پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حصّہ سوم فاطمہ (ع) على (ع) كے گھر ميں

فاطمہ (ع) على (ع) کے گھر میں

 

جناب فاطمہ (ع) باپ کے گھر سے شوہر کے گھر منتقل ہوگئیں لیکن خیال نہ کیجئے کہ کسى اجنبى کے گھر گئی ہیں گرچہ آپ مرکز نبوت سے باہر چلى گئی ہیں لیکن مرکز ولایت میں پہنچ گئیں_ اسلام کے سپہ سالار فوج کے کمانڈر جنگ کے وزیر اور خصوصى مشیر اسلام کى پہلى شخصیت کے گھر وارد ہوئی ہیں اس مرکز میں آنے سے بہت سخت وظائف آپ کے کندھے پر آن پڑے ہیں، اب رسمى ذمہ داریاں بھى آپ پر عائد ہوگئیں_ یہاں رہ کر آپ کو اسلام کى خواتین کے لئے ازدواجى زندگی، امور خانہ داری، بچوں کى تربیت کا عملى طور پر درس دینا ہے، خواتین اسلام کو فداکاری، صداقت، محبت لازمى طور پر درس دینا ہوگا آپ کو اس طرح زندگى گزارنا ہے جو مسلمان عورتوں کے لئے ایک نمونہ بن جائے کہ عالم کى خواتین آپ کے وجود کے آئینے میں اسلام کى نورانیت اور حقیقت کو دیکھ سکیں_


امور خانہ داری

پہلا گھر کہ جس کے دونوں رکن میاں اور بیوى گناہوں سے پاک اور معصوم انسانیت کے فضائل اور کمالات سے مزین ہیں وہ حضرت على (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کا گھر تھا_ حضرت على (ع) ایک اسلامى مرد کا مل نمونہ تھے اور حضرت زہرا (ع) ایک مسلمان عورت کا کامل نمونہ تھیں_

على ابن ابى طالب نے بچپن سے جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دامن میں اور آپ کى زیر نگرانى تربیت پائی تھی_ کمالات اور فضائل اور بہترین اور اعلى ترین اسلامى اخلاق کے مالک تھے، جناب زہرا(ع) نے بھى اپنے باپ کے دامن میں تربیت پائی تھى اور آپ اسلامى اخلاق سے پورى طرح آگاہ تھیں_ آپ لوگوں کے کان بچپن سے قرآن سے مانوس تھے_ رات دن ا ور کبھى کبھار قرآن کى آواز خودپیغمبر (ص) کے دہن مبارک سے سنا کرتے تھے_ غیبى اخبار اور روحى سے آگاہ تھے اسلام کے حقائق اور معارف کو اس کے اصلى منبع اور سرچشمہ سے دریافت کرتے تھے اسلام کا عملى نمونہ پیغمبر اسلام(ص) کے وجودى آئینہ میں دیکھا کرتے تھے اسى بناء پر گھر یلو زندگى کا اعلى ترین نمونہ اس گھر سے دریافت کیا جاسکتا ہے_

على (ع) اور فاطمہ (ع) کا گھر واقعاً محبت اور صمیمیت کا با صفا محور تھا_ میاں بیوى کمال صداقت سے ایک دوسرے کى مداد اور معاونت کر رہے تھے گھر یلوکاموں میں ایک دوسرے کى مدد کرتے تھے_ بیاہ کے ابتدائی دنوں میں پیغمبر (ص) کى خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کى کہ آپ گھر کے کام کاج ہم میں تقسیم کردیں_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گھر کے اندرونى کام فاطمہ انجام دیں گى اور بیرونى کام على (ع) کے ذمہ ہوں گے فاطمہ (ع) فرماتى ہیں کہ میں اس تقسیم سے بہت خوش ہوئی کہ گھر کے بیرونى کام میرے ذمہ نہیں گئے _(1)

جى ہاں فاطمہ (ع) وحى کى تربیت یافتہ تھیں اور جانتى تھیں کہ گھر ایک اسلام کا بہت بڑا مورچہ ہے ، اگر عورت کے ہاتھ سے یہ مورچہ نکل گیا اور خرید و فروخت کے لئے گھر سے باہر نکل پڑى تو پھر وہ امور خانہ دارى کے وظائف اور اولاد کى تربیت اچھى طرح انجام نہیں دے سکے گى یہى وجہ تھى کہ آپ اس تقسیم سے خوش ہوگئیں کہ گھر کے مشکل اور سخت کام على (ع) کے سپرد کئے گئے ہیں_

اسلام کى بے مثال پہلى شخصیت کى بیٹى کام کرنے کو عارنہ سمجھتى تھى اور گھر کے مشکل کاموں کى بجا آورى سے نہیں کتراتى تھیں، آپ نے اس حد تک گھر کے کاموں میں زحمت اٹھائی کہ خود حضرت على علیہ السلام آپ کے بارے میں یاد کرتے تھے اور آپ کى خدمات کو سراہا کرتے تھے آپ نے اپنے ایک دوست سے فرمایا تھا کہ چاہتے ہو کہ میں اپنے او رفاطمہ (ع) کے متعلق تمہیں بتلاؤں_

اتنا میرے گھر پانى بھى کر لائی ہیں کہ آپ کے کندھے پر مشک کا نشان پڑ گیا تھا اور اتنى آپ نے چکى پیسى کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے تھے، اتنا آپ نے گھر کى صفائی اور پاکیزگى اور روٹى پکانے میں زحمت اٹھائی ہے کہ آپ کا بساس میلا ہوجانا تھا_ آپ پر کام کرنا بہت سخت ہوچکا تھا میں نے آپ سے کہا تھا کتنا بہتر ہوگا کہ اگر آپ پیغمبر(ص) کى خدمت میں حاضر ہو کر حالات کاآپ(ص) سے تذکرہ کریں شادى کوئی کنیز آپ کے لئے مہیا کردیں_ تا کہ وہ آپ کى امور خانہ دارى میں مدد کرسکے_

جناب فاطمہ (ع) پیغمبر(ص) کى خدمت میں گئیں لیکن اصحاب کى ایک جماعت کو محو گفتگو دیکھ کر واپس لوٹ آئیں اور شرم کے مارے آپ سے کوئی بات نہ کی_ پیغمبر(ص) نے محسوس کرلیا تھا کہ فاطمہ (ع) کسى کام کى غرض سے آئی تھیں، لہذا آپ(ص) دوسرے دن ہمارے گھر خود تشریف لے آئے اور اسلام کیا ہم نے جواب سلام دیا آپ ہمارے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا بیٹى فاطمہ (ع) کس لئے میرے پاس آئی تھیں؟ جناب فاطمہ (ع) نے اپنى حاجت کے بیان کرنے میں شرم محسوس کى حضرت على (ع) نے عرض کى یا رسول اللہ(ص) ، فاطمہ (ع) اس قدر پانى بھر کر لائیں ہیں کہ مشک کے بند کے داغ آپ کے سینے پر پڑچکے ہیں اتنى آپ نے چکى چلائی ہے کہ آپ کے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے ہیں اتنا آپ نے اپنے گھر کى صفائی کے لئے جھاڑو دیئے ہیں کہ آپ کا لباس غبار آلود اور میلا ہوچکا ہے اور اتنا آپ ن خوراک اور غذا پکائی ہے کہ آپ کا لباس کثیف ہوگیا ہے_ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کى خدمت میں جائیں شاید کوئی کنیز اور مددگار آپ انہیں عطا فرما دیں_

پیغمبر(ص) نے فرمایا بیٹى فاطمہ (ع) کیا تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جو کنیز سے بہتر؟ جب سونا چاہو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد اللہ، چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو_ یہ ذکر ایک سو سے زیادہ نہیں_ لیکن اس نے نامہ عمل میں ایک ہزار حسنہ لکھا جاتا ہے_ فاطمہ (ع) ، اگر اس ذکر کو ہر روز صبح پڑھو تو خداوند تیرے دنیاا ور آخرت کے کاموں کى اصلاح کردے گا_ فاطمہ (ع) نے جواب میں کہا ابا جان میں خدا اور اس کے رسول سے راضى ہوگئی _(2)

ایک دوسرى حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ فاطمہ (ع) نے اپنے حالات اپنے با با سے بیان کئے اور آپ(ص) سے ایک لونڈى کا تقاضا کیا_ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا_ فاطمہ (ع) خدا کى قسم چار سو آدمى فقیر اس وقت مسجد میں رہ رہے ہیں کہ جن کے پاس نہ خوراک ہے اور نہ ہى لباس مجھے خوف ہے کہ اگر تمہارے پاس لونڈى ہوئی تو گھر میں خدمت کرنے کا جو اجر و ثواب ہے وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا_ مجھے خوف ہے کہ على ابن ابى طالب قیامت کے دن تم سے اپنے حق کا مطالبہ کریں اس کے بعد آپ نے تسبیح زہرا(ع) آپ کو بتلائی_ امیرالمومنین نے فرمایا کہ دنیا کى طلب کے لئے پیغمبر(ص) کے پاس گئی تھیں لیکن آخرت کا ثواب ہمیں نصیب ہوگیا_(3)

 

ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے دیکھا کہ على (ع) اور فاطمہ (ع) چکى چلانے میں مشغول ہیں آپ نے پوچھا تم میں سے کون تھک چکا ہے؟ حضرت على علیہ السلام نے عرض کى کہ فاطمہ (ع) ، چنانچہ جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کى جگہ بیٹھ گئے اور حضرت على کى چکى چلانے میں مدد کی_(4)

جناب جابر کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) معمولى قیمت کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھ سے چکى چلاتى ہیں اور بچوں کو گود میں لئے ہوئے دودھ پلاتى ہیں یہ منظر دیکھ کر آپ کے آنسو جارى ہوگئے اور فرمایا میرى پیارى بیٹى دنیا کى سختى اور تلخى کو برداشت کرو تا کہ آخرت کى نعمتوں سے سرشار ہوسکو آپ نے عرض کیا، یا رسول اللہ(ص) میں اللہ تعالى کى ان نعمتوں پر شکر گزار ہوں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا قیامت کے دن اتنا تجھے عطا کرے گا کہ تو راضى ہوجائے _(5)

اما م جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت على (ع) لکڑیاں اور گھ کا پانى مہیا کرتے تھے اور گھر کى صفائی کرتے تھے اور جناب فاطمہ (ع) چکى پیستى تھیں اور آٹا گوندھتى اور روٹى پکاتى تھیں_(6)

ایک دن جناب بلال خلاف معمول مسجد میں صبح کى نماز میں دیر سے پہنچے تو رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیر سے آنے کى وجہ پوچھى آپ نے عرض کیا_ جب میں مسجد آرہا تھا تو جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزرا میں نے دیکھا کہ آپ چکى پیس رہى ہیں اور بچے رو رہے ہیں، میں نے عرض کى اے پیغمبر کى بیٹى ان دو کاموں میں سے ایک میرے سپرد کردیں تا کہ میں آپ کى مدد کروں، آپ نے فرمایا بچوں کو بہلانا مجھے اچھا آتا ہے اگر تم چاہتے ہو تو چکى چلا کر میرى مدد کر و میں نے چکى کا چلانا اپنے ذمہ لے لیا اسى لئے مسجد میں دیر سے آیا ہوں_ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے فاطمہ (ع) پر رحم کیا ہے خدا تم پر رحم کرے_ (7)
شوہر کے ہمراہ

جناب فاطمہ (ع) کسى عام آدمى کے گھر زندگى نہیں گزار رہى تھیں بلکہ وہ اسلام کى دوسرى شخصیت، جو اسلام کے سپہ سالار اور بہادر اور قوى اور پیغمبر(ص) کے خصوصى وزیر اور مشیر تھے ، کے گھر میں زندگى گزار رہى تھیں اسلام اور اپنے شوہر کے حساس مقام کو اچھى طرح سمجھتى تھیں اور جانتى تھیں کہ اگر على کى تلوار نہ ہو تو اسلام کى کوئی پیشرفت نہیں ہوسکتى ، جناب فاطمہ (ع) اسلام کے بحرانى اور بہت حساس مواقع کے لحاظ سے حضرت على علیہ السلام کے گھر زندگى گزار رہى تھیں اسلام کا لشکر ہر وقت تیار رہتا تھا، ہر سال میں کئی لڑائیاں ہو جاتى تھیں_ حضرت على (ع) ان تمام یا اکثر جنگوں میں شریک ہوا کرتے تھے_

جناب زہرا(ع) اپنى سخت اور حساس ذمہ دارى سے باخبر تھیں اور اس سے بھى بطور کامل مطلع تھى کہ عورت کا مرد کے مزاج پر کیا اثر ہوتا ہے، جانتى تھیں کہ عورت اس قسم کا نفوذ اور قدرت رکھتى کے کہ جس طرف چاہے مرد کو پھیر سکتى ہے اور یہ بھى جانتى تھیں کہ مرد کى ترقى یا تنزلى اور سعادت اور بدبختى کتنى عورت کى رفتار اور مزاج سے وابستہ ہے اور یہ بھى جانتى تھیں کہ گھر مرد کے لئے مورچہ اور آسائشے کا مرکز ہے مرد مبارز کے میدان اور حوادث زندگى اور ان کے مشکلات سے روبرو ہو کر تھکا ماندا گھر ہى آکر پناہ لیتا ہے تاکہ تازہ طاقت حاص کرے اور اپنے وظائف کى انجام دہى کے لئے اپنے آپ کو دوبارہ آمادہ کرسکے_ اس مہم آسائشےگاہ کى ذمہ دایاں عورت کو سونپى گئی ہیں_ اسى لئے اسلام نے ازدواجى زندگى کو جہاد کے برابر قرار دیا ہے_ امام موسى کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عورت کا جہاد یہ ہے کہ وہ اچھى طرح شوہر کى خدمت کرے _(8)

جناب فاطمہ (ع) جانتى تھیں اسلام کا بہادر اور طاقتور سپہ سالار جنگ کے میدان میں اس وقت فاتح ہوسکتا ہے جب وہ گھر کے داخلى امور سے بے فکر اور اپنى رفیقہ حیات کى مہربانیوں اور تشویقات سے مطمئن ہو، اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اسلام کا فداکار سپہ سالار على (ع) جب جنگ سے تھکا ماندا میدان سے گھر آتا تھا تو اپنى ہمسر کى مہربانیوں اور نوازشات اور پیار بھرى باتوں سے کاملاً نوازا جاتا تھا_ آپ ان کے جسم کے زخموں پر مرہم پٹى کرتى تھیں ان کے خون آلود لباس کو دھوتى تھیں اور جنگ کے حالات ان سے سنانے کو کہتى تھیں_

جناب زہرا معظمہ ان تمام کاموں کو خود انجام دیتى تھیں یہاں تک کہ کبھى اپنے باپ کے خون آلود کپڑے بھى خود ہى دھویا کرتى تھیں، ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم احد کى جنگ سے واپس آئے تو آپ نے اپنى تلوار جناب زہرا کو دى اور فرمایا کہ اس کا خون بھى دھودو_(9)

 

جناب زہرا(ع) اپنے شوہر کو آفرین اور شاباش دے کر شوق دلایا کرتى تھیں آپ اور کى فداکارى و بہادرى کى داد دیا کرتى تھى اس طرح آپ حضرت على (ع) کى حوصلہ افزائی اور اپ کو اگلى جنگ کے لئے تیار کرتى تھیں_ اپنى بے ریا محبت سے تھکے ماندے على (ع) کو سکون مہیا کرتى تھیں خود حضرت على علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب میں گھر واپس آتا تھا اور جناب زہرا (ع) کو دیکھتا تھا تو میرے تمام غم و اندوہ ختم ہوجایا کرتے تھے _(10)

جناب فاطمہ (ع) کبھى بھى حضرت على (ع) کى اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھتى تھیں اور کبھى بھى حضرت على علیہ السلام کو غضبناک نہیں کرتى تھیں کیونکہ جانتى تھیں کہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت شوہر کو غضب ناک کرے خداوند اس کى نماز اور روزے کو قبول نہیں کرتا جب تک اپنے شوہر کو راضى نہ کرے_ (11)

جناب فاطمہ (ع) نے حضرت على (ع) کے گھر بھى جھوٹ نہیں بولا اور خیانت نہیں کى اور کبھى آپ کے حکم کى مخالفت نہیں کى حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھى ایسا کام نہیں کیا کہ جس سے فاطمہ (ع) غضبناک ہوئی ہوں، اور فاطمہ (ع) نے بھى کبھى مجھے غضبناک نہیں کیا _(12)

حضرت على علیہ السلام نے جناب زہرا(ع) کے آخرى وداع میں اس کا اعتراف کیا ہے، کیونکہ جناب زہرا(ع) نے اپنے آخرى وقت میں على (ع) سے کہا تھا اے ا بن عم آپ نے مجھے کبھى دروغ گو اور خائن نہیں پایا جب سے آپ نے میرے سامنے زندگى شروع کى ہے میں نے آپ کے احکام کى مخالفت نہیں کی، على (ع) نے فرمایا اے رسول خدا(ص) کى دختر معاذاللہ تم نے گھر میں مجھ سے برا سلوک کیا ہو کیونکہ تیرى اللہ کى معرفت اور پرہیز گارى اور نیکوکارى اور خدا ترسى اس حد تک تھى کہ اس پر ایراد اور اعتراض نہیں کیا جاسکتا تھا، میرى محترم رفیقہ حیات مجھ پر تیرى جدائی اور مفارقت بہت سخت ہے لیکن موت سے کسى کو مفر نہیں_(13)

چونکہ حضرت على (ع) کى فکر داخلى امو ر سے کاملا آزاد تھى اور اپنى بیوى کى تشویق سے بھى بہرہ مند تھے اسى لئے آپ کے لئے وہ تمام کامیا بیان ممکن ہوسکیں_

لیکن یہ خیال کبھى یہ کیجئے کہ حضرت على (ع) ابن ابى طالب ان خود پسند اور خود خواہ مردون میں سے تھے کہ ہزاروں توقع اپنى سے تو رکھتے ہوں لیکن اپنے لئے کسى مسئولیت یا ذمہ دارى کے قائل نہ ہوں اور اپنے آپ کو عورت کا حاکم مطلق سمجھتے ہوں اور عورت کو زر خرید غلام بلکہ اس سے بھى پست تر خیال کرتے ہوں ایسا بالکل نہ تھا حضرت على (ع) اسى حالت میں جب میدان جنگ میں تلوار چلا ہے ہوتے تھے تو جانتے تھے کہ ان کى بیوى بھى اسلام کے داخلى مورچہ ''گھر'' میں جہاد میں مشغول ہے ان کى غیر حاضرى میں تمام داخلى امور اور خارجى امور کى ذمہ دارى جناب فاطمہ (ع) پر ہے کھانا پکاتى تھیں لباس دھوتى تھیں، بچوں کى نگاہ دارى کرتى تھیں اور اولاد کى ترتیت میں سخت محنت کرتى تھیں_ جنگ کے زمانے میں سختى او رقحط کے دور میں غذا اور دیگر زندگى کے اسباب مہیا کرنے میں کوشش کرتى تھیں، جنگ او رحوادث کى ناراحت کنندہ خبر سن کر ناراحت ہوتیں اور انتظار کى سختى برداشت کرتى تھیں_

خلاصہ گھر کے نظم و ضبط کو برقرار رکھتیں جو کہ ایک مملک چلانے سے آسان نہیں ہوا کرتا، حضرت على (ع) کو احساس تھا کہ داخلى سپاہى کو بھى دلجوئی اور محبت اور تشویق کی ضرورت ہوتى ہے اسى لئے جب بھى آپ گھر میں تشریف لاتے تو آپ گھر کے حالات او رجناب زہرا(ع) کى محنت او رمشقت کى احوال پرسى کرتے تھے اور اس تھکى ماندى شخصیت کو سرا ہتے اور اس کے پمردہ دل کو اپنى مہربانیوں اور دل نواز باتوں کے ذریعہ سکون مہیا کرتے، زندگى سختى اور فقر اور تہى دستى کے لئے ڈھارس بندھاتے اور زندگى کے کاموں کو بجالانے اور زندگى کے کاموں میں آپ کى ہمت افزائی کرتے تھے_ على (ع) جانتے تھے کہ جتنا مرد عورت کے اظہار محبت اور خلوص اور قدردانى کا محتاج ہے اتنا عورت بھى اس کى محتاج ہے یہ دونوںاسلام کا نمونہ تھے اور اپنے وظائف پر عمل کرتے اور عالم اسلام کے لئے اپنے اخلاق کا نمونہ بنے رہے_

کیا جناب رسول خدا(ص) نے زفاف کى رات على (ع) سے نہیں فرمایا تھا کہ تمہارى بیوى جہاں کى عورتوں سے بہتر ہے، اور جناب زہرا(ع) ، سے فرمایا تھا کہ تمہارا شوہر على (ع) جہان کے مردوں سے بہتر ہے _(14)

کیا پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں فرمایا تھا کہ اگر على (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) کا کوئی کفو اور لائق شوہر موجود نہیں تھا_(15)

جناب فاطمہ (ع) نے اپنے والد بزگوار سے روایت کى ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنى بیویوں کے محسن او رمہربان ہوں_(16)

کیا خود حضرت على علیہ السلام نے زفاف کى صبح پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ فاطمہ (ع) اللہ کى اطاعت میں میرى بہترین مددگار اور یاور ہے _(17)


بچوں کى تعلیم و تربیت

جناب زہرا ء کى ذمہ داریوں میں سے سب سے زیادہ سخت ذمہ دارى اولاد کى تربیت تھی_ آپ کے پانچ بچے ہوئے، جناب امام حسن(ع) اور امام حسین (ع) اور جناب زینب خاتوں اور جناب ام کلثوم اور پانچوں فرزند کا نام محسن تھا جو ساقط کردیا گیا، آپ کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں زندہ ہیں آپ کى اولاد عام لوگوں کى اولاد کى طرح نہ تھى بلکہ یوں ہى مقدر ہوچکا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) کى نسل مبارک جناب فاطمہ (ع) سے چلے_

جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے باقى پیغمبروں کى ذریت ان کے صلب سے ہے لیکن میرى نسل على (ع) کے صلب سے مقرر ہوئی ہے میں فاطمہ (ع) کى اولاد کا باپ ہوں_ (18)

خدا نے مقرر فرمایا ہے کہ دین کے پیشوا اور رسول خدا(ص) کے خلفاء جناب زہرا(ع) کى پاک نسل سے ہوں لہذا جناب زہرا(ع) کى سب سے زیادہ سخت ذمہ دارى اولاد کى تربیت تھی_

تربیت اولاد ایک مختصر جملہ ہے لیکن یہ لفظ بہت مہم اور وسیع المعنى ہے شاید کسى کے ذہن میں آئے کہ اولاد کى تربیت صرف اور صرف باپ کا ان کے لئے لوازم زندگی فراہم کرنا ہى نہیں اور ماں ان کے لئے خشک و ترسے غذا مہیا کردے اور لباس دھو دے اور بس اس کے علاوہ اور کوئی بھى ذمہ دارى اولاد کى ان پر عائد نہیں ہوتى لیکن معلوم ہونا چاہیئےہ اسلام اسى حد تک اولاد کى تربیت میں اکتفا نہیں کرتا بلکہ ماں باپ کو ان کے بہت بڑے وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے_

اسلام بچے کى بعد میں بننے والى شخصیت کو ماں باپ کى پرورش او رتربیت اور ان کى نگہدارى کے مرہون منت سمجھتا ہے ماں باپ کے تمام حرکات او رسکنات اور افعال و کردار بچے کى لطیف اور حساس روح پر اثرانداز ہوتے ہیں، ہر بچہ ماں باپ کے رفتار اور سلوک کى کیفیت کا نمائندہ ہوتا ہے_ ماں باپ کا وظیفہ ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے بچے کے مستقبل کے مراقب او رمواظب ہوں تا کہ بے گناہ بچہ کہ جس کى نہاد اچھائی خلق ہوئی ہے فاسد اور بدبخت نہ ہوجائے_

جناب زہرا(ع) نے خود دامن وحى میں تربیت پائی تھى او راسلامى تربیت سے نا آشنا او رغافل نہ تھیں_ یہ جانتى تھیں کہ کس طرح ماں کا دودھ اور اس کے معصوم بچے کے لبوں پر بوسے لے کر اس کے تمام حرکات اور سکنات اعمال اور گفتار اس کى حساس روح پر اثرانداز ہوا کرتے ہیں_ جانتى تھیں کہ مجھے امام کى تربیت کرتا ہے اور معاشرہ اسلامى کو ایک ایسا نمونہ دینا ہے جو روح اسلام کا آئینہ دار اور حقیقت کا معرف ہوگا، معارف اور حقائق ان کے وجود میں جلوہ گر ہوں اور یہ کام کوئی آسانى کا م نہ تھا_

جناب فاطمہ (ع) جانتى تھیں کہ مجھے اس حسین (ع) کى تربیت کرنا ہے کہ جو اسلام کى ضرورت کے وقت اپنى اور اپنے عزیزوں کى جان دین اسلام کے دفاع اور ظلم سے مبارزہ کر کے فداکر سکے اور اپنے عزیزوں کے پاک خون سے اسلام کے درخت کو سیراب کردے_ جانتى تھیں کہ انھیں ایسى لڑکیاں زینب او رام کلثوم تربیت کرنى ہیں جو اپنے پر جوش خطبوں اور تقریروں سے بنى امیہ کى ظلم و ستم کى حکومت کو رسوا اور مفتضح کردیں اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنادے_ فاطمہ (ع) زہرا گھریلو یونیورسٹى میں زینب کو فداکارى اور شجاعت اور یزید کے ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا دس دے رہى تھیں تا کہ اپنى شعلہ بیانى سے دوست اور دشمن کو رلائے اور اپنے بھائی کى مظلومیت اور بنو امیہ کى بیدادگى اور ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا درس دے رہى تھیں، جانتى تھیں کہ ایک متحمل مزاج فرزند امام حسن جیسا تربیت کرنا ہے تا کہ اسلام کے حساس موقع پر اپنے جگر کا خون پیتا رہے اور اسلام کے منافع اور اساسى انقلاب کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے ساکت رہے اور شام کے حاکم سے صلح کر کے عالم کو بتلا دے کہ اسلام جب تک ممکن ہو صلح کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے اور اس طرح کر کے حاکم شام کى عوام فریبى اور دغل بازى کو ظاہر کردے، غیر معمولى نمونے جو اس اعجازآمیز مکتب سے نکلے ہیں وہ حضرت زہرا (ع) کى غیر معمولى طاقت اور عظمت روحى کے ظاہر کر نے کے لئے کافى ہیں_

جى ہاں حضرت زہرا (ع) کوتاہ فکر عورتوں سے نہ تھیں کہ جو گھر کے ماحول اور محیط کو معمولى شمار کرتے ہوئے بلند پرواز کرتى ہیں_ حضرت زہرا(ع) کے گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس خیال کرتى تھیں اسے انسان سازى کا ایک بہت بڑا کارخانہ اور فوجى تمرین اور فداکارى کى ایک اہم یونیورسٹى شمار کرتى تھیں اور جانتى تھیں کہ اس درسگاہ کے تربیت شدہ کو جو درس دیا جائے گا وہ نہیں معاشرہ کے بہت بڑے میدان میں ظاہر کرنا ہوگا، جو یہاں ٹریننگ لیں گے اس پر انہیں مستقبل میں عمل کرنا ہوگا، جناب زہرا (ع) عورت ہونے میں احساس کمترى میں مبتلا نہ تھیں اور عورت کے مقام اور مرتبے کو اہم اور اعلى جانتى تھیں اور اس قسم کى بھاری استعداد اپنے میں دیکھ رہى تھیں کہ کارخانہ خلقت نے ان پر اس قسم کى بھارى اور مہم ذمہ دارى ڈال دى ہے اور اس قسم کى اہم مسئولیت اس کے سپرد کردى ہے_


تربیت کى اعلى درسگاہ

حضرت زہرا(ع) کے گھر میں بچوں کى ایک اسلامى تربیت اور اعلى درسگاہ کى بنیاد رکھى گئی یہ درسگاہ اسلام کى دوسرى شخصیت اور اسلام کى خاتون اول کى مدد سے یعنى على (ع) اور فاطمہ زہرا (ع) کى مدد سے چلائی جارہى تھى اور اسلام کى پہلى شخصیت یعنى پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى زیرنگرانى چل رہى تھی_اس میں تربیت کے قواعد اور پروگرام بلاواسطہ پرودگار جہان کى طرف سے نازل ہوتے تھے، تربیت کے بہترین پروگرام اس میںجارى کئے جاتے تھے اور بہترین افراد کو تربیت دى گئی تھى میں یہاں اس مطلب کے اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ اس عالى پروگرام کے جزئیات ہمارے لئے بیان نہیں کئے گئے، کیوں کہ اول تو اس زمانے کے مسلمان اتنى فکرى رشد نہیں رکھتے تھے کہ وہ تربیتى امور کى اہمیت کے قائل ہوں اور اس کى قدر کریں اور پیغمبر اور على (ع) اور فاطمہ علیہم السلام کى گفتار اور رفتار کو جو وہ بجالائے تھے محفوظ کر لیتے اور دوسروں کے لئے روایت کرتے دوسرے بچوں کى تربیت کا اکثر لائحہ عمل گھر کے اندر جارى کیا جاتا تھا کہ جو دوسروں سے اندرونى اوضاع غالباً پوشیدہ رہتے تھے_

لیکن اس کے باوجود اجمالى طور سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کى تربیت کا لائحہ عمل وہى تھا جو قرآن کریم اور احادیث پیغمبر(ص) اور احادیث آئمہ اطہار میں وارد ہوا ہے اور پھر جو تھوڑى بہت جزئیات نقل کى گئی ہیں اس سے ایک حد تک ان کى تربیت کى طرف راہنمائی حاصل کى جاسکتى ہے_

یہ بھى واضح رہے کہ میں نہیں چاہتا ہوں کہ مفصول طور پر اصول تربیت پر بحث کروں کیوں کہ یہاں اس بحث کے لئے گنجائشے نہیں ہے_ لیکن ان میں سے کچھ اصول تربیت کو جو حضرت زہرا(ع) کى اولاد کى تربیت میں استعمال کئے گئے ہیں اور ہمارے لئے نقل ہوئے ہیں اختصار کے طور پر یہاں بیان کرتا ہوں_


پہلا درس
محبت

شاید اکثر لوگ یہ خیال کریں کے بچے کى تربیت کا آغاز اس وقت سے ہونا چاہیئے جب اچھائی اور برائی کو بچہ درک کرنے لگے اور اس سے پہلے بچے کى تربیت کرنا موثر نہ ہوگی، کیوں کہ اس سے پہلے بچہ خارجى عوامل سے متاثر نہیں ہوتا لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کیوں کہ فن تربیت کے دانشمندوں کى تصدیق کے مطابق بچے کى پرورش اور تربیت کا آغاز اس کى پیدائشے سے ہى شروع کردینا چاہیئے، دودھ پلانے کى کیفیت اور ماں باپ کے واقعات اور رفتار نو مولود کى پرورش میں ایک حد تک موثر واقع ہوتے ہیں اور اس کى مستقبل کى شخصیت اسى وقت سے شروع جاتى ہے_

فن تربیت اور نفسیات کے ماہرین کے نزدیک یہ مطلب یا یہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ بچے بچپن کے زمانے سے ہى محبت اور شفقت کے محتاج ہوتے ہیں_ بچہ چاہتا ہے کہ اس کے ماں باپ اسے حد سے زیادہ دوست رکھیں اور اس کے ساتھ شفقت کا اظہار کریں بچے کو اس کى زیادہ فکر نہیں ہوتى کہ وہ قصر میں زندگى گزار رہا ہے یا خیمے میں اس کا لباس بہت اعلى اور نفیس ہے یا نہیں، لیکن اسے اس موضوع سے زیادہ توجہ ہوتى ہے کہ اس سے محبت کى جاتى ہے یا نہیں، بچے کے اس اندورنى احساس کو سوائے محبت کے اظہار اور شفقت کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی، بچے کى مستقبل کى شخصیت اور اخلاق کا سرچشمہ اس سے محبت کا اظہار ہے یہى ماں کى گرم گود اور باپ کى مخلصانہ نوازش بچے میں بشر دوستى کى حس اور ہم جنس سے علاقہ مندى پیدا کرتى ہے_ یہى بچے سے بے ریاء نوازش بچے کو تنہائی کے خوف اور ضعف سے نجات دیتى ہے اور اسے زندگى کا امیدوار بناتى ہے، یہى خالص پیار و محبت بچے کى روح میں اچھى اخلاق اور حسن ظن کى آمیرش کرتى ہے اور اسے اجتماعى زندگى اور ایک دوسرے سے تعاون و ہمکارى کى طرف ہدایت کرتى ہے اور گوشہ نشینى اور گمنامى سے نجات دیتى ہے انہیں نوازشات کے واسطے سے بچے میں اپنى شخصیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو دوستى کے لائق سمجھتا ہے_

جس بچے میں محبت کى کمى کا احساس ہو وہ عام طور سے ڈرپوک، شرمیلا ضعیف، بدگمان، گوشہ نشین، بے علاقہ، پمردہ اور مریض ہوا کرتا ہے، اور کبھى ممکن ہے کہ اس کے رد عمل کے اظہار کے لئے اور اپنى بے نیازى کو بتلانے کے لئے مجرمانہ افعال کے بجالانے میں ہاتھ ڈال دے جیسے جنایت، چوری، قتل و غیرہ تا کہ اس وسیلہ سے اس معاشرہ سے انتقام لے سکے جو اسے دوست نہیں رکھتا اور اس سے بے نیازى کا مظاہرہ کرسکے_

پس بچے سے محبت اور شفقت اس کى ضروریات میں شمار ہوتى ہیں اور اس کى پرورش میں محبت کى زیادہ ضرورت ہوتى ہے_

اس چیز کا درس حضرت زہرا(ع) کے گھر میں کامل طور سے دیا جاتا تھا اور پیغمبر اکرم(ص) یہ جناب فاطمہ (ع) کو یاد دلاتے تھے_

روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسن (ع) متولد ہوئے تو آپ کو زرد کپڑے میں لپیٹ کر پیغمبر اکرم (ص) کى خدمت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ نو مولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹا کرو؟ اس کے بعد امام حسن (ع) کے زرد کپڑے کو اتار پھینکا اور انہیں سفید کپڑے میں لپیٹا اور بغل میں لیا او رانہیں بوسہ دینا شروع کیا، یہى کام آپ نے امام حسین علیہ السلام کى پیدائشے وقت بھى انجام دیا_(19)

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز جماعت میں مشغول تھے آپ جب سجدے میں جاتے تو امام حسین (ع) آپ کى پشت مبارک پر سوار ہوجاتے اور پاؤں کو حرکت دینے اور جب سجد سے سر اٹھاتے تو امام حسین علیہ السلام کو پشت سے ہٹاکر زمین پر بٹھا دیتے اور جب آپ دوبارہ سجدے میں جاتے تو امام حسین علیہ و آلہ و سلم انہیں ہٹا دیتے، پیغمبر اکرم(ص) نے اسى کیفیت سے نماز پورى کی، ایک یہودى جو یہ کیفیت دیکھ رہا تھا اس نے عرض کى کہ بچوں کے ساتھ آپ کا جو برتاؤ ہے اس کو ہم پسند نہیں کرتے_ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ اگر تم بھى خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوتے تو تم بھى بچوں کے ساتھ ایسى ہى نرمى سے پیش آتے وہ یہودى پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے اس رویہ کى وجہ سے مسلمان ہوگیا_ (20)

ایک دن پیغمبر(ص) جناب امام حسن (ع) کو بوسہ اور پیار کر رہے تھے کہ اقرع بن حابس نے عرض کى کہ میرے دس فرزند ہیں لیکن میں نے ابھى تک کسى کو بھى بوسہ نہیں دیا_ پیغمبر (ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ اگر خدا نے تیرے دل سے محبت کو لے لیا ہے تو میں کیا میں کیا کروں؟ جو شخص بھى بچوں پر ترحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے _(21)

ایک دن جناب رسول خدا(ص) کا جناب فاطمہ (ع) کے گھر سے گزر ہوا آپ نے امام حسین علیہ السلام کے رونے کى آواز سنى آپ نے جناب فاطمہ (ع) کو آواز دى اور فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ حسین (ع) کو رونا مجھے اذیت دیتا ہے_(22)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے کندھے پر سوار کیا تھا راستے میں کبھى امام حسن علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے اور کبھى امام حسین علیہ السلام کا، ایک آدمى نے عرض کی_ یا رسول اللہ(ص) آپ ان دو بچوں کو دوست رکھتے ہیں آپ نے فرمایا_ ہاں، جو شخص حسن (ع) اور حسین (ع) کو دوست رکھے وہ میرا دوست ہے اور جو شخص ان سے دشمنى کرے وہ میرا دشمن ہے _(24)

پیغمبر اسلام(ص) کبھى جناب فاطمہ (ع) سے فرماتے تھے، حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ اور جب آپ ان کو حضور کى خدمتم یں لے جاتیں تو رسول اکرم(ص) ان کو سینے سے لگاتے اورپھول کى طرح ان کو سونگھتے _(25)

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حسن(ع) اور حسین(ع) کے لبوں کو اس طرح چوستے دیکھا ہے جیسے خرما کو چوسا جاتا ہے_ (26)


دوسرا درس
شخصیت

نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچے کى تربیت کرنے والے کو بچے کى شخصیت کى پرورش کرنى چاہیئے اور بچے کو خود اعتماد کا درس دینا چاہیئے_ یعنى اس میں اعتماد نفس اجاگر کیا جائے تا کہ اسے بڑى شخصیت اور بڑا آدمى بنایا جاسکے_

اگر بچے کى تربیت کرتے والا بچے کا احترام نہ کرے اور اسے حقیر شمار کرے اور اس کى شخصیت کو ٹھیس پہنچاتا رہے تو خودبخود وہ بچہ ڈرپوک اور احساس کمرى کا شکار ہوجائے گا اور اپنے آپ کو بے قیمت اور حقیر جاننے لگے گا_ اور جب جوان ہوگا تو اپنے آپ کو اس لائق ہى نہیں سمجھے گا کہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے_ اس قسم کا آدمى معاشرہ میں بے اثر ہوگا اور اپنے آپ کو بہت آسانى سے پست کاموں کے لئے حاضر کردے گا_ بخلاف اگر اپنے آپ کو صاحب شخصیت اور با وقار سمجھتا ہو تو پھر وہ پست کاموں کے لئے تیار نہ ہوگا اورذلت وخوارى کے زیر بار نہ ہوگا_ اس قسم کى نفسیاتى کیفیت ایک حد تک ماں باپ کى روحى کیفیت اور خاندانى تربیت سے وابستہ ہوا کرتى ہے_

نفسیات کے ماہر بچے کى تربیت کے لئے تربیت کرنے والوں سے سفارش کرتے ہیں کہ جن میں سے بعض یہ مطالب ہیں_

اول: بچے سے محبت اور نوازش کااظہار کرتا ہم اسے پہلے درس میں بیان کرچکے ہیں اور ہم نے ذکر کیا تھا کہ جناب امام حسن(ع) اور جناب امام حسین(ع) ماں باپ اور حضرات رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى بہت زیادہ محبت سے بہرہ ور تھے_

دوم: بچے کى اچھى صفات کا ذکر کیا جائے اور اس کى اپنے دوستوں کے سامنے تعریف اورتوصیف کى جائے اور اسے نفس کى بزرگى کا درس دیا جائے_

جناب رسول خدا(ص) نے کئی دفعہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا کہ یہ جوانان جنت کے بہترین افراد سے ہیں اور ان کا باپ ان سے بھى بہتر ہے_(27)

پیغمبر اکرم(ص) نے امام حسین اور امام حسین علیہما السلام سے فرمایا کہ تم خدا کے ریحان ہو_(28)
 

جناب ابوبکر کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تشریف فرماتھے اور جناب امام حسن (ع) آپ کے پہلوں میں بیٹھے ہوئے تھے جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھى لوگوں کى طرف دیکھتے اور کبھى جناب امام حسن علیہ السلام کى طرف اور فرماتے تھے کہ حسن (ع) سید وسردار ہے_ شاید اس کى برکت سے میرى امت میں صلح واقع ہو_(29)

جابر کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ وآلہ و سلم کى پشت پر سوار ہیں اور آپ گھٹنوں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تمہارى سوارى بہترین ہے اورتم بہترین سوار ہو_(30)

یعلى عامرى کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، آپ نے اپنے ہاتھ بڑھائے تا کہ آپ کو پکڑلیں جناب امام حسین علیہ السلام اس طرف اور اس طرف بھاگتے تھے_ پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہنستے ہوئے امام حسین علیہ السلام کو بغل میں لے لیا اور اس وقت اپنا ایک ہاتھ امام حسین علیہ السلام کى ٹھوڑى کے نیچے اور دوسرا ہاتھ گردن کے پیچھے رکھا اور اپنے دہن مبارک کو امام حسین(ع) کے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیا اور فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں_ جو شخص اسے دوست رکھے خدا اسے دوست رکھتا ہے_ حسین (ع) میرى بیٹى کا فرزند ہے_(31)

حضرت على بن ابى طالب امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے فرمایا کرتے تھے کہ تم، لوگوں کے پیشوا اور جوانان جنت کے سردار ہو اور معصوم ہو خدا اس پر لعنت کرے جو تم سے دشمنى کرے_(32)

جناب فاطمہ (ع) ایک دن امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت میں لائیںاور عرض کى یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) اور حسین آپ کے فرزند ہیں ان کو کچھ عطا فرمایئےرسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنى سیادت و ہیبت حسن کو بخشی، اور اپنى شجاعت اور سخاوت حسین (ع) کو دی_

سلمان فارسى کہتے ہیں کہ میںنے امام حسین (ع) کو دیکھا کہ آپ پیغمبر(ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ ان کو بوسہ دے رہیں اور فرماتے ہیں کہ تم سردار اورسردار زادہ ہو امام اور امام کے فرزند اور ماموں کے باپ ہو تم حجت ہو اور حجت کے فرزند اور نوحجتوں کے باپ ہو کہ آخرى حجت امام مہدى قائم ہوں گے_ (33)

جى ہاں پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب زہرا(ع) کى اولاد کى تربیت میں کوشش کرتے تھے جناب زہراء اور حضرت على بھى اسى لائحہ عمل پرآپ کى متابعت کرتے تھے کبھى بھى انہوں نے بچوں کو حقیر نہیں سمجھا اور ان کى شخصیت کو دوسروں کے سامنے ہلکاپھلکا بنا کر پیش نہیں کیا، اور ان کے روح اور نفس پر اس قسم کى ضرب نہیں لگائی یہى وجہ تھى کہ آپ کے یہاں سید و سردار نے تربیت پائی_

روایت میںآیا ہے کہ ایک آدمى نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا کہ جس کى اسے سزا ملنى تھى اس نے اپنے آپ کو جناب رسول خدا(ص) سے مخفى رکھا یہاں تک کہ ایک دن راستے میں امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) سے اس کى ملاقات ہوگئی ان دونوں کو کندھے پر بیٹھایا اور جناب رسول خدا(ص) کى خدمت میں حاضر ہوگیا اور عرض کى یا رسول اللہ(ص) میں حسن (ع) اور حسین (ع) کو شفیع اورواسطہ قرار دیتا ہوں پیغمبر اکرم(ص) ہنس دیئے اورفرمایا میںنے تمہیں معاف کردیا اس کے بعد امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے فرمایا کہ میں نے تمہارى سفارش اور شفاعت قبول کرلى ہے _(34)

یہى عظمت نفس اور بزرگى تھى کہ امام حسین علیہ السلام اپنى مختصر فوج سے یزید کے بے شمار لشکر کے سامنے ڈٹ گئے اور مردانہ وار جنگ کى لیکن ذلت اور خوارى کو برداشت نہ کیا آپ فرماتے تھے میں غلاموں کى طرح بھاگوں گا نہیں اور ذلت اور خوارى کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا _(35)

اسى تربیت کى برکت تھى کہ زینب کبرى ان تمام مصائب کے باوجود یزید کے ظلم و ستم کے سامنے حواس باختہ نہ ہوئیں اور اس سے مرعوب نہ ہوئیں اور پرجوش خطابت سے کوفہ اور شام کو منقلب کر گئیں اور یزید کى ظالم اور خونخوار حکوت کو ذلیل اور خوار کر کے رکھ دیا_

 

تیسرا درس
ایمان اورتقوى

نفسیات کے ماہرین کے درمیان یہ بحث ہے کہ بچوں کے لئے دینى تعلیمات اور تربیت کس وقت سے شروع کى جائے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ بچہ جب تک بالغ اوررشید نہ ہو وہ عقائد اورافکار دینى کو سمجھنے کى استعداد نہیں رکھتا اور بالغ ہوتے تک اسے دینى امور کى تربیت نہیں دینى چاہیئے_ لیکن ایک دوسرے گروہ کاعقیدہ یہ ہے کہ بچے بھى اس کى استعداد رکھتے ہیں اور انہیں دینى تربیت دى جانى چاہیئےربیت کرنے والے دینى مطالب اور مذہبى موضوعات کو سادہ اور آسان کر کے انہیں سمجھائیں اور تلقین کریں اور انہیں دینى امور اور اعمال کو جو آسان ہیں بجالانے پر تشویق دلائیں تا کہ ان کے کان ان دینى مطالب سے آشنا ہوں اور وہ دینى اعمال اورافکار پرنشو و نما پاسکیں_ اسلام اسى دوسرے نظریئے کى تائید کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کى تاکید کریں _(36)

پیغمبر اسلام(ص) نے دینى امور کى تلقین حضرت زہرا(ع) کے گھر بچپن اور رضایت کے زمانے سے جارى کردى تھی_ جب امام حسن علیہ السلام دنیا میں آئے اور انہیں رسول خدا(ص) کى خدمت میں لے گئے تو آپ نے انہیں بوسہ دیا اوردائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت اور امام حسین علیہ السلام کى ولادت کے موقع پربھى یہى عمل انجام دیا(37)_

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ایک دن پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنا چاہتے تھے امام حسین علیہ السلام بھى آپ کے پہلو میں کھڑے ہوگئے جب پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہى توجناب امام حسین علیہ السلام نہ کہہ سکے رسول خدا صلى اللہ علیہ و الہ وسلم نے سات مرتبہ تکبیرکى تکرار کى یہاں تک کہ امام حسین (ع) نے بھى تکبیر کہہ دى _(38)

جناب رسو ل خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم دینى تلقین کو اس طرح موثر جانتے تھے کہ تولد کے آغاز سے ہى آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے کانوں میں اذان اور اقامت کہى تا کہ اولاد کى تربیت کرنے والوں کے لئے درس ہوجائے یہى وجہ تھى کہ جناب فاطمہ (ع) جب امام حسن (ع) کو کھلایا کرتیں اورانہیں ہاتھوں پرا ٹھا کر اوپر اور نیچے کرتیں تو اس وقت یہ جملے پڑھتیں اے حسن(ع) تو باپ کى طرح ہوتا حق سے دفاع کرنا اور اللہ کى عبادتکرنا اوران افراد سے جو کینہ پرور اور دشمن ہوں دوستى نہ کرنا_ (39)

جناب فاطمہ زہرا، بچوں کے ساتھ کھیل میں بھى انہیں شجاعت اور دفاع حق اور عبادت الہى کا درس دیتى تھیں اور انہیں مختصر جملوں میں چار حساس مطالبہ بچے کویاد دلا رہى ہیں، یعنى باپ کى طرح بہادر بننا اوراللہ کى عبادت کرنا اور حق سے دفاع کرنااوران اشخاص سے دوستى نہ کرنا جو کینہ پرور اور دشمن ہوں پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم مالى تقوى اورناپاک غذا کے موارد میں اپنى اسخت مراقبت فرماتے تھے کہ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) کى خدمت میں کچھ خرما کى مقدار زکوة کے مال سے موجود تھى آپ نے اسے فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جب آپ تقسیم سے فارغ ہوئے اور امام حسن (ع) کو کندھے پر بیٹھا کر چلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ خرما کا ایک دانہ امام حسن(ع) کے منھ میں ہے_ پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ امام حسن علیہ السلام کے منھ میں ڈال کر فرمایا طخ طخ بیٹا حسن (ع) کیا تمہیں علم نہیں کہ آل محمد(ص) صدقہ نہیں کھاتے _(40)

حالانکہ امام حسن (ع) بچے اور نابالغ تھے کہ جس پرکوئی تکلیف نہیں ہوا کرتى چونکہ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ ناپاک غذا بچے کى روح پر اثر انداز ہوتى ہے لہذا اسے نکال دینے کا حکم فرماى قاعدتاً بچے کو بچپن سے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ کھانے کے معاملہ میں مطلقاً آزاد نہیں ہے بلکہ وہ حرام اور، حلال کا پابند ہے اس کے علاوہ پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اس عمل سے حسن علیہ السلام کى شخصیت اور بزرگى منش ہونے کى تقویت کى اور فرمایا زکوة بیچاروں کا حق ہے اور تمہارے لئے سزاوار نہیں کہ ایسے مال سے استفادہ کرو، حضرت فاطمہ زہرا(ع) کى اولاد میں شرافت، طبع اور ذاتى لحاظ سے بڑا ہونا اس قدر نافذ تھا کہ جناب ام کلثوم نے ویسے ہى کوفہ میں عمل کر دکھایا جو پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے جد نے انجام دیا تھا_

مسلم نے کہا کہ جس دن امام حسین علیہ السلام کے اہلبیت قید ہوکر کوفہ میں لائے گئے تھے تو لوگوں میںاہلبیت کے بچوں پرترحم اوررقت طارى ہوئی اور انہوں نے روٹیاں، خرمے، اخروٹ بطور صدقہ ان پر ڈالنى شروع کیں اور ان سے کہتے تھے کہ دعا کرنا ہمارے بچے تمہارى طرح نہ ہوں_

جناب زہرا(ع) کى باغیرت دختر اور آغوش وحى کى تربیت یافتہ جناب ام کلثوم روٹیاں اور خرمے اور اخروٹ بچوں کے ہاتھوں اور منھ سے لے کر دور پھینک دیتیں اور بلند آواز سے فرماتیں ہم اہلبیت پرصدقہ حرام ہے _(41)

اگر چہ امام حسین (ع) کے بچے مکلف نہ تھے لیکن شرافت طبع اور بزرگوارى کا اقتضا یہ تھا کہ اس قسم کى غذا سے حتى کہ اس موقع پربھى اس سے اجتناب کیا جائے تا کہ بزرگى نفس اور شرافت اور پاکدامنى سے تربیت دیئے جائیں_


چوتھا درس
نظم اوردوسروں کے حقوق کى مراعات

ایک اہم مطلب جو ماں باپاور دوسرے بچوں کى تربیت کرنے والوں کے لئے مورد توجہ ہونا چاہیئےہ یہ ہے کہ وہ بچے پرنگاہ رکھیں کہ وہ اپنے حق سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حق کا احترام کرے بچے کو منظم اور با ضبط ہونا چاہیئے زندگى میں نظم اور ضبط کا برقرار رکھنا اسے سمجھایا جائے اس کى اس طرح تربیت کی جائے کہ اپنے حق کے لینے سے عاجز نہ ہو اوردوسروں کے حق کو پا مال نہ کرے، البتہ اس صفت کى بنیاد گھر اور ماں باپ کو رکھنى ہوگی، ماں باپ کو اپنى تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیئے کسى ایک کو دوسرے پر مقدم نہ کریں، لڑکے اور لڑکى کے درمیان، چھوٹے اور بڑے کے درمیان، خوبصورت اور بدصورت کے درمیان، ذہین او رکم ذہن کے درمیان فرق نہ کریں یہاں تک کہ محبت کے ظاہر کرنے کے وقت بھى ایک جیسا سلوک کریں تا کہ ان میں حسد اور کینہ کى حس پیدا نہ ہو اور مراکش اور متجاوز نہ نکل آئیں_

اگر بچہ دیکھے کہ گھر میں تمام افراد کے درمیان حقوق کى پورى طرح رعایت کى جاتى ہے تو وہ سمجھ جائے گا کہ جامعہ اور معاشرہ میں بھى ایک دوسرے کے حقوق کى پورى طرح رعایت نہ ہوئی تو اس میںسرکشى اور تجاوز کى عادت تقویت پکڑے گى اگر کوئی بچہ کسى تربیت وار چیز کے خرید نے یا کسى جگہ با تربیت سوار ہونے میں یا کلاس کے کمرے میں باترتیب جانے یا نکلنے میں اس ترتیب اور نظم کا خیال نہ کرے اور دوسروں کے حق کو پا مال کرے اور اس کے ماں باپ اور تربیت کرنے والے افراد اس کے اس عمل میںتشویق کریں تو انہوں نے اس معصوم بچے کے حق میں خیانت کى کیونکہ وہ بچپن سے یہى سمجھے گا کہ دوسروں پر تعدى اور تجاوز بلا وجہ تقدم ایک قسم کى چالاکى اور ہنر ہے_ یہى بچہ جوان ہو کر جب معاشرہ میں وارد ہوگا یا کسى کام کى بجا آورى کا ذمہ دار بنا جائے گا تو اس کى سارى کوشش دوسروں کے حقوق کو تلف اور پائمال کرنا ہوگى اور اپنے ذاتى منافع کے علاوہ اس کا کوئی ہدف نہ ہوگا اس صفت کا درس حضرت زہرا کے گھر میں کامل طور ''اتنى وقت کے ساتھ کہ معمولى سے معمولى ضابطہ کى بھى مراعات کى جات تھی'' دیا جاتا تھا_

مثال کے طور پر حضرت على (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے گھر آرام کر رہے تھے، امام حسن (ع) نے پانى مانگا جناب رسول خدا(ص) اٹھے تھوڑا دودھ برتن میں دودہ کر جناب امام حسن (ع) کو دیا کہ اتنے میں امام حسین علیہ السلام بھى اٹھے اور چاہا کہ دودھ کا برتن امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ سے لیں لیکن پیغمبر(ص) نے امام حسین علیہ السلام کو اس کے لینے سے روک دیا، جناب فاطمہ زہرا یہ منظر دیکھ رہى تھیں، عرض کیا یا رسول اللہ(ص) گویا آپ امام حسن (ع) کو زیادہ دوست رکھتے ہیں؟ آپ(ص) نے جواب دیا کہ بات یہ نہیںہے بلکہ اس کے روکنے کى وجہ یہ ہے کہ امام حسن (ع) کو تقدم حاصل ہے اس نے حسین (ع) سے پہلے پانى مانگا تھا لہذا نوبت کى مراعات ہونى چاہیئے _(42)
پانچواں درس
ورزش اور کھیل کود

تربیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کہ کھیل کود کى اس کى مرضى کے مطابق آزادى دینى چاہیئے بلکہ اس کے لئے کھیل کود اور سیر و سیاحت کے پورے اسباب فراہم کرنے ہیں آج کل متمدن معاشرے میں یہ موضوع قابل توجہ قرار دیا جاتا ہے اور پرائمری، ہڈل اور ہائی اسکول اور کالجوں میں کھیل اور تفریح کے مختلف وسائل بچوں اور جوانوں کى عمر کے مطابق فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں مل کرکھیلنے اور ورزش کرنے کى تشویق دلاتے ہیں، گویا وہ یہ ثابت کرنے کى کوشش کرتے ہیں کہ کھیلنا جیسے بدن کے رشد کرنے کے لئے ضرورى ہے ویسے ہى یہ ان کى روح کى تربیت کے لئے بھى بہت تاثیر رکھتا ہے_

بعض لوگ بچوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑوں کى طرح زندگى گزاریں اوراپنے لئے یہ ضرورى سمجھتے ہیں کہ انہیں طفلانہ کھیل گود سے روکے رکھیں اور اگر کوئی بچہ کھیل کود میں مشغول ہو تو اسے بے ادب بچہ قرار دیتے ہیں اوراگر چپ چاپ سر جھکائے اورکھیل گود سے دور ایک گوشہ میں بیٹھا رہنے والا ہو تو اسے شاباشى دیتے ہیں اور اسے با ادب بچہ سمجھتے ہیں_ لیکن نفسیات کے ماہر اس عقیدے کوغلط اور بے جا قرار دیتے ہیں ان کاعقیدہ ہے کہ بچے کو کھیلنا چاہیئے_ اور اگر بچہ نہ کھیلے تو یہ اس کے جسمى اور روحى بیمار ہونے کى علامت ہے_ البتہ ماں باپ کو یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ بچہ وہ کھیل کود انجام نہ دے جو اس کے لئے ضرر کا موجب ہو اور دوسروں کے لئے مسرت کے اسباب فراہم کرتا ہو_

ماں باپ صرف بچہ کو کھیل کودکے لئے آزادى ہى نہ دیں بلکہ خود بھى بیکارى کے وقت بچے کے ساتھ کھیلیں، کیوں کہ ماں باپ کا یہ عمل بچے کے لئے لذت بخش ہوتا ہے اوروہ اسے اپنے لئے محبت کى علامت قرار دیتا ہے_

رسول خدا(ص) جناب امام حسن اور امام حسین کے ساتھ کھیلتے تھے_ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خد ا (ص) کو دیکھا کہ وہ حسن (ع) اور حسین (ع) کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کے پاؤں کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے فرما رہے تھے، فاطمہ (ع) کے نور چشم اور چڑھو، حسن (ع) اور حسین (ع) اوپر چڑھتے یہاں تک کہ ان کے پاؤں آپ کے سینے تک جا پہنچے آپ اپنے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیتے اور فرماتے خدایا میں حسن(ع) اور حسین(ع) کو دوست رکھتا ہوں (43)_

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جناب حسن(ع) اور حسین(ع) پیغمبر(ص) کے سامنے کشتى کرتے تھے_ پیغمبر(ص) امام حسن (ع) کو فرماتے شاباش حسن (ع) شاباش حسن (ع) _ جناب فاطمہ (ع) عرض کرتیں یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) باوجودیکہ حسین (ع) سے بڑا ہے آپ انہیں حسین (ع) کے خلاف شاباش اور تشویق دلا رہے ہیں_

آپ(ص) نے جواب دیا کہ حسین (ع) باوجودیکہ حسن (ع) سے چھوٹے ہیں لیکن شجاعت اور طاقت میں زیادہ ہیں اور پھر جناب جبرئیل حسین(ع) کو تشویق اورشاباش دے رہے ہیں _(44)

جابر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول خدا(ص) پاؤں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور آپ کى پشت پر حسن (ع) اور حسین سوار ہیں اور فرما رہے تھے تمہارا اونٹ سب سے بہتر اونٹ ہے اور تم بہترین سوار ہو_(45)

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اجداد سے روایت کى ہے کہ جناب حسن (ع) اور حسین (ع) کافى رات تک جناب رسول خدا(ص) کے گھر میں کھیلتے رہتے تھے جناب رسولخدا اس کے بعد ان سے فرماتے کہ اب اپنى ماں کے پاس چلے جاؤ جب آپ گھر سے باہر نکلنے تو بجلى چمکتى اورراستہ روشن ہوجاتا اور اپنے گھر تک جا پہنچے_ اور پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ اس اللہ کا شکر کہ جس نے ہم اہلبیت کو معظم قرار دیا ہے_ (46)

 

 

1) بحارالانوار، ج 43 ص 81_
2) بحارالانوار، ج 43 ص 82_ 134_
3) بحارالانوار، ج 43 ص 85_
4) بحار الانوار، ج 43 ص 50_
5) بحار الانوار، ج 43 ص 86_
6) بحار الانوار، ج 43 ص 151_
7) ذخائر العقبى ، ص 51_
8) وافى کتاب نکاح ص 114_
9) سیرہ ابن ہشام، جلد 3 ص 106_
10) مناقب خوارزمی، ص 256_
11) وافى کتاب نکاح، ص 114_
12) مناقب خوارزمی، ص 256_
13) بحارالانوار ، ج 43ص 191_
14) بحارالانوار، ج 43ص 132_
15) کشف الغمہ، ج 2 ص 98_
16) دلائل الامامہ، ص 7_
17) بحارالانوار، ج 43 ص 117_
18) مناقب ابن شہر آشوب، ج 3ص 287_
19) بحارالانوار، ج 43 ص 240_
20) بحار الانوار، ج 43 ص 296_
21) بحار الانوار، ج 43 ص 282_
22) بحار الانوار، ج 43ص 295_
23) بحار الانوار، ج 43 ص 281_
25) بحار الانوار، ج 43 ص 299_
26) بحار الانوار، ج 43 ص 284_
27) بحار الانوار، ج 43_ ص 264_
28) بحار الانوار، ج 43ج_ ص281_
29) بحار الانوار، ج 43، ص 205_
30) بحار الانوار،ج 43_ ص 285_
31) بحار الانوار، ج 43 ص 271_
32) بحار الانوار، ج 43 ص 165_
33) بحار الانوار، ج 43 ص 295_
34) بحار الانوار، ج 43 ص 318_
35) مقتل ابن مختف، ص 46_
36) شافى ج 2 ص 149_
37) بحار الانوار، ج 43 ص 241_
38) بحار الانوار ، ج 43 ص 207_
39) بحار الانوار، ج 43 ص 286_
41) مقتل ابى مختف، ص 90_
40) ینابیع المودہ ص 47_ بحار الانوار، ج 43 ص 305_
42) بحار الانوار، ج 43 ص 283_
43) بحار الانوار، ج 43 ص 287_
44) بحار الانوار، ج 43 ص 265_
45) بحار الانوار، ج 43 ص 285_
46) بحار الانوار، ج 43 ص 266_