پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حصّہ چہارم فضائل حضرت زہرا(ع)

فضائل حضرت زہرا(ع)

 

پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ بہترین عورتیں چار ہیں، مریم دختر عمران، فاطمہ (ع) دختر محمد(ص) ، خدیجہ بنت خویلد، آسیہ زوجہ فرعون _(1)

پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ بہشت کى عورتوں میں سے بہترین عورت فاطمہ (ع) ہیں_ (2)

جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی، عرش سے اللہ کا منادى ندا دے گا، لوگو اپنى آنکھیں بند کر لو تا کہ فاطمہ (ع) پل صراط سے گزر جائیں_ (3)

پیغمبر (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ خدا تیرے واسطے سے غضب کرتا ہے اور تیرى خوشنودى کے ذریعہ خوشنود ہوتا ہے _(4)

جناب عائشےہ فرماتى ہیں کہ میںنے رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کسى کو جناب فاطمہ (ع) سے زیادہ سچا نہیں دیکھا_(5)

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ خدا کى قسم، اللہ نے فاطمہ (ع) کو علم کے وسیلہ سے فساد اور برائیوں سے محفوظ رکھا ہے _(6)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے جناب فاطمہ (ع) اللہ تعالى کے یہاں نوناموں سے یاد کى جاتى ہے_ فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا، فاطمہ (ع) کے نام رکھے جانے کى وجہ یہ ہے کہ آپ برائیوں اور فساد سے محفوظ اور معصوم ہیں، اگر حضرت على علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی ہمسر نہ ہوتا_ (7)

جناب امام محمد باقر(ع) سے پوچھا گیا کہ جناب فاطمہ (ع) کا نام زہراء کیوں رکھا گیا؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ خدا نے آپ کو اپنى عظمت کے نور سے پیدا کیا ہے آپ کے نور سے زمین اور آسمان اتنے روشن ہوئے کہ ملائکہ اس نور سے متاثر ہوئے اور وہ اللہ کے لئے سجدہ میںگر گئے اور عرض کى خدایا یہ کس کا نور ہے؟ اللہ تعالى نے فرمایا کہ میرى عظمت کے نور سے ایک شعلہ ہے کہ جسے میں نے پیدا کیا ہے اور اسے آسمان پر سکونت دى ہے اسے پیغمبروں میں سے بہترین پیغمبر(ص) کے صلب سے پیدا کروں گا اور اسى نور سے دین کے امام اور پیشوا پیدا کروں گا تا کہ لوگوں کو حق کى طرف ہدایت کریں وہ پیغمبر(ص) کے جانشین اور خلیفہ ہوں گے_(8)

 

پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا بیٹى خداوند عالم نے دینا کى طرف پہلى دفعہ توجہ اورمجھے تمام مردوں پرچنا، دوسرى مرتبہ اس کى طرف توجہ کى تو تمہارے شوہر علی(ع) کو تمام لوگوں پر چنا، تیسرى مرتبہ اس کى طرف توجہ کى تو تمہیں تمام عالم کى عورتوں پر برترى اور فضیلت دی، چوتھى مرتبہ توجہ کى تو حسن (ع) اور حسین (ع) کو جنت کے جوانوں پر امتیاز دیا _(9)

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہشت چہار عورتوں کے دیکھنے کى مشتاق ہے ، پہلے مریم دختر عمران، دوسرى آسیہ فرعون کى بیوى ، تیسرى خدیجہ دختر خویلد ، چہوتھى فاطمہ (ع) دختر محمد (ص) _(10)

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے اس کى اذیت میرى اذیت ہے اور اس کى خوشنودى میرى خوشنودى ہے _(11)

پیغمبر(ص) نے اس حالت میں جب کے فاطمہ (ع) ہاتھ پکڑے ہوئے تھے فرمایا جو شخص اسى پہچانتا ہے تو وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ یہ فاطمہ(ع) پیغمبر (ص) کى دختر ہے اور میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میرا دل اور روح ہے جو شخص اسے ذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دى ہے اور جوشخص مجھے اذیت دے گا اس نے خدا کو اذیت دى ہے _ (12)

جناب ام سلمہ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شباہت پیغمبر اسلام (ص) سے جناب فاطمہ (ع) کو تھى (13)_

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) انسانوں کى شکل میں جنت کى حور ہیں _(14)

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگی_(15)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) کا نام فاطمہ (ع) اس لئے رکھا گیا ہے کہ لوگوں کو آپ کى حقیقت کے درک کرنے کى قدرت نہیں ہے _(16)

پیغمبر(ص) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھے اور على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن و حسین کو ایک نور سے پیدا کیا ہے_(17)

ابن عباس فرماتے ہیںکہ میں نے رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ وہ کلمات کہ جو اللہ تعالى نے حضرت آدم علیہ السلام کو بتلائے اور ان کى وجہ سے ان کى توبہ قبول ہوئی وہ کیا تھے؟ آپ نے فرمایا کہ جناب آدم نے خدا کو محمد(ص) اور على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے حق کى قسم دى اسى وجہ سے آپ کى توبہ قبول ہوئی _(18)

پیغمبر(ص) نے فرمایا اگر على نہ ہو تے تو جناب فاطمہ (ع) کا کوئی ہمسر نہ ہوتا _(19)

پیغمبر(ص) فرماتے ہیں کہ جب میں معراج پر گیا تو بہشت کى سیر کى میں نے جناب فاطمہ (ع) کا محل دیکھا جس میں ستر قصر تھے کہ جو لولو اور مرجان سے بنانے گئے تھے_ (20)

پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ جانتى ہو کہ کیوں تیرا نام فاطمہ (ع) رکھا گیا ہے؟ حضرت على (ع) نے عرض کى یا رسول اللہ (ص) کیوں فاطمہ (ع) نام رکھا گیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا چوں کہ آپ اور اس کے پیروکار دوزخ کى آگ سے امان میںہیں _(21)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ (ع) کو زیادہ بوسہ دیا کرتے تھے ایک روز جناب عائشےہ نے اعتراض کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے جواب میں فرمایا جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں بہشت میں داخل ہوا، جبرئیل مجھے طوبى کے درخت کے نزدیک لے گئے اور اس کا میوہ مجھے دیا میں نے اس کو کھایا تو اس سے نطفہ وجود میں آیا، جب میں زمین پر آیا اور جناب خدیجہ(ع) سے ہمبستر ہوا تو اس سے جناب فاطمہ (ع) کا حمل ٹھہرا یہى وجہ ہے کہ جب میں فاطمہ (ع) کو بوسہ دیتا ہوں تو درخت طوبى کى خوشبو میرے شام میں پہنچتى ہے _(22)

ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن على (ع) اورفاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) پیغمبر(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے توپیغمبر(ص) نے فرمایا اے خدا مجھے علم ہے کہ یہ میرے اہلبیت ہیں اور میرے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے دشمنى رکھ ان کى مدد کرنے والوں کى مدد فرما انہیں تمام برائیوں سے پاک رکھ اور تمام گناہوں سے محفوظ رکھ روح القدس کے ذریعے ان کى تائید فرما اس کے بعد آپ نے فرمایا، یا على (ع) تم اس امت کے امام اور میرے جانشین ہو اور مومنین کو بہشت کى طرف ہدایت کرنے والے ہو، گویا میں اپنى بیٹى کو دیکھ رہا ہوں کہ قیامت کے دن ایک نورانى سوارى پرسوارہے کہ جس کے دائیں جانب ستر ہزار فرشتے اور بائیں جانب ستر ہزار فرشتے اس کے آگے ستر ہزار فرشتے اور اس کے نیچے ستر ہزار فرشتے چل رہے ہیں اور تم میرى امت کى عورتوں کو بہشت میں لئے جا رہى ہو پس جو عورت پانچ وقت کى نماز پڑھے اور ماہ رمضان کے روزے رکھے خانہ کعبہ کا حج بجالائے اور اپنے مال کو زکوة ادا کرے اوراپنے شوہر کى اطاعت کرے اور على ابن ابیطالب کو دوست رکھتى ہو وہ جناب فاطمہ (ع) کى شفاعت سے بہشت میں داخل ہوگی، فاطمہ (ع) دنیا کى عورتوں میں سے بہترین عورت ہے_

عرض کیا گیا یا رسول اللہ (ص) فاطمہ (ع) اپنے زمانے کى عورتوں سے بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تو جناب مریم ہیں کہ جو اپنے زمانے کى عورتوں سے بہتر ہیں، میرى بیٹى فاطمہ (ع) تو پچھلى اور ا گلى عورتوں سے بہتر ہے، جب محراب عبادت میں کھڑى ہوتى ہے تو اللہ تعالى کے ستر ہزار مقرب فرشتے اسے سلام کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں اے فاطمہ (ع) اللہ نے تجھے چنا ہے اور پاکیزہ کیا ہے اور تمام عالم کى عورتوں پرتجھے برترى دى ہے_

اس کے بعد آپ على (ع) کى طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یاعلى (ع) ، فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میرى آنکھوں کا نور اور دل کا میوہ ہے جو بھى اسے تکلیف دے اس نے مجھے تکلیف دى اور جس نے اسے خشنود کیااس نے مجھے خوشنود کیا فاطمہ (ع) پہلى شخصیت ہیں جو مجھ سے ملاقات کریں گى میرے بعد اس سے نیکى کرنا، حسن (ع) اور حسین (ع) میرے فرزند ہیں اور میرے پھول ہیں اور جنت کے جوانوں سے بہتر ہیں انہیں بھى آپ آنکھ اور کان کى طرح محرّم شمار کریں_

اس کے بعد آپ نے اپنے ہاتھ آسمان کى طرف اٹھائے اور فرمایا اے میرے خدا تو گواہ رہنا کہ میں ان کے دوستون کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھتا ہوں_ (23)

فاطمہ (ع) کا علم و دانش

عمار کہتے ہیں ایک دن حضرت على (ع) گھر میں داخل ہوئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا یا على (ع) آپ میرے نزدیک آئیں تا کہ میں آپ کوگزشتہ اور آئندہ کے حالات بتلاؤں، حضرت على (ع) ، فاطمہ (ع) کى اس گفتگو سے حیرت میں پڑ گئے اور پیغمبر (ص) کى خدمت میں شرفیاب ہوئے اور سلام کیا اور آپ کے نزدیک جا بیٹھے، پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آپ بات شروع کریں گے یا میں کچھ کہوں؟ حضرت على (ع) نے عرض کى کہ میں آپ کے فرمان سے استفادہ کرنے کو دوست رکھتا ہوں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا گویا آپ سے فاطمہ (ع) نے یہ کہا ہے اور اسى وجہ سے تم نے میرى طرف مراجعت کى ہے_ حضرت على علیہ السلام نے عرض کى یا رسول اللہ(ص) کیا فاطمہ (ع) کا نور بھى ہمارے نور سے ہے_ پیغمبر(ص) نے فرمایا کیا آپ کو علم نہیں ہے؟ حضرت على (ع) یہ بات سن کر سجدہ شکر میں گر گئے اور اللہ تعالى کا شکر ادا کیا_

اس کے بعد جناب فاطمہ (ع) کے پاس لوٹ آئے_ حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا یا على (ع) گویا میرے بابا کے پاس گئے تھے اور آپ(ص) نے یہ فرمایا؟ آپ نے فرمایا ہاں اے دختر پیغمبر (ص) _ فاطمہ (ع) نے فرمایا ، اے ابوالحسن (ع) خداوند عالم نے میرے نور کو پیدا کیا اور وہ اللہ تعالى کى تسبیح کرتا تھا اس وقت اللہ تعالى نے اس نور کو بہشت کے ایک درخت میں ودیعت رکھ دیا میرے والد بہشت میں داخل ہوئے تو اللہ تعالى نے آپ کو حکم یا کہ اس درخت کامیوہ تناول کریں، میرے والد نے اس درخت کے میوے تنال فرمائے اسى ذریعہ سے میرا تور آپ(ص) کے صلب میں منتقل ہوگیا اورمیرے بابا کے صلب سے میرى ماں کے رحم میں وارد ہوا_ یا على (ع) میں اسى نور سے ہوں اور گزشتہ اور آئندہ کے حالات اور واقعات کو اس نور کے ذریعہ پالیتى ہوں_ یا ابالحسن، مومن نور کے واسطے سے خدا کو دیکھتا ہے_(24)

امام حسن عسکرى علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت فاطمہ (ع) کى خدمت میں شرفیاب ہوئی اور عرض کى کہ میرى ماں عاجز ہے اسے نماز کے بارے میں بعض مشکل مسائل در پیش ہیںمجھے آپ کى خدمت میں بھیجا ہے کہ میںآپ سے سوال کروں، اس نے مسئلہ پیش کیا اور جناب فاطمہ (ع) نے اس کا جواب دیا اس عورت نے دوسرى دفعہ دوسرا مسئلہ پوچھا جناب فاطمہ (ع) نے اس کا بھى جواب دیا، اس عورت نے تیسرى دفعہ پھر تیسرا مسئلہ پوچھا اور اسى طرح آپ سے دس مسئلے پوچھے اور حضرت زہرا (ع) نے سب کے جواب دیئے اس کے بعد وہعورت

زیادہ سوال کرنے کى وجہ سے شرمسار ہوئی اور عرض کی، دختر رسول(ص) اب اور میں مزاحم نہیں ہوتى آپ تھک گئی ہیں، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا شرم نہ کر جو بھى سوال ہو پوچھو تا کہ میں اس کا جواب دوں_ میں تیرے سوالوں سے نہیں تھکتى بلکہ کمال محبت سے جوال دوں گى اگر کسى کو زیادہ بوجھ چھت تک اٹھا کرلے جانے کے لئے اجرت پر لیا جائے اور وہ اس کے عوض ایک لاکھ دینار اجرت لے تو کیا وہ بارے کے اٹھانے سے تھکے گا؟ اس عورت نے جواب دیا نہیں، کیوں کہ اس نے اس بار کے اٹھانے کى زیادہ مزدورں وصول کى ہے حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ خدا ہر ایک مسئلے کے جواب میں اتنا ثواب عنایت فرماتا ہے بلکہ اس سے بھى زیادہ ہے کہ زمین اور آسمان کو مروارید سے پر کر دیا جائے تو کیااس کے باوجود میںمسئلے کے جواب دینے میں تھکوں گی_

میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ میرے شیعوں کے علماء قیامت میں محشور ہوں گے اور خدا ان کے علم کى مقدار اور لوگوں کو ہدایت اور ارشاد کرنے میں کوشش اور جد و جہد کے مطابق خلعت اور ثواب عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ ان میں سے ایک کو دس لاکھ حلے نور کے عطا فرمائے گا اور اس کے بعد حق کامنادى ندا دے گا، اے وہ لوگو کو جنہوں نے آل محمد(ص) کے یتیموں کى کفالت کى ہے، اور اس زمانے میں کہ ان کے امام کا سلسلہ ان سے منقطع ہوچکا تھا یہ لوگ تمہارے شاگرد تھے اور وہ یتیم ہیں کہ جو تمہارى کفالت کے ماتحت اپنى دیندارى پر باقى رہے ہیں اور ارشاد اورہدایت کرتے رہے ہیں، جتنى مقدار انہوں نے تمہارے علوم سے استفادہ کیا ہے ان کو بھى خلعت دو اس وقت میرى امت کے علماء اپنے پیروکاروں کو خلعت عطا فرمائیں گے، پھر وہ پیروکار اور شاگرد اپنے شاگروں کو خلعت دیں گے، جب لوگوں میں خلعت تقسیم ہوچکے گى تو اللہ کى طرف سے دستور دیا جائے گا جو خلعت علماء نے تقسیم کى ہیں ان کو مکمل کیا جائے یہاں تک کہ سابقہ تعداد کے برابر ہوجائے، پھر دستور ملے گا کہ اسے دوبرابر کردو اور اس طرح ان کے پیروکاروں کو بھى اسى طرح دو_

اس وقت جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا: اے کنیز خدا اس خلعت کا ایک دھاگا ہزار درجہ اس چیز سے بہتر ہوگا جس پر سورج چمکتا ہے اس لئے کہ دنیاوى امور مصیبت اور کدورت سے آلودہ ہوتے ہیں، لیکن اخروى نعمات میںکوئی نقص اور عیب نہیں ہوتا _(25)

امام حسن عسکرى علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو عورتیں کہ ان میں سے ایک مومن اور دوسرى معاند اور دشمن تھی، ایک دینى مطلب میں آپس میں اختلاف رکھتى تھیں اس اختلاف کے حل کرنے کے لئے جناب فاطمہ (ع) کى خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے مطلب کو بتلایا چونکہ حق مومن عورت کے ساتھ تھا تو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنى گفتگو اور دلائل اور برہان سے اس کى تائید کى اور اس ذریعے سے اس پر فتح مند کردیا اور وہ مومن عورت اس کامیابى سے خوشحال ہوگئی_ جناب فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت سے فرمایا کہ اللہ تعالى کے فرشتے تجھ سے زیادہ خوشحال ہوئے ہیں اور شیطان اور اس کے پیروکاروں پرغم و اندوہ اس سے زیادہ ہوا ہے جو اس معاند اوردشمن عورت پر وارد ہوا ہے_

اس وقت امام حسن عسکرى علیہ السلام نے فرمایا اس وجہ سے خدا نے فرشتوں سے فرمایا ہے کہ اس خدمت کے عوض جو فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت کے لئے انجام دى ہے، بہشت اور بہشتى نعمتوں کو اس سے جو پہلے سے مقرر تھیں کئی ہزار گناہ مقرر کردیا جائے اور یہى روش اور سنت اس عالم کے بارے میں بھى جارى کى جاتى ہے جو اپنے علم سے کسى مومن کو کسى معاند پر فتح دلاتا ہے اور اس کے ثواب کو اللہ تعالى کئی کئی ہزار برابر مقرر کردیتا ہے_(26)


فاطمہ (ع) کا ایمان اور عبادت

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالى کا ایمان فاطمہ (ع) کے دل کى گہرائیوں اور روح کے اندر اتنا نفوذ کر چکا ہے کہ وہ اللہ کى عبادت کے لئے اپنے آپ کو ہر ایک چیز سے مستغنى کرلیتى ہیں _(27)

امام حسن علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرى والدہ شب جمعہ صبح تک اللہ تعالى کى عبادت میںمشغول رہتى تھیں اور متواتر رکوع اور سجود بجالاتى تھیں یہاں تک کہ صبح نمودار ہوجاتى میں نے سنا کہ آپ مومنین کے لئے نام بنام دعا کر رہى ہیں لیکن وہ اپنے لئے دعا نہیں کرتى تھیں میں نے عرض کى امّاں جان: کیوں اپنے لئے دعا نہیں کرتیں؟ آپ(ع) نے فرمایا پہلے ہمسائے اور پھر خود _(28)

امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ جناب فاطمہ زہرا(ع) تمام لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والى تھیں اللہ تعالى کى عبادت میں اتنا کھڑى رہتیں کہ ان کے پاؤں ورم کرجاتے _(29)

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے تھے کہ میرى بیٹى فاطمہ عالم کى عورتوں سے بہترین عورت ہیں، میرے جسم کا ٹکڑا ہیں، میرى آنکھوں کا نور، دل کا میوہ اور میرى روح رواں ہیں، انسان کى شکل میںحور ہیں، جب عبادت کے لئے محراب میںکھڑى ہوتیں تو آپ کا نور فرشتوں میں چمکتا تھا، خداوند عالم نے ملائکہ کوخطاب کیا کہ میرى کنیز کو دیکھو میرے مقابل نماز کے لئے کھڑى ہے اور اس کے اعضاء میرے خوف سے لرز رہے ہیں اور میرى عبادت میں فرق ہے، ملائکہ گواہ ہو میںنے فاطمہ (ع) کے پیروکاروں کو دوزخ کى اگ سے مامون قرار دے دیا ہے _(30)

البتہ جو شخص قرآن کے نزول کے مرکز میں پیدا ہو اور روحى کے دامن میں رشد پایا اورغور کیا ہو اور دن رات اس کے کان قرآن کى آواز سے آشنا ہوں اور محمد(ع) جیسے باپ کى تربیت میں رہا ہو کہ آنجناب اس قدر اللہ تعالى کى عبادت کرتے کہ آپ کے پائے مبارک ورم کرجاتے تھے اور على جیسے شوہر کے گھر رہى ہو تو اسے اہل زمان کے افراد سے عابدترین انسان ہونا ہى چاہیئےسے عبادت میںاتنا بلند مقام رکھنا چاہیئے اور ایمان اس کى روح کى گہرائیوں میںسماجاتا چاہیئے_


بابرکت ہار

جابربن عبداللہ انصارى فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن عصر کى نماز پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھى آپ کے اصحاب آپ کے ارد گرد بیٹھے تھے، اچانک ایک آدمى پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں حاضر ہوا جس کا لباس پرانا اور پھٹا ہوا اور سخت بڑھا پے کى وجہ سے اپنى جگہ پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا، پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کى طرف متوجہ ہوئے اور اس کى مزاج پرسى کی، یا رسول اللہ(ص) میں ایک بھوکا آدمى ہوں مجھے سیر کیجئے ننگاہوں مجھے لباس عنایت فرمایئےور خالى ہاتھ ہوں مجھے کچھ عنایت فرمایئے پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سر دست تو میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن میںتجھے ایک جگہ کى راہنمائی کرتا ہوں شاید وہاں تیرى حاجت پورى ہوجائے_ اس شخص کے گھر جا کہ جو خداوند اور رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور رسول اسے دوست رکھتے ہیں جا میرى بیٹى فاطمہ (ع) کے گھر کہ شاید تجھے وہ کوئی چیز عنایت فرما دے آپ اس کے بعد بلال سے فرمایا کہ اسے فاطمہ (ع) کا گھر کھلا آؤ_

جناب بلال اس بوڑھے کے ساتھ جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے، بوڑھے نے عرض کى سلام ہو میرا خانوادہ اہلبیت پر کہ جو فرشتوں کے نازل ہونے کا مرکز ہے جناب فاطمہ (ع) نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تم کون ہو؟ اس نے عرض کیا کہ میں ایک فقیر ہوں، پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں گیا تھا انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اے دختر پیغمبر(ص) بھوکا ہوں سیر کیجئے، برہنہ ہوں لباس مجھے پہنایئےفقیر ہوں کوئی چیز عنایت فرمایئےجناب فاطمہ جاتى تھیں کہ گھر میں کوئی غذا موجود نہیں ہے ایک گوسفند کى کھال ہے کہ جو امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے فرش کے لئے تھى اسے دى اس نے عرض کى یہ چمڑے کى کھال میرى زندگى کى اصلاح کہاں کرسکتى ہے_ جناب فاطمہ (ع) نے ایک ہار جو آپ کے چچا کى لڑکى نے بطور ہدیہ دیا تھا اس فقیر کو دے دیا اور فرمایا اسے فروخت کر کے اپنى زندگى کى اصلاح کرلے_

وہ بوڑھا آدمى پیغمبر اکرم (ص) کى خدمت میں لوٹ آیا اور تمام قصہ بیان کیا، آپ رودیئےور فرمایا کہ اس ہار کو فروخت کر ڈالوتا کہ میرى بیٹى کے عطیے کى برکت سے خدا تیرى کشائشے کردے_

عمار یاسر نے جناب رسول خدا(ص) سے اجازت لى کہ اس ہار کو خرید لوں اس بوڑھے سے پوچھا کہ اسے کتنے میں فروخت کروگے؟ اس نے کہا کہ اتنى قیمت پر کہ روٹى اور گوشت سے میرا پیٹ سیر ہوجائے ایک یمانى چادر جسم کے ڈھانپے کے لئے ہوجائے کہ جس میں نماز پڑھوں اور ایک دینار کہ میں اپنے گھر اور اہل و عیال کے پاس جاسکوں_

عمار نے کہا میں اس ہار کو بیس دینار اور دو سو درہم اور ایک برد یمانى اور ایک سوارى کا حیوان اور روٹى اور گوشت کے عوض خریدتا ہوں اس بوڑھے نے ہار جناب عمار کو فروخت کردیا اور معاوضہ لے لیا اور پیغمبر(ص) کى خدمت میں لوٹ آیا، پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا کہ تمہارى حاجت پورى ہوئی، اس نے عرض کى ہاں، میں جناب فا طمہ (ع) کى بخشش کى بدولت بے نیاز ہوگیا ہوں کہ خداوند عالم اس کے عوض جناب فاطمہ (ع) کو ایسى چیز دے کہ نہ آنکھ دیکھى ہو اور نہ کان نے سنى ہو_

جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اصحاب سے فرمایا کہ خداوند عالم نے اسى دنیا میں اس قسم کى چیز جناب فاطمہ (ع) کو عطا کردى ہے کیونکہ اسے مجھ جیسا باپ اور على جیسا شوہر اور حسن (ع) اور حسین (ع) جیسے فرزند عنایت فرمائے ہیں، جب عزرائیل فاطمہ (ع) کى روح قبض کرے گا اور اس سے قبر میں سوال کرے گا کہ تیرا پیغمبر کون ہے؟ تو جواب دے گى میرا باپ، اور اگر پوچھے گاتیرا امام کون ہے تو جواب دے گى میرا شوہر على بن ابیطالب(ع) ، خداوند عالم نے ملائکہ کى ایک جماعت کى ڈیوٹى لگادى ہے کہ آپ کے مرنے کے بعد ہمیشہ ان پراور ان کے والد اور شوہر پر درود بھیجتے رہیں_ خبردار ہو جو شخص میرے مرنے کے بعد میرى زیارت کوآئے تو وہ اس کے مانند ہے کہ وہ میرى زندگى میں زیارت کو آیا ہے اور جو شخص فاطمہ (ع) کى زیارت کو جائے اس کے مثل ہے کہ اس نے میرى زیارت کی_

جناب عمار نے وہ ہار لیا اور اسے خوشبو لگائی اور یمانى کپڑے میں لپیٹ کر اپنے غلام کو دیا اور کہا کہ اسے پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں لے جاکر حاضر کرو میں نے تجھے بھى آنجناب کو بخش دیا ہے_ جب وہ غلام جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم کى خدمت میںگیا تو حضرت نے وہ ہار مع غلام کے جناب فاطمہ علیہا السلام کو بخش دیا_ جناب فاطمہ علیہا السلام نے وہ ہار لیا اور اس غلام کو آزاد کردیا_ جب غلام آزاد ہوا تو ہنسنے لگا جب اس سے ہنسنے کى علت پوچھى گئی تو اس نے جواب دیا کہ اس ہار کى برکت پر مجھے تعجب ہوا ہے کیونکہ اس نے بھوکے کو سیر کیا ہے، برہنہ کو کپڑا پہنایا، فقیر کو غنی کردیا، غلام کو آزاد کردیا اور پھر وہ اپنے مالک کے پاس لوٹ گیا _(31)


پیغمبر(ص) کى فاطمہ (ع) سے محبت اوران کا احترام

جناب عائشےہ فرماتى ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) بات کرنے میں تمام لوگوں کى نسبت پیغمبر(ص) سے زیادہ شباہت رکھتى تھی، جب آپ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاتیں تو پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کا ہاتھ پکڑتے اوراسے بوسہ دیتے اورجناب فاطمہ (ع) کو اپنى جگہ بٹھاتے اور جب رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) کے پاس جاتے تو آپ والد کے احترام کے لئے کھڑى ہوجاتیں اور آپ کے ہاتھ چومتیں اور اپنى جگہ آپ کوبٹھلاتیں _(32)

ایک دن جناب عائشےہ نے دیکھا کہ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کو بوسہ دے رہے ہیں تو عرض کیا یا رسول اللہ(ص) اب بھى آپ فاطمہ (ع) کو چومتے میں کتنا فاطمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں تو تیرى محبت بھى اس کے ساتھ زیادہ ہوجاتی، فاطمہ (ع) یہ انسان کى شکل وصورت میں حور ہیں، جب بھى میں بہشت کى خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو اسے بوسہ د یتا ہوں _(33)

 

على بن ابیطالب نے پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا یا رسول اللہ(ص) مجھے زیادہ دوست رکھتے ہیں یا فاطمہ (ع) کو؟ تو آپ نے فرمایا تم عزیزترین ہو اور فاطمہ محبوت تر (34)_

جناب فاطمہ (ع) فرماتى ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی کر:

''لاتجعلوا دعا الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا''

یعنى پیغمبر کو اپنى طرح آواز نہ دیا کرو_ تو میں اس کے بعد اباجان کے لفظ سے آپ کو خطاب نہ کرتى تھى اور یا رسول اللہ(ص) کہا کرتى تھی، کئی دفعہ میں نے آپ کو اسى سے آواز دى تو آپ نے میرا جواب نہ دیا اور اس کے بعد فرمایا بیٹى فاطمہ (ع) یہ آیت تمہارے اورتمہارى اولاد کے بارے میں نازل نہیں ہوئی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، یہ آیت قریش کے متکبر افراد کے لئے نازل ہوئی ہے، تم مجھے ابّا کہہ کر پکارا کرو کیونکہ یہ لفظ میرے دل کو زندہ کرتا ہے اور پروردگار عالم کو خشنود کرتا ہے (35)_

جناب عائشےہ سے سوال کیا گیا کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ تو آپ نے کہا کہ فاطمہ (ع) ، اس کے بعد پوچھا گیا کہ مردوں میں سے زیادہ محبوب کون تھا تو آپ نے کہا فاطمہ (ع) کے شوہر على (ع) _(36)

جب تک پیغمبر(ص) فاطمہ (ع) کو چوم نہ لیتے سویا نہیں کرتے تھے (37)_

 

پیغمبر(ص) جب سفر کو جاتے تھے تو آخرى آدمى جسے وداع فرماتے تھے فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو پہلا شخص جس کى ملاقات کو جلدى جاتے فاطمہ (ع) ہوتیں (37)_

پیغمبر(ص) فرماتے تھے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے خوشنود کرے گا اس نے مجھے خوشنود کیا، اور جو شخص اسے اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دى سب سے عزیزترین میرے نزدیک فاطمہ (ع) ہیں(39)_

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول خدا(ص) حد سے زیادہ اور معمول اور متعارف سے بڑھ کر جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار اس حد تک کرتے تھے کہ بسا اوقات اعتراض کئے جاتے تھے البتہ ہر باپ کو طبعى طور پر اولاد سے محبت ہوتى ہے لیکن جب محبت اورتعلق معمول سے تجاوز کرجائے تو اس کى کوئی خاص وجہ اور علت ''جو فطرى محبت کے علاوہ ہو، ہونى چاہیئے، ممکن ہے حد سے زیادہ محبت کا اظہار جہالت اور کوتاہ فکرى کى وجہ سے ہو لیکن اس علت کى پیغمبر(ص) کى ذات کى طرف نسبت نہیں دى جاسکتی،کیونکہ اللہ تعالى پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق فرماتا ہے: انک العلى خلق عظیم (39)_ ''یعنى خلق عظیم کے مالک ہو_

پیغمبر(ص) کے تمام کا وحى الہى کے ماتحت ہوا کرتے تھے اللہ تعالى فرماتا ہے ان ہو الا وحیٌ یوحى (40)_


بس خدا کے رسول کا ان تمام غیر عادى محبت کے اظہار میں کوئی اور منشا اور غرض ہونى چاہیئے_

جناب رسول خدا(ص) نے اپى بیٹى فاطمہ (ع) کے مقام و مرتبت کو خود مشخص کیا تھا اور آپ ان کے رتبے کو اچھى طرح پہچانتے تھے_ جى ہاں پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) ولایت اور امامت کى تولید کامرکز اور دین کے پیشواؤں کى ماں ہیں، اسلام کى نمونہ اور مثال اور ہر گناہ سے معصوم ہیں_ حضرت رسول صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت على علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھى آپ کے بلند مقام کو درک نہیں کرسکتا_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کا نور آسمان کے فرشتوں کو روشنى دینے والا ہے، بہشت کى خوشبو کو فاطمہ (ع) سے استشمام کرتے تھے یہى علت تھى کہ آپ حد سے زیادہ فاطمہ (ع) سے اظہار محبت فرمایا کرتے تھے_


فاطمہ (ع) اور على (ع) کى سخت زندگی

ایک زمانہ میں حضرت على (ع) کى زندگى بہت سخت گزر رہى تھی_ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد بزرگوار کى خدمت میں حاضر ہوئیں آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا گویا زہرا(ع) دروازے پرہے دروازہ کھولو_ دیکھو کون ہے، جب انہوں نے گھر کا دروازہ کھولا تو جناب فاطمہ علیہا السلام گھر کے اندر داخل ہوئیں سلام کیا اور باپ کى خدمت میں بیٹھ گئیں، جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بیٹى فاطمہ (ع) تم اس وقت پہلے کبھى ہمارے گھر نہیں آیا کرتى تھیں کیا ہوا ہے؟ آپ نے عرض کى یا رسول اللہ(ص) ملائکہ کى غذا کیا ہے، آپ نے فرمایا اللہ تعالى کى حمد_ عرض کیا، اباجان ہمارى غذا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا خدا کى قسم ایک مہینہ ہونے کو ہے کہ آل محمد(ص) کے گھر میں آگ نہیں جلائی گئی_ میرى آنکھوں کانور، آگے آؤ میں تمہیں وہ پانچ کلمات بتلاتا ہوں جو جبرئیل نے مجھے تعلیم دیئے ہیں_

''یا رب الاولین وَ الآخرین یا ذالقوة المتین

و یا ارحم المساکین و یا ارحم الراحمین''

جناب فاطمہ (ع) نے یہ دعا یاد کى اور گھر لوٹ آئیں، حضرت على علیہ السلام نے پوچھا کہاں گئی تھیں؟ جواب دیا دنیا طلب کرنے گئی تھى لیکن آخرت کے لئے دستور لے کر آئی ہوں_ حضرت على علیہ السلام نے فرمایا آج سب سے بہتر دن تھا(41)_

ایک دن پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) کى عیادت کى اور آپ کے احوال پوچھے تو آپ نے عرض کیا اباجان بیمار ہوں اور اس سے بدتر یہ کہ گھر میں کوئی چیز موجود نہیں جو کھاؤں، آپ نے فرمایا کیا یہ تمہارے لئے کافى نہیں کہ دنیا کى عورتوں سے بہترہو(42)_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن جناب فاطمہ (ع) نے جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں عرض کیا کہ حضرت على علیہ السلام کے پاس جو آتا ہے وہ فقراء میں تقسیم کردیتے ہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا: بیٹى فاطمہ (ع) خبردار میرے بھائی اور چچازاد على (ع) کوناراحت نہ کرنا کیوں کہ على (ع) کاغضب میرا غضب ہے اورمیرا غضب خدا کا غضب ہے (43)_

اسماء بنت عمیس کہتى ہیں کہ ایک دن رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے دیکھا کہ حسن(ع) اور حسین(ع) گھر میں موجود نہیں ہیں ان کى حالت پوچھی، جناب فاطمہ (ع) نے عرض کی، آج ہمارے گھر میںکھانے کے لئے کچھ موجود نہ تھا، على (ع) نے جب باہر جانا چاہا فرمایا کہ میںحسن (ع) و حسین (ع) کو اپنے ساتھ باہر لے جاتا ہوں تا کہ یہاں روئیں نہ اور تم سے غذا کا مطالبہ نہ کریں_ ان کواٹھایا اور فلاںیہودى کے پاس چلے گئے_ جناب رسول خدا(ص) على کى تلاش میں باہر گئے اور انہیں یہودى کے باغ میں ڈول کھینچتے دیکھا اور دیکھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) کھیل میں مشغول ہیں اور ان کے سامنے تھوڑى مقدار خرما کى بھى موجود ہے_ پیغمبر(ص) نے على (ع) سے فرمایا کہ دن گرم ہونے سے پہلے حسن (ع) و حسین (ع) کو گھر لوٹانا نہیںچاہتے؟ آپ نے عرض کى یا رسول اللہ(ص) جب میںگھر سے باہر آیا تھا تو ہمارے گھر کوئی غذا موجود نہ تھى آپ تھوڑ ا توقف کریں تا کہ میںکچھ خرما جناب فاطمہ (ع) کے لئے مہیا کروں_ میں نے اس یہودى سے ہر ڈول کے کھینچنے پر ایک خرما مقرر کیا ہے_ جب کچھ خرمے مہیا ہوگئے انہیں آپ نے اپنے دامن میں ڈالا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کواٹھایا اور گھر واپس لوٹ آئے (44)_

ایک دن پیغمبر(ص) فاطمہ (ع) کے پاس آئے تو دیکھا کہ فاطمہ (ع) گلوبند پہنے ہوئے ہیں، آپ نے فاطمہ (ع) سے روگردانى کى اور چلے گئے، جناب فاطمہ (ع) آپ کى روگردانی کى علت کو بھانپ گئیں، ہارا تارا اور پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں حاضر کردیا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) تم مجھ سے ہو_ اس کے بعد ایک غریب آدمى آیا تو آپ نے وہ ہار اس کو عطا کردیا اور فرمایا کہ جو شخص ہمارا خون بہائے اورمیرے اہل بیت کے بارے میں مجھے اذیت دے خداوند عالم اس پر غضب کرے گا(45)_

اسماء بنت عمیس کہتى ہیں کہ میں جناب فاطمہ (ع) کى خدمت میں بیٹھى تھى کہ جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں آئے، آپ نے فاطمہ (ع) کى گردن میں سونے کا ہار دیکھا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) لوگوں کے اس کہنے پر کہ فاطمہ (ع) رسول(ص) کى دختر ہے مغرور نہ ہونا جب کہ تم اس حالت میں ہو کہ ظالموں کا لباس تمہارے جسم پرہو_ جناب زہراء نے فوراً ہار کو اتارا اور فروخت کردیا اور اس کى قیمت سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا، پیغمبر(ص) آپ کے اس کام سے بہت خوش ہوئے (46)_

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى عادت یہ تھى کہ جب سفر کو جاتے تو آخرى آدمى کہ جس سے وداع کرتے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو پہلا انسان جس کا آپ دیدار کرتے تھے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں، آپ ایک سفر سے جب جناب فاطمہ (ع) کے گھر آئے تو دیکھا حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندى کا دست بند ہے اور ایک پردہ بھى لٹکا ہوا ہے آپ نے اسے تھوڑى دیر تک دیکھا اور اپنى عادت کے خلافجناب زہرا(ع) کے گھر نہ ٹھہرے اور فوراً واپس لوٹ گئے، جناب فاطمہ (ع) غمگین ہوئیں اوراس واقعہ کى علت سمجھ گئیں، پردہ اتار اورحضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھ سے دست بند بھى اتارا، اور یہ کسى ذریعہ سے جناب رسول خدا(ص) کى خدمت میں روانہ کردیا_ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کى آنکھوں کو بوسہ دیا اور آپ کو نوازش دى اور دس بند کو مسجد میں حوفقراء رہتے تھے ان میں تقسیم کردیا اور پردے کے ٹکڑے کر کے مختلف برہنہ انسانوں کودیئے تا کہ وہ ستر عورت کرسکیں اس کے بعد جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خدا فاطمہ (ع) پر رحمت کرے اور اسے بہشتى لباس پہنائے اور بہشتى زینت اسے عطا کرے(47)_

عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں ایک دن جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ جناب فاطمہ (ع) زہراء وہاں تشریف لے آئیں_ جب رسول خدا کى نگاہ آپ کے چہرے پر پڑى جو بھوک سے زرد ہوچکا تھا اور اس پر خون کے موجود ہونے کے آثار نہیں نظر آرہے تھے تو انہوں نے اپنے پاس بلایا اور اپنا دست مبارک جناب فاطمہ (ع) کے سینے پر رکھا اور فرمایا اے وہ خدا جو بھوکوں کو سیر کرتا ہے اور ضعیفوں کو بلند کرتا ہے، فاطمہ (ع) محمد(ص) کى دختر کو بھوکا نہ رکھ_ عمران کہتا ہے کہ پیغمبر(ص) کى دعا کى برکت سے جناب فاطمہ (ع) کے چہرے کى زردى ختم ہوگئی، اور آپ کے چہرے پرخون دوڑے کے آثار پیدا ہوگئی(48)
 

عملى دعوت

روایات اور تواریخ یہ گواہى دے رہى ہیں کہ اہلبیت کى فرد اول یعنى پیغمبر اسلام(ص) اور اسلام کى دوسرى شخصیت على بن ابیطالب(ع) اور اسلام کى پہلى خاتون فاطمہ زہراء (ع) کى زندگى بہت سادہ بلکہ بہت سختى اور مشقت سے گزرتى تھی، اور اس پر بہت زیادہ تعجب بھى نہیں کیا جانا چاہیئےیوں کہ اس زمانے میں تمام مسلمانوں کى عمومى زندگى اچھى نہ تھی_

اکثر مسلمان فقیر اور معاشرے سے محروم افراد ہوا کرتے تھے وہ گروہ کہ جن کى ایک حد تک زندگى برى نہ تھى دشمنوں کے خوف سے مجبور ہوگئے تھے اور اپنى تمام پونجى اور گھر بار مکہ چھوڑکر مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے، مدینہ میں بھى اکثریت فقراء کى تھى اور جو چند آدمى جن کى وضع کسى حدتک اچھى تھى وہ بھى مجبور تھے کہ ان مسلمانوں سے جو مکّہ چھوڑکر ہجرت کر آئے تھے ہمدردى اور مالى مواسات بجالائیں اور اپنى قدرت کے مطابق ان کى مدد اور مساعدت کریں اور دوسرى طرف وہ زمانہ اسلام کا بحرانى زمانہ تھا مسلمان ہر وقت جنگ کے لئے تیار رہتے تھے اور اکثر اوقات جنگ اور دفاع میں مشغول رہتے تھے اسى وجہ سے اپنى اقتصادى اوضاع کو قوى نہیںکرسکتے تھے_

ان حالات میں کیا پیغمبر(ص) اور على (ع) اور فاطمہ (ع) کے لئے مناسب اور ممکن تھا کہ وہ اپنے لئے اچھى زندگى فراہم کریں اور فقراء اور بیچاروں سے ہمدردى نہ کریں اگر چہ پیغمبر(ص) اور حضرت على (ع) خود کام کیا کرتے تھے اور اسى ذریعہ سے ان کے پاس مشروع اورجائز دولت بھى اکھٹى ہوجاتى تھى اور جنگ کى غنیمت سے بھى انہیں حصہ ملتا تھا اور اگر چاہتے تو اچھى زندگى گزار سکتے تھے، لیکن کیا یہ ممکن تھا کہ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے داماد اور ان کى بیٹى تو آرام سے زندگى گزاریں لیکن مدینہ کے فقراء کى فریادیں بلند ہوں، کیا یہ مناسب تھا کہ پیغمبر(ص) کى دختر تو گھر پر پردے لٹکائے رکھے اور مسلمانوں کى ایک جماعت کے پاس سترعورت کے لئے کپڑے تک موجود نہ ہوں، کیا یہ ہوسکتا تھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) توہاتھوں میں چاندى کے دست بند پہنے ہوئے ہوں اور مسلمانوں کے بچوں کى بھوک سے فضاء میں آوازیں بلند ہو رہى ہوں_

قاعدتاً اگر اسلام کا پہلا شخص اور اہلبیت گرامى دوسرے مسلمانوں سے مواسات نہ کرتے تو کیا ممکن ہوتا کہ مسلمانوں کے مستضعف گروہ کو صدر اسلام میں کہ جو ابھى اچھى طرح پیغمبرى اور وحى کے معنى کو درک نہیں کرتے تھے اور ان کى عقلیں صرف ان کى آنکھوں تک محدود تھى حاضر کیا جاتا کہ وہ میدان جہاد میں فداکارى کریں اور اپنى جان کو قربان کریں؟ اسلام کى پیشرفت اور اس کے معنوى نفوذ کى ایک علت یہ بھى تھى کہ جو آنحضرت سے سنتے تھے اسے عملى طور سے بھى رفتار و گفتار اور زندگى فردى اور خانوادے کى زندگى میںمشاہدہ بھى کرتے تھے اسى عملى دعوت کى وجہ سے وہ اسلام اور جانبازى کى طرف مائل ہوا کرتے تھے لیکن ...


حضرت زہراء کى عصمت

لغت میں لفظ معصوم کے معنى محفوظ اور ممنوع کے ہیں_ اصطلاح میں معصوم اس شخص کو کہاجاتا ہے جو غلطى اور اشتباہ اور گناہوں سے امان میں ہو اور محفوظ ہو معصوم اسے کہتے ہیں کہ اس کى بصیرت کى آنکھ ایسى ہو کہ عالم کے حقائق کا مشاہدہ کر رہى ہو اور اس ارتباط اور اتصال کى وجہ سے جو اسے عالم ملکوت سے ہے اور غیبى تائیدات سے گناہ اور نافرمانى نہ کرے اور اس کے وجود مقدس میں غلطى اور اشتباہ اور سرکشى اور عصیاں گزر نہ کرسکے_ عصمت کا بلند و بالا رتبہ اور مقام دلائل عقلى اور نقلى اور براہین سے پیغمبروں کے لئے تو ثابت ہوچکا ہے_

شیعہ امامیہ کاعقیدہ ہے کہ ہمارے پیغمبر(ص) کے حقیقى جانشین و خلفاء اور بارہ اماموں کو بھى معصوم ہونا چاہیئےور ان کے پاس ان بزرگوں کى عصمت کے لئے دلائل اور براہین بھى موجود ہیں_ اگر ہم ان کا ذکر یہاں شروع کردیں تو اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے_

شیعہ امامیہ پیغمبروں کى عصمت کے علاوہ حضرت زہرا (ع) کو بھى گناہوں اور نافرمانى سے معصوم جانتے ہیں اور آپ کى عصمت کے ثبوت کے لئے بہت سى دلیلیں پیش کى جاسکتى ہیں_ بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے_

پہلى دلیل اس آیت کے تمسک کر کے آپ کى عصمت کو ثابت کیاجاسکتا ہے_

''انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا'' (49)

آیت کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے_ ''خدا چاہتا ہے کہ ناپاکیاور آلودگى کو تم اہلبیت سے دور کردے اورکاملاً تمہیں پاکیزہاور طاہر کردے_

شیعہ اور سنى نے بہت زیادہ احادیث نقل کى ہے جو دلالت کرتى ہیں کہ یہ آیت پیغمبر(ص) اور على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کى شان میں نازل ہوئی ہے_

 

جناب عائشےہ فرماتى ہیں کہ ایک دن جناب پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کندھے پر سیاہ پشم کا بنا ہوا کپڑا ڈالے گھر س باہر نکلے اس کے بعد حسن اور حسین (ع) اور فاطمہ (ع) اور على (ع) کو اس کپڑے اور چادر کے درمیان لیا اور فرمایا:

انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت الخ(50)

جناب ام سلمہ فرماتى ہیں ایک دن جناب فاطمہ (ع) ایک ظرف میں حریر (ایک کا حلوہ ہے) لے کر جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں حاضر ہوئیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ على (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو بھى بلاؤ، جب یہ تمام حضرات رسول (ص) کى خدمت میں حاضر ہویئےور غذا کھا نے میںمشغول ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی، اس کے بعد پیغمبر(ص) نے خیبرى چادر ان کے سرپر ڈالى اور تین مرتبہ فرمایا کہ اے میرے خدا یہ میرے اہل بیت ہیں، آلودگى کو ان سے زائل کردے اورپاکیزہ بنادے (51)_

عمر ابن ابى سلمہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ''انما یر اللہ'' جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی، پس پیغمبر اکرم(ص) نے على (ع) اورفاطمہ اور حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور چادر ان کے سرپر ڈالى اور فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگى کو ان سے زائل کردے اور ان کو اس طرح پاک و پاکیزہ فرما جو حق ہے جناب ام سلمہ نے عرض کى یا رسول اللہ(ص) میں بھى ان کے ساتھ ہوں یعنى اہلبیت میں داخل ہوں آپ نے جواب دیا کہ تم بھى اچھائی پر ہو (52)_

 

واثلہ ابن اسقع کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے على (ع) اور فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو زانو پر، اس کے بعد ان کے سروں پر چادر ڈال کر فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگى کو ان سے زائل کردے (53)_

خلاصہ رسول خدا(ص) کے اصحاب کى ایک جماعت جیسے جناب عائشےہ، ام سلمہ، معقل بن یسار، ابى الحمرائ، انس بن مالک، سعد ابن ابى وقاص، واثلہ ابن اسقعہ، حسن ابن علی، على بن ابیطالب، ابوسعید خدری، زینب، ابن عباس اور ان کے علاوہ ایک اور جماعت نے اسى سے ملتى جلتى روایات اس آیت کى شان نزول میں نقل کى ہیں_ شیعہ اور سنى علماء جیسے جلال الدین سیوطى نے درالمنثور میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزى نے ینابیع المودة اور دوسرے سنى علماء نے ان روایات کو اپنى کتابوں میں نقل کیا ہے_

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) اس آیت کے نازل ہوئے کے بعد متعدد مقامات پر اور ان میں سے خود جناب فاطمہ (ع) اور جناب ام سلمہ کے گھر اپنى عبا على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے سرپر ڈالتے اور اس آیت کى تلاوت فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے خدا جو اشخاص میرى عبا کے نیچے موجود ہیں یہى میرے اہلبیت ہیں، آلودگى کو ان سے دور فرما، رسول خدا(ص) اس قسم کا عمل اس لئے انجام دیتے تھے تا کہ اہلبیت (ع) کى شناخت ہوجائے اور یہ موضوع پایہ ثبوت کو پہنچ جائے یہاں تک کہ چھ ماہ اوربعض روایات کى بنا پرسات اور بعض دوسرى روایت کى بناپر آٹھ مہینہ تک آپ کى یہ عادت تھی کہ آپ صبح کے وقت جب نماز کے لئے جاتے اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کے گھر سے گزرتے تو ٹہرجاتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے(54)_

رسول خدا(ص) ان موارد اورمواقع پر اپنى چادر على (ع) اور فاطمہ (ع) اورحسن (ع) اور حسین (ع) علیہم السلام کے سر پر ڈالتے اور یہى آیت تلاوت فرماتے تا کہ اس سے غلط مطلب لینے کى کسى کو گنجائشے نہ رہے کہ کوئی دعوى کرے کہ میں بھى اہلبیت کا مصداق اور فرد ہوں، آپ اس مطلب کو اتنى اہمیت دیتے تھے کہ جب ام سلمہ نے عبا کے اندر داخل ہونا چاہا تو آپ نے چادر ان کے ہاتھ سے کھینچ لى اور فرمایا کہ تم نیکى پر ہو_ ایک زمانے تک صبح کے وقت آپ نماز کے لئے تشریف لے جاتے تو فاطمہ (ع) کے گھر میں رہنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرماتے تا کہ لوگ سن لیں اور اس کے بعد انکار نہ کرسکیں_ على (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) بھى متعدد مقامات پر اور صحابہ کے روبرو فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے حق میںنازل ہوئی ہے_ اور کسى وقت بھى اس کا کسى نے انکار نہیں کیا_

اس آیت کے مطابق خداوند عالم فرماتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا کہ تم اہلبیت کو آلودگى اور رجس سے منزہ قرار دے_ اس رجس سے مراد ظاہرى نجاست نہیں ہے کیونکہ اس کا دور کرنا اہلبیت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان مکلف ہیں کہ وہ اپنے آپ سے ظاہرى نجاست کو دور رکھیں اور اس سے پرہیز کریں، اس کے علاوہ اگر ظاہرى نجاست مراد ہوتى تو اس کے لئے اتنے اہتمام اور تکلف کى ضرور نہ تھى اور نہ ہى پیغمبر کو دعا کى ضرورت تھی_ مطلب اتنا مہم نہیں تھا کہ ام سلمہ اس کا مصداق ہونے کى خواہش کرتیں اور رسول خدا اس سے مانع ہوتے اس سے معلوم ہوجائے گا کہ مراد اس آیت میں ظاہرى نجاست اور آلودگى نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اور مقصود باطنى آلودگى یعنى گناہ اور اللہ تعالى کى نافرمانى ہے، لہذا اس آیت کے معنى یہ ہوں گے کہ خدا نے چاہا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ اہلبیت گناہ سے پاکیزہ ہوں اور اس ارادہ سے مراد بھى ارادہ تشریعى نہیں ہے، یعنى یوں نہیں کہا جاسکتا کہ خداتعالى نے اہلبیت سے_ طلب کیا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو گناہ اورمعصیت سے پاک کریں کیونکہ ایسا ارادہ بھى اہلبیت کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتا، کیوں کہ خداوند عالم تمام لوگوں سے یہى چاہتا ہے کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں بلکہ اس ارادے سے مراد اس آیت میں تکوینى ارادہ ہے یعنى خدا نے اس طرح مقدر کردیا ہے کہ اہلبیت کا دامن معصیت اور گناہ سے پاک اور منزہ ہو حالانکہ تمام بشر مختار ہیں کہ وہ علم اور ارادے سے گناہوں کو ترک کریں_

پیغمبر(ص) نے بھى اس آیت کى یہى تفسیر کى ہے یعنى گناہوں سے معصوم ہونا_ ابن عباس نے رسول خدا(ص) سے روایت کى ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالى نے مخلوق کى دو قسم کى ہیں اور مجھے بہترین قسم میں قرار دیا ہے کیوں کہ اللہ تعالى فرماتا ہے کہ:

''اصحاب الیمین ما اصحاب الیمین و اصحاب الشمال ما اصحاب الشمال''_

میںاصحاب یمین سے اوران سے بہترین میں سے ہوں، اس کے بعد اللہ تعالى نے ان کى تین قسمیں کى ہیں اور مجھے ان میں سے بہترین قسم میں قرار دیا ہے_ اللہ تعالى فرماتا ہے کہ:

''فاصحاب المیمنة ما اصحاب المیمنة و اصحاب

المشئمہ ما اصحاب المشئمہ و السابقون السابقون''

میں سابقین میں سے ہوں اور ان سے بہترین ہوں_ پھر ان تین قسموں کو قبیلوں میں تقسیم کیا_ اور مجھے بہترین میں قرار دیا_ جیسے کہ اللہ تعالى فرماتا ہے:

''و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم''

پس میں حضرت آدم(ع) کى اولاد میں سے پرہیزگاروں اورمعظم ترین لوگوں میں سے ہوں، لیکن اس پرمیں فخر نہیں کرتا پھر اللہ تعالى نے ان قبائل کو خاندانوں میں تقسیم کیا ہے، اور مجھے بہترین خاندان میں قرار دیا ہے_ جیسے کہ اللہ تعالى فرماتا ہے:

''انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیراً''

پس میں اور میرے اہلبیت گناہوں اورمعصیت سے معصوم ہیں (55)_


اعتراض

کہا گیا ہے کہ یہ آیت عصمت پر دلالت نہیں کرتى کیوں کہ اس سے پہلى آیت اور اس سے بعد کى آیات تمام کى تمام پیغمبر(ص) کى ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور انہى کوخطاب کیا گیا ہے_

اس قرینے کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت بھى پیغمبر(ص) کى ازدواج کى شان میں نازل ہوئی ہے اور وہى اس آیت میں اس کى مخاطب ہیں اور اگر اس آیت کى دلالت عصمت پر مان لى جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ پیغمبر(ص) کى ازدواج گناہوں سے معصوم ہیں حالانکہ اس مطلب کو کسى نے نہیں کہا اور نہ ہى یہ مطلب کہا جاسکتا ہے لہذا کہنا ہوگا کہ اصلاً یہ آیت عصمت پر دلالت ہى نہیں کرتى نہ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى ازدواج کے مورد میں اور نہ ہى اہلبیت کے مورد میں_


اعتراض کا جواب

علامہ سید عبدالحسین شرف الدین نے اس اشکال کونقل کر کے اس کا جواب دیا ہے_ ہم یہاں وہ جواب نقل کر رہے ہیں_

پہلا جواب:

یہ ہے کہ جو احتمال اعتراض میں دیا گیا ہے وہ نص اور صریح روایات کے خلاف ہے اور یہ ایک ایسا اجتہاد ہے کہ جو نصوص اور روایات کے خلاف ہے کیوں کہ روایات حد تواتر تک موجود ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرات على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کى شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت انہیں سے مخصوص ہے_ یہان تک کہ جب جناب ام سلمہ نے چاہا کہ چادر کے اندر داخل ہوجائیں تو پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں سختى سے روک دیا_

دوسرا جواب:

اگر یہ آیت پیغمبر(ص) کى ازواج کے حق میں نازل ہوتى تو پھر چاہیئےھا کہ صیغہ مونث حاضر کا استعمال کیا جاتا اور یوں آیت ہوتى انما یرید اللہ لیذہب عنکم کى جگہ عنکنَّ ہوتا اور جمع مذکر کا صیغہ جو موجودہ آیت میں ہے نہ لایا جاتا_


تیسرا جواب:

عربى فصیح زبان میںعربوں کے درمیان یہ عام رواج ہے کہ وہ ایک مطلب کے درمیان جملہ معترضہ لایا کرتے ہیں، لہذا کیا حرج ہے کہ اللہ تعالى نے اس آیت کو جو اہلبیت سے مخصوص ہے ازواج پیغمبر(ص) کے ذکر کے درمیان ذکرکردیا ہو تا کہ اہلبیت کے موضوع کى اہمیت واضح ہوجائے اور اس نکتہ کى طرف توجہ دلانى ہو کہ چونکہ پیغمبر(ص) کے اہلبیت گناہوں سے معصوم ہیں کسى کو اس مقام کے حاصل کرنے کى کوشش نہیں کرنى چاہیئے یہاں تک کہ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى ازواج مطہرات بھى اس مقام کے حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتیں_


چوتھا جواب:

باوجودیکہ قرآن مجید میںتحریف واقع نہیں ہوئی اور قرآن مجید کى آیات میں کمى زیادتى نہیں ہوئی لیکن یہ مطلب تمام کے نزدیک مسلم نہیں کہ قرآن کى تدوین اور جمع کرنے کے وقت ان تمام آیات اور سورتوں کو بعینہ ویسے ہى رکھا گیا ہے جس ترتیب سے نازل ہوئی تھیں مثلاً کوئی بعید نہیں کہ اس آیت کو جو اہلبیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ایک علیحدہ جگہ نازل ہوئی ہو لیکن قرآن جمع کرنے کے وقت اس کو ان آیات کے درمیان رکھ دیا ہو جو پیغمبر(ص) کى ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں (56)_

 

دوسرى دلیل

جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) خدا تیرے غضبناک ہونے پرغضبناک ہوتا ہے اور تیرى خوشنودى پر خوشنود ہوتا ہے (57)_

اس حدیث کو شیعہ اور سنیوں نے نقل کیا ہے اور اس حدیث کو دونوں قبول کرتے ہیں، اس حدیث کے مطابق جس جگہ فاطمہ (ع) غضبناک ہوں گى خدا بھى غضبناک ہوگا اور فاطمہ (ع) خوشنود ہوگى تو خدا بھى راضى اور خوشنود ہوگا اور یہ امر مسلم ہے کہ خدا واقع اور حق کے مطابق راضى اور غضبناک ہوتا ہے اور کبھى بھى برے یا خلاف حق کام کرنے پر راضى اور خوشنود نہیں ہوتا اگر چہ دوسرے اس پر راضى اور خوشنود ہى کیوں نہ ہوں اور کبھى بھى اچھے کاموں اور حق کے مطابق اعمال پر غضب ناک نہیں ہوتا، اگر چہ دوسرے لوگ اس پر غضبناک ہى کیوں نہ ہوتے ہوں، ان دو چیزوں کا لازمہ یہ ہوگا کہ جناب فاطمہ (ع) گناہ اور خطا سے معصوم ہوں، کیوں کہ اگر معصوم ہوئیں تو آپ کا غضب اور رضا شریعت کے میزان کے مطابق ہوگى اور کبھى بھى اللہ تعالى کى رضا کے خلاف راضى نہ ہوں گى اور کبھى بھى نیک اور حق کاموں سے غضبناک نہ ہوں گى اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے اور اگر وہ خوشنود ہو ت و خدا خوشنود ہوتا ہے_

بخلاف اگر گناہ اور خطا آپ کے حق میں جائز قرار دیا جائے تو بطور کلى یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فاطمہ (ع) کے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کى خوشنودى سے خدا خوشنود ہوتا ہے، اس مطلب کو ایک مثال دیگر واضح کردوں فرض کریں کہ حضرت فاطمہ (ع) معصوم نہ ہوں اور ان کے حق میں اشتباہ اور خطا ممکن ہو تو اس صورت میں ممکن ہے کہ آپ اشتباہ یا خواہشات نفسانى کى وجہ سے حق اور واقع کے خلاف کسى سے کوئی چیز طلب کریں اور اس کى وجہ سے ان میں نزاع اور کشمکش کى نوبت پہنچ جائے اور آپ کامد مقابل اس مقابلے پر جو آپ کر رہى ہیں راضى نہ ہو اور آپ کو مغلوب کردے تو ممکن ہے کہ آپ اس صورت میں غضب ناک ہوجائیں اور عدم رضایت کا اظہار کردیں تو کیا اس فرض اور صورت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ چونکہ فاطمہ (ع) اس شخص پر غضبناک ہیں لہذا اللہ بھى اس پر غضبناک ہے گر چہ حق اسى مد مقابل کے ساتھ ہے_ ایسا بالکل نہیںہوسکتا اور نہ ہى ایسے برے کام کو اللہ کى طرف نسبت دى جائیگى ہے_

ایک دوسرى روایت سے بھى جناب فاطمہ (ع) کى عصمت کوثابت کیا جاسکتا ہے کہ جس میں پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو بھى اسے غضبناک کرے اس نے مجھے غضبناک کیا(58)_

یہ حدیث بھى شیعہ اور سنى کتابوں میں موجود ہے اور تمام مسلمان اس حدیث کو حتى کہ جناب عمر اور ابوبکر بھى صحیح تسلیم کرتے ہیں_ سابقہ بیان کو جب اس حدیث کے پیرایہ میں دیکھا جاتا ہے تو اس سے بھى حضرت زہرا(ع) کى عصمت پر دلالت ہوجاتى ہے_ کیونکہ پیغمبر(ص) گناہ اور خطا اور خواہشات نفسانى سے معصوم ہیں آپ اس کام پہ غضبناک ہوتے ہیں جو اللہ تعالى کے نزدیک مبغوض ہوتا ہے اور اس چیز سے راضى ہوتے ہیں کہ جس پر اللہ تعالى راضى ہوتا ہے اس صورت میں کہاجاسکتا ہے کہ فاطمہ (ع) معصوم اور گناہ اور خطا کا احتمال ان کے حق میں جائز نہیں_

ایک اور دلیل جو حضرت زہرا(ع) کى عصمت کو ثابت کرتى ہے، وہ حدیث ہے جو امام صادق (ع) نے نقل فرمائی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ آپ کا نام زہراء اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ کے وجود میں شر اور برائی کو کوئی راستہ نہیں ہے (59)_


عورت جناب زہراء (ع) کى نظر میں

على ابن ابى طالب (ع) فرماتے ہیں کہ میں ایک دن ایک جماعت کے ساتھ جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ عورت کى مصلحت کس میں ہے؟ آپ کو کوئی صحیح جواب نہ دے سکا، جب اصحاب چلے گئے اور میں بھى گھر گیا تو میں نے پیغمبر(ص) کے سوال کو جناب فاطمہ (ع) کے سامنے پیش کیا_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ میں اس کا جواب جانتى ہوں، عورت کى مصلحت اس میں ہے کہ وہ اجنبى مرد کو نہ دیکھے اور اسے اجنبى مرد نہ دیکھے_ میں جب جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کى کہ آپ کے سوال کے جواب میںجناب فاطمہ (ع) نے یہ فرمایا ہے_ پیغمبر(ص) نے آپ کے اس جواب سے تعجب کیا اور فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے(60)_

اس میں کوئی شک نہیں کہ دین مقدس اسلام نے عورتوں کى ترقى اور پیشرفت کے لئے بلند قدم اٹھائے ہیں اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کے لئے ان کے لئے عادلانہ قوانین اور احکام وضع کئے ہیں، اسلام نے عورت کو علم حاصل کرنے کى آزادى دے رکھى ہے اس کے مال اور کام کا محترم قرار دیا ہے، اجتماعى قوانین وضع کرتے وقت عورتوں کے واقعى منافع اورمصالح کى پورى طرح مراعات کى ہے_

لیکن یہ بات قابل بحث ہے کہ آیا عورت کى مصلحت اجتماع اورمعاشرے میں اجنبى مردوں کے ساتھ مخلوط رہنے میں ہے یا عورت کى مصلحت اس میں ہے کہ وہ بھى مردوں کى طرح عمومى مجالس اورمحافل میں بیگانوں کے ساتھ گھل مل کر پھرتى رہے؟ کیا یہ مطلب واقعاً عورتوں کے فائدے میں ہے کہ وہ زینت کر کے بغیر کسى بند و بار کے مردوں کى مجالس میں شریک ہو اور اپنے آپ کو انظار عمومى میں قرار دے؟ کیا یہ عورتوں کے لئے مصلحت ہے کہ وہ بیگانوں کے لئے آنکھ مچولى کرنے کا موقع فراہم کرنے اور مردوں کے لئے امکانات فراہم کرے کہ وہ اس سے دیدنى لذت اورمفت کى لذت حاصل کرتے رہیں؟ کیا یہ عورتوں کى منفعت میںہے کہ کسى پابندى کو اپنے لئے جائز قرار نہ دیں اور پورى طرح اجنبى مردوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں اور آزادانہ طور سے ایک دوسرے کو دیکھیں؟ کیا عورتوں کى مصلحت اسى میں ہے کہ وہ گھر سے اس طرح نکلے کہ اس کاتعاقب اجنبى لوگوں کى نگاہیں کر رہى ہوں_

یا نہ بلکہ عورتوں کى مصلحت معاشرے میں اس میں ہے کہ اپنے آپ کو مستور کر کے سادہ طریقے سے گھر سے باہر آئیں اور اجنبى مردوں کے لئے زینت ظاہر نہ کریں نہ خود بیگانوں کودیکھیں اور نہ کوئی بیگانہ انہیں دیکھے_

آیا پہلى کیفیت میں تمام عورتوں کى مصلحت ہے اور وہ ان کے منافع کو بہتر طور پرمحفوظ کرسکتى ہے یا دوسرى کیفیت میں؟ آیا پہلى کیفیت عورتوں کى روح اور ترقى اور پیشرفت کے بہتر اسباب فراہم کرسکتى ہے یا دوسرى کیفیت ؟ پیغمبر اسلام(ص) نے اس مہم اوراجتماع اور معاشرے کے اساسى مسئلہ کواپنے اصحاب کے افکار عمومى کے سامنے پیش کیااور ان کى اس میں رائے طلب کى لیکن اصحاب میں سے کوئی بھى اس کا پسندیدہ جواب نہ دے سکا، جواب اس کى اطلاع حضرت زہراء (ع) کو ئی تو آپ نے اس مشکل موضوع میں اس طرح اپنا نظریہ بیان کیا کہ عورتوں کى معاشرے میں مصلحت اس میں ہے کہ نہ وہ اجنبى مردوں کو دیکھیں اور نہ اجنبى مرد انہیں دیکھیں_ وہ زہراء (ع) جو وحى اور ولایت کے گھر میں تربیت پاچکى تھى اس کا اتنا ٹھوس اور قیمتى جواب دیا اوراجتماعى موضوع میں سے ایک حساس اور مہم موضوع میں اپنے نظریئے اورعقیدے کااظہار کیا کہ جس سے رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعجب کیا اور فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کاٹکڑا ہے_

اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات کو دور رکھ کر غیر جانبدارانہ اس مسئلے میں سوچے اور اس کے نتائج اور عواقب پر خوب غور اور فکر کرے تو اس بات کى تصدیق کرے گا کہ جو جواب جناب فاطمہ (ع) نے دیا ہے وہ بہترین دستورالعمل ہوسکتا ہے جو عورتوں کے منافع کا ضامن ہو_ اور اس کے مقام اور رتبے کو معاشرے میںمحفوظ کردے گا کیونکہ اگر عورتیں گھر سے اس طرح نکلیں اور اجنبیوں کے ساتھ اس طرح میل جول رکھیں کہ مرد ان سے ہر قسم کى تمتعات حاصل کرسکیں اور عورتیں ہر جگہ مردوں کے لئے آنکھ مچولى کے اسباب فراہم کریں تو پھر جوان دیر سے شادى کریں گے اور وہ زندگى اور ازدواج کے زیربار نہیں ہوں گے، ہر روز لڑکیوں اور عورتوں کى تعداد میں جو بے شوہر ہوں گى اضافہ ہوتا جائے گا اور یہ علاوہ ازین کہ معاشرے کے لئے مضر ہے اور ماں، باپ کے لئے مشکلات اور محذورات کا موجب ہے خود عام عورتوں کے اجتماع کے لئے بھى موجب ضرر ہوگا، اور اگرعورتیں اپنى خوبصورتى کو تمام نگاہوں کے لئے عام قرار دے دیں اور اجنبیوں میں دلربائی کرتى رہیں تو ایک بہت بڑے گروہ کا دل اپنے ساتھ لئے پھریں گى اور چونکہ مرد محرومیت سے دوچار ہوں گے اوران تک دست رسى اور وصال بغیر قید اور شرط کے حاصل نہ کرسگیں گے قہراً ان میںنفسیاتى بیماریاں اور ضعف اعصاب اورخودکشى اور زندگى سے مایوسى عام ہوجائے گی_

اس کا نتیجہ بلاواسطہ خود عورتوں کى طرف لوٹے گا، یہى عام لطف نگاہ ہے کہ بعض مرد مختلف قسم کے حیلے اور فریب کرتے ہیں اورمعصوم اور سادہ لوح لڑکیوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان کى عفت و آبرو کے سرمایہ کو برباد کردیتے ہیں اور انہیں فساد اور بدبختى اورتباہى کى وادى میں ڈھکیل دیتے ہیں_

جب شوہردار عورت دیکھے کہ اس کا شوہر دوسرى عورتوں کے ساتھ آتا جاتا ہے، اورعمومى مجالس اورمحافل میں ان سے ارتباط رکھتا ہے توغالباً عورت کى غیرت کى حس اسے اکساتى ہے کہ اس میں بدگمانى اور سو ظن پید ہوجائے اور وہ بات بات پراعتراض شروع کردے، بے جہت باصفا اور گرم زندگى کو سرد اور متزلزل بنا کر رکھ دے گى اور نتیجہ،جدائی اور طلاق کى صورت بس ظاہر ہوگا یا اسى ناگوار حالت میں گھر کے سخت قیدخانے میں زندگى گزارتے رہے گى اور قید خانے کى مدت کے خاتمہ کا انتظار کرنے میں زندگى کے دن شمار کرتى رہے گى اورمیاں، بیوى دو سپاہیوں کى طرح ایک دوسرے کى مراقبت میں لگے رہیں گے_

اگر مرد اجنبى عورتوں کو آزاد نہ دیکھ سکتا ہو تو قہراً ان میں ایسى عورتیں دیکھ لے گا جو اس کى بیوى سے خوبصورت اور جاذب نظر ہوں گى اور بسا اوقات زبان کے زخم اورسرزنش سے اپنى بیوى کے لئے ناراحتى کے اسباب فراہم کرے گا اور مختلف اعتراضات اور بہانوں سے باصفا اور گرم زندگى کوجلانے والى جہنم میں تبدیل کردے گا_

جس مرد کوآزاد فکرى سے کسب و کار اور اقتصادى فعالیت میںمشغول ہونا چاہیئے،جب آنے جانے میں یا کام کى جگہ نیم عرباں اور آرائشے کى ہوئی عورتوں سے ملے گا تو قہراً غریزہ جنسى سے مغلوب ہوجائے گا اور اپنے دل کو کسى دل رباء کے سپرد کردے گا، ایسا آدمى کبھى آزاد فکرى سب کسب و کار میں یا تحصیل علم میں مشغول نہیں ہوسکتا اور اقتصادى فعالیت میںپیچھے رہ جائے گا اس قسم کے ضرر میں خود عورتیں بھى شریک ہوں گی_ اور یہ ضرر ان پر بھى وارد ہوگا_

اگر عورت پردہ نشین ہو تو وہ اپنى قدر اور قیمت کو بہتر مرد کے دل میں جاگزین کرسکتى ہے اور عورتوں کے عمومى منافع کو معاشرے میںحفظ کرسکتى ہے اور اجتماعى کے نفع کے لئے قدم اٹھاسکتى ہے_

اسلام چونکہ عورت کو اجتماع اور معاشرے کا ایک اہم جز و جانتا ہے اور اس کى رفتار اور سلوک کومعاشرے میں موثر جانتا ہے، لہذا اس سے یہ بڑا وظیفہ طلب کیا گیا ہے کہ وہ پردے کے ذریعے فساد اور انحراف کے عوامل سے جلوگیرى کرے اورملت کى ترقى اورعمومى صحت اور بہداشت کو برقرار رکھنے میں مدد کرے_ اس لئے اسلام کى نمونہ اور مثالى خاتون نے جو وحى کے گھر کى تربیت یافتہ تھی، عورتوں کے معاشرے کے متعلق اس قسم کے عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ عورتوں کى مصلحت اس میں ہے کہ وہ اس طرح سے زندگى بسر کریں کہ نہ انہیں اجنبى مرد دیکھ سکیں اور نہ وہ اجنبى مردوں کو دیکھ سکیں_

 

 

1) کشف الغمہ، ج 2 ص 76_
2) کشف الغمہ، ج 2 ص 76_
3) کشف الغمہ، ج 2 ص 83، ذخائز العقبى ، ص 48_
4) کشف الغمہ، ج 2 ص 84_ سدالغابہ، ج 5 ص 532_
5) کشف الغمہ، ج 2 ص 89_ ذخائر العقبى ، ص 44_
6) کشف الغمہ، ج 2 ص 89_
7) کشف الغمہ، ج 2 ص 89_
8) کشف الغمہ، ج 2 ص 90_
9) کشف الغمہ، ج 2 ص ا9_
10) کشف الغمہ ، ج 2 ص 92_
11) کشف الغمہ ، ج 2 ص 93_
12) کشف الغمہ ، ج 2 ص 92 اور الفصول المہمہ مولفہ ابن صباغ نجف ، ص 28ا_
13) کشف الغمہ، ج 2 ص 97_
14) کشف الغمہ، ج 2 ص 53_
15) کشف الغمہ، ج 2 ص 43 ص 44_
16) کشف الغمہ، ج 2 ص 65_
17) کشف الغمہ، ج 2 ص 91_
18) کشف الغمہ، ج 2 ص 91_
19) کشف الغمہ، ج 2 ص 98_
20) بحار الانوار، ج 43 ص 76_
21) بحار الانوار، ج 43 ص 14_ کشف الغمہ، ج 2 ص 89_
22) بحار الانوار، ج 43 ص 6_
23) بحار الانوار، ج 43 ص 24_
24) بحار الانوار، ج 43 ص 24_
25) بحار الانوار، ج 2 ص 3_
26) بحار الانوار، ج 2 ص 8_
27) بحار الانوار، ج 43 ص 46_
28) کشف الغمہ،ج 2 ص 14 و دلائل الامامہ، ص 52_
29) بحار الانوار، ج 43 ص76_
30) بحار الانوار، ج 43 ص 172_
31) بحار الانوار، ج 43 ص 56_
32) کشف ا لغمہ، ج 2 ص 79_
33) کشف الغمہ، ج 2ص 85_
34) کشف الغمہ، ج 2 ص 88_
35) بیت الاحزان، ص 10_
36) کشف الغمہ، ج 2 ص 88_
37) کشف الغمہ، ج 2 ص 93_
37) دخائر العقیى ، ص 37_
38) مناقب ابن شہر آشوب، ج 3 ص 332_
39) سورہ قلم آیت 4_
40) سورہ نجم آیت 4_
41) بحار الانوار، ج 43 ص 152_
42) در رالسمطین، ص 179_
43) کشف الغمہ، ج 2 ص 99_
44) بحار الانوار، ج 43 ص 83_
45) بحار الانوار، ج 43 ص 152_
46) نظم در رالسمطین ص 179_
47) بحار الانوار، ج 43 ص 83_
48) نظم در رالسمطین، ص 191_
49) سورہ احزاب آیت 24_
50) ینابیع المودہ، ص 124_ درالمنثور، ج 5 ص 198_
51) ینابیع المودہ، ص 125 و درالمنثور، ج 5 ص 198_
52) ینابیع المودہ، ص 125_
53) ینابیع المودہ، ص 125 و درالمنثور، ج 5 ص 199_
54) کشف الغمہ،ج 2 ص 83، و در المنثور ج 5 ص 199، و فصول المتمہ ص 8_
55) درالمنثور، ج 1 ص 199_
56) کتاب کلمة الغراء فى تفصیل الزہرائ_ مولفہ سید عبدالحسین شرف الدین، ص 212_
57) ینابیع المودہ، ص 203 اور مجمع الزوائد، ج 9 ص 203_
58) صحیح بخاری، ج 2 ص 302_
59) کشف الغمہ، ج 2 ص 89_
60) کشف الغمہ، ج 2 ص 92_