پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

شكوہ شكايت

شکوہ شکایت

کوئی انسان ایسا نہیں جسے پریشانیوں ، الجھنوں اور دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے _ ہر شخص کى یہ خواہش ہوتى ہے کہ اس کا کوئی غمخوار اور محرم راز ہوجس سے وہ اپنى پریشانیوں کو بیان کرے _ اور وہ اس سے اظہار ہمدردى کرے اور اس کا غم غلط کرے _ لیکن ہر بات کا ایک موقعہ و محل ہوتا ہے _ درد دل بیان کرنے کیلئے بھى مناسب موقع کا لحاظ رکھنا چاہئے _ ہر جگہ ، ہر وقت اور ہر حالت میں شکلہ میں شروع نہیں کردینى چاہئے _ وہ عورتیں جو نادان اور خود غرض ہوتى ہیں اور شوہر دارى کے آداب اور معاشرت کے رموز سے ناواقف ہوتى ہیں ان میں اتنا بھى صبر و ضبط نہیں ہوتا کہ وہ اپنى پریشانیوں کو برداشت کریں اور درددل کو مناسب وقت کیلئے اٹھارکھیں جیسے ہیں بیچارہ شوہر تھکاماندہ گھر میں داخل ہوتا ہے ، ذرا دم بھى وہیں لینے پاتا کہ اسى وقت اس کى نادان بیوى شکایتوں کے دفتر کھول دیتى ہے جو گھر سے بیزار بنایئےیلئے کافى ہے _ خود تو چلے جاتے ہو اور مجھے ان کم بخت بچوں میں سرکھپانے کے لئے چھوڑ جاتے ہو _ احمد نے کمرے کے دروازہ کا شیشہ توڑدیا _ منیزہ اور پروین میں خوب لڑائی ہوئی_ ان بچوں کى اودہم نے مجھے دیوانہ کردیا _ افوہ ، بہرام ذرا بھى سبق نہیں پڑھتا _ آج اسکوال سے اس کى رپورٹ آئی ہے _ بہت خراب نمبر ہیں _ میں بیکارہى ان سب کے لئے زحمت اٹھائتى ہوں _ صبح سے اب تک اس قدر کام کئے ہیں کہ حالت خراب ہوگئی کسى کو میرى پرواہ نہیں _ یہ بچے ذرا بھى کسى کام میں ہاتھ نہیں لگاتے _ کاش بے اولاد ہوتى _ ہاں آج تمہارى بہن آئی تھى _ معلوم نہیں کیوںمجھ سے خار کھاتى ہے _ جیسے میں اس کے باپ کا ہى تو کھاتى ہوں _ اور تمہارى ماں _ خدا کى پناہ _ ادھر ادھر میرى برائیوں کرتى ہیں _ میں ان سب سے تنگ آگئی ہوں _ لعنت ہو مجھ پر کہ کہ ایسے خاندان سے پالاپڑا ہے _ میرے ہاتھ دیکھو_ کھانا پکارہى تھى چھرى سے میرا ہاتھ کٹ گیا_ ہاں کل سہراب کے یہاں تساوى میں گئی تھى کاش نہ گئی ہوتى _ وہاں جاکر عزّت مٹى میں مل گئی _ حسن آغا کى بیوى آئی تھى _ کیا میک اپ تھا اور کیا لباس تھا _ خدا ایسى قسمت سب کى بنائے _ لوگ اپنى بیویوں کا کس قدر خیال رکھتے ہیں _ کیسے اچھے اچھے لباس ان کے لئے خرید تے ہیں _
اس کو کہتے ہیں شوہر _ جب وہ محفل میں آئی تو سب نے اس کا احترام کیا جى ہاں لوگ صر ف کپڑے دیکھتے ہیں _ آخر میں اس سے کس بات میں کم ہوں کہ اس کى اتنى شان ہے _ ہاں قسمت والى ہے _ اس کا شوہر اس کا خیال رکھتا ہے تمہارى طرح نہیں ہے _ اب میں اس منحوس گھر میں تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے جان نہیں کھپاسکتى _ جو چاہے کرو'' _ و غیرہ و غیرہ_
خاتون محترم شوہر داردى ، کا یہ طریقہ نہیں ہے _ کیا آپ سمجھتى ہیں کہ آپ کا شوہر تفریح اور سیر سپاٹے کرنے کے لئے گھر سے باہر جاتا ہے _ روز ى کمانے ، ضروریات زندگى مہیا کرنے اور پیسے کمانے کى غرض سے باہر جاتا ہے _ صبح سے اب تک اس کو نہ جانے کن کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ جن میں سے ایک کى بھى آپ متحمل نہ ہو سکیں گی_ آفس یا بازار کى مشکلات کى آپ کو خبر نہیں ہے _ کیسے لوگوں سے پالا پڑتا ہے اور کیسى کیسى ذہنى پریشانیاں آجاتى ہیں_ آپ کو اپنے شوہر کى پمردہ روح اور تھکے ماندے اعصاب کى کوئی فکر نہیں _ اب جبکہ وہ باہر کى پریشانیوں سے جان چھڑا کر گھر میں پناہ لینے آیا ہے کہ ذرا دیر آرام کرلے تو بجائے اس کے کہ آپ اس کا غم غلط کریں، شکایتوں کے دفتر اس کے سامنے کھول کے بیٹھ جاتى ہیں _ آخر اس بے چارے نے مرد ہوکر کیا گناہ ہے کہ گھر سے باہر طرح طرح کى پریشانیوں میں گرفتار رہتا ہے اور گھر آتے ہى اسے آپ کے شکوے شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے _ ذرا انصاف سے کام لیجئے _ تھوڑا سا اس کے بارے میں بھى سوچئے _ اس کے پاس بھى سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ چیخے چلائے تا کہ آپ کى بے جا شکایتوں اور بد زبانیوں سے نجات حاصل کرے یا اس گھر سے فرار اختیار کرکے کسى ہوٹل ، سینما یا کسى دوسرى جگہ جاکر پناہ لے یا سڑکوں پر آوارہ گھومتا ہے _
خانم محترم خدا کى خوشنودى اور اپنے اور خاندان کى خاطر اس قسم کى بے جا شکایتوں اور ہنگاموں سے پرہیز کیجئے _ عقل مندى اور ہوشیارى سے کام لیجئے _ موقع شناس بنئے _ اگر آپ کو واقعى کوئی پریشانى لاحق ہے تو صبر کیجئے تا کہ آپ کا شوہر آرام کرلے _ اس کى تھکن دور ہوجائے اس کى بعد موقع کى مناسبت سے ضرورى باتیں اس سے بیان کیجئے _ لیکن اعتراض کى شکل میں نہیں بلکہ اس طرح گویا آپ اس سے مشورہ لے رہى ہیں اور اس کو حل کرنے کى فکر کیجئے _ اگر آپ کے شوہر کو اپنے خاندان سے شدید لگاؤہے تو چھوٹى چھوٹى باتوں اور غیر ضرورى واقعات کو اس سے بیان نہ کریں اور ہر وقت کى چپقلش سے اپنے شوہر کے اعصاب کو خستہ نہ کیجئے _ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیجئے اس کو اور بھى بہت سى پریشانیاں لاحق رہتى ہیں _

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : جو عورت اپنى زبان سے اپنے شوہر کو تکلیف پہونچاتى ہے ، اس کى نمازیں اور دوسرے اعمال قبول نہیں ہوتے خواہ ہر روز روزہ رکھے اور راتوں کو عبادت او رتہجد کے لئے اٹھے_ غلاموں کو آزاد کرے اپنى دولت راہ خدا میں خرچ کرے ایسى عورت جو بدزبان ہو اور اپنى بد زبانى سے اپنے شوہر کو رنج پہونچائے وہ پہلى شخص ہوگى جو دوزخ میں داخل ہوگى _ (28)
رسول خدا (ص) ایک اور موقع پر فرماتے ہیں : جو عورت اپنے شوہر کو دنیا میں تکلیف پہونچاتى ہے حوریں اس سے کہتى ہیں ، تجھ پر خدا کى مار، اپنے شوہر کو اذیت نہ پہونچا ، یہ مرد تیرے لئے نہیں ہے _ تو اس کے لائق نہیں وہ جلدہى تجھ سے جدا ہوکر ہمارى طرف آجائے گا _ (29)
میرى سمجھ میں نہیں آتا کہ ان فضول باتوں سے خواتین کا مقصد کیا ہے _ اگر چاہتى ہیں کہ اس طرح سے شوہر کى توجہ کو اپنى طرف مبذول کرالیں او راپنے آپ کو اس کے سامنے محبوب ،محنتى اور خیر خواہ ظاہر کریں ، تو اطمینان رکھیں کہ اس کا نتیجہ برعکس ہوگا _ نہصرف یہ کہ اس طریقے سے آپ اس کى محبت حاصل نہ کر سکیں گى بلکہ شوہر کے غیظ و غضب کا شکار ہوجائیں گى _ اور اگر اس طرز عمل سے آپ کا مقصد اپنے شوہر کے اعصاب کو خستہ کرنا ہے تا کہ کام اور زندگى سے اس کا دل بھر جائے اور اعصابى امراض میں مبتلا ہوجائے اگر گھر سے فرار اختیار کرے اور اعصاب کو بے حس بنادینے کے لئے خطرناک نشہ آور چیزوں کى عادت ڈال لے اور فتنہ و فساد کے مراکزکا رخ کرے اور آخر کار دق کا شکار ہوجائے تو ا س صورت میں آپ کا کامیابى یقینى ہے _
خاتون عزیز اگر آپ کو اپنے شوہر اور زندگى سے محبت ہے تو اس غیر عاقلانہ اور غلط روش کو چھوڑیئے کیا اس بات کا احتمال نہیں کہ آپ کى بے جا شکایتیں ، قتل و غارت گرى کا باعث بن جائیں یا آپ کى خاندانى زندگى کا شیرازہ بکھر جائے _ مندرجہ داستان پر توجہ کیجئے :_

''جس وقت ... گھر آیا ، اس کى بیوى نے ، ایسى حالت میں کہ اپنى تین سالہ بچى کو گودیں لئے ہوئے تھى اپنے شوہر سے کہا: تمہارے آفس سے دو آدمى آئے تھے اور برابھلا کہہ رہے تھے _ مرد سخت غضبناک ہوگیا اور حالت جنوں میں چاقو کى نوک اپنى ننّھى سى بچى کے پیٹ میں بھونک کر اسے قتل کردیا _ اس مرد کو چار سال کے لئے قید کى سزا ہوگئی _ (30)
عدالت میں ایک ڈاکٹر شکایت کرتا ہے :'' سارى زندگى میرى بیوى نے ایک بار بھى میرے ساتھ ایک شائستہ اور اچھى خاتون جیسا سلوک نہیں کیا _ ہمارے گھر میں ہمیشہ بد نظمى اور بدسلیقگى کافرمارہی_ اس کے نالہ و فریاد ، بہانہ بازیوں اور گالیوں سے میں بے حد تنگ آچکا ہوں '' یہ ڈاکٹر اس بات پر تیارے کہ پچاس ہزار روپئے دے کر اس کے شرسے نجات حاصل کرلے _ اور بہت خوشى سے کہتا ہے کہ اگر میرى تمام دولت ، حتى میرى میڈیکل کى ڈگرى بھى آپ چاہیں تو دیدوں گا تا کہ جلد سے جلد اس سے رہائی حاصل کرلوں _ (31)


28_ بحار الانوار ج 76 ص 363بہ ملا محسن فیض کاشانى ، ج 2 ص 931
29_ محجة البیضاء ج 2 ص 72
30_ روزنامہ اطلاعات ، 18 نوامبر سنہ 1971 شمارہ 13651
31_ روزنامہ اطلاعات ، 3جنورى سنہ 1972 شمارہ سنہ 13689