پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حصّہ دوم جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كى شادي

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر خدا(ص) کى لڑکى اور اپنے زمانے کى ممتاز خواتین سے تھیں قریش کے اصل اور شریف خاندان سے آپ کے والدین تھے_ جمال ظاہرى اور روحانى کمالات اور اخلاق آپ نے اپنے ماں باپ سے ورثہ میں پایا تھا، آپ انسانى کمالات کے اعلى ترین کمالات سے مزین تھیں آپ کے والد کى شخصیت دن بدن لوگوں کى نگاہوں میں بلند ہو رہى تھى آپ کى قدرت اور عظمت بڑھ رہى تھى اس لئے آپ کى دختر نیک اختر کى ذات بزرگان قریش اور باعظمت شخصیات اور ثروت مند حضرات کى نگاہوں میں مورد توجہ قرار پاچکى تھی_ تاریخ میں ہے کہ اکثر اوقات بزرگان آپ کى خواستگارى کرتے رہتے تھے لیکن پیغمبر اسلام(ص) بالکل پسند نہیں فرماتے تھے، آنحضرت ان لوگوں سے اس طرح پیش آتے تھے کہ انہیں معلوم ہوجاتا تھا کہ پیغمبر اسلام نے ناراض ہیں_(1)

جناب رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کو على (ع) کے لئے مخصوص کردیا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ حضرت على (ع) کى طرف سے اس کى پیشکش کى جائے_(2)


پیغمبر اسلام(ص) خداوند عالم کى طرف سے مامور تھے کہ نور کا عقد نور سے کریں _(3)

لکھا ہے کہ جناب ابوبکر بھى خواستگاروں میں سے ایک تھے، ایک دن وہ اسى غرض سے جناب رسول خدا(ص) کى خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کى یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ آپ سے وصلت کروں، کیا ممکن ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد آپ مجھ سے کردیں؟ جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) ابھى کمسن ہے اور اس کے لئے شوہر کى تعیین خدا کے ہاتھ میں ہے میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں_ جناب ابوبکر مایوس ہوکر واپس لوٹے راستے میں ان کى ملاقات جناب عمر سے ہوگئی تو اپنے واقعہ کو ان سے بیان کیا جناب عمر نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے تمہارے مطالبے کو رد کردیا ہے_ اور آپ (ص) نہیں چاہتے تھے کہ اپنى دختر تجھے دیں_

جناب عمر بھى ایک دن جناب فاطمہ (ع) کى خواستگارى کى غرض سے پیغمبر اسلام(ص) کى خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعیان بیان کیا_ پیغمبر خدا(ص) نے انھیں بھى یہى جواب دیا کہ فاطمہ (ع) کمسن ہے اور اس کے شوہر کا معین کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے، کئی دفعہ ان دونوں صاحبان نے خواستگارى کى درخواست کى جو قبول نہیں کى گئی_

عبدالرحمن بن عوف او رجناب عثمان بن عفان جو دونوں بہت بڑے سرمایہ دار تھے پیغمبر اسلام(ص) کے پاس خواستگارى کے لئے حاضر ہوئے، عبدالرحمن نے عرض کى یا رسول اللہ(ص) اگر فاطمہ (ع) کى شادى مجھ سے کردیں تو میں سو سیاہ اونٹ آبى چشم کہ جن پر مصرى کتان کے کپڑوں سے بارلادا گیا ہو اور دس ہزار دینار بھى حق مہر دینے کے لئے حاضر ہوں جناب عثمان نے عرض کیا کہ میں بھى حاضر ہوں کہ اتنا ہى مہر ادا کروں اور مجھے عبدالرحمن پر ایک فضیلت یہ بھى حاصل ہے کہ میں اس سے پہلے ایمان لایا ہوں_

پیغمبر اسلام(ص) ان کى گفتگو سے سخت غضبناک ہوئے اور انہیں یہ سمجھانے کے لئے کہ میںمال سے محبت نہیں رکھتا آپ نے ایک مٹھى سنگریزوں کى بھرلى اور عبدالرحمن کى طرف پھینکتے ہوئے فرمایا کہ تم خیال کرتے ہو کہ میں مال کا پرستار ہوں اور اپنى ثروت و دولت سے مجھ پر فخر و مباہات کرنا چاہتے ہو کو مال و دولت کے دباؤ سے میں فاطمہ (ع) کا عقد تجھ سے کردوں گا_ (4)

 

حضرت على (ع) کى پیشکش

اصحاب پیغمبر(ص) نے اجمالاً محسوس کرلیا تھا کہ پیغمبر خدا(ص) کا دل چاہتا ہے کہ فاطمہ (ع) کا عقد على (ع) سے کردیں لیکن حضرت على (ع) کى طرف سے اس کى پیشکش نہیں ہو رہى تھى ایک دن جناب عمر اور ابوبکر اور سعدبن معاذ و ایک گروہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور مختلف موضوعات پر بحث کر رہے تھے اسى دوران جناب فاطمہ (ع) کا ذکر بھى آگیا، ابوبکر نے کہا کہ کافى عرصہ سے عرب کے اعیان اور اشراف فاطمہ (ع) کى خواستگارى کر رہے ہیں لیکن پیغمبر (ص) نے کسى بھى درخواست کو قبول نہیں فرمایا اور ان کے جواب میں یہى فرماتے تھے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے_

ابھى تک على ابن ابى طالب علیہ السلام کى طرف سے فاطمہ (ع) کى خواستگارى نہیں کى گئی میں گمان کرتا ہوں کہ على علیہ السلام کى طرف سے اس اقدام نے کرنے کى وجہ ان کى تہى دست ہونا ہے میرے سامنے یہ مطلب واضح ہے کہ خدا اور پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) کو حضرت على (ع) کے لئے معین کر رکھا ہے_

اس کے بعد ابوبکر نے جناب عمر اور سعد سے کہا اگر تم آمادہ ہو تو ہم مل کر على (ع) کے پاس چلیں اور ان کے سامنے اس موضوع کو پیش کریں اور اگر وہ شادى کرنے کی طرف مائل ہوں اور تہى دست ہونے کى بنیاد پر وہ شادى نہ کر رہے ہوں تو ہم ان کى مدد کریں سعد بن معاذ نے اس پیشکش کو بسر و چشم قبول کیا اور ابوبکر کو اس کام میں تشویق دلائی_

سلمان فارسى کہتے ہیں کہ جناب عمر او رابوبکر اور سعد بن معاذ اسى غرض سے مسجد سے باہر آئے اور حضرات على علیہ السلام کى جستجو میں چلے گئے لیکن آپ کو انہوں نے گھر پہ نہ پایا اور معلوم ہوا کہ آپ ایک انصارى کے باغ میں اونٹ کے ذریعے ڈول کھینچ کر خرمے کے درختوں کو پانى دے رہے ہیں یہ لوگ اس طرف گئے_ حضرت على علیہ السلام نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور میرے پاس کس غرض سے آئے ہو؟ ابوبکر نے کہا اے على (ع) تم کمالات کے لحاظ سے ہر ایک سے بالاتر ہو ہم سب آپ کے مقا اور وہ علاقہ جو رسول خدا(ص) کو تم سے ہے اس سے آگاہ ہیں، بزرگان اور اشراف قریش حضرت فاطمہ (ع) کى خواستگارى کے لئے جاچکے ہیں، لیکن تمام لوگوں کى باتوں کو پیغمبر اکرم(ص) نے رد فرمایا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ہم گمان کرتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو آپ کے لئے مخصوص کیا ہے دوسرا اور کوئی بھى شخص اس سعادت پر افتخار کى صلاحیت نہیں رکھتا ہیں یہ خبر نہیں ہوسکى کہ آپ اس اقدام میں کیوں کوتاہى کر رہے ہیں؟

حضرت على علیہ السلام نے جب ابوبکر کى یہ گفتگو سنى تو آپ کى آنکھوں میں آنسو بھرآئے اور فرمایا اے ابوبکر تم نے میرے احساسات اور اندرونى خواہشات کو ابھارا ہے اور اس کى طرف توجہ دلائی ہے کہ جس سے میں غافل تھا_ خدا کى قسم تمام دنیا حضرت فاطمہ (ع) کى خواستگار ہے اور میں بھى علاقہ مند ہوں جو چیز مجھے اس اقدام سے روکے ہوئے ہے وہ ہے فقط میرا خالى ہاتھ ہونا_ ابوبکر نے کہا یا على (ع) آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ پیغمبر خدا(ص) کى نگاہ میں دنیا اور مال دنیا کى کوئی قیمت نہیں ہے میرى رائے ہے کہ جتنى جلدی

ہوسکے آپ اس کام میں اقدام کریں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کى خواستگارى کى درخواست دیں_(5)


اندرونى جذبہ بیدار ہوتا ہے

حضرت على علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کے گھر ہى پلے اور جوان ہوئے تھے، آپ(ص) جناب فاطمہ (ع) کو اچھى طرح پہچانتے تھے اور آپ کے اخلاق اور نفسیات سے پورى طرح آگاہ تھے، دونوں پیغمبر خدا(ص) اور جناب خدیجہ کے تربیت یافتہ تھے اور ایک ہى گھر میں جوان ہوئے تھے_(6)

حضرت على علیہ السلام جانتے تھے کہ حضرت فاطمہ (ع) جیسى عورت اور نہیں مل سکے گى آپ تمام کمالات اور فضائل سے آراستہ ہیں اور آپ انہیں تہہ دل سے چاہتے تھے اور یہ بھى جانتے تھے کہ ہمیشہ مناسب وقت ہاتھ نہیں آیا کرتا لیکن اسلام کى بحرانى کیفیت اور مسلمانوں کى اقتصادى زبوں حالى نے على کو اس دلى خواہش سے روک رکھا تھا اور آپ میں سوائے ازدواج کے تمام افکار موجود تھے_

حضرت على (ع) نے ابوبکر کى پیش کش پر تھوڑا سا غور کیا اور اس معاملے کے تمام اطر اف اور جوانب پر غور کیا ایک طرف آپ کا خالى ہاتھ ہونا اور اپنى اور تمام مسلمانوں کى اقتصادى زبوں حالى اور عمومى گرفتارى دیکھ رہے تھے اور دوسرى طرف یہ بھى جان چکے تھے کہ آپ کے ازدواج کا وقت آپہنچا ہے کیونکہ آپ کى عمر تقریباً اکیس سال یا اس سے زیادہ ہوچکى تھی_(7)


انہیں اس عمر میں ازدواج کرنا ہى چاہیئےور فاطمہ (ع) جیسا اور رشتہ بھى نہیں مل سکے گا اگر یہ سنہرا وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اس کا تدارک نہیں کیا جاسکے گا_


على (ع) خواستگارى کے لئے جاتے ہیں

جناب ابوبکر کى پیشکش نے حضرت على علیہ السلام کى روح کو اس طرح بیدار کردیا تھا کہ آپ کا اندرونى جذبہ محبت شعلہ ور ہو اور آپ سے پھر اس کام کو آخر تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا کہ جس میں آپ مشغول تھے، آپ نے اونٹ کو اس کام سے علیحدہ کیا اور گھر واپس آگئے آپ نے غسل کیا اور ایک صاف ستھرى عبا پہنى اور جوتے پہن کر جناب رسول خدا(ص) کى خدمت میں حاضر ہوئے_

پیغمبر اکرم(ص) اس وقت جناب ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے_ حضرت على علیہ السلام جناب ام سلمہ کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پیغمبر اکرم(ص) نے جناب ام سلمہ سے فرمایا کہ دروازہ کھولو دروازہ کھٹکھٹا نے والا وہ شخص ہے کہ جس کو خدا اور رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور اس کے رسول (ص) کو دوست رکھتا ہے_ ام سلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ یہ کون ہے کہ جسے آپ نے بغیر دیکھے ہوئے اس قسم کا فیصلہ ان کے حق میں کردیا ہے؟

آپ(ص) نے فرماى اے امّ سلمہ چپ رہو یہ ایک بہادر اور شجاع انسان ہے جو میرا چچازاد بھائی ہے اور سب لوگوں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہے جناب ام سلمہ اپنى جگہ سے اٹھیں اور گھر کا دروازہ کھول دیا، حضرت على (ع) گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور پیغمبر خدا(ص) کے سامنے بیٹھ گئے اور شرم کى وجہ سے سر نیچے کئے ہوئے تھے اور اپنے ارادے کو ظاہر نہ کرسکے، تھوڑى دیر تک دونوں چپ رہے اور آخر الامر پیغمبر اسلام(ص) نے اس سکوت کو توڑا اور ___ فرمایا یا على گو یا کسى کام کے لئے میرے پاس آئے ہو کہ جس کے اظہار کرنے سے شرم کر رہے ہو؟ بغیر کسى ہچکچا ہٹ کے اپنى حاجت کو بیان کرو اور مطمئن ہو جاؤ کہ تمہارى خواہش قبول کى جائے گی_

حضرت على (ع) نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں آپ کے گھر میں جو ان ہوا ہوں اور آپ کے لطف و کرم سے ہى مستفید رہا ہوں آپ نے میرى تربیت میں ماں اور باپ سے بھى زیادہ کوشش فرمائی ہے اور آپ کے وجود مبارک کى برکت سے میں نے ہدایت پائی ہے یا رسول اللہ خدا کى قسم میرى دنیا و آخرت کى پونجى آپ ہیں اب وہ وقت آپہنچا ہے کہ اپنے لئے کسى رفیقہ حیات کا انتخاب کروں اور خانوادگى زندگى کو تشکیل دوں تا کہ اس سے مانوس رہوں اور اپنى تکالیف کو اس کى وجہ سے کم کرسکوں، اگر آپ مصلحت دیکھیں تو اپنى دختر جناب فاطمہ (ع) کو میرے عقد میں دے دیں کہ جس سے مجھے ایک بہت بڑى سعادت نصیب ہوگی_

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قسم کى پیشکش کے منتظر تھے آپ کا چہرہ انور خوشى اور سرور سے جگمگا اٹھا اور فرمایا کہ صبر کرو میں فاطمہ (ع) سے اس کى اجازت لے لوں_ پیغمبر اسلام(ص) جناب فاطمہ(ص) کے پاس تشریف لے گئے او فرمایا تم کو بہتر جانتى ہو وہ خواستگاى کے لئے آپے ہیں آیا تم اجازت دیتى ہو کہ میں تمہارا ان سے عقد کردوں؟ جناب فاطمہ (ع) شرم کى وجہ سے ساکت رہیں اور کچھ نو بولیں_ پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آنجناب کے سکوت کو رضایت کى علامت قرار دیا _(8)

 

موافقت

پیغمبر خدا(ص) اجازت لینے کے بعد حضرت على (ع) کے پاس آئے اور مسکرات ہوئے فرمایا یا على (ع) شادى کے لئے تمہارے پاس کچھ ہے؟ حضرت على (ع) نے جواب دیا یا رسول اللہ (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، آپ میرى حالت سے پورى طرح آگاہ ہیں میرى تمام دولت ایک تلوار اور ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے آپ نے فرمایا کہ تم ایک جنگجو سپاہى اور جہاد کرنے والے ہو بغیر تلوار کے خدا کى راہ میں جہاد نہیں کرسکتے تلوار تمہارى پہلى کھینچ کر اپنى اور اپنے گھر کى اقتصادى اور مالى حالت سنوار سکو اور مسافرت میں اس پر سامان لاد سکو صرف ایک چیز ہے کہ جس سے صرف نظر کرسکتے ہو اور وہ ہے تمہارى زرہ میں بھى تم پر سختى نہیں کرتا اور اسى زرہ پر اکتفا کرتا ہوں، یا على اب جب کہ معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کیا چاہتے ہو تمہیں ایک بشارت دوں اور ایک راز سے آگاہ کروں؟

حضرت على علیہ السلام نے عرض کى جى ہاں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ بر قربان ہوں آپ ہمیشہ خوش زبان اور نیک خواہ رہے ہیں_ آپ نے فرمایا کہ قبل اس کے کہ تم میرے پاس آؤ جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد(ص) اللہ تعالى نے تجھے بندوں سے منتخب کیا ہے اور رسالت کے لئے چنا ہے_ على (ع) کو منتخب کیا اور انہیں تمہارا بھائی اور وزیر قرار دیا ہے تمہیں اپنى دختر کا ا ن سے نکاح کردینا چاہیئے ان کے ازدواج کى محفل عالم بالا میں فرشتوں کے حضور ترتیب دى جاچکى ہے خداوند عالم دو پاکیزہ نجیب طیب و طاہر اور نیک فرزند انہیں عطا کرے گا_ اے على (ع) ابھى جبرئیل واپس نہیں گئے تھے کہ تم نے میرے گھر کا دروازہ آن کھٹکھٹایا ہے_(9)

 

خطبہ عقد

پیغمبر خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے على (ع) تم جلدى سے مسجد میں جاوں میں بھى تمہارے پیچھے آرہا ہوں تا کہ تمام لوگوں کے سامنے عقد کى تقریب اور خطبہ عقد بجالاؤ، على (ع) خوش اور مسرورمسجد روانہ ہوگئے_ جناب ابوبکر او رعمر سے راستے میں ملاقات ہوگئی تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا اور کہا کہ رسول خدا(ص) نے اپنى دختر مجھ سے تزویج کردى ہے اور ابھى میرے پیچھے آرہے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کے مراسم انجام دیں_

پیغمبر خدا(ص) جب کہ آپ کا چہرہ خوشى اور شادمانى سے چمک رہا تھا مسجد میں تشریف لے گئے او رخدا کى حمد و ثناء کے بعدفرمایا: اے لوگو آگاہ رہو کہ جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے ہیں اور خداوند عالم کى طرف سے پیغام لائے ہیں کہ حضرت على علیہ السلام اور جناب فاطمہ (ع) کے ازدواج کے مراسم عالم بالا میں فرشتوں کے حضور منعقد کئے جاچکے ہیں اور حکم دیا ہے کہ زمین پر بھى یہ مراسم انجام دیئے جائیں میں تم کو گواہ قرار دیتا ہوں، آپ اس کے بعد بیٹھ گئے اور حضرت على (ع) سے فرمایا اٹھو اور خطبہ پڑھو_

حضرت على علیہ السلام کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں خداوند عالم کا اس کى نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسى گواہى دیتا ہوں جو اس ذات کو پسند ہو کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور ایسا درود ہو جناب محمد صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جو آپ کے مقام اور درجہ کو بالاتر کردے_ لوگو میرے اور فاطمہ (ع) کے ازدواج سے اللہ راضى ہے اور اس کا حکم دیا ہے لوگو رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) کا عقد مجھ سے کردیا ہے اور میرى زرہ کو بطور مہر قبول فرمایا ہے آپ ان سے پوچھ لیں اور گواہ ہوجائیں_ مسلمانوں نے پیغمبر اسلام(ص) کى خدمت میں عرض کى یا رسول اللہ(ص) آپ نے فاطمہ (ع) کا عقد على علیہ السلام سے کردیا ہے؟ رسول خدا(ص) نے جواب میں فرمایا ہاں_ تمام حاضرین نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ خدا اس ازدواج کو تمہارے لئے مبارک قرار دے اور تم دونوں کے درمیان محبت اور الفت پیدا کردے_

جلسہ عقد ختم ہوا تو پیغمبر (ص) گھر واپس لوٹ آئے اور عورتوں کو حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے لئے خوشى اور مسرت کا جشن برپا کریں (10) عقد کے مراسم پہلى یا چھٹى ذى الحجہ (11) دوسرى یا تیسرى ہجری(12) کو انجام پایا_


داماد کا انتخاب

اسلام مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اگر کوئی جوان تمہارى لڑکى کى خواستگارى کے لئے آئے تو تم اس کى تمام چیزوں سے پہلے دینى اور اخلاقى حالت کا جائزہ لو با ایمان اور پاک دامن اور خوش اخلاق ہو تو اس سے رشتہ کردو_ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ ازدواج کے لئے مال اور ثروت کو معیار نہیں بنانا چاہیئے_ اسلام کہتا ہے کہ مال و ثروت ہى انسان کو صرف خوش بخت نہیں بناتا، داماد کے فضائل اور کمالات نفسانى اور دینى جذبہ مال اور ثروت پر برترى رکھتا ہے، کیوں کہ باایمان اور خوش رفتار اگر چہ فقیر اور تہى دست ہى کیوں نہ ہو وہ اس عیاش اور ہوسباز اور لاابالى سرمایہ دار سے جو گھر کى آسائشے کے اسباب فراہم کرتا ہے کئی درجہ بہتر ہے_

پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے جب کوئی تمہارى لڑکى کى خواستگارى کے لئے آتے تو اگر تمہیں اس کا اخلاق اور دین _ پسند ہو تو اس سے رشتہ کردو اور اس کو منفى جواب نہ دو اور اگر تمہارى شادیوں کا معیار اس کے خلاف ہو تو نہ تمہارے لئے بہت زیادہ مصائب کا موجب ہوگا_(13)

پیغمبر(ص) نے یہ مطلب صرف لوگوں کو بتلایا ہى نہیں بلکہ خود بھى اس پر عمل کیا_ آپ نے حضرت على (ع) کے فضائل اور کمالات اور اخلاق کو دیکھ کر انہیں عبدالرحمن اور عثمان جیسے سرمایہ داروں پر ترجیح دى اور ان(ع) کے فقیر اور تہى دست ہونے کے نقض اور عیب شمار نہ کیا_


حضرت زہرا علیہا السلام کا مہر

1_ ایک زرہ کہ جس کى قیمت چارسو یا چارسو اسى یا پانچ سو درہم تھی_

2_ یمنى کتان کا ایک جوڑا_

3_ ایک گوسفند کى کھال رنگى ہوئی _(14)

 

عملى سبق

اسلام زیادہ مہر کو ملت کے لئے مصلحت نہیں دیکھتا اور سفارش کرتا ہے کہ اگر داماد کے دین اور اخلاق کو تم نے پسند کرلیا ہے تو پھر مہر میں سختى سے کام نہ لو اور تھوڑے مہر پر قناعت کرلو_

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں میرى امت کى بہترین عورتیں وہ ہیں جو خوبصورت اور کم مہر والى ہوں_(15)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کى برائی اس میں ہے کہ اس کا مہر بہت زیادہ ہو_(16)

اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ زیادہ مہر زندگى کو لوگوں پر سخت کردیتا ہے اور بہت زیادہ مشکلات کا ملت کے لئے موجب ہوتا ہے_ مہر میں آسانى کر کے جواوں کو ازدواج زندگى کى طرف مائل کرنا چاہیئےا کہ ہزاروں اجتماعى مفاسد اور روحى امراض سے روکا جاسکے_ زیادہ مہر داماد کى زندگى کو ابتدا ہى میں متزلزل کردیتا ہے اور میاں بیوى کى محبت پر بھى بر اثر ڈالتا ہے (میاں بیوى کى محبت میں خلوص پیدا نہیں ہونے دیتا) جوانوں کو شادى کى طرف سے بے رغبت کردیتا ہے_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں کو خود عمل کر کے سمجھا رہے ہیں کہ زیادہ مہر اسلامى معاشرے کے لئے واقعاً مصلحت نہیں رکھتا اسى لئے تو آپ نے اپنى عزیزترین بیٹى کا معمول مہر پر جیسا کہ بیان کیا گیا حضرت على (ع) سے نکاح کردیا یہاں تک کہ کوئی چیز بطور قرض بھى على (ع) کے ذمّہ نہیں سونپی_

 

 

حضرت زہرا علیہا السلام کا جہیز

پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت على (ع) سے فرمایا ابھى اٹھو ارو اس زرہ کو جو تم نے حضرت زہرا (ع) کے لئے مہر قرار دى ہے، بازار میں جا کر فروخت کردو اور اس کى قیمت میرے پاس لے آؤ تا کہ میں تمہارے لئے جہیز اور گھر کے اسباب مہیا کروں_

چنانچہ حضرت على علیہ السلام نے زرہ کو بازار میں لے جا کر فروخت کردیا، مختلف روایات میں اس کى قیمت چار سو سے لے کر پانچ سو درہم تک بتائی گئی ہے_ واضح رہے کہ بعض روایات کى بنا پر جناب عثمان نے آپ کى زرہ خریدى اور بعد میں حضرت على (ع) کو ہدیہ کردی_(17)

حضرت على علیہ السلام زرہ کى قیمت لے کر پیغمبر خدا(ص) کى خدمت میں پیش کی، رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب ابوبکر، سلمان فارسى اور بلال کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس مقدار سے جناب فاطمہ (ع) کے لوازمات اور اسباب زندگى خرید کر لاؤ اور اس سے کچھ درہم اسماء کو دیئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو او رجو درہم باقى بچے وہ جناب ام سلمہ کے پاس رکھ دیئے گئے_

ابوبکر کہتے ہیں کہ جب میں نے درہم کو گنا تو سترسٹھ درہم تھے اور اس سے میں نے یہ اسباب اور لوازمات خریدے_

1_ ایک سفید قمیص_

2_ ایک بڑى چادر سر ڈھانپنے کے لئے (یعنى برقعہ)_

3_ ایک سیاہ خیبرى حلہ_

4_ ایک چار پائی جو کھجور کے لیف سے نبى ہوئی تھی_

5_ دو عدد توشک ، گدے کہ ایک میں گوسفند کى پشم بھرى گئی اور دوسرى میں کجھور کے پتے بھرے گئے_

6_ چار عدد تکیہ جو گوسفند کے چمڑے سے بنائے گئے تھے کہ جن کو اذخر نامى خوشبودار گھاس سے بھرا گیا تھا_

7_ ایک عدد چٹائی ہجرى نامی_

8_ ایک عدد دستى چکی_

9_ ایک تانبہ کا پیالہ_

10_ پانى بھر نے کے لئے ایک عدد چمڑے کى مشک_

11_ کپڑا دھونے کے لئے ایک عدد تھال_

12_ دودھ کے لئے ایک عدد پیالہ_

13_ پانى پینے کا ایک عدد برتن _

14_ ایک پشمى پردہ_

15_ ایک عدد لوٹا_

16_ ایک عدد کٹى ا برتن جسے صراحى (سبو) کہا جاتا ہے_

17_ فرش کرتے کے لئے ایک عدد چمڑا_

18_ ایک عدد کوزے_

19_ ایک عدد عبا_(18)

جب جناب زہرا (ع) کا جہیز جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لے

 

آئے تو آپ کى آنکھوں سے آنسو جارى ہوگئے اور اپنے سر کو آسمان کى طرف بلند کر کے فرمایا اے خدا اس شادى کو مبارک کر کہ جس کے اکثر برتن مٹى کے ہیں_


مسلمانوں کے لئے درس

جناب زہرا علیہا السلام اور حضرت على علیہ السلام کى شادى اسلامى نمونہ کا سب سے اہم اور احساس ترین شادى ہوسکتى ہے کیونکہ جناب زہر ا علیہا السلام کے والد جزیزة العرب کى بہت بڑى شخصیت بلکہ جہان اسلام کى اہم شخصیت اور برگزیدہ پیغمبر تھے_لڑکى کى بھى بہترین او رعاقل ترین اور تربیت شدہ اور باکمال تھى اور نبائے بشریت کى چار عورتوں میں سے ایک ہیں اور داماد بھى حسب و نسب کے لحاظ سے عرب کے معزز خاندان سے تھے، علم اور کمال اور شجاعت کے لحاظ سے تمام مردوں پر برترى رکھتے ہیں آپ رسول خدا(ص) کے جانشین اور وزیر اور مشیر ہیں اور لشکر اسلام کے سپہ سالار ہیں، اس قسم کى شادى کو خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہونا چاہیئے تھا لیکن جیسا آپ ملاحظہ کرچکے ہیں یہ تقریب بہت سادى سے انجام پذیر ہوئی اسلام کى مثالى خاتون کا جہیز جو مہیا کیا گیا وہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہى مختصر جہیز بھى خود حضرت زہرا علیہا السلام کے حق مہر سے خریدا گیا یوں نہیں کیا گیا کہ حق مہر کو محفوظ کرلیا گیا ہو اور لڑکى کے باپ نے ہزاروں مصائب اور دوسرے اپنى لڑکى کے لئے جہیز اپنى جیب سے مہیا کیا ہو_

پیغمبر خدا(ص) جیسے بھى ہوتا اگر چہ فرض ہى لے کر کیوں نہ ہوتا یوں کرسکتے تھے کہ بہت آبرومندانہ جہیز اس زمانے کے معمول کے مطابق اپنى اکلوتى عزیزترین بیٹى کے لئے مہیا کرتے اور یوں کہتے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں مجھے اپنى شان کا خیال رکھنا ضرورى ہے میرى بیٹى دنیا کہ بہترین عورتوں میں سے ایک عورت ہے اس کى عظمت اور عزت کا احترام کیا جانا چاہیئے اور اس کى خوشحالى کے اسباب فراہم کرنے چاہئیں میرے داماد کے خدمات او رجہاد کسى پر مخفى نہیں اس کا احترام اور اس کے زحمات کى قد ردانى اس کى آبرو کے لحاظ سے بہترین وسائل اور اسباب مہیا کر کے مجھے کرنى چاہیئے_

لیکن پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جہیز میں مقابلہ اور زیادتى کے ضرر اور مفاسد کا معاشرہ میں علم تھا اور آپ کو علم تھا کہ اگر مسلمان اس مصیبت میں گرفتار ہوگئے تو انہیں عمومى فقر اور اقتصادى دیو الیہ اور کثرت طلاق اور جوانوں کا شادى کرنے کا رجحان کم ہوجائے گا اور روز بروز بے زن جوانوں اور بے شوہر لڑکیوں کى زیادتى اور جرائم اور جنایات کى کثرت مختلف قسم کے فحشا اور اعصابى بیماریوں کا وجود میں آنا جیسے مصائب میں گرفتار ہونا پڑے گا اسى لئے اس مثالى شادى کہ جس کے منتظمین اسلام کى پہلى اور دوسرى شخصیت تھیں کمال سادگى سے عمل میں لائی گئی، تا کہ یہ ملت اسلامیہ اور مسلمانوں کے زمام داروں کے لئے عمل درس واقع ہو_

حضرت على علیہ السلام بھى ان کوتاہ فکر جوانوں میں سے نہ تھے کہ جو مال اور دولٹ کے اکٹھے کرنے کے لئے شادى کرتے ہیں کہ اگر جہیز میں کچھ کمى ہو تو ہر روز اپنى بیوى کے لئے درد سر بنے رہتے ہیں اور اسے بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور اعتراضات سے ازدواجى زندگى کو متزلزل کردیتے ہیں اور زندگى باصفا اور گرم کو بے محل طفلانہ بہانوں سے انس ا ور محبت کے گھر کو اختیار قید خانے میں تبدیل کردیتے ہیں حضرت على علیہ السلام ملت اسلامى کے امام و پیشوا تھے اور چاہتے تھے کہ اس قسم کے غلط افکار سے مبارزہ کیا جائے مال اور دولت آپ کى نگاہ میں کچھ قیمت نہ رکھتے تھے_

حضرت على (ع) کے گھر کا اثاثہ

حضرت على علیہ السلام نے مندرجہ ذیل اسباب حجلہ عروسى کے لئے مہیا کر رکھے تھے_

1_ ایک لکڑى کى جس پر کپڑے اور پانى کى مشک ٹانگى جاسکے_

2_ گوسفند کى کھال_

3_ ایک عدد تکیہ_

4_ ایک عدد مشک_

5_ ایک عدد آٹے کى چھلنی_ (19)


عروسى کے متعلق گفتگو

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مہینہ تقریباً گزر گیا اور میں حیا کرتا تھا کہ پیغمبر (ص) سے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں تذکرہ کروں لیکن جب بھى تنہائی ہوتى تو جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ، یا على کتنى نیک اور زیبا تم کو رفیقہ حیات نصیب ہوئی ہے، جو دنیا کى عورتوں سے افضل ہے ایک دن میرے بھائی عقیل میرے پاس آئے اور کہا:

بھائی جان ہم آپ کى شادى سے بہت خوش حال ہیں، کیوں رسول خدا(ص) سے خواہش کرتے کہ فاطمہ (ع) کو آپ کے گھر روانہ کریں؟ تا کہ آپ کى شادى کى خوشى سے ہمارى آنکھیں ٹھنڈى ہوں، میں نے جواب دیا میں بہت چاہتا ہوں کہ رخصتى کرلاؤں لیکن پیغمبر اسلام(ص) سے شر م کرتا ہوں عقیل نے کہا تمہیں خدا کى قسم ابھى میرے ساتھ آؤ تا کہ پیغمبر اسلام(ص) کى خدمت میںچلیں_

حضرت على (ع) جناب عقیل کے ساتھ رسول خدا(ص) کے گھر کى طرف روانہ ہوئے استے میں جناب ام ایمن سے ملاقات ہوگئی ان سے واقعہ کو بیان کیا تو جناب ام ایمن نے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجئے میں رسول خدا(ص) سے اس بارے میں گفتگو کروں گی، کیونکہ اس قسم کے معاملے میں عورتوں کى گفتگو زیادہ موثر ہوا کرتى ہے، جب ام ایمن اور دوسرى عورتیں اصل معاملہ سے مطلع ہوئیں تو تمام کى تمام پیغمبر (ص) کى خدمت میں مشرف ہوئیں اور عرض کى یا رسول اللہ(ص) ہمارے ماں باپ آپ پر قربان جائیں_ ہم ایک ایسے موضوع کے لئے آپ کى خدمت میں حاضر ہوئی ہیں کہ اگر جناب خدیجہ زندہ ہوتیں تو بہت زیادہ خوشحال ہوتیں_ جناب پیغمبر خدا(ص) نے جب خدیجہ کا نام سنا تو آپ کے آنسو نکل آئے اور فرمایا کہ خدیجہ کہاں اور خدیجہ جیسا کون، جب لوگ مجھے جھٹلانے تھے تو خدیجہ میرى تصدیق کرتى تھیں_ دین خدا کى ترویج کى خاطر اپنا تمام مال میرے اختیار دے رکھا تھا_ خدیجہ وہ عورت تھى کہ جن کے متعلق اللہ تعالى نے مجھ پر وحى نازل کى کہ خدیجہ کو بشارت دوں کہ خدا اس کو بہشت میں زمرد کا بنا ہوا گھر عطا فرمائے گا_

ام سلمہ نے عرض کى کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ جتنا بھى خدیجہ کے متعلق فرمائیں وہ درست ہے خدا ہم کو ان کے ساتھ محشور فرمائے، یا رسول اللہ(ص) آپ کے بھائی اور چچازاد بھائی چاہتے ہیں کہ اپنى بیوى اپنے گھر نے جائیں_ آپ(ص) نے فرمایا وہ خود اس بارے میں مجھ سے کیوں بات نہیں کرتے؟ عرض کہ وہ حیا کرتے ہیں، جناب پیغمبر خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا کہ ابھى على (ع) کو میرے پاس حاضر کرو_ جب حضرت على (ع) آپ کى خدمت میں مشرف ہوئے تو فرمایا اے على چاہتے ہو کہ اپنى بیوى اپنے گھر لے جاؤ؟ آپ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ(ص) آپ نے فرمایا کہ خدا مبارکے کرے، آج رات یا کل رات رخصتى کے اسباب فراہم کردوں گا_

اس کے بعد آپ نے عورتوں سے فرمایا کہ فاطمہ (ع) کو زینت کرو اور خوشبوں لگاؤ اور ایک کمرہ میں فرش بچھا دو تا کہ اس کى رخصتى کے آداب بجالاؤں _(20)
رخصتى کا جشن

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت على (ع) سے فرمایا کہ عروسى میں ولیمہ دیا جائے اور میں دوست رکھتا ہوں کہ میرى امت شادیوں میں ولیمہ دیا کرے_ سعد اس مجلس میں موجود تھے، انہوں نے عرض کى کہ ایک گوسفند میں آپ کو اس جشن کے لئے دیتا ہوں، دوسرے اصحاب نے بھى حسب استطاعت اس میں مدد کى جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلال سے فرمایا ایک گوسفند لے آو اور حضرت على (ع) سے فرمایا کہ اس حیوان کو ذبح کرو، آپ نے دس درہم بھى انہیں دیئے اور فرمایا اس سے کچھ گھی، خرما، کشک لے آو اور روٹى بھى مہیا کرو اس کے بعد حضرت على علیہ السلام سے فرمایا کہ جسے چاہتے ہو کھانا کھانے کى دعوت دے دو_ حضرت على علیہ السلام نے اصحاب کے ایک بہت بڑے گروہ کو دعوت دی_ گوشت پکایا گیا اور گھى اور خرما اور کشک کے ذریعے غذا حاضر کى گئی_

چونکہ مہمانوں کى تعداد زیادہ تھى اور پذیرائی کے اسباب تھوڑے تھے تو جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ مہمان دس، دس ہو کر اندر آئیں اور کھانا کھائیں_ اس جشن میں جناب عباس اور حضرت حمزہ اور حضرت على (ع) اور جناب عقیل مہمانوں کى پذیرائی کر رہے تھے، دسترخوان بچھایا گیا اور اصحاب دس، دس ہو کر اندر آتے اور رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دست مبارک سے غذا نکالتے اور مہمانوں کے سامنے رکھتے، جب سیر ہو جاتے تو باہر چلے جاتے اور دوسرے دس آدمى اندر آجاتے اس طرح سے بہت زیادہ لوگوں نے کھانا کھایا اور جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک کى برکت سے تمام لوگ سیرہوگئے اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ جو غذا بچ رہى ہے وہ فقرا اور مساکین کے گھروں کو ''جو ولیمہ میں حاضر نہ ہوسکتے تھے'' پہنچائی جائے اور حکم دیا کہ ایک برتن میں حضرت زہرا(ع) اور حضرت على علیہ السلام کے لئے غذا رکھى جائے _(21)


حجلہ کى طر ف

پیغمبر خدا(ص) کى عورتوں نے جناب فاطمہ (ع) کو آراستہ کیا آپ کو عطر اور خوشبو لگائی، پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت على (ع) کو بلایا اور اپنے دائیں جانب بٹھایا اور جناب فاطمہ (ع) کو اپنے بائیں جانب بٹھایا، اس کے بعد دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور دونوں کى پیشانى کو بوسہ دیا دلہن کا ہاتھ پکڑا اور داماد کے ہاتھ میں دیا اور حضرت على علیہ السلام سے فرمایا کہ فاطمہ (ع) اچھى رفیقہ حیات ہے اور جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ على (ع) بہترین شوہر ہیں_

اس کے بعد عورتوں کو حکم دیا کہ دولھا، دلھن کو خوشى اور جوش و خروش سے حجلہ کى طر ف لے جائیں لیکن اس قسم کا کوئی کلام نہ کریں کہ جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى عورتوں نے جوش و خروش سے اللہ اکبر کہتے ہوئے فاطمہ (ع) اور على (ع) کو حجلہ تک پہنچایا رسول خدا(ص) بھى اس کے پیچھے آپہنچے اور حجلہ میں وارد ہوگئے اور حکم دیا کہ پانى کا برتن حاضر کیا جائے تھوڑا سا پانى لے کر آپ نے جناب فاطمہ (ع) کے جسم پر چھڑ کا اور حکم دیا کہ باقى پانى سے وضو کریں اور منھ دھوئیں اس کے بعد ایک اور پانى کا برتن منگوایا اور اسے کچھ پانى حضرت على علیہ السلام کے جسم پر چھڑکا اورحکم دیا کہ باقى پانى سے وضو کریں اور منھ دھوئیں اس کے بعد آپ نے دلھن اور داماد کا بوسہ لیا اور آسمان کى طرف ہاتھ اٹھا کر کہا_ اے خدا_ اس شادى کو مبارک فرما اور ان سے پاک و پاکیزہ نسل وجود میں آئے_

جب آپ نے چاہا کہ حجلہ سے باہر جائیں تو جناب فاطمہ (ع) نے آپ کا دامن پکڑلیا اور رونا شروع کردیا، آپ نے فرمایا میرى پیارى بیٹی، میں نے بردبار تریں اور دانشمندترین انسان سے تیرى شادى کى ہے_

اس کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور حجلہ کے درواز پر آکر دروازے کے عتبے کو پکڑ کر فرمایا کہ خدا تمہیں اور تمہارى نسل کو پاک و پاکیزہ قرار دے، میں تمہارے دوستوں کا دوست ہوں اور تمہارے دشمنوں کا دشمن، اب رخصت ہوتا ہوں اور تمہیں خداوند عالم کے سپرد کرتا ہوں_ حجلے کے دروازے کو بند کیا اور عورتوں سے فرمایا کہ سب اپنے گھروں کو چلى جائیں اور یہاں کوئی بھى نہ رہے_ تمام عورتیں چلى گئیں_

جب پیغمبر اسلام(ص) نے باہر جانا چاہا تو دیکھا کہ ایک عورت وہاں باقى ہے پوچھا تم کون ہو مگر میں نے نہیں کہا کہ سب چلى جاؤ_

اس نے عرض کى میں اسماء ہوں، آپ نے توفرمایا کہ سب چلى جاؤ لیکن میں جانے سے معذور ہوں کیونکہ جب جناب خدیجہ اس جہان سے کوچ فرما رہى تھیں تو میں نے دیکھا کہ وہ رور رہى ہیں، میں نے عرض کیا آپ بھى روتى ہیں؟ حالانکہ تم دنیا کہ عورتوں سے بہترین عورت ہو، اور رسول خدا(ص) کى بیوى ہو، اللہ تعالى نے تجھے بہشت کا وعدہ دیا ہے_ آپ نے کہا میں اس لئے رو رہى ہوں کہ جانتا ہوں لڑکى کى خواہش ہوتى ہے کہ شب زفاف اس کے پاس کوئی ایسى عورت ہو جو اس کى محرم راز ہو اور اس کى ضروریات کو پورا کرے، میں دنیا سے جارہى ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ فاطمہ (ع) شب زفاف کوئی محرم نہ رکھتى ہوگى اور اس کا کوئی مدد گار نہ ہوگا اس وقت میںنے خدیجہ سے عرض کیا گہ اگر کیا کہ اگر میں فاطمہ (ع) کے شب زفاف تک زندہ رہى تو تم سے وعدہ کرتى ہوں کہ میں اس کے پاس رہوں گى اور اس سے مادرى سلوک آپ کے آنسو جارى ہوگئے اور فرمایا تجھے خدا کى قسم تم اسى غرض سے یہاں رہ گئی ہو؟ عرض کیا ہاں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا تم اپنے ودعدہ پر عمل کرو_(22)
1) بعض روایات کى بنا پر جب چو تھے دن پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے تو آپ(ص) (ص) نے اسماء سے ملاقات کی، بہرحال یہ داستان اسماء بہت سے تاریخ نویسوں نے لکھى ہے اور اس میں نسبت بھى اسماء بنت عمیس کى طرف اس واقعہ کى دى ہے، لیکن اگر یہ واقعہ صحیح ہو تو وہ عورت اسماء بنت عمیس نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس وقت اسماء جناب جعفر طیار کى زوجہ تھیں اور آپ کے ساتھ حبشہ میں موجود تھیں جناب فاطمہ (ع) کى شادى کے وقت مدینہ میں موجود نہ تھیں مدینہ میں آپ خیبر کے فتح ہونے کے بعد آئیں، لہذا وہ عورت جو جناب فاطمہ (ع) کے پاس شب زفاف میں رہیں وہ یا اسماء بنت یزید بن سکن انصارى یا سلمى جو اسماء بنت عمیس کى بہن تھیں ہوگی_ بہرحال صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں اس عورت کے نام میں مورخین کو اشتباہ ہوا ہے_

 

فاطمہ کا دیدار

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم زفاف کى رات کى صبح کو دودھ برتن میں لئے ہوئے جناب فاطمہ (ع) کے حجلہ میں گئے اور وہ برتن جناب فاطمہ (ع) کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا تمہارا باپ تم پر قربان ہو اس کو پیئو، اس کے بعد حضرت على (ع) سے فرمایا تمہارے چچا کہ بیٹا تم پر قربان ہو تم بھى پیئو_ (1)

حضرت على علیہ السلام سے پوچھا بیوى کیس تھی؟ عرض کیا اللہ کى بندگى میں بہترین مددگار_ جناب فاطمہ (ع) سے پوچھا کہ شوہر کیسے تھے؟ عرض کیا بہترین شوہر_ (23)

پیغمبر(ص) اس کے بعد چار دن تک جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف نہیں لے گئے اور جب چو تھے دن جناب فاطمہ (ع) کے حجلہ میں تشریف لے گئے تو آپ سے خلوت میں پوچھا، تیرا شوہر کیسا ہے؟ عرض کى ا بّا جان مردوں میں سے بہترین شوہر اللہ نے مجھے عطا کیا، لیکن قریش کى عورتیں میرے دیدار کے لئے آئیں تو بجائے مبارک باد دینے کے میرے دل پر غم کى گرہ چھوڑ گئیں اور کہنے لگیں تمہارے باپ نے تمہارا نکاح ایک فقیر و تہى دست انسان سے کیا ہے، حالانکہ مال دار اور ثروت مندمرد تمہارے خواستگار تھے_ جناب رسول خدا(ص) نے اپنى بیٹى کى تسلى دى اور فرمایا اے نور چشم تمہارے باپ اور شوہر فقیر نہیں ہیں خدا کى قسم زمین کے خزانے کى چاہیاں میرے سامنے پیش کى گئیں لیکن میں نے اخروى نعمات کو دنیا کے مال اور ثروت پر ترجیح دی، عزیزم میں نے تیرے لئے ایک ایسا شوہر منتخب کیا ہے جس نے تمام لوگوں سے پہلے اسلام کا اظہار کیا اور جو علم و حلم اور عقل کے لحاظ سے تمام لوگوں پر برترى رکھتا ہے_ خداوند عالم نے تمام لوگوں سے مجھے اور تیرے شوہر کو چنا ہے_ بہت بہترین شوہر والى ہو اس کى قدر کو سمجھو اور اس کے حکم کى مخالفت نہ کرو_ اس کے بعد حضرت على علیہ السلام کو بلایا اور فرمایا کہ اپنى بیوى کے ساتھ نرمى اور مہربانى سے پیش آنا، تمہیں معلوم ہونا چاہیئےہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو شخص اسے اذیت دے گا وہ مجھے اذیت دے گا اور جو اسے خوشنود کرلے گا، وہ مجھے خوشنود کرے گا، میں تم سے رخصت ہوتا ہوں اور میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں_(24)

علامہ مجلسى علیہ الرحمة نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ (ع) کا عقد ماہ مبارک میں ہوا، پہلى یا چھ ذى الحجہ کو آپ کى رخصتى ہوئی _(25)

حضرت على علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے تھوڑى مدت اپنے گھر میں جو جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا زندگى بسر کی، لیکن یہ فاصلہ جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دشوار تھا ایک دن آپ جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اپنے نزدیک بلالوں، آپ نے عرض کى حادثہ بن نعمان سے بات کیجئے کہ وہ اپنا مکان ہمیں دے دے، آپ نے فرمایا حادثہ بن نعمان اپنى منازل ہماے لئے خالى کر کے خود بہت دور چلاگیا ہے، اب مجھے اس سے شرم آتى ہے_ جناب حارث کو جب اس کى خبر ہوئی تو وہ جناب رسول خدا کى خدمت میں مشرف ہوا اور عرض کى یا رسو ل اللہ(ص) میں اور میرا مال آپ کے اختیار میں ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ فاطمہ (ع) کو میرے گھر منتقل کردیں_ جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو حارثہ کے مکان میں منتقل کردیا_(26)

 

 

1) کشف الغمہ_ ج 1_ ص 253_
2) کشف الغمہ_ ج1_ ص 354_
3) دلائل الامامہ_ ص 19_
4) مناقب شہر ابن آشوب_ ج2_ ص 345_ تذکرة الخواص_ ص306_
5) بحارالانوار_ ج43_ ص 125_
6) مناقب شہر ابن آشوب_ ج2_ ص 180_
7) ذخائر عقبى _ ص 26_
8) بحار الانوار_ ج 43_ ص 127_ ذخائر العقبى _ ص 29_
9) بحارالانوار_ ج43_ ص 127_
10) اس قسمت کے مطالب اور مضامین کو ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے، کشف الغمہ_ ج1 ص 253 و 7 25_ مناقب ابن شہر آشوب ج 2_ ذخائر العقبى _ تذکرة الخواص_ دلائل الامامہ مناقب خوارزمى ص 247_ بحار الانوار_ ج 43 ص 92و 145_
11) مناقب شہر ابن آشوب ج 3 ص 349_
12) بحار الانوار_ ج 43 _ ص 6 و 7_
13) مناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 251_
14) وافى کتاب النکاح ص 15_
15) وافى کتاب النکاح_ ص 15_
16) وافى کتاب النکاح_ ص 15_
17) بحار الانوار_ ج 43_ ص 130_
18) مناقب شہر ابن آشوب _ ج 2 ص 353 و کشف الغمہ_ ج 1 ص 359_
19) بحار الانوار_ ج 43_ ص 114_
20) بحار الانوار_ ج 43_ ص 130 و 132_
21) بحارالانوار_ ج 43 ص 132 و 137 و 114و 106_
22) کشف الغمہ_ ج 7 ص 99_
23) بحارالانوار_ ج 43 ص 117_
24) جو مطالب حضرت على علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کى شادى میں ذکر ہوئے ہیں انہیں ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے_ کشف الغمہ ج 1_ مناقب شہر ابن آشوب ج3_ تذکرة الخواص_ ذخائر العقبى _ دلائل الامامة_ سیرة ابن ہشام_ مناقب خوارزمى ینابیع المودة_ بحارالانوار، ج 43_ ناسخ التواریخ جلد حضرت فاطمہ زہرا(ع) _ اعلام الورى مجمع الزوائر، ج 9_
25) بحارالانوار، ج 43 ص 136_
26) طبقات ابن سعد، ج 8 بخش 1 ص 14_