پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جناب ابوبكر كا جواب، جناب فاطمہ (ع) كاجواب

جناب ابوبکر کا جواب

رسول اللہ (ص) کى بیٹى کے قوى اور منطقى اور مدلل دلائل کے مقابلے میں جناب ابوبکر نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور کہا کہ اے رسول خدا(ص) کى دختر آپ کے باپ مومنین پر مہربان اور رحیم اور بلاشک محمّد(ص) آپ کے باپ ہیں اور کسى عورت کے باپ نہیں اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں اور على (ع) کو تمام لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے، جو شخص آپ کو دوست رکھے گا وہى نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنى کرے گا وہ خسارے میں رہے گا، آپ پیغمبر(ص) کى عترت ہیں، آپ نے ہمیں خیر و صلاح اور بہشت کى طرف ہدایت کى ہے، اے عورتوں میں سے بہترین عورت اور بہتر پیغمبر(ص) کى دختر، آپ کى عظمت اور آپ کى صداقت اور فضیلت اور عقل کسى پر مخفى نہیں ہے_ کسى کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کو آپ کے حق سے محروم کرے، لیکن خدا کى قسم میں رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان سے تجاوز نہیں کرتا جو کام بھى انجام دیتا ہوں آپ کے والد کى اجازت سے انجام دیتا ہوں قافلہ کا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہیں بولتا خدا کى قسم میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ ہم پیغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت کے گھر اور جائیدار و وراثت میں نہیں چھوڑتے جو مال ہمارا باقى رہ جائے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے اختیار میں ہوگا، میں فدک کى آمدنى سے اسلحہ خریدتا ہوں اور کفار سے جنگ کرونگا، مبادا آپ کو خیال ہو کہ میں نے تنہا فدک پر قبضہ کیا ہے بلکہ اس اقدام میں تمام مسلمان میرے

موافق اور شریک ہیں، البتہ میرا ذاتى مال آپ کے اختیار میں ہے جتنا چاہیں لے لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے والد کے دستورات کى مخالفت کروں؟


جناب فاطمہ (ع) کاجواب

جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کى اس تقریر کا جواب دیا_ سبحان اللہ، میرے باپ قرآن مجید سے روگردانى نہیں کرسکتے اور اسلام کے احکام کى مخالفت نہیں کرتے کیا تم نے اجماع کرلیا ہے کہ خلاف واقع عمل کرو اور پھر اسے میرے باپ کى طرف نسبت دو؟ تمہارا یہ کام اس کام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے میرے والد کى زندگى میں انجام دیا_ کیا خدا نے جناب زکریا کا قول قرآن میں نقل نہیں کیا جو خدا سے عرض کر رہے تھے،

فہب لى یرثنى و یرث من آل یعقوب (1)_

خدایا مجھے ایسا فرزند دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث ہو_ کیا قرآن میں یہ نہیں ہے_

ورث سلیمان داؤد (2)_

سلیمان داؤد کے وارث ہوئے_ کیا قرآن میں وراثت کے احکام موجود نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، یہ تمام مطالب قرآن میں موجود ہیں اور تمہیں بھى اس کى اطلاع ہے لیکن تمہارا ارادہ عمل نہ کرنے کا ہے اور میرے لئے بھى سواے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں_

جناب ابوبکر نے اس کا جواب دیا کہ خدا رسول (ص) اور تم سچ کہتى ہو، لیکن یہ تمام مسلمان میرے اور اپ کے درمیان فیصلہ کریں گے کیونکہ انہوں نے مجھے خلافت کى کرسى پر بٹھایا ہے اور میں نے ان کى رائے پر فدک لیا ہے (3)_

جناب ابوبکر نے ظاہرسازى اور عوام کو خوش کرنے والى تقریر کر کے ایک حد تک عوام کے احساسات اور افکار کو ٹھنڈا کردیا اور عمومى افکار کو اپنى طررف متوجہ کرلیا_

 

جناب خلیفہ کا ردّ عمل

مجلس در ہم برہم ہوگئی لیکن پھر بھى اس مطلب کى سر و صدا خاموش نہ ہوئی اور اصحاب کے درمیان جناب زہراء (ع) کى تقریر کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی اور اس حد تک یہ مطلب موضوع بحث ہوگیا کہ جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ ملت سے تہدید اور تطمیع سے پیش آئیں_

لکھا ہے کہ جناب زہراء (ع) کى تقریر نے مدینہ کو جو سلطنت اسلامى کا دارالخلافة تک منقلب کردیا_ لوگوں کے اعتراض اور گریہ و بکا کى آوازیں بلند ہوئیں لوگ اتنا روئے کہ اس سے پہلے اتنا کبھى نہ روئے تھے_

جناب ابوبکر نے جناب عمر سے کہا تم نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دینے سے مجھے کیوں روکا اور مجھے اس قسم کى مشکل میں ڈال دیا؟ اب بھى اچھا ہے کہ ہم فدک کو واپس کردیں اور اپنے آپ کو پریشانى میں نہ ڈالیں_

جناب عمر نے جواب دیا _ فدک کے واپس کردینے میں مصلحت نہیں اور یہ تم جان لو کہ میں تیرا خیرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبکر نے کہا کہ لوگوں کے احساسات جو ابھرچکے ہیں ان سے کیسے نپٹا جائے انہوں نے جواب دیا کہ یہ احساسات وقتى اور عارضى ہیں اور یہ بادل کے ٹکڑے کے مانند ہیں_ تم نماز پڑھو، زکوة دو، امر بالمعروف اور نہى عن المنکر کرو، مسلمانوں کے بیت المال میں اضافہ کرو اور صلہ رحمى بجالاؤ تا کہ خدا تیرے گناہوں کو معاف کردے، اس واسطے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے، نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتى ہیں_ حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ جناب عمر کے کندھے پر رکھا اور کہا شاباش تم نے کتنى مشکل کو حل کردیا ہے_

اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ممبر پر جاکر اللہ تعالى کى حمد و ثنا کے بعد کہا، لوگو یہ آوازیں اور کام کیا ہیں ہر کہنے والا آرزو رکھتا ہے، یہ خواہشیں رسول(ص) کے زمانے میں کب تھیں؟ جس نے سنا ہو کہے اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کا مطالبہ اس لومڑى جیسے ہے کہ جس کى گواہ اس کى دم تھی_

اگر میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں تو بہت اسرار واضح کردوں، لیکن جب تک انہیں مجھ سے کوئی کام نہیں میں ساکت رہوں گا، اب لڑى سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں کو ابھار رہے ہیں_ اے رسول خدا(ص) کے اصحاب مجھے بعض نادانوں کى داستان پہنچى ہے حالانکہ تم اس کے سزاوار ہو کہ رسول خدا(ص) کے دستور کى پیروى کرو تم نے رسول(ص) کو جگہ دى تھى اور مدد کى تھى اسى لئے سزاوار ہے کہ تم رسول خدا(ص) کے دستور سے انحراف نہ کرو_ اس کے باوجود کل آنا اور اپنے وظائف اور حقوق لے جانا اور جان لو کہ میں کسى کے راز کو فاش نہیں کروں گا اور ہاتھ اور زبان سے کسى کو اذیت نہیں دوں گا مگر اسے جو سزا کا مستحق ہوگا (4)_


جناب ام سلمہ(ع) کى حمایت

اس وقت جناب امّ سلمہ (ع) نے اپنا سر گھر سے باہر نکالا اور کہا اے ابوبکر، آیا یہ گفتگو اس عورت کے متعلق کر رہے ہو جسے فاطمہ (ع) کہتے ہیں اور جو انسانوں کى شکل میں حور ہے، اس نے پیغمبر(ص) کے دامن میں پرورش پائی اور فرشتوں سے مصافحہ کرتى تھی، اور پاکیزہ گود میں پرورش پائی ہے اور بہترین ماحول میں ہوش سنبھالا ہے_ آیا گمان کرتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو ارث سے محروم کیا ہے، لیکن خود اس کو نہیں بتلایا؟ حالانکہ خدا پیغمبر(ص) کو حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو انذاز کرو اور ڈراؤ یا تم احتمال دیتے ہو کہ پیغمبر(ص) نے تو اسے بتلایا ہو لیکن وہ اس کے باوجود وراثت کا مطالبہ کر رہى ہو، حالانکہ وہ عالم کى عورتوں سے بہترہے اور بہترین جوانوں کى ماں ہے اور جناب مریم کے ہم پایہ ہے اور اس کا باپ خاتم پیغمبران ہے، خدا کى قسم رسول خدا(ص) فاطمہ (ع) کى گرمى اور سردى سے حفاظت کیا کرتے تھے اور سوتے وقت اپنا دایاں ہاتھ فاطمہ (ع) کے نیچے اور بایاں ہاتھ اس کے جسم پر رکھتے کرتے تھے، ذرا نرم ہوجاؤ اور آہستہ رونیؤ، ابھى تو رسول خدا(ص) تمہارى آنکھوں کے سامنے ہیں اور جلد ہى تم خدا کے حضور وارد ہوگے اور اپنے کئے کا نتیجہ دیکھو گے_ جناب امّ سلمہ نے جناب فاطمہ (ع) کى حمایت کى لیکن انہیں ایک سال تک حقوق سے محروم کردیا گیا (5)_


قطع کلامی

جناب زہراء (ع) نے ارادہ کرلیا کہ اس کے باوجود بھى اپنے مبارزے کو باقى رکھیں، اپنے اس پروگرام کے لئے انہوں نے قطع کلام کرنے کا فیصلہ کرلیا اور رسمى طور پر جناب ابوبکر کے متعلق اعلان کر دیا کہ اگر تم میرا فدک واپس نہیں کروگے تو میں تم سے جب تک زندہ ہوں گفتگو اور کلام نہیں کروں گی_ آپ کا جہاں کہیں بھى جناب ابوبکر سے آمنا سامنا ہوجاتا تو اپنا منھ پھیر لیتیں اور ان سے کلام نہ کرتى تھیں(6)_

مگر جناب فاطمہ (ع) ایک عام فرد نہ تھیں کہ اگر انہوں نے اپنے خلیفہ سے قطع کلامى کى تو وہ چندان اہمیت نہ رکھتى ہو؟ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى عزیز بیٹى رسول خدا(ص) کى حد سے زیادہ محبت کسى پر پوشیدہ نہ تھى _ آپ وہ ہے کہ جس کے متعلق پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے _ جو اسى اذیت دے اس نے مجھے اذیت دى ہے _(7)

اور آپ فرماتے ہیں کہ فاطمہ (ع) ان عورتوں میں سے ہیں کہ جن کے دیدار کے لئے بہشت مشتاق ہے _(8)

اور آپ فرماتے تهے که اگر فاطمہ غضب کر هے تو خداوند عالم غضب کرتاهے (9)

جى ہاں پیغمبر (ص) اور خدا کى محبوب خاتون نے جناب ابو بکر سے قطع کلامى کا مبارزہ کررہا ہے آپ ان سے بات نہیں کرتیں آہستہ آہستہ لوگوں میں شائع اور مشہور ہوگیا کہ پیغمبر(ص) کى دختر جناب ابوبکر سے رتھى ہوئی ہے اور ان پر خشمناک ہے _ مدینہ کے باہر بھى لوگ اس موضوع سے باخبر ہوچکے تھے تمام لوگ ایک دوسرے سے سؤال کرتے تھے کہ جنا ب فاطمہ (ع) کیوں خلیفہ کے ساتھ بات نہیں کرتیں ؟ ضرور اس کى وجہ وہى فدک کا زبردستى لے لینا ہوگا _ فاطمہ (ع) جھوٹ نہیں بولتیں اور اللہ تعالى کى مرضى کے خلاف کسى پر غضبناک نہیں ہوتیں کیونکہ پیغمبر خدا (ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کى اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے _

اس طرح ملت اسلامى کے احساسات روزبروز وسیع سے وسیع تر ہو رہے تھے اور خلافت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا_ خلافت کے کارکن یہ تو کرسکتے تھے کہ جناب فاطمہ (ع) کے قطع روابط سے چشم پوشى کرلیتے جتنى انہوں نے کوشش کى کہ شاید وہ صلح کرادیں ان کے لئے ممکن نہ ہوسکا_ فاطمہ (ع) اپنے ارادے پر ڈٹى ہوئی تھیں اور اپنے منفى مبارزے کو ترک کرنے پر راضى نہ ہوتى تھیں_

جب جناب فاطمہ (ع) بیمار ہوئیں تو جناب ابوبکر نے کئی دفعہ جناب فاطمہ (ع) سے ملاقات کى خواہش ظاہر کى لیکن اسے رد کردیا گیا، ایک دن جناب ابوبکر نے اس موضوع کو حضرت على (ع) کے سامنے پیش کیا اور آپ سے خواہش کى آپ جناب فاطمہ (ع) کى عیادت کا وسیلہ فراہم کریں اور آپ سے ملاقات کى اجازت حاصل کریں_ حضرت على علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) کے پاس گئے اور فرمایا اے دختر رسول(ص) جناب عمر اور ابوبکر نے ملاقات کى اجازت چاہى ہے آپ اجازت دیتى ہیں کہ وہ آپ کى خدمت میں حاضر ہوجائیں، جناب زہرا (ع) حضرت على (ع) کے مشکلات سے آگاہ تھیں آپ نے جواب دیا، گھر آپ کا ہے اور میں آپ کے اختیار میں ہوں جس طرح آپ مصلحت دیکھیں عمل کریں یہ فرمایا اور اپنے اوپر چادران لى اور اپنے منھ کو دیوار کى طرف کردیا_

جناب ابوبکر اور عمر گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور عرض کى اے پیغمبر(ص) کى دختر ہم اپنى غلطى کا اعتراف کرتے ہیں آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ آپ ہم سے راضى ہوجائیں آپ نے فرمایا کہ میں ایک بات تم سے پوچھتى ہوں اس کا مجھے جواب دو، انہوں نے عرض کى فرمایئےآپ نے فرمایا تمہیں خدا کى قسم دیتى ہوں___ کہ آیا تم نے میرے باپ سے یہ سنا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے اذیت دے اس نے مجھے اذیت دى ہے انہوں نے عرض کیا ہاں ہم نے یہ بات آپ کے والدسے سنى ہے اس وقت آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں کو آسمان کى طرف اٹھایا اور کہا اے میرے خدا گواہ رہ کہ ان دو آدمیوں نے مجھے اذیت دى ہے ان کى شکایت تیرى ذات اور تیرے پیغمبر(ص) سے کرتى ہوں میں_ ہرگز راضى نہ ہوں گى یہاں تک کہ اپنے بابا سے جاملوں اور وہ اذیتیں جو انہوں نے مجھے دى ہیں ان سے بیان کروں تا کہ آپ ہمارے درمیان فیصلہ کریں جناب ابوبکر جناب زہرا (ع) کى یہ بات سننے کے بعد بہت غمگین اور مضطرب ہوئے لیکن جناب عمر نے کہا اے رسول (ص) کے خلیفہ، ایک عورت کى گفتگو سے ناراحت ہو رہے ہو (10)_

یہاں پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ بات آسکتى ہے کہ وہ کہیں کہ گرچہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) سے فدک لے کر اچھا کام نہیں کیا تھا لیکن جب وہ پشیمانى اور ندامت کا اظہار کر رہے ہیں تو اب مناسب یہى تھا کہ ان کا عذر قبول کرلیا جاتا لیکن اس نکتہ سے غافل نہیں رہتا چاہیئے کہ حضرت زہرا (ع) کے مبارزے کى اصلى علت اور وجہ خلافت تھى فدک کا زبردستى لے لینا اس کے ذیل میں آتا تھا اور خلافت کا غصب کرنا ایسى چیز نہ تھى کہ جسے معاف کیا جاسکتا ہو اور اس سے چشم پوشى کى جاسکتى ہو اور پھر جناب زہراء (ع) جانتى تھیں کہ حضرت ابوبکر یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہے ہیں تا کہ اس اقدام سے عوام کو دھوکہ میں رکھا جاسکے اور وہ اپنے کردار پر نادم اور پشیمان نہ تھے کیونکہ ندامت کا طریقہ عقلا کے لحاظ سے یہ تھا کہ وہ حکم دیتے کہ فدک کو فوراً جناب فاطمہ (ع) کے حوالے

کردو اور اس کے بعد آپ آتے اور معاف کردینے کى خواہش کرتے اور کہتے کہ ہم اپنے اس اقدام پر پشیمان اور نادم ہوچکے ہیں تو اس بات کو صداقت پر محمول کیا جاسکتا تھا_

1) سورہ مریم آیت6_
2) سورہ نمل آیت 16_
3) احتجاج طبرسی، ج 1 ص 141_
4) دلائل الامامہ، ص 38_
5) دلائل الامامہ، ص 39_
6) کشف الغمہ، ج 2 ص 103_ شرح ابن ابى الحدید، ج 6 ص 46_
7_ صحیح مسلم ، ج 3 ص 03ا_
8_ کشف الغمہ ، ج 2 ص 92_
9_ کشف الغمہ ، ج 2 ص 84_
10) بحار الانوار، ج 43 ص 198_