پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

فدك لينے كے اسباب

فدک لینے کے اسباب

فدک لینے کے لئے دو اصلى عوامل قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ جن کے بعد جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لیا جائے_

پہلا عامل: تاریخ کے مطالعے سے یہ مطلب روز روشن کى طرح واضح ہے کہ جناب عائشےہ دو چیزوں سے ہمیشہ رنجیدہ خاطر رہتى تھی_ پہلی: چونکہ پیغمبر اسلام(ص) جناب خدیجہ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور ان کا کبھى کبھار نیکى سے ذکر کیا کرتے تھے، اس وجہ سے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتى تھى اور بسا اوقات اعتراض بھى کردیتى تھیں اور کہتى تھیں خدیجہ ایک بوڑھى عورت سے زیادہ کچھ نہ تھیں آپ ان کى اتنى تعریف کیوں کرتے ہیں_ پیغمبر(ص) جواب دیا کرتے تھے، خدیجہ جیسا کون ہوسکتا ہے؟ پہلى عورت تھیں جو مجھ پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال میرے اختیار میں دے دیا، میرے تمام کاموں میں میرى یار و مددگار تھیں خداوند عالم نے میرى نسل کو اس کى اولاد سے قرار دیا ہے(1)_

جناب عائشےہ فرماتى ہیں کہ میں نے خدیجہ جتنا کسى عورت سے بھى رشک نہیں کیا حالانکہ آپ میرى شادى سے تین سال پہلے فوت ہوچکى تھیں کیونکہ رسول خدا(ص) ان کى بہت زیادہ تعریف کرتے تھے، خداوند عالم نے رسول خدا(ص) کو حکم دے رکھا تھا کہ خدیجہ کو بشارت دے دیں کہ بہشت میں ان کے لئے ایک قصر تیار کیا جاچکا ہے، بسا اوقات رسول خدا(ص) کوئی گوسفند ذبح کرتے تو اس کا گوشت جناب خدیجہ کے سہیلیوں کے گھر بھى بھیج دیتے تھے (2)_
 

جناب امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) گھر میں آئے تو دیکھا کہ جناب عائشےہ حضرت زہراء کے سامنے کھڑى قیل و قال کر رہى ہیں اور کہہ رہى ہیں اے خدیجہ کى بیٹى تو گمان کرتى ہے کہ تیرى ماں مجھ سے افضل تھی، اسے مجھ پر کیا فضیلت تھی؟ وہ بھى میرى طرح کى ایک عورت تھى جناب رسول خدا(ص) نے جناب عائشےہ کى گفتگو سن لى اور جب جناب فاطمہ (ع) کى نگاہ باپ پر پڑى تو آپ نے رونا شروع کردیا_ پیغمبر نے فرمایا فاطمہ (ع) کیوں روتى ہو؟ عرض کیا کہ جناب عائشےہ نے میرى ماں کى توہین کى ہے رسول خد ا(ص) خشمناک ہوئے اور فرمایا: عائشےہ ساکت ہوجاؤ، خداوند عالم نے محبت کرنے والى بچہ دار عورتوں کو مبارک قرار دیا ہے_ جناب خدیجہ سے میرى نسل چلی، لیکن خداوند عالم نے تمہیں بانجھ قرار دیا (3)_

دوسرا عامل: پیغمبر اکرم(ص) حد سے زیادہ جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے آپ کے اس اظہار محبت نے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا کر رکھى تھى کہ جس کى وجہ سے وہ عذاب میں مبتلا رہتى تھیں کیونکہ عورت کى فطرت میں ہے کہ اسے اپنى سوکن کى اولاد پسند نہیں آتى اور عائشےہ کبھى اتنى سخت ناراحت ہوتیں کہ پیغمبر(ص) پر بھى اعتراض فرما دیتیں اور کہتیں کہ اب جب کہ فاطمہ (ع) کى شادى ہوچکى ہے آپ پھر بھى اس کا بوسہ لیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اس کے جواب میں فرماتے ہیں تم فاطمہ (ع) کے مقام اور مرتبے سے بے خبر ہو ورنہ ایسى بات نہ کرتیں (4)_

 

آپ جناب فاطمہ (ع) کى جتنى زیادہ تعرى کرتے اتناہى جناب عائشےہ کى اندرونى کیفیت دگرگوں ہوتى اور اعتراض کرنا شروع کردیتیں_

ایک دن جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کى خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے کہ آپ نے جناب عائشےہ کى آواز اور چیخنے کو سنا کہ رسول خدا(ص) سے کہہ رہى ہیں کہ خدا کى قسم مجھے علم ہے کہ آپ على (ع) اور فاطمہ (ع) کو میرے اور میرے باپ سے زیادہ دوست رکھتے ہیں، جناب ابوبکر اندر آئے اور جناب عائشےہ سے کہا کیوں پیغمبر(ص) سے بلند آواز سے بات کر رہى ہو (5)_

ان دو باتوں کے علاوہ اتفاق سے جناب عائشےہ بے اولاد اور بانجھ بھى تھیں اور پیغمبر(ص) کى نسل جناب فاطمہ (ع) سے وجود میں آئی یہ مطلب بھى جناب عائشےہ کو رنج پہنچاتا تھا، بنابرایں جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطرى تھا اور آپ کبھى اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطرى تھا اور آپ کبھى اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب فاطمہ (ع) کى شکایت کرتیں ہوسکتا ہے کہ جناب ابوبکر بھى دل سے جناب فاطمہ (ع) کے حق میں بہت زیادہ خوش نہ رہتے ہوں اور منتظر ہوں کہ کبھى اپنى اس کیفیت کو بجھانے کے لئے جناب فاطمہ (ع) سے انتقام لیں_

جب پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پاچکے تو جناب فاطمہ (ع) رویا کرتیں اور فرماتیں کتنے برے دن آگئے ہیں جناب ابوبکر فرماتے کہ ابھى برے دن اور آگے ہیں (6)_

 

دوسرا مطلب: جناب عمر اور ابوبکر سوچتے تھے کہ حضرت على (ع) کے ذاتى کمالات اور فضائل اور علم و دانش کا مقام قابل انکار نہیں اور پھر پیغمبر(ص) کى سفارشات بھى ان کى نسبت بہت معروف اور مشہور ہیں پیغمبر (ص) کے داماد اور چچازاد بھائی ہیں اگر ان کى مالى اور اقتصادى حالت اچھى ہوئی اور ان کے ہاتھوں میں دوپیہ بھى ہوا تو ممکن ہے کہ ایک گروہ ان کا مددگار ہو جائے اور پھر وہ خلافت کے لئے خطرے کا موجب بن جائے یہ ایک نکتہ تھا کہ جس کا ذکر جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کیا اور جناب ابوبکر سے کہا کہ لوگ دنیا کے بندے ہوا کرتے ہیں اور دنیا کے سوا ان کا کوئی ہدف نہیں ہوتا تم خمس اور غنائم کو على (ع) سے لے لو اور فدک بھى ان کے ہاتھ سے نکال لو جب ان کے چاہنے والے انہیں خالى ہاتھ دیکھیں گے تو انہیں چھوڑ دیں گے اور تیرى طرف مائل ہوجائیں گے (7)_

جى ہاں یہ دو مطلب مہم عامل اور سبب تھے کہ جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک کو مصادرہ کر کے واپس لے لیں اور حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے عمال اور کارکنوں کا باہر کیا جائے اور اسے اپنے عمال کے تصرف میں دے دیا_

1) تذکرة الخواص، ص 303 و مجمع الزوائد، ج 9 ص 224_
2) صحیح مسلم ج 2 ص 1888_
3) بحار الانوار، ج 16 ص 3_
4) کشف الغمہ، ج 2 ص 85_
5) مجمع الزواید، ج 9 ص 201_
6) ارشاد شیخ مفید، ص 90_
7) ناسخ التواریخ جلد زہرائ، ص 123_