پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حصہ ششم جناب فاطمہ موت كے نزديك

جناب فاطمہ موت کے نزدیک

 

جناب فاطمہ (ع) باپ کى وفات کے بعد چند مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہیں، اور اسى طرح تھوڑى مدت میں بھى اتنا روئیں کہ آپ کو زیادہ رونے والوں میں سے ایک قرار دیا گیا آپ کو کبھى ہنستے نہیں دیکھا گیا (1)_

جناب زہرا (ع) کے رونے کے مختلف عوامل اور سبب تھے سب سے زیادہ اہم سبب کہ جو آپ کى غیور اور احساس روح کو ناراحت کرتا تھا وہ یہ تھا کہ آپ دیکھ رہى تھیں کہ اسلام کى جوان ملت اپنے حقیقى اور صحیح راستے سے ہٹ گئی ہے اور ایک ایسے راستے پر گامزن ہوگئی ہے کہ بدبختى اور تفرقے اس کا حتمى انجام ہے_

چونکہ حضرت زہرا (ع) نے اسلام کى ترقی، سریع اور پیشرفت کو دیکھا تھا آپ کو توقع تھى کہ اسى طرح اسلام ترقى کرے گا اور تھوڑى سى مدت میں کفر اور بت پرستى کو ختم کرکے رکھ دے گا اور ستم کا قلع قمع کردے گا، لیکن خلافت کے اصلى محور سے ہٹنے کى غیر متوقع صورت حال نے آپ کى امیدوں کے محل کو یکدم گرادیا_
 

ایک دن جناب ام سلمہ جناب فاطمہ (ع) کے پاس آئیں اور عرض کى اے پیغمبر(ص) کى دختر آج رات صبح تک کیئے گزری؟ آپ نے فرمایا کہ غم و اندوہ میں کٹی_ بابا مجھ سے جدا ہوگئے اور شوہر کى خلافت لے لى گئی اللہ اور رسول (ص) کے دستور کے خلاف امامت اور خلافت کو على سے چھپناگیا کیوں کہ لوگوں کو على (ع) سے کینہ تھا چوں کہ وہ ان لوگوں کے آباء و اجداد کو بدر کى جنگ میں قتل کرچکے تھے (2)_

حضرت على (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے ایک دن اپنے باپ کى قمیص مجھ سے طلب کى جب میں نے ان کى قمیص انہیں دى تو اسے ا؟ نے سونگھا اور رونا شروع کردیا اور اتنا روئیں کہ آپ بیہوش ہوگئیں میں نے جب یہ حالت دیکھى تو میں نے آپ کى قمیص ان سے چھپادى (3)_

روایت میں ہے کہ جب پیغمبر(ص) وفات پاگئے تو بلال نے جو آپ کے مخصوص موذن تھے اذان دینى بند کردى تھى ایک دن جناب فاطمہ (ع) نے انہیں پیغام بھیجا کہ میرى خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپ کے موذن کى اذان سنو_ بلال نے جناب فاطمہ (ع) کے حکم پر اذان دینى شروع کى اور اللہ اکبر کہا، جناب فاطمہ (ع) کو اپنے باپ کے زمانے کى یا آگئی اور رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب بلال نے اشہد ان محمداً رسول اللہ کہا تو جناب فاطمہ (ع) نے باپ کے نام سننے پر ایک چیخ مارى اور غش کرگئیں_ بلال کو خبر دى گئی کہ آذان دینا بند کردو کیونکہ فاطمہ (ع) بیہوش ہوگئیں ہیں_ بلال نے آذان روک دى جب جناب فاطمہ (ع) کو ہوش آیا تو بلال سے کہا کہ اذان کو پورا کرو انہوں نے عرض کى کہ آپ اگر اجازت دیں تو باقى اذان نہ کہوں کیوں کہ مجھے آپ کے بے ہوش ہونے کا خوف ہے (4) _

جناب فاطمہ (ع) اتنا روئیں کہ آپ کے رونے سے ہمسائے تنگ آگئے وہ حضرت على (ع) کى خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کى کہ ہمارا سلام جناب فاطمہ (ع) کو پہنچادیں اور ان سے کہیں کہ یا رات کو روئیں اور دن کو آرام کریں یا دن کو روئیں اور رات کو آرام کریں کیونکہ آپ کے رونے ہمارا آرام ختم کردیا ہے جناب فاطمہ (ع) نے ان کے جواب میں فرمایا کہ میرى عمر ختم ہونے کو ہے میں زیادہ دنوں تک تم میں موجود نہ رہوں گی_ آپ دن میں امام حسن (ع) اور حسین (ع) کا ہاتھ پکڑتیں اور جناب رسول خدا (ص) کى قبر پر چلى جاتیں اور وہاں رویا کرتیں اور اپنے بیٹوں سے کہتیں میرے پیارو یہ تہارے نانا کى قبر ہے کہ جو تمہیں کندھے پر اٹھایا کرتے تھے اور تمہیں دوست رکھتے تھے اس کے بعد آپ بقیع کے قبرستان میں شہداء کى قبر پر جاتیں اور صدر اسلام کے سپاہیوں پر گریہ کرتیں حضرت على (ع) نے آپ کے آرام کے لئے بقیع میں سائبان بنادیا تھا کہ جسے بعد میں بیت الحزن کے نام سے پکارا جانے لگا (5)_

انس کہتا ہے کہ جب ہم پیغمبر (ص) کے دفن سے فارغ ہوچکے اور گھر واپس لوٹ آئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا اے انس کس طرح راضى ہوئے کہ پیغمبر(ص) کے بدن پر مٹى ڈالو (6)_

 

محمود بن بسید کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد کى وفات کے بعد جناب حمزہ کى قبر پر گریہ کرتى تھیں ایک دن میرا گزر احد کے شہدا سے ہوا تو میں نے فاطمہ (ع) کو دیکھا کہ جناب حمزہ کى قبر پر بہت سخت گریہ کر رہى ہیں میں نے صبر کیا یہاں تک کہ آپ نے توقف کیا، میں سامنے گیا اور سلام کیا اور عرض کى اے میرى سردار آپ نے اپنے اس جانگداز گریہ سے میرا دل ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے حق پہنچتا ہے کہ اس طرح کا گریہ کروں کیونکہ میں نے کیسا مہربان باپ اور پیغمبروں میں بہترین پیغمبر اپنے ہاتھ سے کھودیا ہے، کتنا آپ کى زیارت کا مجھ میں شوق موجود ہے_ میں نے عرض کى اے میرى سردار میں دوست رکھتا ہوں کہ آپ سے ایک مسئلہ پوچھوں آپ نے فرمایا کہ پوچھو_ میں نے عرض کیا رسول خدا(ص) نے اپنى زندگى میں حضرت على (ع) کى امامت کى تصریح کردى تھى آپ نے فرمایا تعجب ہے_ کیا تم نے غدیر کا واقعہ بھلادیا ہے؟ میں نے عرض کى کہ غدیر کا واقعہ تو میں جانتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں یہ معلوم کروں کہ جناب رسول خدا(ص) نے اس بارے میں آپ سے کیا فرمایا ہے_ آپ نے فرمایا خدا گواہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میرے بعد على (ع) میرا خلیفہ اور امام ہے اگر اس کى اطلاعت کى تو ہدایت پاؤگے اور اگر اس کى مخالفت کى تو قیامت کے دن تک تم میں اختلاف موجود رہے گا (7)_

 

فاطمہ (ع) بیمارى کے بستر پر

جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب قنفذ کى ان ضربات سے جو اس نے جناب فاطمہ (ع) کے نازنین جسم پر لگائی تھیں آپ کے بچے کا اسقاط ہوگیا اور اسى وجہ _ سے آپ ہمیشہ بیمار اور ضعیف رہیں یہاں تک کہ آپ بالکل بستر سے لگ گئیں (8)_

حضرت على (ع) اور جناب اسماء بنت عمیس آپ کى تیماردارى کیا کرتے تھے (9)_

ایک دن انصار اور مہاجرین کى عورتوں کى ایک جماعت آپ کى مزاج پرسى کے لئے حاضر ہوئی اور عرض کى اے رسول خدا(ص) کى دختر آپ کى حالت کیسى ہے؟ آپ نے فرمایا قسم خدا کى میں دنیا سے کوئی علاقہ نہیں رکھتى تمہارے مردوں سے جب ان کا امتحان کرچکى ہوں تو دلگیر ہوں اور انہیں دور پھینک دیا ہے اور ان کے ہاتھ سے ملول خاطر ہوں_ ان کى متزلزل رائے اور سست عقیدہ اور ان کى بے حالى پر اف ہو_ کتنا برا انہوں نے کام انجام دیا ہے اور غضب الہى کے مستحق بنے ہیں؟ دوزخ کى آگ میں ہمیشہ رہیں_ ہم نے خلافت اور امامت کو ان کے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے_ لیکن اس کا عار اور ننگ ان کے دامن پر ہمیشہ رہے گا، ظلم کرنے والوں پر ذلت اور خوارى ہوا کرتى ہے ان کى حالت پر افسوس اور روائے ہو_ کس طرح انہوں نے حضرت على (ع) سے خلافت کو چھینا ہے خدا کى قسم ان کا على (ع) سے دور ہٹنا اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ حضرت على (ع) کى کاٹنے والى تلوار اور بہادرى اور خدا کى راہ میں سخت حملے کرنے سے خوش نہ تھے_

خدا کى قسم اگر خلافت على (ع) کے ہاتھ سے نہ لى ہوتى اور على (ع) ان کى حکومت کى زمام اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو وہ بہت آسانى سے انہیں خوش بختى اور سعادت کى طرف ہدایت کرتے اور بہت جلد ریاست طلب کا متقى اور سچے کا جھوٹے سے امتیاز ہوجاتا بہت جلد ظالم اپنے اعمال کى سزا پالیتا، ان لوگوں کا کام بہت زیادہ تعجب آور ہے، ایسا کیوں کیا انہوں نے؟ کس دلیل پر انہوں نے اعتماد اور تکیہ کیا ہے؟ کون سى رسى سے تمسک کیا ہے؟ اور کس خاندان کے خلاف انہوں نے اقدام کیا ہے؟ على (ع) کى جگہ کس کا انتخاب کیا ہے؟ خدا کى قسم على (ع) کى جگہ اتنى لیاقت والے کو نہیں لائے؟ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کام کیا ہے، حالانکہ انہوں نے غیر معقول کام انجام دیا ہے_ وہ خود بھى نہیں جانتے کہ انہوں نے اصلاح کى جگہ فساد اور فتنے کو ایجاد کیا ہے_ آیا وہ شخص جو لوگوں کو ہدایت کى طرف لے جائے رہبرى کے لئے بہتر ہے یا وہ شخص جو ابھى ہدایت پانے کا دوسروں کى طرف محتاج ہو تم کس طرح فیصلہ دیتى ہو؟ خدا کى قسم ان کے کردار اور آئندہ آنے والے حالات کا نتیجہ بعد میں ظاہر ہوگا لیکن تمہیں معلومم ہونا چاہیئے کہ سوائے تازہ خون اور قتل کرنے والے زہر کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا_

اس وقت ظلم کرنے والوں کا نقصان میں ہونا ظاہر ہوجائے گا_ اب تم ناگوار واقعات کے لئے تیار ہوجاؤ اور کاٹنے والى تلواروں اور دائمى گڑبڑ اور ڈکٹیٹر شپ کا انتظار کرو_ تمہارے بیت المال کو لوٹیں گے اور تمہارے منافع کو اپنى جیب میں ڈالیں گے تمہارى حالت پر افسوس_ اس طرح کیوں ہوگئے ہو؟ تمہیں علم نہیں کہ کس خطرناک راستے پر چل پڑے ہو؟ نتائج سے نا واقف ہو؟ کیا ہم تم کو ہدایت پر مجبور کرسکتے ہیں جب کہ تم ہدایت کى طرف جانے کو پسند نہیں کرتے (10)_


زیادہ غم و اندوہ

جناب زہراء (ع) کى بیمارى اور کمزورى کى وجہ صرف سابقہ بیمارى ہى نہ تھى بلکہ غم اور افکار اور زیادہ پریشانیاں بھى آپ پر بہت زیادہ روحانى فشار کا موجب بنى ہوئی تھیں جب بھى آپ اپنے چھوٹے سے کمرے میں چمڑے کے فرش پر گھاس سے پر کئے ہوئے سرہانہ پر تکیہ کر کے سو رہى ہوتى تھیں تو آپ پر مختلف قسم کے افکار ہجوم کرتے_ آہ کس طرح لوگوں نے میرے باپ کى وصیت پر عمل نہیں کیا اور میرے شوہر سے خلافت کو لے لیا؟ خلافت کے لے لینے کے آثار اور خطرناک نتائح قیامت تک باقى رہیں گے_ جو خلافت ملت پر زبردستى اور حیلہ بازى سے مسلط کى جائے اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا_ مسلمانوں کى ترقى اور پیشرفت کى علت ان کا اتحاد اور اتفاق تھا وہ کتنا بڑا سرمایہ اور طاقت ان سے چھن گیا ہے؟ ان میں اندرونى اختلاف پیدا کردیئے گئے ہیں_ اسلام کے اقتدار کى تنہا جو طاقت تھى وہ پراگندگى اور اختلاف میں تبدیل کردى گئی ہے_ اسلام کو انہوں نے کمزورى اور پراگندگى اور ذلت کے راستے پر ڈال دیا ہے_

آہ کیا میں رسول(ص) کى عزیز وہى فاطمہ (ع) نہیں ہوں جو اب بیمارى کے بستر پر پڑى ہوئی ہوں اور اسى امت کے ضربات سے درود کرب سے نالاں ہوں اور موت کا مشاہدہ کر رہى ہوں؟ پس پیغمبر(ص) کى وہ تمام سفارشیں کہاں گئیں؟ خدایا على (ع) اس بہادرى اور شجاعت کے باوجود کہ جو ان میں میں دیکھتى ہوں کس طرح گرفتار اور مجبور ہوگئے ہیں کہ اسلام کے مصالح کى حفاظت کے لئے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اپنے صحیح حق کے جانے پر سکوت کو اختیار کر بیٹھے؟ آہ میرى موت نزدیک ہوگئی اور جوانى کے عالم میں اس دنیا سے جارہى ہوں اور دنیا کے غم اور غصے سے نجات حاصل کر رہى ہوں لیکن اپنے یتیم بچوں کا کیا کروں؟ حسن (ع) اور حسین (ع) ، زینب اور کلثوم بے سرپرست اور یتیم ہوجائیں گے ، آہ کتنى مصیبت میرے ان جگر گوشوں پر وارد ہوں گى میں نے ک ئی دفعہ اپنے باپ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ تیرے حسن (ع) کو زہر دے دیں گے اور حسین (ع) کو تلوار سے قتل کردیں گے ابھى سے اس پیشین گوئی کى علامتیں ظاہر ہونے لگى ہیں_

آپ کبھى اپنے چھوٹے سے حسین (ع) کو گود میں لے کر ان کى گردن کا بوسہ لیتیں اور ان کے مصائب پر آنسو بہاتیں اور کبھى آپ اپنے حسن (ع) کو سینے سے لگالیتیں اور ان کے معصوم لبوں پر بوسہ دیتیں اور کبھى زینب و کلثوم پر وارد ہونے والى مصیبتیں اور واقعات کو یاد کرتیں اور ان کے لئے گریہ کرتیں_

جى ہاں اس قسم کے پریشان کرنے والے افکار جناب زہراء (ع) کو تکلیف اور رنج دیتے تھے اور آپ دن بدن کمزور اور ضعیف ہوتى جا رہى تھیں_

ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) وفات کے وقت رو رہى تھیں حضرت على (ع) نے فرمایا کہ آپ کیوں رو رہى ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ آپ کے مستقبل کے واقعات اور مصائب پر رو رہى ہوں_ حضرت على (ع) نے فرمایا آپ نہ روئیں، قسم خدا کى اس قسم کے واقعات میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے(11)_


ناپسندیدہ عیادت

مسلمانوں کى عورتیں اور پیغمبر(ص) کى رشتہ دار عورتوں اور پیغمبر(ص) کے خاص اصحاب کبھى نہ کبھى جناب فاطمہ (ع) کى احوال پرسى اور عیادت کرتے تھے لیکن جناب عمر اور ابوبکر آپ کى عیادت سے روکے گئے تھے کیوں کہ جناب زہراء (ع) نے پہلے سے ارادہ کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ قطع کلام رکھیں گى اس لئے آپ انہیں عیادت اور ملاقات کى اجازت نہ دیتى تھیں آہستہ آہستہ اراکین خلافت میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں جناب فاطمہ (ع) فوت نہ ہوجائیں اور وقت کے خلیفہ سے ناراض رہ کر انتقال کر گئیں تو یہ قیامت تک ان کے دامن پر ننگ اور رعار کا دہبہ لگ جائے گا اسى لئے وہ عمومى افکار کے دباؤ میں تھے اور مجبور تھے کہ کسى طرح جناب فاطمہ (ع) کى عبادت کریں لہذا حضرت على (ع) سے انہوں نے با اصرار تقاضہ کیا کہ ان کى ملاقات کے اسباب فراہم کریں _ حضرت على (ع) جناب فاطمہ (ع) کے پاس آئے اور فرمایا اے دختر رسول (ص) ان دو آدمیوں نے آپ کى عیادت کرنے کى آپ سے اجازت چاہى ہے_ آپ کى اس میں کیا رائے ہے؟

 

حضرت زہرا ء (ع) حضرت على (ع) کى حالت سے بخوبى واقف تھیں آپ نے عرض کیا گھر آپ کا ہے اور میں آپ کے اختیار میں ہوں آپ جس طرح مصلحت دیکھیں اس پر عمل کریں؟ آپ نے یہ کہا اور اپنے سر کے اوپر چادر اوڑھ لى اور دیوار کى طرف منھ کرلیا، دونوں آدمى اندر آئے اور اسلام کیا اور احوال پرسى کى اور عرض کیا کہ ہم اپنى غلطى کا اعتراف کرتے ہیں، آپ ہم سے راضى ہوجائیں_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ میں ایک چیز تم سے پوچھنا چاہتى ہوں اس کا جواب دو، انہوں نے عرض کى کہ فرمایئےآپ نے فرمایا کہ تمہیں خدا کى قسم دیتى ہوں کہ آیا تم نے رسول خدا(ص) سے یہ سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو اسے اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دى ہے، انہوں نے عرض کى ہاں ہم نے یہ حدیث آپ کے والد سى سنى ہے_ آپ نے اس کے بعد اپنے ہاتھ آسمان کى طرف اٹھائے اور کہا اے میرے خدا تو گواہ رہنا کہ انہوں نے مجھے اذیت دى ہے، ان کى شکایت تجھ سے اور تیرے رسول (ص) سے کروں گی، نہیں میں ہرگز تم سے راضى نہ ہوں گى یہاں تک کہ والد سے ملاقات کروں، تمہارے کردار اور رفتار کو ان سے بیان کروں گى تا کہ وہ(ع) ہمارے درمیان قضاوت کریں (12)_

فاطمہ (ع) کى وصیت

جناب زہراء (ع) کى بیمارى تقریباً چالیس دن تک طول پکڑگئی لیکن ہر روز آپ کى حالت سخت تر ہوتى جا رہى تھى اور آپ کى بیمارى میں شدت آتى جارہى تھی_ آپ نے ایک دن حضرت على (ع) سے کہا اے ابن عم ___ میں موت کے آثار اور علامتیں اپنے آپ میں مشاہدہ کر رہى ہوں مجھے گمان ہے کہ میں عنقریب اپنے والد سے ملاقات کروں میں آپ کو وصیت کرنا چاہتى ہوں_ حضرت على (ع) جناب فاطمہ (ع) کے بستر کے قریب آبیٹھے اور کمرہ کو خالى کردایا اور فرمایا اے دختر پیغمبر (ص) جو کچھ آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کیجئے اور یقین کیجئے کہ میں آپ کى وصیت پر عمل کروں گا_ آپ کى وصیت کى انجام دہى کو اپنے ذاتى کاموں پر مقدم کروں گا_ حضرت على (ع) نے جناب زہراء (ع) کے افسردہ چہرے اور حلقے پڑى ہوئی آنکھوں پر نگاہ کى اور رودیئے، جناب فاطمہ (ع) نے پلٹ کر اپنى ان آنکھوں سے حضرت على (ع) کے غمناک اور پمردہ مہربان چہرے کو دیکھا اور کہا اے ابن عم میں نے آج تک آپ کے گھر میں جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہى خیانت کى ہے اور نہ کبھى آپ کے احکام اور دستورات کو پس پشت ڈالا ہے_

حضرت على (ع) نے فرمایا آپ کو اللہ تعالى کى معرفت اور آپ کا تقوى اتنا قوى اور عالى ہے کہ آپ کے بارے میں اس کا احتمال تک نہیں دیا جاسکتا خدا کى قسم آپ کى جدائی اور فراق مجھ پر بہت سخت ہے لیکن موت کے سامنے کسى کا چارہ نہیں_ خدا کى قسم تم نے میرے مصائب تازہ کردیئے ہیں، تمہارى بے وقت موت میرے لئے ایک دردناک حادثہ ہے_ ''انا للہ و انا الیہ راجعون'' یہ مصیبت کتنى ناگوار اور دردناک ہے؟ خدا کى قسم اس ہلاک کردینے والى مصیبت کو میں کبھى نہیں فراموش کروں گا _ کوئی چیز اس مصیبت سے تسلى بخش نہیں ہوسکتی، اس وقت دونو بزرگوار رو رہے تھے (13)_

جناب زہراء (ع) نے اپنے مختصر جملوں میں اپنى زندگى کے برنامے کو سمودیا اپنى صداقت کے مقام اور پاکدامنى اور شوہر کى اطاعت کو اپنے شوہر سے بیان کیا حضرت على (ع) نے بھى آپ کے علمى عظمت اور پرہیزگارى و صداقت اور دوستى و زحمات کا شکریہ ادا کیا اور اپنى بے پنا محبت اور لگاؤ کو آپ کى نسبت ظاہر کیا، اس وقت عواطف اور احساسات پھر سے دونوں زن و شوہر ہیں ''جو اسلام کے نمونہ اور مثال تھے'' اس طرح ابھرے کہ دونوںاپنے رونے پر قابو نہ پاسکے اور کافى وقت تک دونوں روتے رہے اور اپنى مختصر سى ازدواجى زندگى پر جو محبت و صفا اور مہر و صداقت سے پر تھى گریہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو غیر معمولى زحمات اور گرفتاریوں اور مصائب پر روتے رہے تا کہ یہى آنکھوں کے آنسو ان کى اندرونى آگ جو ان کے جسم کو جلا دینے کے نزدیک تھى ٹھنڈا کرسکیں_

جب آپ کا گریہ ختم ہوا حضرت على (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کا سر مبارک اپنے زانو پر رکھا اور فرمایا، اے پیغمبر(ص) کى عزیز دختر جو آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کریں اور مطمئن رہین کہ میں آپ کى وصیتوں سے تخلف نہ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے یہ وصیتیں کیں_

1_ مرد بغیر عورت کے زندگى نہیں بسر کرسکتا اور آپ بھى مجبور ہیں کہ شادى کریں میرى خواہش ہے کہ آپ میرے بعد امامہ سے شادى کیجئے_ گا، کیونکہ یہ میرے بچوں پر زیادہ مہربان ہے (14)_

2_ میرے بچے میرے بعد یتیم ہوجائیں گے ان کے ساتھ نرمى سے پیش آنا ان کو سخت لہجہ سے نہ پکارنا، ان کى دلجوئی کے لئے ایک رات ان کے پاس رہنا ایک رات اپنى بیوى کے پاس (15)_

3_ میرا اس طرح اور کیفیت کا تابوت بناناتا کہ میرا جنازہ اٹھاتے وقت میرا جسم ظاہر نہ ہو پھر آپ نے اس تابوت کى کیفیت بیان کى (16)_

4_ مجھے رات کو غسل دینا اور کفن پہنانا اور دفن کرنا اور ان آدمیوں کو اجازت نہ دینا جنہوں نے میرا حق غصب کیا ہے اور مجھے اذیت اور آزار دیا ہے کہ وہ میر نماز جنازہ یا تشیع میں حاضر ہوں (17)_

5_ رسول خدا کى بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ وقیہ (گندم کا وزن) دینا _

6_ بنى ہاشم کى ہر ایک عورت کو بھى بارہ وقیہ دینا_

7_ امامہ کو بھى کچھ دینا (18)_

8_ ذى الحسنى نامى باغ اور ساقیہ اور دلال اور غراف اور ہیشم اور ام ابراہیم نامى باغات جو سات عدد بنتے ہیں میرے بعد آپ کے اختیار میں ہوں گے اور آپ کے بعد حسن (ع) اور حسن (ع) کے بعد حسین (ع) اور حسین (ع) کے بعد ان کے بڑے لڑکے کے اختیار میں ہوں گے اس وصیت کے لکھنے والے على (ع) اور گواہ مقداد اور زبیر تھے (19)_

ابن عباس نے روایت کى ہے کہ یہ تحریرى وصیت بھى آنحضرت(ص) سے ہاتھ لگى ہے_

بسم اللہ الرحمن الرحیم_ یہ وصیت نامہ فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کى دختر کا ہے میں خدا کى وحدانیت کى گواہى دیتى ہوں اور گواہى دیتى ہوں کہ محمد(ص) خدا کے رسول ہیں_ بہشت و دوزخ حق ہیں، قیامت کے واقع ہونے میں شک نہیں ہے_ خدا مردوں کو زندہ کرے گا، اے على (ع) خدا نے مجھے آپ کا ہمسر قرار دیا ہے تا کہ دنیا اور آخرت میں اکٹھے رہیں، میرا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے، اے على (ع) رات کو مجھے غسل و کفن دینا اور حنوط کرنا اور دفن کرنا اور کسى کو خبر نہ کرنا اب میں آپ سے وداع ہوتى ہوں، میرا سلام میرى تمام اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہوگى پہنچا دینا (20)


آپ اپنى زندگى کے آخرى لمحات میں

جناب فاطمہ (ع) کى بیمارى شدید ہوگئی اور آپ کى حالت خطرناک ہوگئی حضرت على (ع) ضرورى کاموں کے علاوہ آپ کے بستر سے جدا نہ ہوتے تھے_ جناب اسماء بنت عمیس آپ کى تیمار دارى کیا کرتى تھیں_ جناب امام حسن اور امام حسین اور زینب و ام کلثوم ماں کى یہ حالت دیکھ کر آپ سے بہت کم جدا ہوا کرتے تھے، جناب فاطمہ (ع) کبھى مرض کى شدت سے بیہوش ہوجایا کرتى تھیں، کبھى آنکھیں کھولتیں اور اپنے عزیز فرزندوں پر حسرت کى نگاہ ڈالتیں_

حضرت على (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے احتضار کے وقت آنکھیں کھولیں اور ایک تند نگاہ اطراف پر ڈالى اور فرمایا السلام علیک یا رسول اللہ (ص) اے میرے اللہ مجھے اپنے پیغمبر(ص) کے ساتھ محشور کر خدایا مجھے اپنى بہشت اور اپنے جوار میں سکونت عنایت فرما اس وقت حاضرین سے فرمایا اب فرشتگان خدا اور جبرئیل موجود ہیں میرے بابا بھى حاضر ہیں اور مجھ سے فرما رہے ہیں کہ میرے پاس جلدى آو کہ یہاں تمہارے لئے بہتر ہے (21) _

حضرت على (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھ سے وفات کى رات فرمایا کہ اے ابن عم ابھى جبرئیل مجھے اسلام کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ خدا بعد از سلام فرماتا ہے کہ عنقریب تم بہشت میں والد سے ملاقات کروگى اس کے بعد آپ نے فرمایا و علیکم السلام_ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے ابن عم ابھى میکائیل نازل ہوئے اور اللہ کى طرف سے پیغام لائے اس کے بعد فرمایا و علیکم السلام_ اس وقت آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ابن عم خدا کى قسم عزرائیل آگئے ہیں اور میرى روح قبض کرنے کے لئے آئے ہیں، اس وقت عزرائیل سے فرمایا کہ میرى روح قبض کرلو لیکن نرمى سے_ آپ نے زندگى کے آخرى لمحہ میں فرمایا خدایا تیرى طرف آوں نہ آ گ کى طرف، یہ کلمات آپ نے فرمائے اور اپنى نازنین آنکھوں کو بند کرلیا اور اور جان کو خالق جان کے سپرد کردیا_

اسماء بنت عمیس نے جناب زہراء (ع) کى وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) کى وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے والد کى وفات کے وقت جبرئیل (ع) کچھ کا فور لے کرئے تھے آپ (ص) نے اسے تین حصّوں میں تقسیم کردیا تھا، ایک حصّہ اپنے لئے رکھا تھا ایک حصّہ حضرت على (ع) کے لئے اور ایک حصّہ مجھے دیا تھا اور میں نے اسے فلاں جگہ رکھا ہے اب مجھے اس کى ضرورت ہے اسے لے آؤ_ جناب اسماء وہ کافور لے آئیں_ آپ نے اس کے بعد_ آپ نے غسل کیا اور وضو کیا اور اسماء سے فرمایا میرے نماز کے کپڑے لے آؤ اور خوشبو بھى لے آؤ_

جناب اسماء نے لباس حاضر کیا آپ نے وہ لباس پہنا اور خوشبو لگائی اور قبلہ رخ ہو کر اپنے بستر پر لیٹ گئیں اور اسماء سے فرمایا کہ آرام کرتى ہوں تھوڑى دیر___ بعد مجھے آواز دینا اگر میں نے جواب نہ دیا تو سمجھ لینا کہ میں دنیا سے رخصت ہوگئی ہوں اور على (ع) کو بہت جلدى اطلاع دے دینا، اسماء کہتى ہیں کہ میں تھوڑى دیر صبر کیا اور پھر میں کمرے کے دروازے پر آئی جناب فاطمہ (ع) کو آواز دى لیکن جواب نہ سنا تب میں نے لباس کو آپ کے چہرے سے ہٹایا تو دیکھا آپ د نیا سے گزر گئی ہیں_ میں آپ کے جنازے پر گرگئی آپ کو بوسہ دیا اور روئی اچانک امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) وارد ہوگئے اپنى والدہ کى حالت پوچھى اور کہا کہ اس وقت ہمارى ماں کے سونے کا وقت نہیں ہے میں نے عرض کى اے میرے عزیز و تمہارى ماں دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں_

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) ماں کے جنازے پر گرگئے بوسہ دیتے اور روتے جاتے، امام حسن (ع) کہتے تھے اماں مجھ سے بات کیجئے، امام حسین (ع) کہتے تھے اماں جان میں تیرا حسین (ع) ہوں قبل اس کے میرى روح پرواز کرجائے مجھ سے بات کیئجے، جناب زہرا (ع) کے یتیم مسجد کى طرف دوڑے تا کہ باپ کو ماں کى موت کى خبردیں، جب جناب زہراء (ع) کى موت کى خبر على (ع) کى ملى تو آپ نے شدت غم اور اندوہ سے بیتاب ہوکر فرمایا_ پیغمبر(ص) کى دختر آپ میرے لئے سکون کا باعث تھیں، اب آپ کے بعد کس سے سکون حاصل کروں گا؟ (22)

 

آپ کا دفن اور تشیع جنازہ

جناب زہراء (ع) کے گھر سے رونے کى آواز بلند ہوئی اہل مدینہ کو علم ہوگیا اور تمام شہر سے رونے اور گریہ کى آوازیں بلند ہونے لگیں لوگوں نے حضرت على (ع) کے گھر کا رخ کیا، حضرت على (ع) بیٹھے ہوئے تھے جناب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) آپ کے اردگرد بیٹھے گریہ کر رہے تھے_ جناب ام کلثوم روتى اور فرماتى تھیں یا رسول اللہ (ص) گویا آپ ہمارے پاس سے چلے گئے لوگ گھر کے باہر اجتماع کئے ہوئے تھے اور وہ حضرت زہراء (ع) کے جنازے کے باہر آنے کے منتظر تھے، اچانک جناب ابوذر گھر سے باہر نکلے اور کہا لوگو چلے جاؤ کیونکہ جنازے کى تشیع میں دیر کردى گئی ہے (23)_

 

جناب ابوبکر اور عمر نے حضرت على (ع) کو تعزیب دى اور عرض کیا یا اباالحسن مبادا ہم سے پہلے جناب فاطمہ (ع) پر نماز پڑھیں (24)_

لیکن حضرت على (ع) نے اسماء کے ساتھ مل کر اسى رات جناب زہراء (ع) کو غسل و کفن دیا، جناب زہرا کے چھوٹے چھوٹے بچے جنازے کے اردگرد گریہ کر رہے تھے، جب آپ غسل و کفن سے فارغ ہوگئے تو آواز دى اے حسن (ع) و حسین (ع) اے زینب و ام کلثوم آو ماں کو وداع کرو کہ پھر ان کو نہ دیکھ سکو گے، جناب زہراء (ع) کے یتیم، ماں کے نازنین جنازے پر گرے اور بوسہ دیا اور روئے_ حضرت على (ع) نے ان کو جنازے سے ہٹایا (25)_

جنازے پر نماز پڑھى اور جناز اٹھایا، جناب عباس، فضل، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، حسن (ع) اور حسین (ع) ، عقیل، بریدہ، حذیفہ، ابن مسعود جنازے کى تشیع میں شریک ہوئے (26)_

جب تمام آنکھیں ہو رہى تھیں اندھیرے میں جنازے کو آہستہ آہستہ اور خاموشى کے ساتھ قبر کى طرف لے گئے تا کہ منافقین کو علم نہ ہوجائے اور دفن کرنے سے روک نہ دیں، جنازے کو قبر کے کنارے زمین پر رکھا گیا_ امیرالمومنین حضرت على (ع) نے خود اپنى بیوى کے نازنین جسم کو اٹھایا اور قبر میں رکھ دیا اور قبر کو فوراً بند کردیا (27)_

 

حضرت على (ع) جناب زہراء (ع) کى قبر پر

جناب زہراء (ع) کے دفن کو مخفى اور بہت سرعت سے انجام دیا گیا تا کہ دشمنوں کو اطلاع نہ ہو اور وہ _ آپ کے دفن میں مانع نہ ہوں لیکن جب حضرت على (ع) جناب زہراء (ع) کے دفن سے فارغ ہوئے آپ پر بہت زیادہ غم و اندوہ نے غلبہ کیا آپ نے فرمایا اے خدا کس طرح میں نے پیغمبر (ص) کى نشانى کو زمین میں دفن کیا ہے، کتنى مہربان بیوی، باصفا، پاکدامن اور فداکار کو اپنے ہاتھ سے دے بیٹھا ہوں خدایا اس نے میرا دفاع کرنے میں کتنے مصائب برداشت کئے ہیں کتنى میرے گھر میں زحمت اٹھائی ہے_ آہ زہراء (ع) کا اندرونى درد افسوس ان کے ٹوٹے ہوئے پہلو پر اور ان کے ورم کئے ہوئے بازو پر ان کے ساقط شدہ بچے پر، اے میرے خدا میرى امید تھى کہ آخرى زندگى تک اس مہربان بیوى کے ساتھ گزاروں گا لیکن افسوس اور صد افسوس کو موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دى ہے_ آہ میں زہراء (ع) کے یتیم چھوٹے بچوں کا کیا کروں؟

رات کے اندھیرے میں آپ جناب رسول خدا (ص) کى قبر کى طرف متوجہ ہوئے اور عرض کى سلام ہو آپ پر اے رسول خدا (ص) میرى طرف سے اور آپ کى پیارى دختر کى طرف سے جو ابھى آپ کى خدمت میں پہنچنے والى ہے اور آپ کے جوار میں دفن ہوئی ہے اور سب سے پہلے آپ سے جاملى ہے، یا رسول اللہ میرا صبر ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے سوا چارہ بھى نہیں ہے، جیسے آپ کى مصیبت پر صبر کیا ہے زہراء کے فراق پر بھى صبر کروں گا یا رسول اللہ (ص) آپ کى روح میرے دامن میں قبض کى گئی میں آپ کى آنکھوں کو بند کرتا تھا میں تھا کہ جس نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں التارا ہاں صبر کروں گا اور پڑھوں گا انا للہ و انا الیہ راجعون، یا رسول اللہ وہ امانت جو آپ نے میرے سپرد کى تھى اب آپ (ص) کے پاس لوٹ گئی ہے_ زہراء (ع) میرے ہاتھ سے چھینى گئی ہے، آسمان اور زمین کى رونق ختم ہوگئی ہے، یا رسول اللہ (ص) میرے غم کى کوئی انتہا نہیں رہى میرى آنکھوں سے نیند اڑ گئی ہے میرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا مگر جب کہ میں مروں گا اور آپ (ص) کے پاس پہنچوں گا یہ ایسے غم اور مصائب ہیں جو دل کے زخموں سے پیدا ہوئے ہیں، ہمارى باصفا گھریلو زندگى کتنى جلدى لٹ گئی ہیں اپنے دل کے درد کو خدا سے بیان کرتا ہوں_

یا رسول اللہ (ص) آپ کى دختر آپ کو خبر دے گى کہ آپ کى امت نے اتفاق کر کے خلافت کو مجھ سے چھیں لیا اور زہراء (ع) کے حق پر قبضہ کرلیا_ یا رسول اللہ (ص) حالات اور اوضاع کو اصرار سے جناب فاطمہ (ع) سے پوچھنا کیوں کہ ان کے دل میں بہت زیادہ درد موجود ہے جو یہاں ظاہر یہ کرسکیں لیکن آپ سے وہ بیان کریں گی، تا کہ خدا ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان قضاوت کرے_ یا رسول اللہ(ص) آپ کو وداع کرتا ہوں اس لئے نہیں کہ آپ (ص) کى قبر پر بیٹھنے سے تھک گیا ہوں اور آپ سے رخصت ہوتا ہوں، اس لئے نہیں کہ یہاں ملول خاطر ہوگیا ہوں اور اگر آپ (ص) کى قبر پر بیٹھا رہوں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالى کے اس وعدے پر ''جو صبر کرنے والوں کو دیا گیا ہے'' یقین نہیں رکھتا پھر بھى صبر کرنا تمام چیزوں سے بہتر ہے_ یا رسول اللہ (ص) اگر دشمنوں کى شماتت کا خوف نہ ہوتا تو آپ (ص) کى قبر پر بیٹھا رہتا اور اس مصیبت عظمى پر روتا رہتا، یا رسول اللہ (ص) ہمارے حالات ایسے تھے کہ ہم مجبور تھے کہ آپ کى بیٹى کو مخفى طور سے رات کى تاریکى میں دفن کریں_ اس کا حق لے لیا گیا اور اسے میراث سے محروم رکھا گیا، یا رسول اللہ (ص) میں اپنے اندرونى درد کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس دردناک مصیبت پر آپ (ص) کو تسلیت پیش کرتا ہوں آپ(ص) پر اور اپنى مہربانى بیوى پر میرا درد رہو (28)_

حضرت على (ع) نے دشمنوں کے خوف سے جناب زہراء (ع) کى قبر مبارک کو ہموار کردیا اور سات یا چالیس تازہ قبریں مختلف جگہ پر بنادیں تا کہ حقیقى قبر نہ پہچانى جاسکے (29)_

اس کے بعد آپ اپنے گھر واپس لوٹ آئے، جناب ابوبکر اور عمر اور دوسرے مسلمان دوسرى صبح کو تشیع جنازہ کے لئے حضرت على (ع) کے گھر کى طرف روانہ ہوئے، لیکن مقداد نے اطلاع دى کہ جناب فاطمہ (ع) کو کل رات دفن کردیا گیا ہے جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کہا ہیں نے نہیں کہا تھا کہ وہ ایسا ہى کریں گے؟ جناب عباس نے اس وقت کہا کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے وصیت کى تھى کہ مجھے رات کو دفن کردیا جائے اور ہم نے آپ(ع) کى وصیت کے مطابق عمل کیا ہے_ جناب عمر نے کہا، کہ بنى ہاشم کى دشمنى اور حسد ختم ہونے والا نہیں میں فاطمہ (ع) کى قبر کو کھودونگا اور اس پر نماز پڑھوں گا_

حضرت على (ع) نے فرمایا اے عمر خدا کى قسم اگر تم ایسا کروگے تو میں تیرا خون تلوار سے بہادوں گا ہرگز اجازت نہیں دوں گا کہ فاطمہ (ع) کے جنازے کو قبر سے باہر نکالاجائے_ جناب عمر نے حالت کو خطرناک پھانپ لیا اور اپنے اس ارادے سے منحرف ہوگئے (30)_


وفات کى تاریخ

بظاہر اس امر میں شک کى گنجائشے نہیں کہ جناب زہراء (ع) کى وفات گیا رہ ہجرى کو ہوئی ہے کیونکہ پیغمبر (ص) دس ہجرى کو حجة الوداع کے سفر پر تشریف لے گئے اور گیارہویں ہجرى کے ابتدا میں آپ نے وفات پائی مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ جناب فاطمہ (ع) آپ ے بعد ایک سال سے کم زندہ رہیں، لیکن آپ کى وفات کے دن اور مہینے میں بہت زیادہ اختلاف ہے_

دلائل الامامہ کے مولّف اور کفعى نے مصباح میں اور سیّد نے اقبال میں اور محدّث قمى نے منتہى الامال میں آپ کى وفات تیسرى جمادى الثانى کو بتلائی ہے_

ابن شہر آشوب نے مناقب میں آپ کى وفات تیرہ ربیع الثانى میں بتائی ہے_

ابن جوزى نے تذکرة الخواص میں اور طبرى نے اپنى تاریخ میں فرمایا ہے کہ جناب زہراء (ع) نے تیسرے رمضان المبارک کو وفات پائی مجلسى نے بحار الانوار میں بھى یہ محمد بن عمر سے نقل کیا ہے_

مجلسى نے ___ بحار الانوار میںمحمد بن میثم سے نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کى وفات بیس جمادى الثانى کو ہوئی_

محمد تقى سپہر نے ناسخ التواریخ میں ستائیس جمادى الاوّل کو آپ کى وفات بتلائی ہے_

یہ اتنا بڑا اختلاف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد کتنے دن زندہ رہیں_

75/ دن: کلینى نے کافى ہیں اور دلائل الامامہ کے مولّف نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہى ہیں_ سید مرتضى نے عیون المعجزات میں اسى قول کو اختیار کیا ہے اس قول کى دلیل وہ روایت ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) ، پیغمبر (ص) کے بعد پچہتر دن زندہ رہیں_(31)

72/دن : ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) باپ کے بعد بہتر دن زندہ رہیں_

3 مہینے: ابوالفرج نے مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ جناب زہرا (ع) کى زندگى میں پیغمبر (ص) کے بعد اختلاف ہے، لیکن آٹھ مہینہ سے زیادہ اور چالیس دن سے کمتر نہ تھی، لیکن صحیح قول وہى ہے کہ جو جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت زہرا ء (ع) رسول خدا (ص) کے بعد تین مہینے زندہ رہیں (32)_ اس قول کو صاحب کشف الغمہ نے دولابى سے اور ابن جوزى نے عمر ابن دینار سے بھى نقل کیا ہے_

40 دن: مجلسى نے بحار الانوار میں جناب فضّہ سے جو جناب زہراء (ع) کى کنیز تھیں اور کتاب روضة الواعظین میں ابن عباس سے روایت کى ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حضرت زہرا (ع) باپ کے بعد چالیس دن زندہ رہى ہیں شہر ابن آشوب نے مناقب میں اسى قول کو قربانى سے نقل کیا ہے_

6 مہینے: مجلسى نے بحار الانوار میں امام محمد باقر (ع) سے روایت کى ہے کہ حضرت زہراء (ع) باپ کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں، کشف الغمہ میں اسى قول کو ابى شہاب اور زہرى اور عائشےہ اور عروہ بن زبیر سے نقل کیا ہے_ ابن جوزى نے تذکرة الخواص میں ایک قول چھ مہینے سے دس دن کم کا نقل کیا ہے_

4 مہینے: ابن شہر آشوب نے مناقب میں چہار مہینے کا قول نقل کیا ہے_

95 دن: امام محمد باقر (ع) سے روایت کى گئی ہے کہ آپ زندہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد پنچانوے دن زندہ رہیں_

70 دن: ابن جوزى نے تذکرة الخواص میں امام جعفر صادق (ع) سے روایت کى ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) باپ کے بعد ستّر دن زندہ رہیں_

2 مہینے، 8 مہینے اور 100 دن: مجلسى نے بحار الانوار میں دو مہینے اور آٹھ مہینے اور سو دن کا قول بھى نقل کیا ہے_

پیغمبر (ص) کى وفات کى تاریخ میں بھى اختلاف ہے شیعہ علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آپ کى وفات اٹھائیس صفر کو ہوئی لیکن اہل سنت کے اکثر علماء نے آپ کى وفات کو بارہ ربیع الاوّل کہى ہے اور دوسرى ربیع الاوّل بھى گہى گئی ہے_

حضرت زہراء (ع) کا والد کى وفات کے بعد زندہ رہنے میں تیرہ قول ہیں اور جب ان کو جناب رسول خدا (ص) کى وفات کے اقوال کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو پھر جناب فاطمہ (ع) کى وفات میں دن اور مہینے کے لحاظ سے بہت کافى احتمال ہوجائیں گے یعنى تیرہ کو جب تین سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب انتالیس اقوال ہوجائیں گے، لیکن محققین پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اس معالے میں آئمہ علیہم السلام کے اقوال اور آراء ہى دوسرے اقوال پر مقدم ہوں گے کیوں کہ حضرت زہراء (ع) کى اولاد دوسروں کى نسبت اپنى ماں کى وفات سے بہتر طور باخبر تھی_ لیکن جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے خود آئمہ علیہم السلام کى روایات اس باب میں مختلف وارد ہوئی ہیں اس لئے کہ روایات میں پچہتر دن اور پنچانوے دن اور ستر دن اور تین مہینے اور چھ مہینے بھى وارد ہوئے ہیں_

اگر پیغمبر (ص) کى وفات کو اٹھائیس صفر تسلیم کرلیں اور پھر پچہتر دن کى روایت کا لحاظ کریں تو آپ (ع) کى وفات اس لحاظ سے 13/ اور 15/ جمادى الاوّل کو ہى محتمل ہوگى اور اگر پنچانوے دن کى روایت کا لحاظ کریں تو پھر تیسرى یا پانچویں جمادى الثانى کو آنحضرت کى وفات ممکن ہوگی_

اسى طرح آپ خود حساب کرسکتے ہیں اور جو احتمال بن سکتے ہیں انہیں معلوم کرسکتے ہیں_

جناب زہراء (ع) کى عمر کے بارے میں بھى 18، 28، 29، 30، 35 سال جیسے اختلافات موجود ہیں اور چونکہ پہلے ہم اس کى طرف اشارہ کرچکے ہیں لہذا یہاں دوبارہ تکرار کرنے کى ضرورت باقى نہیں رہیتی_
جناب فاطمہ (ع) کى قبر مبارک

ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ خود جناب فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ آپ کى قبر مخفى رہے اسى لئے حضرت على (ع) نے آپ (ص) کو رات کى تاریکى میں دفن کیا اور آپ کى قبر کو زمین سے ہموار کردیا اور چالیس تازہ قبروں کى صورت بنادى تا کہ دشمن اشتباہ میں رہیں اور آپ کى حقیقى قبر کى جگہ معلوم نہ کرسکیں گرچہ خود حضرت على (ع) اور ان کى اولاد اور خاص اصحاب اور رشتہ دار آپ کى قبر کى جگہ جانتے تھے_ لیکن انہیں جناب زہراء (ع) کى شفارش تھى کہ قبر کو مخفى رکھیں لہذا ان میں سے کوئی بھى حاضر نہ ہوتا تھا کہ آپ (ع) کى قبر کى نشاندہى کرتا یہاں تک کہ ایسے قرائن اور آثار بھى نہیں چھوڑے گئے کہ جس سے آپ کى قبر معلوم کى جاسکے_ آئمہ طاہرین یقینى طور سے آپ کى قبر سے آگاہ تھے لیکن انہیں بھى اس کى اجازت نہ تھى کہ وہ اس راز الہى کو فاش اور ظاہر کریں لیکن اس کے باوجود اہل تحقیق نے اس کى جستجو میں کمى نہیں کى اور ہمیشہ اس میں بحث و گفتگو کرتے رہے لہذا بعض قرائن اور امارات سے آپ کے دفن کى جگہ کو انہوں نے بتلایا ہے_

1_ بعض علماء نے کہا ہے کہ آپ جناب پیغمبر (ص) کے روضہ میں ہى دفن ہیں_ مجلسى نے محمد بن ہمام سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت على (ع) نے جناب فاطمہ (ع) کو رسول (ص) کے روضہ میں دفن کیا ہے لیکن قبر کے آثار کو بالکل مٹادیا_ نیز مجلسى نے جناب فضہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے کہا کہ جناب فاطمہ (ع) کى نماز جنازہ روضہ رسول میں پڑھى گئی اور آپ کو رسول (ص) کے روضہ میں ہى دفن کردیا گیا_

شیخ طوسى نے فرمایا ہے کہ بظاہر جناب فاطمہ (ع) کو جناب رسول خدا (ص) کے روضہ میں ى اپنے گھر میں دفن کیا گیا ہے اس احتمال کے لئے مزید دلیل جولائی جاسکتى ہے وہ وہ روایت ہے کہ جو رسول خدا (ص) سے نقل کى گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرى قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے (33)_

دوسرى دلیل یہ ہے کہ لکھا ہے کہ حضرت على (ع) نے روضہ پیغمبر پر فاطمہ (ع) کى نماز پڑھى اور اس کے بعد پیغمبر کو مخاطب کیا اور فرمایا میرا اور آپ کى دختر کا آپ پر سلام ہو جو آپ کے جوار میں دفن ہے_

2_ مجلسى نے ابن بابویہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بات صحیح ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو اپنے گھر میں دفن کیا تھا اور جب بنى امیہ نے مسجد نبوى کى توسیع کى تو جناب فاطمہ (ع) کى قبر مسجد میں آگئی_ مجلسى نے محمد ابن ابى نصر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے جناب ابوالحسن (ع) سے پوچھا کہ جناب فاطمہ (ع) کى قبر کہاں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے گھر میں مدفون ہیں اور بعد میں مسجد میں آگئی ہیں جب مسجد کى توسیع کى گئی _

3_ صاحب کشف الغمہ لکھتے ہیں کہ مشہور یہى ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو بقیع میں دفن کیا گیا_ سید مرتضى نے بھى عیون المعجزات میں یہى قول اختیار کیا ہے ابن جوزى لکھتے ہیں کہ یہ بھى کہا گیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) بقیع میں مدفون ہیں یہ مطلب شاید اس لئے سمجھا گیا ہو کہ حضرت على (ع) نے چالیس تازہ قبریں بقیع میں بنائی تھیں اور جب بعض نے ان قبروں میں جناب فاطمہ (ع) کے جنازے کو نکالنے کا ارادہ کیا تو حضرت على (ع) خشمناک اور غصّے میں آگئے تھے اور انہیں قتل کرنے کى دھمکى بھى دے دى تھى پس معلوم ہوتا ہے کہ ان قبروں میں سے ایک قبر جناب زہراء (ع) کى تھی_

4_ ابن جوزى لکھتے ہیں کہ بعض نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) کو عقیل کے گھر کے قریب دفن کیا گیا تھا آپ کى قبر سے راستے تک سات ذرع کا فاصلہ ہے_ عبداللہ بن جعفر نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب فاطمہ (ع) کى قبر عقیل کے گھر کے قریب واقع ہے_ ان چار احتمالات میں سے پہلا اور دوسرا احتمال ترجیح رکھتا ہے_

 

1) طبقات ابن سعد، ج 2 ص 85_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 156_
3) بحار الانوار، ج 43 ص 175_
4) بحار الانوار، ج 43 ص 157_
5) بحار الانوار، ج 43 ص 177_
6) اسد الغابة ابن اثیر، ج 5 ص 524_ طبقات ابن سعد ج 2 رقم 2 ص 83_
7) ریاحین الشریعہ، ج 1 ص 250_
8) دلائل امامہ ص 45_ بحار الانوار، ج 43 ص 70 1_
9) بحار الانوار، ج 43 ص 211_
10) احتجاج طبرسی، ج 1 ص 147_ بحار الانوار، ج 43 ص 161_ شرح ابن ابى الحدید ج 16 ص 233_ بلاغات النساء ص 19_
11) بحار الانوار، ج 43 ص 218_
12) بحار الانوار، ج 43 ص 198_
13) بحار الانوار، ج 43 ص 191_
14) مناقب ابن شہر آشوب، ج 3 ص 362_
15) بحار الانوارء ج 43 ص 178_
16،17) بحار الانوار، ج 43 ص 192_
18) دلائل الامامہ ص 42_
19) دلائل الامامہ، ص 42_
20) بحار الانوار، ج 43 ص 214_
21) دلائل الامامہ ص 44_
22) بحار الانوار، ج 43 ص 186_
23) بحار الانوار، ج 43 ص 192_
24) بحار الانوار، ج 43 ص 199_
25) بحار الانوار، ج 43 ص 179_
26) بحار الانوار، ج 43 ص 183_
27) بحار الانوار، ج 43 ص 183_
28) بحار الانوار، ج 43 ص 192_
29) بحار الانوار، ج 43 ص 183_
30) بحار الانوار، ج 43 ص 199_
31) اصول کافی، ج 1 ص 241_
32) مقاتل الطالبین، ص 31
33) بحار الانوار، ج 43 ص 185_