند ہوجاتى ہے _ شاعر ، مصنف ، مصور اور دانشور عموماً اپنے گھروں میں ہى کام کرتے ہیں اور ہمیشہ یا اپنے وقت کازیادہ حصہ ، اپنے کاموں میں مصروف رہ کر گزارتے ہیں اور چونکہ ان کام کام اس قسم کا ہوتا ہے جس میں پر سکوں ماحول کى اشد ضرورت ہوتى ہے _ ایک گھنٹہ پورے انہماک اور توجہ کے ساتھ کام کر نا کئی گھنٹے شور وہنگامے کا ماحول میں کام کرنے سے بہتر ہوتا ہے ایسے موقع پر ایک بڑى مشکل پیدا ہوجاتى ہے _ ایک طرف مرد کو انتہائی پر سکون ماحول کى ضرورت ہوتى ہے دوسرى طرف بیوى چاہتى ہے کہ گھر میں آزادانہ طور پر رہے _ اگر عورت چاہے تو گھر کے کاموں کو اس طرح انجام دے سکتى ہے کہ اپنے شوہر کے دماغى کاموں میں مزاحم نہ ہو اوراس کا بڑا ایثار اور قابل قدر کارنامہ ہوگا کیونکہ ایک پر سکون ماحول فراہم کرنا آسان کام نہیں ہے خصوصاً ایسے گھر میں جہاں بچے موجود ہوں _ اس کے لئے نہایت ایثار و تدبر کى ضرورت ہے اگر چہ کام مشکل ضرور ہے لیکن مرد کے مشغلے کے اعتبار سے نہایت ضرورى ہے _

اگر بیوى تعاون کرے تو اس کا شوہر سماج کا ایک نہایت مفید اور باعزت فروبن سکتا ہے جو خود اس کے لئے بھى افتخار کا باعث ہوگا _ خواتین کو اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ اگر چہ ان کے شوہر دائماً یا اکثر اوقات گھر میں رہتے ہیں لیکن بیکار نہیں ہیں _ انھیں اس بات کى توقع نہیں رکھنى چاہئے کہ گھر کى گھنٹى بجے گى تو وہ دروازہ کھولنے جائیں ، بچوں کو سنبھالیں، گھر کے کاموں میں ان کى مدد کریں یا شیطان بچوں سے پنٹیں گے بلکہ جسوقت مرد کام میں مشغول ہوتو یہ فرض کرلیناچاہئے گویاوہ گھر میں موجود ہى نہیں ہیں _

خاتون محترم جب آپ کے شوہر اپنے مطالعہ کے کمرے میں (یا جس کمرے میں وہ اپنا کام انجام دیتے ہیں)جائیں تو ان کى ضرورت کى تمام اشیاء مثلاً کتاب، کاغذ، قلم، کاپى ، پنسل ،سگریٹ، ماچس ، ایش ٹرےو غیرہ کى فراہمى میں ان کى مدد کیجئے تاکہ ان چیزوں کى تلاش انھیں اپنے کام سے معطل نہ کردے _ اگر انگیٹھى ہیٹر یا پنکھے کى ضرورت ہو تو اسے مہیا کردیجئے _ جب ان کى ضرورت کا سب سامان مہیا ہوجائے تو کمرے سے آجایئےور انھیں تنہا چھوڑدیجئے _ ان کے کمرے کے نزدیک آہستہ سے چلئے _ زورزورسے بات نہ کیجئے _ دھیان رکھئے کہ بچے شور نہ مچائیں انھیں سمجھایئےہ یہ تمہارے کھیلنے کا وقت نہیں ہے کیونکہ تمہارے والد اس وقت کام میں مشغول ہیں اور تمہارے شور و غل سے ان کے کام میں خلل پڑے گا _ جب وہ کام میں مشغول ہوں تو امور زندگى کے متعلق ان سے بات چیت نہ کیجئے کیونکہ ان کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور ان کے افکار پراکندہ ہوجائیں گے _ بے صدا جوتے پہنئے _ دروازے یا ٹیلى فون کى گھنٹى بجے تو فوراً جواب دیجئے تا کہ و ہ ڈسٹرب نہ ہوجائیں _ اگر کسى کو ان سے کام ہو تو کہدیجئے کہ ابھى تو کام میں مشغول ہیں ممکن ہو تو فلان وقت ٹیلى فون کرلیجئے گا مہمانوں کى آمد ورفت کے پرو گرام بھى ایسے وقت رکھئے جب ان کے کام وفت نہ ہو _ آپ کے غریز و اقارب یا دوست جو ملنے کے لٹے آنا چاہیں ان سے بھى معذرت کر لیجئے کہ چونکہ ہمارى باتوں کے شور سے ہمارے شوہر کے کاموں میں خلل پڑے گا لہذا براہ کرم فلاں وقت تشریف لایئے اگر وہ بھى آپ کے حقیقى دوست ہوں گے تو آپ کى بات کا برانہیں مانیں گے بلکہ آپ کے اس عمل سے کہ آپ کو اپنے شوہر ا کس قدر خیال ہے ، خوش ہوں گے اور آپ کى تعریف کریں گے _ جب امور خانہ دارى میں مشغول ہوں اس وقت بھى اپنے شوہر کى ضروریات کا خیال رکھئے اگر کوئی چیز مانگیں تو فورا باہرا آجایئے شاید کچھ خواتیں اس قسم کى زندگى کو نا ممکن سمجھیں اور سوچیں کہ کیا ایک عورت کے لئے یہ ممکن ہے کہ گھر کے دشوار اور صبر آرنا کام بھى انجام دے اور ساتھ ہى شوہر کا بھى دھیان رکھے اور گھر میں ایسا پز سکون ما حول پیدا کرے کاموں میں ذرا سابھى خلل نہ پڑے لیکن یہ بات و ثوق کے ساتھ کہى جاسکتى ہے ، کہ اس قسم کى زندگى دشوار ضرور معلوم ہوتى ہے لیکن اگر آپ ان کے کاموں کى اہمیت اور قدر وقیمت سے واقف ہو جائیں اور ایثار و کوشش سے کام لینے کا ارادہ کرلیں تو اپنى دانشمند ى اور تدہرے اس مشکل کو حل کر سکتى ہیں _

ایک عورت کى لیاقت و شائستگى ایسے ہى مو قعوں پر ظاخر ہوتى ہے ورنہ اسک عام زندگى تو ہر شخص گزار لیتا ہے _

خواہر عزیز ایک علمى کتاب یا ایک تحقیقى مقالہ لکھنا یا شعر کہنا یا ایک گراں قدر پینٹنگ تیار کرنا یا سائینس کے کسى مسئلہ کو حل کرنا آسان کام نہیں ہے البتخ آپ کے تعاون اور ایثار کے ذریعہ یہ مشکل کام آسان ہو جاتا ہے _

کیا اس سلسلے میں آپ ایثار و قربانى کرنے کو تیار نہیں ہیں ؟ اور اپنى روزمرہ کى زندگى میں معمولى سى تبدیلى کر کے اپنے شوہر کو جس میں ہر قسم کى لیاقت موجود ہے ، سماج میں ایک ایسے قابل قدر اور دانشورمردکى حیثیت نہیں دلا سکتیں کہ قوم ان کى خدمات سے استفادہ کرے _ آپ بھى تو اس کے نتیجہ میں ہونے والے مادى منافع اور سماج میں ان کے اعلى مقام سے بہرہ مند ہوں گى _